• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ابومحمد خرم شہزاد حفظہ اللہ ماشاء اللہ نہایت محنتی آدمی ہیں ۔۔ دن کو بطور مینیجر کام کرتے ہیں اور رات کو اپنا ذوق تالیف و تحقیق پورا کرتے ہیں ۔۔ زبیر علی زئی صاحب اور مبشر احمد ربانی صاحب اور دیگر علماء سے مسائل میں رہنمائی بھی لیتے رہتے ہیں ۔۔
رمضان سے کچھ دیر پہلے ان کی دو کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہیں ، جو انہوں نے مجھے بھیجیں تھیں اللہ ان کو جزائے خیر دے وہ کتابیں میں سعودیہ ساتھ لے کر آیا ہوں ، ان کا مختصر تعارف کچھ یوں ہے :
١۔ الصحيفة في الأحاديث الضعيفة من سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني
اس کتاب پر زبیر علی زئی صاحب اور مبشر احمد ربانی صاحب نے نظر ثانی کی ہے ۔ مکتبہ اسلامیہ لاہور والوں نے چھاپی ہے ۔
اس کتاب میں جیساکہ نام سے ظاہر ہے ، شیخ البانی رحمہ اللہ کے سلسلۃ صحیحہ سے کچھ احادیث کو ضعیف ثابت کیا گیا ہے ۔ اور بنیاد وہی مسئلہ ہے جو آج کل مشہور ہے کہ حسن لغیرہ حجت ہے کہ نہیں ؟
زبیر علی زئی حفظہ اللہ اس کتاب پر تقدیم میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
ہمارے دوست جناب ابو محمد خرم شہزاد صاحب نے اپنی استطاعت کے مطابق شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب سلسلہ صحیحہ کا مطالعہ کیا تو کئی روایات کو تحقیق کے بعد ضعیف پایا ، جن میں سے پچاس روایتیں اس مجموعہ میں پیش خدمت ہیں ۔ راویوں پر کلام وغیرہ میں ان سے بعض مقامات پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ الصحیفہ فی الأحادیث الضعیفہ میں مذکور تمام روایات اپنے تمام شواہد و متابعات کے ساتھ ضعیف ہی ہیں اور انہیں صحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے ۔ ( ص٨ )
آخر میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ خرم شہزاد کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق کتاب وسنت و اجماع و آثار کی دعوت پھیلانے اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( ص ٩ )
استاد محترم مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے بھی اس کتاب کے لیے مقدمہ لکھا ہے وہ حسن لغیرہ کے متعلق اور شیخ البانی کے تعارف کے حوالے سے کچھ باتیں کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
زیر نظر کتاب ان کی ( شیخ البانی ) سلسلہ صحیحہ پر ایک نظر ہے ، مؤلف اگرچہ علماء کی صف کے آدمی نہیں ہیں لیکن علمی ذوق نے انہیں اس دہلیز پر پہنچایا ہے کہ انہوں نے سلسلہ صحیحہ میں سے بعض روایات کی نشاندہی کی جو ان کی نظر میں صحیح نہیں ہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جن روایات کا چناؤ انہوں نے کیا ہے اور رواۃ پر کلام کیا ہے یہ بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کی کاوش کا حصہ ہیں ۔کیونکہ ان اسانید اور ان کی علل ارو رجال پر کلام خود شیخ البانی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور انہیں شیخ نے تعدد طرق کی بنا پر صحیحہ میں درج کیا ہے جو کہ ان کا مشہور ضابطہ ہے ، اور روایات کی صحت و ضعف میں میں اہل علم میں اختلاف ہو جانا کوئی امر بعید نہیں ہے ۔ ہر کوئی أپنی کوشش و محنت کا ثمرہ پالیتا ہے بشرطیکہ اس کے عمل میں اخلاص موجود ہو ، شہرت و ناموری اور نمود و نمائش کو دخل نہ ہو ۔ خرم شہزاد بھائی علم حدیث کا بڑا ذوق رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح جستجو میں لگے رہتے ہیں اور علمی مواد جمع کرتے رہتے ہیں ، اللہ تعالی ان کی بصیرت و آگہی میں اضافہ کرے اور انہیں کسی ماہر استاذ کے پاس بیٹھ کر حصول علم کا صحیح موقعہ فراہم کرے ۔ آمین ۔ (ص ١١، ١٢ )
انہوں نے کتاب کے شروع میں بذات خود بھی مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں اپنا تعارف اور مختلف مسالک کے سفر کے حوالے سے کچھ باتیں ، اسی طرح انہوں نے اس کتاب کی تألیف کا سبب بھی بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
انہوں نے اقبال کیلانی صاحب کا کتب کا سیٹ خریدا تھا اس میں زیادہ تر احکام میں علامہ البانی پر اعتماد کیا گیا ہے ۔۔ وہ کہتے ہیں بعض احادیث کے احکام پر نظر گزری تو دل مطمئن نہ ہوا ، لہذا انہوں نے تحقیق کی تو وہ روایات البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے خلاف ضعیف ثابت ہوئیں ۔
ایک جگہ پر لکھتے ہیں :
بیشک شیخ البانی رحمہ اللہ اس دور کے بہت بڑے عالم دین ، محقق اور محدث العصر تھے لیکن چونکہ وہ بھی انسان تھے لہذا بشری تقاضوں کی وجہ سے ان سے غلطیاں ہوئیں ہیں ۔۔ ( ص ١٧ )
پھر اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ کے تراجعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ محترم علمائے کرام کا یہ فرض ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ خود بھی ہر حدیث کی تحقیق کرکے پھر عوام الناس میں بیان کریں کیونکہ کتاب و سنت میں اور ہمارے سلف صالحین نے بغیر تحقیق کے حدیث رسول بیان کرنےکی مذمت کی ہے ۔(ص ١٧ )
پھر آگے چند صفحات میں اس حوالے سے احادیث اور اقوال علماء پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
راقم الحروف نے حدیث کی تحقیق و تخریج کا علم محدثین کی کتب اور اپنے استاد محترم شیخ الحدیث ، محدث العصر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے سیکھا ہے ، یعنی استاد محترم کی تصنیف کردہ کتابوں کا مطالعہ کرکے اور خطوط کے ذریعے اور بذریعہ فون اور ملاقات کرکے ، اللہ تعالی ان کے علم میں ، عمر میں اور رزق میں برکت عطا فرمائے اور انہیں دشمنوں کی شرارتوں سے محفو ظ فرمائے ارو مزید دین کی خدمت کرنےکی توفیق عطا فرمائے ( آمین )
اہل علم سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب پر تنقیدی نگاہ ڈالیں تاکہ اس میں جو غلطیاں اور خامیاں ہوں تو ان شاء اللہ اسے دوسے ایڈیشن میں درست کردیا جائے ، دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتاب کو شرف قبولیت سے نوازے اور میرے لیے آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔ ( آمین ) (ص ٢٢ )
٢۔ دوسری کتاب ان کی ’’ نماز وتر کا مسنون طریقہ ‘‘ ہے جس کو ادارہ صبح روشن والوں نے شائع کیا ہے ۔۔ جس میں انہوں نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ ایک سلام کے ساتھ تین وتر پڑہنا سنت رسول سے ثابت نہیں بلکہ اس میں وارد احادیث ضعیف ہیں ۔ اسی طرح وتر کے عدم وجوب اور دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے ۔۔۔۔ اس کے بارے میں کچھ تفصیل ان شاء اللہ پھر کسی دن پیش کروں گا ۔۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
اتنے معلوماتی تھریڈ کے لیے بہت شکریہ خضر حیات بھائی۔ جزاک اللہ خیرا
١۔ الصحيفة في الأحاديث الضعيفة من سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني
اس کتاب پر زبیر علی زئی صاحب اور مبشر احمد ربانی صاحب نے نظر ثانی کی ہے ۔ مکتبہ اسلامیہ لاہور والوں نے چھاپی ہے ۔
کیا یہ کتاب پی۔ڈی۔ایف میں مل سکتی ہے؟ کتاب و سنت لائیبریری کے ذمہ داران براہ مہربانی اس طرف توجہ فرمائیں۔
زبیر علی زئی حفظہ اللہ اس کتاب پر تقدیم میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ الصحیفہ فی الأحادیث الضعیفہ میں مذکور تمام روایات اپنے تمام شواہد و متابعات کے ساتھ ضعیف ہی ہیں اور انہیں صحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے ۔ ( ص٨ )
استاد محترم مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے بھی اس کتاب کے لیے مقدمہ لکھا ہے وہ حسن لغیرہ کے متعلق اور شیخ البانی کے تعارف کے حوالے سے کچھ باتیں کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
میں سمجھتا ہوں کہ جن روایات کا چناؤ انہوں نے کیا ہے اور رواۃ پر کلام کیا ہے یہ بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کی کاوش کا حصہ ہیں ۔کیونکہ ان اسانید اور ان کی علل ارو رجال پر کلام خود شیخ البانی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور انہیں شیخ نے تعدد طرق کی بنا پر صحیحہ میں درج کیا ہے جو کہ ان کا مشہور ضابطہ ہے ، اور روایات کی صحت و ضعف میں میں اہل علم میں اختلاف ہو جانا کوئی امر بعید نہیں ہے ۔
معقول اور معتدل موقف شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا ہے۔
دوسری کتاب ان کی ’’ نماز وتر کا مسنون طریقہ ‘‘ ہے جس کو ادارہ صبح روشن والوں نے شائع کیا ہے ۔۔ جس میں انہوں نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ ایک سلام کے ساتھ تین وتر پڑہنا سنت رسول سے ثابت نہیں بلکہ اس میں وارد احادیث ضعیف ہیں ۔ اسی طرح وتر کے عدم وجوب اور دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے ۔۔۔۔ اس کے بارے میں کچھ تفصیل ان شاء اللہ پھر کسی دن پیش کروں گا ۔۔
تفصیل کا انتظار رہے گا بھائی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی
بھائی چند ہفتوں یا مہینے پہلے یہ کتاب آن لا ئن دستیاب تھی، لیکن اب پتہ نہیں کیوں وہاں سے ہٹا لی گئی ہے، اگر کسی کے محفوظ ہے تو لنک شئیر کر دیں، جزاک اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بھائی چند ہفتوں یا مہینے پہلے یہ کتاب آن لا ئن دستیاب تھی، لیکن اب پتہ نہیں کیوں وہاں سے ہٹا لی گئی ہے، اگر کسی کے محفوظ ہے تو لنک شئیر کر دیں، جزاک اللہ خیرا
رضا بھائی کس جگہ آپ نے یہ کتاب دیکھی تھی بتا سکتے ہیں ۔۔ ایک کتاب زبیر علی زئی صاحب کی بھی ہے انوار الصحیفۃ آپ نے شاید اس کا دہاگہ دیکھا ہو گا ۔۔ ؟؟؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
رضا بھائی کس جگہ آپ نے یہ کتاب دیکھی تھی بتا سکتے ہیں ۔۔ ایک کتاب زبیر علی زئی صاحب کی بھی ہے انوار الصحیفۃ آپ نے شاید اس کا دہاگہ دیکھا ہو گا ۔۔ ؟؟؟
نہیں بھائی وہ یہی کتاب تھی خرم شہزاد حفظہ اللہ کی۔ وہ کتاب دین خالص ویب سائٹ پر دیکھی تھی، لیکن ویب سائٹ کی دوبارہ ریکوڑی کے بعد کتاب کا لنک تو موجود ہے لیکن وہ چلتا نہیں ہے۔
دين خالص - الدين الخالص - deenekhalis || علوم حديث
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
تمام بھائیوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ!
مجھے تو ذاتی طور نوجوان طلبۃ العلم کی طرف سے حدیث کی تحقیق اور اس کی نشر و اشاعت کا یہ رویہ کسی فتنے سے کم نظر نہیں آتا ہے۔ پہلے تو معاملہ یہاں تک تھا کہ فلاں روایت کو اگر علامہ البانی رحمہ اللہ صحیح کہہ رہے ہیں، تو مولانا مبشر ربانی صاحب حفظہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ وہ حسن ہے اور شیخ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ضعیف ہے وغیرہ ذلک۔ یعنی تحقیق حدیث کا یہ اختلاف اہل علم تک محدود تھا لیکن اب تو یہ اختلاف طلبۃ العلم میں داخل ہو گیا ہے، اور یوں سننے کو ملتا ہے کہ فلاں طالب علم کی یہ تحقیق ہے، فلاں کی یہ ہے اور فلاں کی یہ ہے اور میری یہ ہے۔

اور اب دو چار سالوں میں یہ ہو گا کہ مارکیٹ میں ایک سنن ابی داود ایسی بھی میسر ہو گی جو کسی ریٹائرڈ میجر صاحب کی تحقیقات کا شاہکار ہو گی، پھر کسی بینک مینیجر صاحب کو حدیث کی خدمت کا خیال آئے گا تو سنن ترمذی تحقیق شدہ شائع ہو جائے گی۔ ریٹائر ہیڈ ماسٹر صاحب کو خیال آئے گا کہ میری تو ساری زندگی پڑھنے پڑھانے ہی میں گزری ہے لہذا میرے لیے تو یہ کام نسبتا زیادہ آسان ہے اور سنن نسائی کی تحقیق بھی مارکیٹ میں آ جائے گی۔

یہ کیا تماشہ ہے کہ جس کی طرف لوگ حدیث کی خدمت کے نام پرجانا چاہ رہے ہیں، اللہ جانتا ہے اور ہمارے سامنے ہے کہ لوگوں نے قرآن کی خدمت کے نام پر فتنے برپا کیے ہیں، ریٹائرڈ میجروں اور کرنلوں نے قرآن کے تراجم اور تفاسیر مرتب کی ہیں اور انکار حدیث کا فتنہ قرآن کی خدمت کے نام پر ہی پیدا ہوا ہے۔ اور اب یہی کام ہم حدیث کی خدمت کے نام پر کرنا چاہتے ہیں کہ مارکیٹ میں چار سال بعد دس سنن ابوداود، بارہ سنن ترمذی، آٹھ سنن نسائی وغیرہ ذلک موجود ہوں۔ اور آپس میں یوں گفتگو ہو رہی گی۔ جی! یہ کس کی سنن ترمذی ہے، یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی ہے۔ جی، اچھا ! آپ کے پاس کون سنن ابی داود ہے، جی مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کی ہے۔ اچھا ! یار بازار سے میرے لیے شیخ زبیر علی زئی صاحب کی ایک سنن ابن ماجہ لانا۔ جی! آپ کس عالم دین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہیں، جی ! میں تو اپنی تحقیق کرتا ہوں۔ اور وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب مارکیٹ میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح اور ضعیف سنن کی طرح صحیح اور ضعیف سنن کی بھر مار ہو گی اور ایک عام خریدار پریشان حال ہو گا کہ کون سی تحقیق شدہ کتاب لے۔

ایک سلفی نوجوان جب کسی منکر حدیث سے بات کرے گا تو منکر حدیث کہے گا کون سی حدیث، اچھا وہ حدیث جو علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک حسن ہے، زبیر علی زئی صاحب اسے موضوع کہتے ہیں، مبشر ربانی صاحب کے ہاں ضعیف شمار ہوتی ہے، خرم شہزاد صاحب اسے منکر یہ کہتے ہیں وعلی ہذا القیاس۔ یہ کیسی وحی ہے ؟ جو کبھی حسن ہو جاتی ہے کبھی صحیح ، کبھی ضعیف اور کبھی موضوع۔
متقدمین میں جو اختلاف ہو گیا سو ہو گیا اور اس اختلاف کے نمایاں نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں ایک تو اپنی تحقیق چھپوا کر عام کروانے کا شوق نہیں تھا اور دوسرا پرنٹنگ پریس کا دور بھی نہیں تھا کہ چیز یوں چھپے اور یوں عام ہو جائے ۔ آئندہ آنے والوں میں تو اس اختلاف کو کم کیا جا سکتا ہے۔ علما باہم مل کر روایات کے بارے کوئی حکم لگا سکتے ہیں۔ یا طلبۃ العلم سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ آپ حدیث کی کسی نئی خدمت کی بجائے، اس کی پرانی خدمت ہی کی نشر و اشاعت پر اکتفا کریں۔

کیا یہ دین کا کوئی بنیادی تقاضا ہے کہ ہر طالب علم یا عالم دین حدیث کی اپنی ہی تحقیق کے ذریعے حدیث کا اپنا ایک مجموعہ ترتیب دے اور کہے کہ صرف اسی سے استدلال ممکن ہے کیونکہ یہ میری تحقیق کے نزدیک السلسلۃ الصحیحۃ ہے۔ یہ ہم تحقیق کے نام پر امت کو کس طرف لے کر جانا چاہتے ہیں، اپنے اپنے صحیح اور ضعیف مجموعہ احادیث مرتب کرنے کی طرف۔

اب آئندہ بحث یوں ہوا کرے گی۔ جی ! آپ کس کو حجت مانتے ہیں؟ میں کتاب و سنت کو حجت مانتا ہوں لیکن یہ واضح رہے کہ سنت سے میری مراد صحیح احادیث ہیں۔ اور صحیح احادیث سے میری مراد وہ صحیح احادیث ہیں جو میرے نزدیک صحیح ہیں اور اس بارے میں نے عوام کی آسانی کے لیے ایک السلسلۃ الصحیحۃ مرتب کر دیا ہے۔ آپ اس کی طرف رجوع فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا !

ایک صاحب نے کہا آپ کی تحریریں اچھی ہوتی ہیں لیکن ان کی تحریروں میں حدیث کی تحقیق نہیں ہوتی، یعنی آپ اپنی تحقیق کی بجائے علامہ البانی رحمہ اللہ کا حکم نقل کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی میں حدیث کے بارے اپنی تحقیق کو فتنے سے کم نہیں سمجھتا ہوں، اسی لیے علامہ البانی رحمہ اللہ کا حکم نقل کرتا ہوں۔ ہاں اگر کسی مسئلہ کے بارے مجھے متقدمین یا علامہ البانی یا کسی معاصر عالم دین کا حکم نہ ملے تو پھر اور بات ہے۔ پھر تو تحقیق ایک مجبوری ہے۔ یا شاذ و نادر انسان دو چار روایتوں کے بارے انسان اپنا کوئی حکم لگا لے تو میرے خیال میں اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے لیکن یہ کیا رویہ ہے کہ ہر شخص یا عالم دین یا طالب علم صحیح اور ضعیف حدیثوں کے مجموعے مرتب کرنا شروع کر دے۔ اسے دین کی خدمت قرار دینا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ چند ایک جملے گوش گزار کیے ہیں، اگرچہ اسلوب شاید سخت ہو لیکن خیر خواہی کے جذبے کے تحت لکھے گئے ہیں۔ اگر میرا کوئی بھائی تحقیق حدیث کی اس نئی تحریک کے اس عمل کو خیر قرار دیتا ہے اور اس کے پاس اس سارے عمل کو خیر کہنے کے کوئی معقول دلائل موجود ہیں تو ضرور شیئر فرمائیں، میں ان کا ممنون اور مشکور ہوں گا۔ مجھے اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔

یہ واضح رہے کہ میری اس بحث کا عنوان تحقیق حدیث تھا نہ کہ فہم حدیث۔ تحقیق روایت میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیچھے سے پیچھے جانا چاہیے۔ اگر آپ کو امام ذہبی یا ابن حجر رحمہما اللہ کا حکم مل جاتا ہے تو علامہ البانی رحمہ اللہ کو ترک کر دیں۔ اور اگر ان کا حکم نہیں ملتا ہے تو علامہ البانی رحمہ اللہ کا حکم لے لیں۔ اور اگر ان کا بھی حکم نہیں ملتا ہے تو پھر اپنی تحقیق کر لیں۔ جہاں تک فہم حدیث یعنی احادیث سے نکات اور مسائل اخذ کرنے کا معاملہ ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت جوامع الکلم کے قبیل سے ہیں اور قیامت تک ان کلمات سے حکمت و ہدایت کے جواہر علما نکالتے رہیں گے اور اس میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
یقینا خرم شہزاد کے مقابلے میں، میں تو شیخ البانی کی تحقیق کو لاکھ گناہ ترجیح دوں گا، لیکن مجھے یہ کتاب دراصل کسی دوسرے مقصد کے لیے چاہیے تھی۔ مجھے صرف اس میں راویوں کے بارے میں ائمہ جرح والتعدیل کے نقل کیے گئے اقوال دیکھنے تھے، کسی خاص مقصد کے لیے۔ ویسے اس کتاب میں چند احادیث ایسی ہیں جن کو شیخ البانی نے صحیح کہہ کر اس پر تفصیلا بحث کی ہے اور اپنی بات ثابت کی ہے، جس کا جواب اس کتاب میں نہیں دیا گیا بس اپنی تحقیق درج کردی گئی ہے، جبکہ یہ کتاب تو شیخ البانی سے اختلاف کی بنا پر لکھی گئی تھی، تو جب اختلاف کیا جاتا ہے تو مخالف کے دلائل کا جواب بھی دیا جاتا ہے لیکن اس کتاب میں ایسا نہیں ہے۔ بس یہ ایک چیز ہے جو مجھے اس میں کچھ خاص نہیں لگی۔ باقی علماء پر چھوڑتا ہوں۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
معاملہ حدیث کا واقعتا بڑا اہمیت کا حامل ہے تو اس کے لئے بڑی دقت ،پختی ،وسعت اور ماہر شیوخ اور فن حدیث کے علماء سے لمبی ملازمت درکار ہے ۔
کئی شیوخ موجودہ رویے میں خاصے پریشان ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
یہ واضح رہے کہ میری اس بحث کا عنوان تحقیق حدیث تھا نہ کہ فہم حدیث۔ تحقیق روایت میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیچھے سے پیچھے جانا چاہیے۔ اگر آپ کو امام ذہبی یا ابن حجر رحمہما اللہ کا حکم مل جاتا ہے تو علامہ البانی رحمہ اللہ کو ترک کر دیں۔ اور اگر ان کا حکم نہیں ملتا ہے تو علامہ البانی رحمہ اللہ کا حکم لے لیں۔ اور اگر ان کا بھی حکم نہیں ملتا ہے تو پھر اپنی تحقیق کر لیں۔ جہاں تک فہم حدیث یعنی احادیث سے نکات اور مسائل اخذ کرنے کا معاملہ ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت جوامع الکلم کے قبیل سے ہیں اور قیامت تک ان کلمات سے حکمت و ہدایت کے جواہر علما نکالتے رہیں گے اور اس میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
اگرآپ نے اخیر میں یہ وضاحت نہ کی ہوتی تو میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ مذکورہ نصیحت تحقیق حدیث اورفہم حدیث دونوں سے متعلق سمجھی جاتی ، لیکن چونکہ آپ نے اخیرمیں فہم حدیث سے متعلق اسی چیزکو درست قراردیا جسے تحقیق حدیث سے متعلق معیوب بلکہ فتنہ قراردیا ہے اس لئے ہم معذرت کے ساتھ کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں:

  • آپ کی باتیں پڑھ کریہی محسوس ہوا کہ آپ نے تحقیق حدیث کے خلاف جس غیض وغضب کا اظہار کیا ہے اور مقلدین فہم حدیث کے خلاف جس غیض وغضب کا اظہار کرتے ہیں اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
  • نیزآپ نے تحقیق حدیث کے نتیجہ میں جن متوقع خطرات کی طرف کی پیشین گوئی کی ہے ،مقلدین فہم حدیث کے نتیجہ میں انہیں خطرات سے امت کو بچانا چاہتے ہیں۔
  • آپ تحقیق حدیث میں جس اجتہاد کے خلاف ہیں ، مقلدین فہم حدیث میں اسی اجتہاد کے خلاف ہیں۔


ہم اس بات سے متفق ہیں کہ تحقیق حدیث میں ہرکس وناکس عوام کا مرجع نہیں بن سکتا ، لیکن یہی پاپندی ہم فہم حدیث سے متعلق بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک فہم حدیث میں بھی نوجوان طلبۃ العلم کا مذکورہ طرزعمل کسی فتنے سے کم نہیں ہے ، ہندوستان کے معروف عالم دین شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ اپنی اکثر تقریروں میں نوجوان فارغین واہل علم کو اس طرزعمل سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں بلکہ ایساکرنے کو فتنہ ہی نہیں بلکہ بہت بڑا فتنہ حتی کہ خارجیت قراردیتے ہیں جزاہ اللہ خیرا۔

آپ نے جس اسلوب میں تحقیق حدیث سے متعلق بعض نوجوان طلبۃ العلم کے طرزعمل کی مذمت کی ہے عین اسی اسلوب میں فہم حدیث سے متعلق بھی بات کہی جاسکتی ہے ملاحظہ ہو:

مجھے تو ذاتی طور نوجوان طلبۃ العلم کی طرف سے حدیث کی تحقیق اور اس کی نشر و اشاعت کا یہ رویہ کسی فتنے سے کم نظر نہیں آتا ہے۔
مجھے تو ذاتی طور نوجوان طلبۃ العلم کی طرف سے حدیث کی تشریح اوراپنی رائے وافتاء اوراس کی نشر اشاعت کا یہ رویہ کسی فتنے سے کم نظر نہیں آتا ہے۔

پہلے تو معاملہ یہاں تک تھا کہ فلاں روایت کو اگر علامہ البانی رحمہ اللہ صحیح کہہ رہے ہیں، تو مولانا مبشر ربانی صاحب حفظہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ وہ حسن ہے اور شیخ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ضعیف ہے وغیرہ ذلک۔ یعنی تحقیق حدیث کا یہ اختلاف اہل علم تک محدود تھا لیکن اب تو یہ اختلاف طلبۃ العلم میں داخل ہو گیا ہے، اور یوں سننے کو ملتا ہے کہ فلاں طالب علم کی یہ تحقیق ہے، فلاں کی یہ ہے اور فلاں کی یہ ہے اور میری یہ ہے۔
پہلے تو معاملہ یہاں تک تھا کہ فلاں مسئلہ کو اگر علامہ البانی رحمہ اللہ صحیح کہہ رہے ہیں، تو مولانا مبشر ربانی صاحب حفظہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ دونوں جائز ہے اور شیخ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ دونوں ناجائز ہے وغیرہ ذلک۔ یعنی فہم حدیث کا یہ اختلاف اہل علم تک محدود تھا لیکن اب تو یہ اختلاف طلبۃ العلم میں داخل ہو گیا ہے، اور یوں سننے کو ملتا ہے کہ فلاں طالب علم کی یہ تحقیق (فتوی )ہے، فلاں کی یہ ہے اور فلاں کی یہ ہے اور میری یہ ہے۔

اور اب دو چار سالوں میں یہ ہو گا کہ مارکیٹ میں ایک سنن ابی داود ایسی بھی میسر ہو گی جو کسی ریٹائرڈ میجر صاحب کی تحقیقات کا شاہکار ہو گی، پھر کسی بینک مینیجر صاحب کو حدیث کی خدمت کا خیال آئے گا تو سنن ترمذی تحقیق شدہ شائع ہو جائے گی۔ ریٹائر ہیڈ ماسٹر صاحب کو خیال آئے گا کہ میری تو ساری زندگی پڑھنے پڑھانے ہی میں گزری ہے لہذا میرے لیے تو یہ کام نسبتا زیادہ آسان ہے اور سنن نسائی کی تحقیق بھی مارکیٹ میں آ جائے گی۔
اور اب دو چار سالوں میں یہ ہو گا کہ مارکیٹ میں ایک مجموعہ فتاوی ایسا بھی میسر ہو گا جو کسی ریٹائرڈ میجر صاحب کے اجتہادات کا شاہکار ہو گا، پھر کسی بینک مینیجر صاحب کو افتاء کا خیال آئے گا تو ایک نیا مجموعہ فتاوی تیارہوجائے گا۔ ریٹائر ہیڈ ماسٹر صاحب کو خیال آئے گا کہ میری تو ساری زندگی پڑھنے پڑھانے ہی میں گزری ہے لہذا میرے لیے تو یہ کام نسبتا زیادہ آسان ہے اور احکام ومسائل پر ایک نئی کتاب مارکیٹ میں آجائے گی۔

یہ کیا تماشہ ہے کہ جس کی طرف لوگ حدیث کی خدمت کے نام پرجانا چاہ رہے ہیں، اللہ جانتا ہے اور ہمارے سامنے ہے کہ لوگوں نے قرآن کی خدمت کے نام پر فتنے برپا کیے ہیں، ریٹائرڈ میجروں اور کرنلوں نے قرآن کے تراجم اور تفاسیر مرتب کی ہیں
یہ کیا تماشہ ہے کہ جس کی طرف لوگ اتباع کتاب وسنت کے نام پرجانا چاہ رہے ہیں، اللہ جانتا ہے اور ہمارے سامنے ہے کہ لوگوں نے عدم تقلید کے نام پر فتنے برپا کیے ہیں، ریٹائرڈ میجروں اور کرنلوں نے قرآن کے تراجم اور تفاسیر مرتب کی ہیں، اورقران فہمی کا غرور اس قدر بڑھا کی احادیث کو بھی اپنی فہم وفراست کے رحم کو کرم پرچھوڑ دیا۔

اور انکار حدیث کا فتنہ قرآن کی خدمت کے نام پر ہی پیدا ہوا ہے۔ اور اب یہی کام ہم حدیث کی خدمت کے نام پر کرنا چاہتے ہیں
اورانکار حدیث کافتنہ دعوائے اجتہاد اور رد تقلید کے نام پر ہی پیدا ہوا ہے ، اوراب یہی کام ہم اتباع کتاب وسنت کے نام پر کرنا چاہتے ہیں۔

یہاں پر رک کر ایک اور بات عرض کردوں کہ:
ایک دور تھا جب ہرچہار جانب حدثنا اور اخبرنا کی صدائیں گونجتی تھیں ، گرچہ ماہرین خاص خاص لوگ تھے لیکن علم رجال اور علل حدیث سے تقریبا ہر عالم کو واقفیت تھی، ایسے دور میں علم حدیث محتاج تعارف نہیں تھا تقریبا سبھی لوگوں کو معلوم تھا کہ احادیث ہم تک کیسے پہنچیں ، اوران کی حجیت کس طرح مسلم ہے ، اس لئے اس دور میں اگر کسی نے گمراہی پھیلانا چاہی یا اپنے خواہشات کے موافق اسلام کو بنانا چاہا تو اسے اپنے موافق حدیثیں گڑھنا پڑا کیونکہ اس دور کے لوگ احادیث کی اہمیت سمجھتے تھے اور اس کی حجیت ان کے یہاں مسلم تھی ۔
مگر جب علم حدیث سے لوگوں کاشوق رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا اور متاخرین کے دور میں امت کی ساری محنتیں تدوین فقہ وفتاوی پر ہی صرف ہونے لگیں تو اسناد و علل حدیث سے واقف لوگوں کی تعداد بہت کم ہوگئی اوروقت کے ساتھ علم رجال کا ایسا قحط آیا کہ لوگوں نے احادیث کی روایت کو عام قصوں کی روایت سمجھ لیا پھر کیا تھا اسماء الرجال سے ناوقفیت کی بنا پر انہوں نے یہی سمجھا اور لوگوں کو سمجھایا کہ یہ انسانوں کی بیان کردہ باتیں ہیں ان کا کیا بھروسہ ، کیا صحیح ہیں کیا غلط ۔
یہیں سے انکار حدیث کافتنہ باقائدہ شروع ہوا اورآج کم ہونے کا نام نہیں لے رہا اس میں شک نہیں کہ متقدمین کے دور میں بھی کچھ لوگوں نے انکار حدیث کی مہم چھیڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اسماء الرجال کا دور تھا اس دور میں انکار حدیث کا تصور بھی امت مسلمہ کے لئے مضحکہ خیز تھا ، اس لئے اس دور کے منکرین حدیث نے ناکام ہوکر انکارحدیث کی تحریک چھوڑ دی اور وضع حدیث کی تحریک شروع کردی ، پھر اپنی خواہشات کے مطابق حدیثیں گھڑنے لگے تاکہ لوگوں میں ان کی باتیں مقبول ہوں۔
لیکن آج معاملہ بالکل برعکس ہے آج کل کے خواہش پرست اپنی بات منوانے کے لئے حدیثیں گھڑنے کے بجائے حدیثوں کا انکار کررہے ہیں یہ ساری مصیبت اسی لئے ہے کیونکہ آج عمومی طور پر اسماء الرجال کا علم مہجور ہے بلکہ اب تو بعض لوگوں کے نزدیک متروک بھی ہونے لگا ہے واللہ المستعان۔


مارکیٹ میں چار سال بعد دس سنن ابوداود، بارہ سنن ترمذی، آٹھ سنن نسائی وغیرہ ذلک موجود ہوں۔ اور آپس میں یوں گفتگو ہو رہی گی۔ جی! یہ کس کی سنن ترمذی ہے، یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی ہے۔ جی، اچھا ! آپ کے پاس کون سنن ابی داود ہے، جی مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کی ہے۔ اچھا ! یار بازار سے میرے لیے شیخ زبیر علی زئی صاحب کی ایک سنن ابن ماجہ لانا۔ جی! آپ کس عالم دین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہیں، جی ! میں تو اپنی تحقیق کرتا ہوں۔ اور وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب مارکیٹ میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح اور ضعیف سنن کی طرح صحیح اور ضعیف سنن کی بھر مار ہو گی اور ایک عام خریدار پریشان حال ہو گا کہ کون سی تحقیق شدہ کتاب لے۔
مارکیٹ میں چار سال بعد دس مجموعہ فتاوی، بارہ احکام ومسائل کی کتب ، آٹھ سنن ومستحبات کے رسالے وغیرہ ذلک موجود ہوں گی۔ اور آپس میں یوں گفتگو ہو رہی گی۔ جی! یہ کن کا فتاوی ہے، یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا ہے۔ جی، اچھا ! آپ کے پاس کون سے عالم کی لکھی احکام ومسائل ہے، جی مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کے فقہی مقالات ہیں۔ اچھا ! یار بازار سے میرے لیے شیخ زبیر علی زئی صاحب کی توضیح الاحکام لانا۔ جی! آپ کس عالم دین کے فتوے پر اعتماد کرتے ہیں، جی ! میں کسی کا مقلد نہیں میں تو خود اجتہاد کرتا ہوں۔ اور وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب مارکیٹ میں فتاوی علماءے سعودی عرب کی طرح بہت سے فتاؤں کی بھر مار ہو گی اور ایک عام خریدار پریشان حال ہو گا کہ کن کے فتاوی کی کتاب لے۔

تحقیق حدیث سے متعلق عوام کی پریشانی کا خیال تو آپ کو آگیا لیکن کبھی آپ نے عوام کی اس پریشانی کے بارے میں بھی سوچا ہے جس میں وہ فہم حدیث کی بناء پرنہ صرف مبتلاء ہوسکتے ہیں بلکہ مبتلاء ہیں ۔
قربانی کے موقع پر جب ہر ہرعالم کی زبان اور ہر منبرومحراب سے میت کی طرف سے قربانی کے جواز اورعدم جواز کے فتوے نشر ہوتے ہیں تو اس وقت عوام کے کیا احساسات ہوتے ہوں گے ، رمضان میں وتر کے کیفیات اور وحدت رویت ہلال سے متعلق کتابچے بٹتے ہیں تو عوام پر کیا بیتتی ہوگی ؟؟؟ ان کا بھی کبھی خیال آیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟
مجھے تعجب ہے تحقیق حدیث سے متعلق آپ مستقبل کے خطرات پر پریشان ہیں اورفہم حدیث کے نام پر امت کن خطرات وفتن سے دوچار ہے اس کا آپ کو کوئی خیال نہیں ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ تحقیق حدیث کی نئی تحریک نےعوام کے بجائے خود آپ کو بھی الجھن و پریشانی میں مبتلاء کردیا ہے اورآپ ایک حدیث پر اسے صحیح جان کرا یک عرصہ سے عمل کرتے ہیں لیکن یہ سنائی دیتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے تو غیض وغضب کے شکار ہوجاتے ہیں ، صرف اس لئے کہ جس حدیث کو آپ نے صحیح سمجھا ہے اس پر ایک عرصہ سے عمل کیا اس لئے اس کے خلاف جانے پر آپ کا دل آمادہ نہیں ۔
اگر یہ سچ ہے تو ذرا سوچئے کہ آپ عالم دین ہیں اورتحقیق حدیث میں اختلاف کے اسباب سے بھی آپ کو آگا ہی ہے اس کے باوجود بھی آپ کے لئے حدیث سے متعلق بدلتے احکام ناقابل برداشت ہیں ، تو ان عوام کا کیا حال ہوتا ہوگا جو اہل علم نہیں ہیں اورفقہی اختلاف کے اسباب سے بھی انہیں واقفیت نہیں ، پھر فہم حدیث کی بناپر بدلتے آراء و فتاوی پر عوام کا غصہ تو ہزار گنا زیادہ ہونا چاہئے۔
اگرعوام کی الجھنوں کی بناپر تحقیق حدیث کا دروازہ بند ہونا چاہئے اورتحقیق حدیث میں پیچھے ہی جانا چاہئے تو انہیں عوام پررحم و کرم کرتے ہوئے فہم حدیث کا دروازہ بھی بند ہونا چاہئے، اس میں بھی پیچے ہی کی طرف پلٹنا چاہئے۔



ایک سلفی نوجوان جب کسی منکر حدیث سے بات کرے گا تو منکر حدیث کہے گا کون سی حدیث، اچھا وہ حدیث جو علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک حسن ہے، زبیر علی زئی صاحب اسے موضوع کہتے ہیں، مبشر ربانی صاحب کے ہاں ضعیف شمار ہوتی ہے، خرم شہزاد صاحب اسے منکر یہ کہتے ہیں وعلی ہذا القیاس۔ یہ کیسی وحی ہے ؟ جو کبھی حسن ہو جاتی ہے کبھی صحیح ، کبھی ضعیف اور کبھی موضوع۔
ایک سلفی نوجوان جب کسی منکرحدیث سے بات کرے گا یا کسی مقلد سے بات کرے گا تو منکر حدیث و مقلد کہے گا کیا تم متبع حدیث ہو توبتاؤ احادیث سے مستنبط اس فتوی پرعمل کروگے جو شیخ بن باز کا ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ جسے بدعت کہتے ہیں ، زبیر علی زئی صاحب اسے مرجوح کہتے ہیں ، مبشر ربانی صاحب کے ہاں جواز الامرین ہے، خرم شہزاد صاحب تواتر عملی کہتے ہیں وعلی ہذا القیاس۔ یہ کیسی وحی ہے ؟ جو کبھی سنت ہو جاتی ہے کبھی بدعت ، کبھی مرجوح اور کبھی مباح۔
مجھے اس موقع پر شیخ عبدالمعید حفظہ اللہ کا ایک جملہ یاد آرہا ہے کہ جسے چار سطر لکھنے کاسلیقہ نہیں وہ بھی آج اپنی کتابیں چھپوا رہا ہے، یعنی تحقیق حدیث سے متعلق جس چیز کی پیشین گوئی کی جارہی ہے، فہم حدیث سے متعلق وہ چیزیں ظہور پذیرہوچکی ہے ۔


متقدمین میں جو اختلاف ہو گیا سو ہو گیا اور اس اختلاف کے نمایاں نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں ایک تو اپنی تحقیق چھپوا کر عام کروانے کا شوق نہیں تھا اور دوسرا پرنٹنگ پریس کا دور بھی نہیں تھا کہ چیز یوں چھپے اور یوں عام ہو جائے ۔ آئندہ آنے والوں میں تو اس اختلاف کو کم کیا جا سکتا ہے۔ علما باہم مل کر روایات کے بارے کوئی حکم لگا سکتے ہیں۔ یا طلبۃ العلم سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ آپ حدیث کی کسی نئی خدمت کی بجائے، اس کی پرانی خدمت ہی کی نشر و اشاعت پر اکتفا کریں۔
متقدمین میں جو اختلاف ہو گیا سو ہو گیا اور اس اختلاف کے نمایاں نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں ایک تو اپنی تحقیق چھپوا کر عام کروانے کا شوق نہیں تھا اور دوسرا پرنٹنگ پریس کا دور بھی نہیں تھا کہ چیز یوں چھپے اور یوں عام ہو جائے ۔ آئندہ آنے والوں میں تو اس اختلاف کو کم کیا جا سکتا ہے۔ علما باہم مل کراحکام ومسائل کے بارے کوئی اجتہاد کرسکتے ہیں۔ یا طلبۃ العلم سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ آپ حدیث کی کسی تشریح کے بجائے، اس کی پرانی تشریح ہی کی نشر و اشاعت پر اکتفا کریں، کیونکہ احداث قول جدید جائز نہیں۔

کیا یہ دین کا کوئی بنیادی تقاضا ہے کہ ہر طالب علم یا عالم دین حدیث کی اپنی ہی تحقیق کے ذریعے حدیث کا اپنا ایک مجموعہ ترتیب دے اور کہے کہ صرف اسی سے استدلال ممکن ہے کیونکہ یہ میری تحقیق کے نزدیک السلسلۃ الصحیحۃ ہے۔ یہ ہم تحقیق کے نام پر امت کو کس طرف لے کر جانا چاہتے ہیں، اپنے اپنے صحیح اور ضعیف مجموعہ احادیث مرتب کرنے کی طرف۔
کیا یہ دین کا کوئی بنیادی تقاضا ہے کہ ہر طالب علم یا عالم دین حدیث کی اپنی ہی تشریح کے ذریعے فتاوی کا اپنا ایک مجموعہ ترتیب دے اور کہے کہ صرف وہی درست ہے کیونکہ یہ میری تحقیق کے (مطابق اورمیرے) نزدیک کتاب وسنت ہیں۔ یہ ترک تقلید کے نام پر امت کو کس طرف لے کر جانا چاہتے ہیں، اپنے اپنے فتاوی اور احکام ومسائل مرتب کرنے کی طرف۔

اب آئندہ بحث یوں ہوا کرے گی۔ جی ! آپ کس کو حجت مانتے ہیں؟ میں کتاب و سنت کو حجت مانتا ہوں لیکن یہ واضح رہے کہ سنت سے میری مراد صحیح احادیث ہیں۔ اور صحیح احادیث سے میری مراد وہ صحیح احادیث ہیں جو میرے نزدیک صحیح ہیں اور اس بارے میں میں نے عوام کی آسانی کے لیے ایک السلسلۃ الصحیحۃ مرتب کر دیا ہے۔ آپ اس کی طرف رجوع فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا !
اب آئندہ بحث یوں ہوا کرے گی۔ جی ! آپ کس کو حجت مانتے ہیں؟ میں کتاب و سنت کو حجت مانتا ہوں لیکن یہ واضح رہے کہ سنت کا صحیح مفہوم وہی ہوگا جو میں سمجھوں گا۔ اور صحیح احادیث سے میری مراد وہ صحیح احادیث ہیں جو میری تشریح کردہ ہیں ، اور اس بارے میں نے عوام کی آسانی کے لیے احکام ومسائل کے نام سے ایک انسائکلوپیڈیا مرتب کر دیا ہے۔ آپ اس کی طرف رجوع فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا !

ایک صاحب نے کہا آپ کی تحریریں اچھی ہوتی ہیں لیکن ان کی تحریروں میں حدیث کی تحقیق نہیں ہوتی، یعنی آپ اپنی تحقیق کی بجائے علامہ البانی رحمہ اللہ کا حکم نقل کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی میں حدیث کے بارے اپنی تحقیق کو فتنے سے کم نہیں سمجھتا ہوں، اسی لیے علامہ البانی رحمہ اللہ کا حکم نقل کرتا ہوں۔ ہاں اگر کسی مسئلہ کے بارے مجھے متقدمین یا علامہ البانی یا کسی معاصر عالم دین کا حکم نہ ملے تو پھر اور بات ہے۔ پھر تو تحقیق ایک مجبوری ہے۔ یا شاذ و نادر انسان دو چار روایتوں کے بارے انسان اپنا کوئی حکم لگا لے تو میرے خیال میں اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے لیکن یہ کیا رویہ ہے کہ ہر شخص یا عالم دین یا طالب علم صحیح اور ضعیف حدیثوں کے مجموعے مرتب کرنا شروع کر دے۔ اسے دین کی خدمت قرار دینا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
ایک صاحب نے کہا آپ کی تحریریں اچھی ہوتی ہیں لیکن ان کی تحریروں میں آپ محقق نہیں ہوتے بلکہ مقلد ہوتے ہیں ، یعنی آپ اپنا فتوی پیش کرنے کے بجائے شیخ بن باز رحمہ اللہ کا فتوی پیش کرتے ہیں ، میں نے کہا بھائی میں مسند افتاء پر بیٹھنے کوکسی فتنے سے کم نہیں سمجھتا ہوں، اسی لیے شیخ بن باز رحمہ اللہ کا فتوی نقل کرتا ہوں۔ ہاں اگر کسی مسئلہ کے بارے میں مجھے متقدمین یا شیخ بن باز یا کسی معاصر عالم دین کا حکم نہ ملے تو پھر اور بات ہے۔ پھر تو اجتہاد ایک مجبوری ہے۔ یا شاذ و نادر انسان دو چار احکام کے بارے خود اجتہاد کرلے تو میرے خیال میں اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے لیکن یہ کیا رویہ ہے کہ ہر شخص یا عالم دین یا طالب علم احکام ومسائل اور فتاوی کے مجموعے مرتب کرنا شروع کر دے۔ اسے دین کی خدمت قرار دینا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ چند ایک جملے گوش گزار کیے ہیں، اگرچہ اسلوب شاید سخت ہو لیکن خیر خواہی کے جذبے کے تحت لکھے گئے ہیں۔ اگر میرا کوئی بھائی تحقیق حدیث کی اس نئی تحریک کے اس عمل کو خیر قرار دیتا ہے اور اس کے پاس اس سارے عمل کو خیر کہنے کے کوئی معقول دلائل موجود ہیں تو ضرور شیئر فرمائیں، میں ان کا ممنون اور مشکور ہوں گا۔ مجھے اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔
یہ چند ایک جملے گوش گزار کیے ہیں، اگرچہ اسلوب شاید سخت ہو لیکن خیر خواہی کے جذبے کے تحت لکھے گئے ہیں۔ اگر میرا کوئی بھائی اجتہاد وفہم حدیث کی اس نئی تحریک کے اس عمل کو خیر قرار دیتا ہے اور اس کے پاس اس سارے عمل کو خیر کہنے کے کوئی معقول دلائل موجود ہیں تو ضرور شیئر فرمائیں، میں ان کا ممنون اور مشکور ہوں گا۔ مجھے اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔


الغرض یہ کہ :
آپ نے جو کچھ بھی تحقیق حدیث سے متعلق عرض کیا ہے عین وہی باتیں فہم حدیث سے متعلق بھی کہی جاسکتی ہیں اورکہی جانی چاہئیں ، ورنہ انصاف کا تقاضہ پورا نہیں ہوگا اورہمیں تو یہی لگے گا کہ آج ہرشخص تمام لوگوں کو محض اپنے ذوق و شوق کا پاپند بنانا چاہتا ہے۔
جسے غیر مسلموں میں کام کرنے کا شوق ہے وہ تقلیدو بدعت کے خلاف کام کرنے کو فتنہ سمجھتا ہے۔
جسے فقہ حدیث اور استنباط واستدلال سے شغف وہ تحقیق حدیث کو فساد سمجھتا ہے ۔
جسے تحقیق حدیث کا خبط ہے وہ فقہ و تدبر کے نام کی ہرشے سے متنفرہے۔

انصاف تو یہ ہے کہ آدمی اپنی ذوق اور اپنی دلچسپی کے لحاظ سے اپنے میدان میں کام کرے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو، اوردوسرے میدان کے لوگوں کے کاموں کا بھی احترام کرے۔
لیکن یہ کہنا کہ ہمارے میدان میں آگے بڑھا جاتا ہے اور دوسرے کے میدان میں پیچھے بڑھا جاتا ہے بڑا ہی عجیب وغریب ہے۔
ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ ہر میدان میں پیچھے ہی بڑھنا چاہئے اوراسی کا نام سلفیت ہے ، سلف یعنی جو گذرچکے ان کے نقش قدم پر چلنا ، تحقیق حدیث میں سلفی اورفہم حدیث میں خلفی یہ بہت ہی عجیب وغریب چیز ہے ہم تو کہتے ہیں کہ تحقیق حدیث کے ساتھ ساتھ فہم حدیث میں بھی سلفیت ضروری ہے ، ورنہ عذاب قبر کا انکار ، علامات قیامت کا انکار یہ سب کچھ فہم حدیث میں خلفیت ہی کا نتیجہ ہے۔

اورآپ نے جو یہ کہا:
جہاں تک فہم حدیث یعنی احادیث سے نکات اور مسائل اخذ کرنے کا معاملہ ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت جوامع الکلم کے قبیل سے ہیں اور قیامت تک ان کلمات سے حکمت و ہدایت کے جواہر علما نکالتے رہیں گے اور اس میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔
ہمیں اس سے اختلاف نہیں ہے کہ قیامت تک ان کلمات سے حکمت و ہدایت کے جواہر علما نکالتے رہیں گے لیکن یہ علماء کون ہوں گے ؟؟ یہ اصل مسئلہ ہے !
کیا یہ نوجوان طلبۃ العلم ہوں گے، جنہیں تحقیق حدیث کا حق حاصل نہیں ، لیکن فہم حدیث میں انہیں مکمل آزادی ہے۔

اوراس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ یہ معاملہ ہر آیت و حدیث کے ساتھ قطعا نہیں ہے کہ ’’ قیامت تک ان کلمات سے حکمت و ہدایت کے جواہر علما نکالتے رہیں گے‘‘ ۔
یہی تو وہ خطرناک طرزفکر ہے جس نے پوری امت کو گمراہ کیا ہے ، آج امت میں اختلاف وانتشار کتاب وسنت کے ماننے یا نہ ماننے کے سبب نہیں بلکہ کتاب وسنت سے حکمت و ہدایت کے خود ساختہ جواہر نکالنے ہی کی وجہ سے ہے، اسی گمراہ کن طرز فکر کی مخالفت ہی کا نام تو سلفیت ہے، یعنی کسی بھی عالم کو یہ قطعا اجازت نہیں کو سلف کے متفقہ فہم پر استدراک کرے ، اورجس آیت وحدیث کی تشریح سلف نے متفقہ طور پر پیش کردی ہے اس سے بھی حکمت و ہدایت کے جواہر نکالنے بیٹھ جائے ، اور پھر فہم نصوص کا یہ غرور انکار نصوص کے اس مقام پر پہنچادے کہ صرف الفاظ نصوص پر ایمان باقی رہ جائے اور اس کے معانی ومفاہیم حکمت و ہدایت کے نام پر خود ساختہ ہوں۔

لہٰذا علی الاطلاق یہ بات قطعا درست نہیں ہاں بعض احادیث سے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہیں لیکن یہی معاملہ تحقیق حدیث کے ساتھ بھی ہے ، بعض رواۃ سے متعلق نئی نئی معلومات قیامت تک ملتی رہیں گی اس لئے ان کی بیان کردہ بعض احادیث کا حکم بھی قیامت تک بدلتا رہے گا، مثلا علامہ البانی رحمہ اللہ نے بعض احادیث کو اس وجہ سے ضعیف کہا کہ اس کی اسناد کے کسی راوی کا ترجمہ انہیں نہیں مل سکا لیکن بعد میں جرح وتعدیل کی کچھ نئی کتب طبع ہوئیں تو نہ صرف یہ کہ اس راوی کا ترجمہ ملا بلکہ اس کی توثیق بھی مل گئی ، ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی ضعیف قرار دی گئی حدیث کا حکم بدل جائے گا اور بعد کا محقق اسے صحیح ہی کہے گا۔
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے بعض روایات کو اس لئے مردود کہا کہ انہیں ان کی سندیں نہ مل سکیں، لیکن بعد میں کچھ مزید مخطوطات سامنے آئے جس میں نہ صرف ان روایات کی سندیں مل گئیں بلکہ اس کے سارے راوی بھی ثقہ ثابت ہوئے ، ظاہر ہے کہ ان نئی معلومات سے آگاہ ہوکر بعد کا محقق ایسی روایات کو مردود کے بجائے مقبول کہے گا۔ اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
لیکن فہم حدیث کی طرح تحقیق حدیث میں بھی یہ بات علی الاطلاق نہیں کہی جاسکتی بلکہ بعض روایات ہی سے متعلق اس طرح کی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔
اورجن روایات سے متعلق سلف نے متفقہ فیصلہ صادر کردیا ہے اس میں نئی تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، گرچہ اس طرح کی احادیث میں ہمیں کچھ علت بھی نظر آئے ، کیونکہ سلف کا متفقہ فیصلہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں نظر آنے والی علت قادحہ نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ رفع قدح کے اسباب تک ہماری رسائی نہیں ۔


اخیر میں ہم یہی وضاحت کریں گے کہ تحقیق حدیث ہو یا فہم حدیث دونوں میں عوام کبار علماء کی طرف رجوع کریں اور طلبہ و عام اہل علم اپنی رائے قائم کرنے کے بجائے کبار اہل علم کی آراء میں سے جسےراجح سمجھیں اسے چنیں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ عدنان عرعور فرماتے ہیں:
٣ - الخلاف المعتبر أو خلاف الفهم والاجتهاد:
تعريفه:
هو كل خلاف صدر ممن اتصف بثلاث.
  • (١)أهلية الاجتهاد: وهي توفر شروط الاجتهاد فيه، التي اتفق عليها أهل السنة والجماعة.
  • (٢) أصوله صحيحة: أي: أصول دينه، وأصول اعتقاده، وأصول استنباطه، على منهج أهل السنة والجماعة.
  • (٣)مناط حكمه معتبر: أي أن يكون الحكم الصادر منه أو الفتوى، مناطاً بما هو معتبر عند أهل السنة والجماعة، من الكتاب أو السنة أو الإجماع، فلا يخالف المجتهد إجماعاً، ولا نصاً قد اتُّفق على معناه، وأن يكون اجتهاده مبنياً على أصول الفقه المعتبرة، لا أن يكون الحكم والفتوى معلقة بالمصالح و النتائج، ومناطة بالواقع و تتبع الرخص ودعوى رفع الحرج والتسهيل. وما شابه ذلك.

مثاله:
اختلاف الصحابة في صلاة العصر في بني قريظة - اختلاف العلماء في قراءة الفاتحة في الصلاة الجهرية -حكم وجه المرأة- الاختلاف في الأعيان تعديلاً وتجريحاً، وما شابه ذلك.
قاعدته:
نبين ولا نضلل، نصحح ولا نجرح أي :
  • نخطّئ ولا ننكر، فإن الإنكار لا يكون إلا لمنكر، وقد مضى مذهب السلف أن لا إنكار على مجتهد معتبر بالشروط السابقة.
  • يُعذر أصحاب هذا الخلاف، ولو كان في العقيدة (1)، وسيأتي شيء من التفصيل في نهاية هذا الباب.
  • يبقى هذا الخلاف في دائرة الخلاف المعتبر، ما لم يظهر نص يحسم الخلاف بالاتفاق.
  • يشرع ترك الرأي للأعلم والأفضل، أو لمصلحة عامة للمسلمين من وحدة الصف، أو تآلف القلوب، أو درءاً لمفسدة كبيرة.

الموقف منه:
يأخذ طالب العلم ما ترجح له .. وأما العامي: فيأخذ ما اطمأن إليه قلبه، وقد يكون من عوامل الاطمئنان اتباع الأعلم، أو الأكثر، أو الأتقى، أو الأحوط، أو صاحب الاختصاص أو ... .

[منهج الإعتدال (ص: 34)]۔

پورے اقتباس کے ساتھ ساتھ آخری سطرپر توجہ دی جائے ہمارا بھی یہی موقف ہے۔
 
Top