• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الصدقات للفقراء میں صدقہ مطلق ہے پھر ہم ذکوۃ ہی کیوں مراد لیتے ہیں

شمولیت
جون 07، 2014
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
سلام

1) الصدقات للفقراء میں صدقہ مطلق ہے جو صدقات واجبہ و نافلہ دونوں پر دال ہے پھر ہم ذکوۃ ہی کیوں مراد لیتے ہیں؟

2) جب عام مخصوص ظنی ہوتا ہے اور ظنی فرضیت نہیں وجوب ثابت کرتا ہے اور اٰتو الزکوۃ کا عام، الصدقات للفقراء سے مخصوص ہوکر ظنی ہوجاتا ہے تو ذکوۃ واجب ہونی چائیے۔ ہم فرض کیوں کہتے ہیں؟

3) لیس فیما دون خمس اواق صدقہ۔ کا 'فیما' لفظ خاص ہے جو اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ خمس اواق ( ساڑھے باون تولے چاندی ) سے کم میں ذکوۃ نہیں ہونی چائیے ۔ یعنی کسی کے پاس ساڑے تریپن (5۔53)تولے چاندی ہو تو صرف 1 تولہ چاندی پر ذکوۃ واجب ہونی چاہئے ۔ پھر ہم ساڑے تریپن تولے پر ذکوۃ کیوں فرض قرار دیتے ہیں؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
الصدقات کے الف لام پر غور کر لیا جائے تو شاید بات واضح ہو جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ واجب اور فرض کا یہ فرق صرف آپ نزدیک ہے، اس لیے آپ خاصی مشکل کا شکار ہیں
 
شمولیت
جون 07، 2014
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
ال سے اگر خاص صدقہ مراد ہے تو وہ تو کوئی اور صدقہ بھی ہوسکتا ہے ہم یہاں ذکوۃ ہی مراد کیوں لیتے ہیں؟
واجب اور فرض کا یہ فرق صرف آپ نزدیک ہے اس کی تھوڑی وضاحت کردیں۔ اور نمبر 3 کا بھی جواب عنایت کریں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ال سے اگر خاص صدقہ مراد ہے تو وہ تو کوئی اور صدقہ بھی ہوسکتا ہے ہم یہاں ذکوۃ ہی مراد کیوں لیتے ہیں؟
واجب اور فرض کا یہ فرق صرف آپ نزدیک ہے اس کی تھوڑی وضاحت کردیں۔ اور نمبر 3 کا بھی جواب عنایت کریں
میرے بھائی پہلے آپ یہ جان لیں کہ ال کا معنی صرف خاص نہیں ہوتا ہے،یہ الف لام کبھی استغراق کے لیے آتا ہے ،کبھی عہد ذہنی کے لیے اور کبھی عہد خارجی کے لیے اور کبھی جنس کے لیے آتا ہے،یہاں یہ الف لام عہد خارجی کے لیے ہے اور عہد خارجی کا استعمال اس طرح ہے:
وہ الف لام جس کا مدخول متکلم اور مخاطب دونوں کے نزدیک متعین ہو۔ جیسے فَعَصٰی فِرْعَوْ نُ الرَّسُوْلَ (تو فرعون نے رسول کی نافرمانی کی)اس مثال میں اَلرَّسُوْل پر عہدخارجی کاالف لام ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ال سے اگر خاص صدقہ مراد ہے تو وہ تو کوئی اور صدقہ بھی ہوسکتا ہے ہم یہاں ذکوۃ ہی مراد کیوں لیتے ہیں؟
واجب اور فرض کا یہ فرق صرف آپ نزدیک ہے اس کی تھوڑی وضاحت کردیں۔ اور نمبر 3 کا بھی جواب عنایت کریں
بھائی جان آپ گزارش ہے کہ واجب اور فرض میں فرق کا دعوی آپ نے کیا ہے اس لیے دلیل بھی آپ ہی کے ذمہ ہے
 
شمولیت
جون 07، 2014
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
جواب کا شکریہ ۔ میرا مقصد یہاں معاملات کو سمجھنا ہے ۔ برائے مہربانی کثرت سوالات سے پریشان نہ ہوں بلکہ رہنمائی فرمائیں ۔

1) فِرْعَوْ نُ الرَّسُوْلَ والی مثال میں تو متکلم و مخاطب دونوں ہی کو معلوم ہے کہ وہاں ایک ہی رسول مراد ہیں ۔ الصدقات میں متکلم کو تو معلوم ہے مخاطب کو بھی معلوم ہے اس کی دلیل کیا ہے؟

2) یہ کیسے معلوم ہوا یہ ال عہد خارجی کا ہی ہے ۔

3) واجب اور فرض کا یہ فرق وہ ہے جو آج تک اپنے ارد گرد سے میں نے سیکھا اس کے علاوہ اگر کچھ اور بات ہے تو اس لٹریچر کا لنک دیں تاکہ پڑھ کر میری اصلاح ہوسکے۔

4) اصل سوال میں نمبر 3 کا بھی جواب دیجئے ۔

5) یہاں میں دیگر لوگوں کی توجہ کس طرح مبذول کرواسکتا ہوں کہ وہ اس تھریڈ کو پڑھیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
سلام

1) الصدقات للفقراء میں صدقہ مطلق ہے جو صدقات واجبہ و نافلہ دونوں پر دال ہے پھر ہم ذکوۃ ہی کیوں مراد لیتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم بھائی!
صدقہ لفظ مشترک ہے جو زکاۃ اور عطیہ دونوں پر بولا جاتا ہے۔ یہاں قرینہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد زکاۃ ہے اور قرینہ آگے مذکور افراد ہیں کیوں کہ نصوص سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ عمومی عطیہ میں یہ قیود نہیں بلکہ وہ عطیہ فقیر و امیر سب کو دیا جا سکتا ہے اور تملیکا و اباحتا دونوں طرح دیا جا سکتا ہے۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ لفظ مطلق کا اطلاق اس کے فرد کامل پر اولا ہوتا ہے اور زکاۃ صدقہ کا فرد کامل ہے کیوں کہ اس کا تاکیدی حکم ہے۔ اس لیے یہاں زکاۃ مراد ہے۔
نیز یہ بھی یاد رکھیے کہ بسا اوقات قرینہ عقلیہ کی وجہ سے بھی تخصیص ہوتی ہے۔

2) جب عام مخصوص ظنی ہوتا ہے اور ظنی فرضیت نہیں وجوب ثابت کرتا ہے اور اٰتو الزکوۃ کا عام، الصدقات للفقراء سے مخصوص ہوکر ظنی ہوجاتا ہے تو ذکوۃ واجب ہونی چائیے۔ ہم فرض کیوں کہتے ہیں؟
یہاں آپ ذرا سی غلطی پر ہیں۔ وہ یہ کہ عموم اور اس میں ہونے والے خصوص کی جہت ایک ہی ہونی چاہیے۔ اٰتوا الزکاۃ میں ادائے زکاۃ کا جو حکم ہے اس میں خصوص نہیں ہوا۔ بلکہ اس میں اس بات میں عموم تھا کہ کسی کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے اور خصوص اس میں ہوا ہے۔ تو دونوں کی جہتیں مختلف ہیں۔

3) لیس فیما دون خمس اواق صدقہ۔ کا 'فیما' لفظ خاص ہے جو اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ خمس اواق ( ساڑھے باون تولے چاندی ) سے کم میں ذکوۃ نہیں ہونی چائیے ۔ یعنی کسی کے پاس ساڑے تریپن (5۔53)تولے چاندی ہو تو صرف 1 تولہ چاندی پر ذکوۃ واجب ہونی چاہئے ۔ پھر ہم ساڑے تریپن تولے پر ذکوۃ کیوں فرض قرار دیتے ہیں؟
اس لیے کہ لفظ "دون" بھی خاص ہے جس کا مطلب ہے "کم، قریب"۔ تو مطلب یہ ہوا کہ جب تک خمس اواق سے "کم" ہونے کی خصوصیت پائی جائے گی زکاۃ نہیں ہوگی۔ اور جب یہ خاصیت ختم ہو جائے گی تو زکاۃ بھی ہوگی۔ کس چیز پر ہوگی؟ مال پر۔ مال کیا ہے؟ یہ مکمل ساڑھے تریپن تولہ۔
یعنی یہ مال پر زکاۃ نہ ہونے کا حکم تب تک ہے جب تک لفظ دون کا اطلاق ہو رہا ہے۔ جب دون ہٹ جائے گا تو حکم اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔
واللہ اعلم۔


دیگر جس فرد کو مخاطب کرنا مقصود ہو اس کے نام سے پہلے @ لکھیں اور پھر بغیر فاصلہ دیے اس کا نام لکھیں۔ نیچے لسٹ میں نام ظاہر ہو جائے گا۔ اس کا انتخاب کر لیجیے۔

آپ کا یہ سوال اصول فقہ سے متعلق ہے۔ اس قسم کے سوالات وہاں پوسٹ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ہم ان شاء اللہ اپنے ناقص علم کی حد تک ہر ممکن مدد کریں گے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
فرض اور واجب کا فرق تو اپنی جگہ باقی ہے جناب اس پر بھی لب کشائی فرما دیتے تو بات واضح ہو جاتی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
فرض اور واجب کا فرق تو اپنی جگہ باقی ہے جناب اس پر بھی لب کشائی فرما دیتے تو بات واضح ہو جاتی
محترم بھائی۔ فرض اور واجب کے بارے میں علماء کرام کے دو مسلک ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں۔
جب کہ بعض کے نزدیک جو چیز دلیل قطعی سے ثابت ہوتی ہے وہ فرض ہے اور جو چیز دلیل ظنی سے ثابت ہوتی ہے وہ واجب ہے۔
ان دونوں میں عملی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کرتے بلکہ عملا دونوں کو لازم قرار دیتے ہیں۔ لیکن اعتقادا فرض کے منکر (بلا تاویل علمی) کو کافر اور واجب کے منکر کو فاسق قرار دیتے ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم بھائی۔ فرض اور واجب کے بارے میں علماء کرام کے دو مسلک ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں۔
جب کہ بعض کے نزدیک جو چیز دلیل قطعی سے ثابت ہوتی ہے وہ فرض ہے اور جو چیز دلیل ظنی سے ثابت ہوتی ہے وہ واجب ہے۔
ان دونوں میں عملی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کرتے بلکہ عملا دونوں کو لازم قرار دیتے ہیں۔ لیکن اعتقادا فرض کے منکر (بلا تاویل علمی) کو کافر اور واجب کے منکر کو فاسق قرار دیتے ہیں۔
یہ بعض علما کون ھیں ؟
 
Top