• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القرآن میں عربی لسان کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یعنی وہ انسان جن کی بنیادی اساس ایک ہوں اور ان کی ماں بھی ایک ہو پھر ان کی ایک زبان ہو۔ تو وہ گروہ ’’امت‘‘ کہلاتا ہے جیسے مسلمین کا گروہ جن کی ماں ’’ازواج الرسول ؐ ‘‘ ہیں (۳۳):احزاب:۶) اور یہ رشتہ مجازی سے زیادہ حقیقی جیسا ہے (۳۳:۵۳) ۔ قرآن میں مسلمین کے لئے ’’قوم‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے جیسے قرآن میں لکھا ہے۔ ’’وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھَذَا الْقُرْآنَ مَھْجُوْراً (30) (۲۵: فرقان) اور رسول (اللہ) نے کہا کہ اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو مہجور (یعنی باندھ کر بے حرکت بنالیا ہے(۳۰)‘‘ یعنی قرآن سے ہدایت نہیں لیتے ہیں جیسے کہ قرآن میں لکھا کہ ’’قرآن تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے (۱۸۵) (۲:البقرہ) الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاس (۱۸۰)‘‘ اگر قرآن میں رسول کی مخاطب ’’قوم‘‘ تمام مسلمین ہے تو تمام مسلمین کو بھی قرآن کے مطابق ایک قوم بننا چاہئے!!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مسلم ایک خاندان:
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک قوم میں بدلنے کے بعد اتحاد کی تعلیمات ک مزید قریب لاتے ہوئے مسلم قوم کو ایک خاندان میں بھی بدل دیا جیسے اللہ فرماتا ہے: ’’اِنَّمَا الْمُؤُمِنُوْنَ اِخْوَۃ (۱۰) (۴۹: حجرات) بے شک مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(۱۰) النَبِیُّ اَوْلَی بِالمومنین مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہُ اُمَّھَاتُھُمْ وَاُوْلُوْا الْاَرْحَامِ (۶) (۳۳: احزاب) نبیؐ مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں ان (محمد رسول اللہ) کی بیویاں ان (مومنوں) کی مائیں اور خون کے رشتے کے قریب ہیں۔۶۔‘‘ یعنی اگر محمد رسول اللہؐ کی ازواج ’’اُمَّہات المؤمنین‘‘ ہیں تو ’’ابو المؤمنین‘‘ یعنی مؤمنوں کے باپ رسولؐ ہوئے جیسے ابراہیم ؑ بھی تمام مؤمنین کے باپ تھے ’’مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ‘‘ (۲۲:حج:۷۸) اور اللہ نے حکم دیا: ’’فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ اَبْنَاء نَا وَاَبْنَاء کُمْ وَنِسَاء نَا ونِسَاء کُمْ (۶۱) (۳: العمران) پس (اے محمد) کہو! (ان عیسائیوں سے) کہ آئیں، ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو(۶۱)‘‘ یعنی اس آیت میں صاف طور پر مجازی معنی مومنوں کو رسول کے بیٹے کہا گیاتھا۔ حقیقی طور پر محمد رسول اللہؐ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تھے۔ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدُ‘ اَبَااَحْدٍمِّنْ رِّجَالِکُمْ (۴۰) (۳۳: احزاب)‘‘ اور سورۃ کوثر میں ’’کوثر‘‘ کے معنی ’’کـثرت‘‘ کے ہیں جو ’’ابتر‘‘ یعنی ’’بے اولاد‘‘ کے مقابلے میں آیا ہے۔ تو اس سورۃ سے بھی آسانی سے پتا چل جاتا ہے کہ اللہ نے اس سورۃ میں رسول کو مجازی اولاد کی کثرت کا بتایا تھا۔ جس سے اللہ نے رسولؐ کے تمام دشمن کو محروم رکھا، نہ رسولؐ کے دشمنوں کی حقیقی اولاد تو کثرت میں تھی۔ یعنی مختصراً الفاظ میں تمام مسلمین ایک خاندان ہے اور دنیا میں اس سے قریب کوئی انسانی رشتہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ عام ہے کہ ہر خاندان ایک ہی زبان بولتا ہے، وہ خاندان چاہے انسان کا ہو یا حیوان کا ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہو تاکہ بچے اپنے والدین کی زبانوں کو نہ اپنائیں اور اپنے بہن بھائی کی زبانیں نہ جانے۔ اگر رسولؐ اور انکی ازواج ہمارے ماں باپ ہیں تو ہمارے درمیان ایک زبان کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اسلام ’’اتحاد‘‘ چاہتا ہے، اتحاد کے لئے ضروری ہے’’رابطہ‘‘ ، رابطہ کے لئے ضروری ایک ’’زبان‘‘ کا ہونا کیونکہ دو الگ الگ زبانیں بولنے والے ایک دوسرے سے صحیح طور پر براہ راست رابطہ نہیں کرسکتے ہیں۔ آپس میں رابطہ کے لئے قرآن کی زبان سے بہتر کونسی زبان ہوسکتی ہے؟ اور عربی لسان کے بغیر اسلامی خاندان کے رشتے کو بھی زیادہ مضبوط نہیں بنایا جاسکتا!!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صلوٰۃ اور حج:
حج و عمرہ مسلمین کے اتحاد کے لئے ایک بین الانسانی اجتماع ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمین اکٹھا ہوتے ہیں۔ ترجمہ :(۲۸) (۲۲:حج) اور لوگوں میں حج کے لئے آذان دو کہ تمہارے پاس (مرد یا پیدل) آئیں اور تمام ضامر کیساتھ جو آئیں گی ہر دور کشادہ رستوں سے تاکہ وہ شہادت دیں اس میں ان کا منافع ہے اور معلوم ایام میں اللہ کے اسم کا ذکر کریں۔(۲۸)‘‘ اس موقع پر عربی زبان زیادہ تر مقامی اور غیر مقامی مسلمین کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔ کیونکہ عربی مسلمانوں میں سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان ہے۔ صلوٰۃ (یعنی نماز) مسلمانوں کا محلہ کی سطح کا اجتماع ہے جس میں صلوٰۃ کے ذریعے آپس میں فلاح و تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے جس میں روزانہ رکوع با رکوع درس قرآن ہوتا ہے۔ جو صلوٰۃ کا بنیادی مقصد بھی ہے اور مساجد کے ذریعے تعلیم قرآن کا یہ سلسلہ پوری دنیا میں عام ہے اور یہ درس قرآن صرف عربی زبان میں ہوتا ہے۔ ’’وَکَذَلِکَ اَنْزَلْنَاہُ حُکْماً عَرَبِیّاً (۳۷: رعد) اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو عربی زبان کا حکم بنا کر نازل کیا ہے(۳۷)‘‘ یعنی اللہ کے تمام احکام عربی زبان میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْ لاَ تَقرَبُوْ الصَّلاَۃَ اَنْتُمْ سُکَارَی حَتَّی تَعْْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ (۴۳) (۴:نساء) اے مومنو! جب تم سکاریٰ (نشہ، گنددگی، اوسان خطا اور بے سمجھی) کی حالت میں ہو تو جب تک جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو صلوٰۃ کے قریب نہ جاؤ(۴۳)‘‘ یعنی صلوٰۃ میں قرآن کی عربی قرأت کو بے سمجھی کی حالت میںسننے سے اللہ منع کرتا ہے بلکہ ایسی حالت میں جانا بھی منع ہے۔ ’’فَوَیْلُ‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ (4) الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ (5) الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَاؤُوْنَ (6) (۱۰۷:ماعون) تو ایسے مصلین پر ملامت جو اپنی صلوٰۃ کی طرف سے غافل رہتے ہیں جو صرف ریا کاری کرتے ہیں اگر یہ غفلت ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکام کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے عربی کو نہ سیکھنا کیا اس سے بڑی غفلت نہیں؟؟؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عربی کی وسعت:
عربی ’’الفاظ‘‘ کے لحاظ سے دنیا کی سب سے وسیع زبان ہے۔ عربی میں چھوٹی سی چھوٹی چیزوں کے بڑے تفصیل سے علیحدہ علیحدہ نام ہوتے ہیں جس کا کسی دوسری زبان میں تصور بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً عربی میں دن کے ہر گھنٹے کا علیحدہ نام اور انسانی جسم کی ہر اعضاء اور ہر انگلی کے لئے جدا گانہ نام وغیرہ۔ عربی میں الفاظ کی اتنی وسعت ہے کہ کئی ایک چیزوں کے سیکڑوں نام ہیں۔ مثلاً صرف تلوار کے لئے ایک ہزار (۱۰۰۰) الفاظ استعمال ہوتے ہیں، اونٹ کیلئے (۲۲۵)، سانپ کے لئے(۱۰۰) اور پانی کے لئے (۱۷۰) لفظ استعمال ہوتے ہیں، خود قرآن میں اللہ نے گروہ کے لئے بیس (۲۰) سے زیادہ لفظ استعمال کئے ہیں۔ عربی میں دو سو سے زائد ایسے الفاظ ہیں جن کے معنی تین تین ہیں، سو سے زائد کے چار چار معنی ہیں اور بعض کے پچیس پچیس معنی ہیں۔ مثلاً لفظ خال کے (۲۷)، عین کے (۳۵) اور عجوز کے (۶۰) معانی ہیں۔ جیسے اردو میں بھی لفظ ’’گولی‘‘ کے قریباً آٹھ معانی ہیں۔ (۱) سپاہی چور سے کہتا ہے، اگر بھاگنے کی کوشش کی تو گولی مار دونگا۔ (۲)درزی شاگرد سے کہتا ہے، بساطی کی دوکان سے سیلیٹی رنگ کی گولی لے آؤ۔ (۳) ڈاکٹر صاحب، مریض کو مشورہ دیتے ہیں یہ گولی کھالو، درد، دور ہوجائے گا۔ (۴) ماں بچے کو کہتی ہے کہ بیٹا ہر وقت گولیاں نہ کھیلو۔ (۵)حامد نے شادی کی تقریب کے لئے بازار سے بندوق کی ایک درجن گولیاں خریدیں۔ (۶) استاد شاگرد سے کہتا ہے تم مجھے کافی دنوں سے گولیاں دے رہے ہو۔ لیکن آج تمہاری گولی فٹ نہیں ہوگی۔ (۷)شاگرد: ’’میں نے بھی کوئی کچی گولی نہیں کھیلی‘‘ (۸) جس طرح ایک اردو دان لفظ ’’گولی‘‘ کے ان آٹھ معانی کو بخوبی سمجھتا ہے۔ اسی طرح ایک عربی دان عربی کے ایک سے زیادہ معانی والے الفاظ کو سمجھتا ہے۔ فرق صرف اہل زبان کا ہے!!!
عربی کی جامعیت اور اختصار پسندی کا یہ عالم ہے کہ بڑے سے بڑے مفہوم کو چند الفاظ میں نہیں بلکہ چند حروف میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور جبکہ اس زبان کے ایک لفظ کا مفہوم کو واضح کرنے کے لئے دوسری زبانوں میں کئی کئی جملے بھی ناکافی ہوتے ہیں اور عربی اور غیر عربی زبان کی قرآنی تفسیریں ان کی بہترین مثالیں ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عربی کی خاص خاصیت:
اس زبان کی سب سے بڑی خصوصیت جو دنیا کی کسی بھی زبان میں نہیں ہے۔ وہ یہ کہ عربی قواعد کی مدد سے ہزار زمانے کی نت نئی سائنسی ایجاد اور تکنیکی ضرورتوں کے ماتحت اس میں جدید الفاظ و اصطلاحات آسانی سے بنائی جاسکتیں ہیں۔ مثلاً آج کل ٹیلی فون کے لئے (ہاتف)، ریڈیو (اشعالی)، ٹرین(قطار)، ٹینک (دبابۃ)، بینک (مصرف)، فریج (ثلاجۃ)، میزائل (صاروخ)، کار (سیارۃ)، دوربین (منظار)، تھرمامیٹر (میزان حرارۃ)، دوائی (حبوب)، مارنے والی گولی (رصاصۃ)، ٹیپ (مسجلۃ)، کمپیوٹر (حاسوب)، کیکولیٹر (حاسبۃ)، ٹائپ رائیٹر (الۃ کاتبۃ)، ڈیسک (مکتب)، لائبریری (مکتبۃ) اورجنگی جہاز کے لئے (بارجۃ) وغیرہ کے جدید لفظ استعمال ہوتے ہیں جو ان چیزوں کی کیفیت وصفات کے عین مطابق ہیں۔ عربی نے کسی دوسری زبان کے الفاظ کو قبول نہیں کیا مَعْدُودے چند الفاظ کے، ان میں بھی عربی کی جامعیت وَوسعتِ معنی کا خاص خیال رکھا گیا اور اسی خاصیت کی وجہ عربی دنیا کی خاص ترین زبان ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عربی میں مادّے کی اہمیت:
مادّہ عربی لسان کی بنیاد ہے اور عربی کی قاموس بھی مادّے کی ترتیب سے لکھی جاتی ہے۔ دنیا کی دوسری لسان کی طرح لفظ بلفظ کی ترتیب سے نہیں لکھی جاتی ہے۔ مادّے کی ترتیب سے قاموس مرتب کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عربی زبان میں ایک مادّہ سے سینکڑوں الفاظ، اسماء، افعال، صفات اور صیغے بن جاتے ہیں۔ عربی کی مشہور قاموس ’’تاج لعروس‘‘ سید مرتضیٰ زُبیدی، متوفی ۱۲۰۵ھ کے مادّہ ہائے الفاظ کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہیں۔ ایک مادّہ (ک۔ت۔ب) سے بنے چند الفاظ کی مثال جو قرآن میں آئے: کَتَبَ۔ اس نے لکھا [۲:۱۸۷] کُتِبَ۔ وہ لکھا گیا [۲:۱۸۰] کَتَبَتْ۔ اس (مؤنث)نے لکھا۔ [۲:۸۹] کَتَبْتَ۔ تونے لکھا [۴:۷۷] ، کَتَبْنَا۔ ہم نے لکھا[۴:۶۶] کِتَابُ۔ کتاب، مضمون [۲:۲] کُتُبٍ۔ کتابیں [۹۸:ـ۳] کُتُبِہٖ۔ اس کی کتابیں [۲: ۲۸۵]، کَاتِبُ‘۔ لکھنے والا [۲:۲۸۲] کَاتِبُونَ۔ لکھنے والے [۲۱:۹۴] کَاتِبِیْنَ۔ لکھنے والے [۸۲:۱۱]، مَکْتُوْباً۔ خط، لکھا ہوا [۷:۱۵۷] اُکْتُبْ۔ تو لکھ دے [۷:۱۵۶]، اَکْتُبُھَا۔ میں اس (مونث) کو لکھتاہوں [۷:۱۵۶]، نَکْتُبُ۔ ہم لکھتے ہیں [۳:۱۸۱]، یَکْتُبُ۔ وہ لکھتا ہے [۲:۲۸۲] یَکْتُبُوْنَ۔ وہ لکھتے ہیں [۲:۷۹]، تُکْتَبُ۔ لکھی جاتی ہے [۴۳:۱۹]، تَکْتُبُوْہُ۔ تم اس کو لکھو [۲:۲۸۲] وغیرہ وغیرہ اگر چہ ان الفاظ کی شکلیں اور آگے پیچھے کے الفاظ مختلف ہونے کے باوجود ہر لفظ کے اندر ’’مادّہ‘‘ اپنے صحیح معنی کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ یہ مختلف شکلیں جو مادے سے بنتی ہیں اپنے مخصوص قواعد و ضوابط کے تحت بنائی جاتی ہیں جو بہت آسان ہے۔ عربی چونکہ فصاحت و بلاغت کی زبان ہے اس لئے اس کی ہر کروٹ اور ہر پہلو میں کوئی نہ کوئی ضابطہ اور کوئی نہ کوئی قاعدہ موجود ہوتا ہے اور عربی نے جس طرح ہر دور میں نت نئے اسالیب نئے الفاظ و محاورات اور نت نئی اصلاحات کو اپنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ان دلائل کی بنیاد پر آج بھی اکثر ماہرین لسانیات عربی گرامر کو دنیا کی سب سے بہترین گرامر قرار دیتے ہیں، اسی بہترین عربی قوائد کی وجہ سے قرآن حکیم کے کسی حرف پر زیر و زبر کی تبدیلی بھی آسانی سے پہنچانی جاسکتی ہے بلکہ جدید عربی بغیر زیر زبر کے ہی لکھی جاتی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عربی ایک بہترین زبان:
عربی اپنے وسیع اور جامع ادبی سرمائے کی وجہ سے دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ عربی کی شیریں اس کی حیات بخش قوت، رسیلا پن اور اس کے استعارات کی رنگینی۔ اور اس کی صرف ونحو کی جامعیت اسے تمام دنیا کی زبان سے ممتاز کرتی ہے۔ عربی کے الفاظ میں ایسے ایسے اسرار و رموز پائے جاتے ہیں جو یقینا کسی دوسری زبان میں موجود نہیں۔ قرآن میں عربی لسان کے بارے میں لکھا ہے۔ ’’وَلَوْ جَعَلْنَاہُ قُرْآناً اَعْجَمِیًّا لَّقَالُوْا لَوْلاَ فُضِّلَتْ آیَاتُہُ اَاَعْجَمِِیُّ‘ وَعَرَبِیُّ‘ (۴۴) اور اگر ہم اس قرآن کو غیر عربی زبان میں بناکر نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ ان آیتوں میں (عربی کی طرح تفصیل کیوں نہیں ہے کیا عجمی اور کیا عربی؟ (۴۴)‘‘ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے اگر اللہ چاہتا تو غیر عربی زبان میں بھی فصلت پیدا کرکے اس میں قرآن نازل کردیتا، لیکن یہاں پر یہ بات بتانا مقصود ہے کہ اللہ نے اپنی وحی کے لئے ایسی زبان کا انتخاب کیا ہے جو دنیا کی بہترین فصلت والی زبان ہے۔ اللہ عربی کے بارے میں یہ بھی بتاتا ہے کہ: ’’قُرْآنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ (28) (۳۹: زمر) (یہ)قرآن (ایسی) عربی (زبان میں) ہے جس میں کوئی عیب نہیں تاکہ وہ لوگ (اللہ سے) ڈریں۔۲۸‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے کتاب ایسی زبان میں نازل کی جس پر کسی بھی قسم کا ایسا کوئی لسانی عیب نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جاسکے جبکہ دنیا کی ہر زبان پر کسی نہ کسی طرح سے عربی کے مقابلہ میں اعتراض کیا جاسکتا ہے کیونکہ عربی دنیا کی ہر لحاظ سے بہترین زبان ہے۔ سادہ الفاظ میں کلام الٰہی کے بلند ترین حقائق اور عمیق ترین نکات کا بہترین بیان صرف عربی زبان میں ہی ممکن تھا اسی لئے اللہ نے اپنی عالمی کتاب ’’القرآن البرہان‘‘ عربی لسان میں نازل کی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مذہبی زبان کی اہمیت:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ’’عربی‘‘ مسلمین کی مقدس زبان، ’’اردو‘‘ قادیانیوں کی مقدس زبان، ’’عبرانی‘‘ یہودیوں کی مقدس زبان، ’’سریانی‘‘ اور ’’یونانی‘‘ عیسائیوں کی مقدس زبانیں، ’’ژندی‘‘ پارسیوں کی مقدس زبان اور ’’سنسکرت‘‘ ہندوؤں اور بدھ متوں کی مقدس زبان ہے۔ ہر مذہب کے افراد اپنی مذہبی زبان سے محبت کرتے ہیں۔ ہندوؤں نے بھارت میں سنسکرت کو سیکولر نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی ہندی کی شکل میں زندہ رکھا ہوا ہے، عیسائیوں میں عیسیٰ ؑ اور انجیل کی زبان کے بارے میں بہت سااختلاف ہے۔ عیسائیوں کے پاس اصل انجیل کے نسخے کے بجائے صرف انجیل کا قدیم یونانی ترجمہ موجود ہے جس سے وہ دنیا کی دوسری زبان میں انجیل کا ترجمہ کرتے ہیں اور یہ ہی یونانی زبان اکثرپادری حضرات چرچوں میں سیکھتے ہیں۔ پارسیوں نے فارسی کی شکل میں اپنی ژندی زبان کو زندہ رکھا ہوا ہے اور یہودیوں نے عبرانی کو اسرائیل کی سرکاری زبان بنایا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اب تک عبرانی زبان عوامی زبان نہیں بن سکی ابھی تک عبرانی یہودی علما تک محدود ہے۔ عربی کے علاوہ تمام مذہبی زبانیں صرف مذہبی لوگوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے تحریف زدہ ہوکر اپنی اصلیت کھوچکی ہیں اور جبکہ عربی لسان آغازِ اوّل سے عوام کے اندر ایک مستعمل اور بولی جانے والی زبان رہنے کی وجہ سے اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ عربی کو دینی و عوامی نقطہ نظر سے جو اعلیٰ مقام حاصل ہوا ہے، اس کی وجہ سے عربی میں جدید و قدیم زبان کا وہ فرق بھی موجود نہیں ہے جو دنیا کی ہر زبان مثلاً انگریزی، اردو وغیرہ میں ہر دوسو چار سو سال کے بعد پیدا ہوجاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پاکستان اور اسرائیل:
دینی زبان کی اہمیت کے حوالے سے اسرائیل ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے لئے ایک مثال ہے کیونکہ پاکستان اور اسرائیل پوری دنیا کی دو ہی ایسی ریاستیں ہیں جو دینی نظریات کی بنیاد پر وجود میں آئیں۔ اسرائیل یہودی مذہب کے نام پر بنا۔ یہودی قوم میں بھی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں کئی زبانیں بولنے والوں کی تعداد لاکھوں تک ہے۔ مثلاً یہودیوں کی زبان یدش (Yiddish) بولنے والوں کی تعداد آج بھی دنیا بھر ۹۰ لاکھ سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے لوگوں نے عبرانی زبان کو سرکاری زبان اس وقت بنایا جب صرف ان کے یہودی علماء ہی کتابوں میں عبرانی جانتے تھے لیکن افسوس پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا جس خطے کی سرکاری زبان محمد بن قاسم کے زمانے (99ھ تا 101ھ) سے عربی رہی ہو۔ اس پاکستان نے اسلام کی اکلوتی زبان عربی کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کا حق تھا!!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حرکۃ تعریب پاکستان:
جبکہ کئی معروف و مؤثر شخصیات نے پاکستان کی قومی زبان عربی بنانے کی تجویز بھی دی تھی۔ مثلاً پاکستان کی خالق جماعت ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے سابق صدر اور تحریک پاکستان کے ممتاز ترین سیاسی شخصیت سرامام محمد شاہ آغا خان ثالثؒ وغیرہ، آپ آغازِ پاکستان سے عربی کی حمایتی رہے ہیں۔ آپ نے 1951ء میں ’’موتمر عالمِ اسلامی‘‘ کے اجلاس میں مسلمانانِ پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔’’آج آپ کو مخاطب کرتے ہوئے میں ذمہ داری کا عظیم بوجھ محسوس کررہا ہوں۔ اگر ہم نے پاکستان کو کھودیا تو یہ اسلام کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا۔ میں اہلِ پاکستان سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ اردو کے بجائے عربی کو قومی زبان بنائیں۔۔۔ ہر مسلمان بچہ عربی زبان میں قرآن پڑھتا ہے خواہ وہ ڈھاکہ کا باشندہ ہو یا کوئٹہ اور لاہور کا۔ وہ الف’’ب‘‘ سیکھتا ہے تاکہ قرآن پڑھ سکے قرآن عربی میں ہے اور عربی اسلام کی زبان ہے کسی فرد اور ملک کی نہیں، احادیث نبویہ ﷺ بھی عربی میں ہیں۔ اندیس میں تہذیب اپنے عروج پر اسی وقت تک رہی ہے جب تک عربی زبان و ادب کاعروج رہا۔ عربی سیکھنا آپ کا فرض ہے خواہ آپ سندھ کے باشندے ہوں خواہ بلوچستان یا سرحد کے۔‘‘ لیکن افسوس آج بھی پاکستان کی سرکاری زبان ’’انگریزی‘‘ ہے اور قومی زبان ’’اردو‘‘ ہے جو صوبے ’’اترپردیش‘‘ یو۔ پی کی ہے جس کا پرانا نام ’’متحدہ صوبہ‘‘ تھا جو پاکستان میں شامل بھی نہ ہوسکا۔ محمد علی جناح ؒنے یہ ملک اسلامی نظریہ قوم کے ماتحت دو قومی نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا۔ یعنی مسلم اور ہندو دو علیحدہ قومیں ہیں، مسلم قوم کی ثقافت محمد رسول اللہؐ کی ثقافت سے ملتی ہے تو پاکستان ثقافت کے نام سے یہ کون سے صوبے کی ثقافت زبردستی پاکستان کے رہنے والی ہر قوم پر مسلط کی جارہی ہے کیونکہ یہ محمدی ثقافت نہیں بلکہ صوبائی ثقافت ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں لسانی اور قومیتی تفرقہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور آدھا پاکستان بنگلہ زبان اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم بھی ہوچکا ہے۔ کیونکہ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزی اور اردو کی ترقی کے لئے پاکستان نہیں بنایا تھا بلکہ اسلامی شعائر کی ترقی کے لئے بنایا تھا۔ بھٹو کے 1973ء کے آئین پاکستان میں دفعہ ۳۱ (الف، ب) میں بھی یہ وضاحت سے لکھا کہ ’’اسلامیات اور عربی زبان و ادب دونوں کی فروغ کی ذمہ داری ریاست پر ہوگی۔‘‘ اور کلاز ۳۱۔۲) میں صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ ’’ریاست کے فرائض میں یہ داخل ہے کہ ریاست مسلمان پاکستان کے لئے اسلامیات اور تعلیم قرآن کو لازمی قرار دے، نیز وہ عربی زبان کی تعلیم و تدریس، فروغ اور اشاعت کی حوصلہ افزائی کرے۔‘‘ اس وقت بھی عربی زبان سرکاری طور پر پاکستان کی تعلیمی زبان ہے لیکن یہ ناکافی اقدامات ہیں کیونکہ اس ملک اور اسلام کے خاطر ہندوستان کی تمام مسلم قوموں نے جدوجہد کی، ہجرت کی اور اپنی قیمتی جانیں دیں اور آج بھی لاکھوں کشمیری اسی سلسلے میں جان دے رہے ہیں۔ ان جانوں کے صدقے میں دو سو سے زائد ممتاز علماء و اساتذہ جامعات کا متفقہ مجوزہ ’’لسان عربی بل‘‘ 1990ء پر عمل کرکے پاکستان کی قومی زبان عربی کو بنا دینا چاہئے اور یہ مطالبہ پاکستان کے تمام مختلف زبانیں بولنے والے مقامی مسلمان اور ہندوستان سے آئے ہوئے مختلف زبانوں کے سچے مسلمان پاکستان کے ہر حکمران سے کرتے ہیں۔ مگر افسوس! ایسی صدایں ہیں جو رنگ نہیں لاتی!!! اس لئے قرآن کہتا ہے: ’’ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْمَابِاَنْفُسِھِمْ (۱۱) (۱۳:رعد) بے شک اللہ بھی کسی ایسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں لاتاجب تک وہ خود اپنی حالت میں تبدیلی نہ لائے(۱۱)‘‘ یعنی جب تک عملی اقدامات نہیں ہونگے کچھ نہیں ہو گا
 
Top