• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القرآن میں عربی لسان کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
زبانوں کے بارے میں چند غلط فہمیاں:
مثلاً لوگوں میں غلط فہمی ڈالی گئی ہے کہ انگریزی ہی دنیا کی واحد عالمی زبان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے ماضی میں جن ممالک پر حکمرانی کی ہے۔ صر ان ممالک کی سرکاری زبان انگریزی ہے جن کی تعداد (۵۷) ہے۔ جو تمام ’’دولتِ مشترکہ‘‘ کے ممبرز بھی ہیں جن کے ذریعے آج بھی انگریز ان پر حکومت کرتا ہے۔ دنیا میں برطانیہ کی ریاست انگلینڈ کے علاوہ کسی ریاست میں ۸۰ فیصد سے زیادہ انگریزی نہیں بولی جاتی ہے۔ پاکستان میں دو سو سال سے زائد عرصے تک سرکاری زبان رہنے کے باوجود آج تک انگریزی عوامی زبان نہیں بن سکی، اب تک صرف تعلیم یافتہ لوگ مجبوراً انگریزی سیکھتے ہیں اور تقریباً یہی حال پوری دنیا میں انگریزی زبان کے ماتحت ممالک کا ہے۔ پاکستان میں انگریزی کی ناکامی کی وجہ اس کا مشکل لہجہ، بے قاعدہ گرامر، بہت سی زبانوں کے الفاظ کی ملاوٹ ہے اور انگریزی زبان سے کوئی زمینی، تہذیبی اور دینی رشتہ کا نہ ہونا بھی اس کی ناکامی کے بہت بڑے اسباب ہیں۔
انگریزوں کی طرح ہسپانویوں، فرانسیسیوں اور دوسری بہت سی قوموں نے دنیا کے بہت سے علاقوں پر حکومت کی۔ اسی لئے دنیا کے بہت سے ممالک کی سرکاری زبانیں مختلف ہیں۔ جیسے (31) ممالک کی سرکاری زبان ’’ہسپانوی‘‘، (26) ’’عربی‘‘، (21) ’’فرانسیسی‘‘، (10) ’’پرتگالی‘‘، (5) ’’جرمن‘‘ اور (2) ممالک کی سرکاری زبان ’’چینی‘‘ ہے۔
دوسری غلط فہمی اردو کے بارے میں پھیلائی جاتی ہے کہ اردو ایک مصنوعی زبان ہے جوکہ غلط ہے اور یہ بات قرآن کی آیت (۲۲:۳۰) کے خلاف بھی ہے اور نہ ہی تاریخ میں کسی شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اردو اس کی ایجاد ہے۔ قرآن کی آیت (۱۴:۴) کے مطابق اللہ نے ہر قوم کو ایک زبان دی ہے۔ ہندوستان میں صوبہ یو پی اور اس کے اطراف کے تمام گاؤں میں صرف اردو/ہندی بولتے ہیں بقول ان کے اردو ان کی مادری زبان ہے۔ یہ دعویٰ ہندستان کا کوئی دوسرا صوبہ نہیں کرتا ہے اگر یہ ان لوگوں کی زبان نہیں تو یو پی کے لوگوں کی زبان کونسی تھی؟ جبکہ ہندستان پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ حکومت میں اردو کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ اردو زبان کا نام بھی زبان کی ناواقفی سے پڑا۔ فارسی اور ترکی میں اردو کے معنی لشکر اور چھاؤنی کے ہیں۔ مسلمانوں کے دور میں لشکر میں زیادہ تر دہلی، یوپی کے مقامی لوگ ہوتے تھے تو مسلمانوں نے دہلوی زبان کو ’’زبانِ اُردو‘‘ یعنی لشکر والوں کی زبان سے پُکارا جو اُس کا نام ہی پڑگیا۔ مسلمانوں سے پہلے اردو صرف بولی جاتی تھی لکھی نہیں جاتی تھی۔ مسلمانوں نے پہلی بار اردو کو عربی رسم الخط میں لکھا۔ یہ وہ عرب مسلم مبلغ تھے جو مستقلاً ہندوستان میں بس گئے جن کی اولاد آج سید، قریشی، صدیقی، ہاشمی، عباسی، ایوبی، کاظمی انصاری، قادری وغیرہ کہلاتی ہیں، آج بھی ’’اردو قوم‘‘ میں عرب نسل کے مسلمان، ہندی و ایرانی نسل کے مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔ ہندستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ۱۸۳۵ء میں انگریزوں نے فارسی کو ہٹا کر اردو کو پہلی مرتبہ پورے ہندوستان کی سرکاری زبان بنادیا۔ جسکے بعد انگریزوں کے حواریوں نے اس زبان کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لئے یہ غلط فہمی پھیلائی، جس کے جواب میں ہندووں نے بھی قوم پرستی میں آکر ہندی کے نام سے اردو میں مزید بہت سی تبدیلیوں کی خواہش کی۔ مثلاً عربی رسم الخط کی تبدیلی، عربی اور فارسی الفاظ کی جگہ مقامی زبانوں کے الفاظ وغیرہ جو انگریزوں نے رد کردی۔ لیکن آج اردو کی وہ تبدیل شدہ شکل ’’ہندی‘‘ بھارت کی قومی زبان ہے۔
البتہ دنیا کے کچھ ماہر لسانیات نے کئی مصنوعی زبانیں بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں جتنی بھی زبانیں بنی ہیں ان میں سے کسی بھی زبان کے الفاظ یا گرامر ایسی نہیں تھی جو بالکل نئی ہو کیونکہ ایسی زبانیں بنانا قرآن کے مطابق اللہ کی شان ہے۔ یہ تمام زبانیں جو اب تک بنی ہے، پہلے سے موجود مختلف قومی زبانوں کی جدید شکلیں کہی جاسکتی ہیں۔ جن میں سے ابھی تک صرف ’’اِسپَرانتو۔ Esperanto‘‘ زبان کامیاب رہی ہے۔ جس کو پوری دنیا کے اتحاد کے لئے ۱۸۸۷ء میں ڈاکٹر زمن ہوف‘‘ نے آسان زبان کے اصول پر بنایا تھا۔ دنیا میں اس زبان کو کافی پذیرائی ملی جس کی وجہ سے بہت سے مسلم اس زبان کو تبلیغی مقاصد کے لئے سیکھتے ہیں۔ اگر دنیا کی اکثریت اِسپرانتو، انگریزی یا کسی اور زبان کو واحد عالمی زبان تسلیم کرلیں تو بھی تمام مسلمین کا فرض ہے کہ وہ عربی لسان کو ہی اپنے درمیان رابطے کی زبان رکھے اور اسی کو عالمی لسان بنانے کی کوشش جاری رکھیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عبرانی اور عربی میں موازنہ:
کئی ماہر لسانیات کے مطابق عبرانی زبان عربی کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور یہ بات عبرانی رسم الخط اور دونوں زبانوں کے ذخیرہ الفاظ اور گرامر سے بھی آسانی سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ مثلاً عربی کا ہر۔س۔ عبرانی میں۔ ش۔ہے۔ ، ب۔و۔ہے، ف۔پ اور کہیں ک۔خ ہے وغیرہ اگر ایسی بہت سے غلطیاں درست کردی جائے تو عبرانی عربی زبان ہی ہے۔ عبرانی چونکہ دواڑھائی سو سال تک ایک مردہ زبان تھی جو انیسویں صدی کے آخری عشرے میں اسرائیلی ریاست کی خاطر زندہ کی گئی۔ اس لئے و ثوق سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا اصل سے کوئی تعلق ہے لیکن عربی ہر زمانے میں مسلسل بولے جانے والی زبان رہی ہے۔ اس لیے عبرانی کا (شین۔ دانت) اصل میں عربی کا سِن۔ دانت) ہے اسی طرح عبرانی (سافاہ۔ ہونٹ) عربی کا شَفَہ۔ ہونٹ( ہے۔ یہودی اپنی نسبت موسیٰ ؑسے کرتے ہیں، قرآن میں لکھا ہے: ’’وَمِنْ قَبْلِہِ کِتَابُ مُوْسَی اِمَاماً وَرَحْمَۃً وَھَذَا کِتَابُُ‘ مُّصَدِّقُ‘ لِّسَاناً عَرَبِیّاً (12) (۴۶: احقاف) اوراس (قرآن) سے قبل موسیٰ کی کتاب امام اور رحمت ہے یہ کتاب تصدیق کرنے والی ہے عربی زبان میں۱۲‘‘ یعنی ان آیات میں اللہ نے یہودیوں کو بھی عربی لسان کی طرف متوجہ کیا کہ وہ عربی پر غور کریں۔ یہودی موسیٰ ؑاور اس کی کتاب کی زبان عبرانی بتاتے ہیں اس کے باوجود انہوں نے کئی صدیوں تک اس مقدس زبان کا استعمال نہیں کیا اور کروڑوں یہودیوں کا ہجرت کے بعد اپنی زبان کو فراموش کرنے کی دلیل بہت کمزور ہے۔ ہر شخص ہجرت کے بعد اپنی مادری زبان فراموش کرکے کوئی ضروری نہیں، اس کی مثال دنیا میں بہت مہاجر قوموں سے دی جاسکتی ہے۔ آج بھی اسرائیل کے چاروں طرف عربی زبان بولی جا رہی ہے اور یہ بات بھی ممکن ہے کہ یہودیوں کے اندر ماضی میں ’’عبرانی رسم الخط‘‘ میں ’’عربی زبان‘‘ ہی بولی جاتی ہو اور بعد اسلام ان یہودیوں نے اس عربی جیسی زبان کو قرآن سے خوفزدہ ہوکر ترک کردیا ہو اسی طرح عیسیٰ ؑکی سریانی زبان کو بھی آج مردہ کہا جاتا ہے جبکہ اناجیلِ اربعہ میں عیسیٰ ؑ کے اصل الفاظ عربی زبان جیسے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا موسیٰ و عیسیٰ ؑ کی زبانوں کو مشکوک بنانے کا مقصد ان کے اصل زبان عربی سے لوگوں کی توجہ اٹھانا ہے۔ آج بھی دنیا میں چھوٹی چھوٹی زبانیں زندہ ہیں جو کم اہمیت کی حامل رہی ہیں مثلاً سرائیکی، ہندکو وغیرہ تو پھر اللہ کے انبیاء ؑ کی زبانیں ناپید ہونا سمجھ سے باہر ہے اور یہ ایک بہت بڑی سازش ہے آج بھی اسرائیل کی سرکاری زبانیں عبرانی کے ساتھ عربی ہونا بھی اس شکوک کو بڑھتا ہے۔ اسرائیل کے اسکولوں، عدالتوں اور آئین ساز اسمبلی میں عبرانی کے ساتھ عربی زبان بھی مشترکہ طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اگر ماضی میں عبرانی و سریانی زبانیں وجود رکھتی بھی ہوں تو وہ عربی سے بہت ملتی جلتی زبانیں ہوں گی لیکن آج جو عبرانی زندہ ہوکر ہمارے سامنے آئی ہے۔ وہ یہودیوں کو متحد کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک ڈرامہ ہے جس کی وجہ سے اکثر مسلمان قرآن میں اکثر الفاظ کو عبرانی زبان کا بتاکر غلط ترجمہ بھی کرتے ہیں جبکہ وہ تمام الفاظ خالص عربی زبان کے ہیں!!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلامی ممالک:
پوری دنیا میں مسلمین کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا بیس فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ یہ تمام آبادی اپنے بچوں کے نام عربی زبان میں رکھتی ہے جو پوری دنیا میں ان کی ایک اسلامی پہچان اور اتحاد کی علامت ہے لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں اکسٹھ (۶۱) اسلامی ممالک میں صرف پچیس (۲۵) اسلامی ممالک کی سرکاری زبان عربی ہے اور باقی چھتیس (۳۶) اسلامی ممالک کی سرکاری زبانیں غیر عربی زبانیں ہیں۔ ان ’’۳۶‘‘ اسلامی ریاستوں کی زبان عربی نہ ہونے کی وجہ ان کی انگریزی، فرانسیوں اور روسیوں کے ہاتھوں سابقہ غلامی اور ان کی قوم پرستی ہیں جبکہ قرآن کریم ہمیں قوم پرستی نہیں بلکہ وحدت پرستی سکھاتا ہے۔ ’’اِنَّ ھَذِھِ اُمُّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً (92: انبیاء:۱۲)
بارہ (۱۲) اسلامی ممالک کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔ (۱) پاکستان (۲) بنگلہ دیش (۳) ملائیشیا (۴) برونائی دارالسلام (۵) یوگنڈا (۶)کیمرون (۷) گمبیا (۸)گھانا (۹) مالدیپ(۱۰) موزمبیق (۱۱) نائجیریا (۱۲) سیرالیون ۔
نو (۹) اسلامی ممالک کی سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔ (۱) بینن (۲)برکینوفاسو(۳)گیبوں (۴) گنی (۵) مالی (۶) نائجیر (۷) سینیگال (۸) ٹو گو (۹) کوٹ دیویئر۔
چھ (۶) اسلامی ممالک کی سرکاری زبان روسی ہے۔ (۱) اُزبکستان (۲)تاجکستان (۳) قازقستان (۴) کرغیزیا (۵) ترکمانیہ (۶)آزربائی جان۔
نو (۹) اسلامی ممالک کی سرکاری زبان اپنی علاقائی زبانیں ہیں۔ (۱)افغانستان [دری، پشتو] ایشیا (۲) انڈونیشیا [بہاسا] (۳) ایران [فارسی] ایشیا (۴) گنی بساؤ [پرتگالی] افریقہ (۵) سورینام [ڈچ] ساؤتھ امریکہ (۶) البانیا [البانین] یورپ (۷) ترکی [ترکش] یورپ (۸) بوسنیا [بوسینین] یورپ (۹)کوسوّو (اقوام متحدہ کے تحت) [سربین] یورپ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عربی رسم الخط:
عربی رسم الخط دنیا کی زبانوں میں استعمال ہونے والا دوسرا سب سے بڑا رسم الخط ہے لیکن خوبصورتی کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے خوبصورت انسانی رسم الخط ہے جس نے دنیا کی کئی مسلم زبانوں کو اپنی خوبصورتی سے مانوس کیا۔ اسی لئے اکثر مسلمین اپنی علاقائی زبانوں میں عربی رسم الخط کو استعمال کرتے ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ (۱) اردو (۲) سندھی (۳)پنجابی (۴)پشتو (۵)بلوچی(۶) سرائیکی (۷) کشمیری(۸) بروہی (۹) ہندکو (۱۰) گلگیتی (۱۱) چترالی (۱۲) فارسی (۱۳) دری (۱۴) آزیری (۱۵) مالی (۱۶)ازبک (۱۷)کرغز (۱۸)اویاگور (۱۹)کُردُش (۲۰) کزخ (۲۱)سواحیلی (۲۲)نوبین (۲۳) اجامی (۲۴)وولف (۲۵)فولانی (۲۶)کمورین (۲۷)بوسنین (۲۸)ہوسا (۲۹)مینڈیکا(۳۰)البانین (۳۱)بربر (۳۲)باشکیر (۳۳)چاگاتائی (۳۴)ترکمین
عربی رسم الخط کا فائدہ یہ ہے کہ عربی پڑھنے اور سیکھنے میں آسان ہوجاتی ہے اسی لئے اکثر مسلمان اپنی علاقائی زبانوں میں عربی رسم الخط استعمال کرتے ہیں اور عربی رسم الخط اپنا کر اسلام اور عربی زبان سے اپنی محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تو کیا مکمل عربی لسان سیکھ کر اس اسلامی محبت کو مزید بڑھایا نہیں جاسکتا؟ اگر ہم کوشش کریں!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عربی کی بین الاقوامی حیثیت:
اینکارٹا انسائیکلو پیڈیا 2008ء کے مطابق عربی زبان کے بولنے والوں کی تعداد اس وقت دنیا میں بیالیس کروڑ (422,039,637) سے بھی زیادہ ہے۔ جس میں مسلم و غیر مسلم عرب دونوں شامل ہیں۔ یہ زبان دجلہ سے لے کر بحرِ اوقیانوس کے کنارے تک بولی جاتی ہے اور تعداد کے اعتبار سے یہ دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ پہلی نمبر پر چینی زبان، چوتھے نمبر پر انگریزی اور بیسویں نمبر پر اردو زبان ہے۔ عربی زبان اسلام کی وجہ سے دنیا کے کم و بیش ہر ملک اور یونیورسٹی میں سمجھی اور پڑھی جاتی ہے۔ جبکہ اس وقت دنیا میں پچیس (۲۵) اسلامی ممالک کی سرکاری اور قومی زبان بھی صرف عربی ہے جس میں بارہ ممالک براعظم ایشیا میں اور تیرہ ممالک براعظم افریقہ میں ہیں۔ جو سب عرب ممالک کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں:۔(۱) عراق (۲)شام (۳)عمان (۴)یمن (۵)متحدہ عرب امارات (۶)بحرین (۷)قطر (۸)اُردن (۹)لبنان (۱۰)کویت (۱۱)ممکۃ العربیۃ السعودیۃ (۱۲) فلسطین (۱۳) مصر (۱۴)صومالیہ (۱۵)لیبیا (۱۶)اریٹیریا (۱۷)چاڑ (۱۸)تیونس (۱۹)الجزائر (۲۰)مراکش (۲۱)وریطانیۃ (۲۲)کموروز (۲۳) جیبوٹی (۲۴)سوڈان (۲۵) صحارا ۔ جبکہ بہت سے دوسری ممالک میں بھی عربی بولنے والے ’’عرب‘‘ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جن میں ایران، فرانس، ترکی، ارجنٹینا، تنزانیہ، امریکہ، نیدر لینڈ، بیلجیئم، مالی وغیرہ شامل ہیں۔
عرب ممالک کی کوششوں سے عربی دنیا کے کئی بڑے اداروں کی سرکاری زبان بھی ہے جیسے سب سے بڑا ادارہ ’’اقوام متحدہ‘‘ (دو سو سے زائد ممالک کی تنظیم) کی چھ منتخب سرکاری زبانیں (۱) عربی (۲)انگریزی (۳)فرانسیسی (۴)روسی (۵)چینی (۶)ہسپانوی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’تنظیم اتحادِ افریقہ‘‘ (۵۰ سے زائد ممالک کی تنظیم) کی تین سرکاری زبانیں (۱) عربی (۲) انگریزی (۳)فرانسیسی ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم ’’منظعۃ المؤتمر الاسلامی‘‘ (۵۷ رکن اور ۴ مبصر ممالک کی تنظیم) کی تین سرکاری زبانیں (۱) عربی (۲) انگریزی (۳) فرانسیسی ہیں۔
جبکہ ’’عرب لیگ‘‘ (۲۵) ممالک کی تنظیم) کی سرکاری زبان صرف ’’عربی‘‘ ہے۔ اس وقت دنیا میں تمام عرب ممالک اقتصادی اعتبار سے بہت مضبوط حیثیت رکھتے ہیں اسی لیے پاکستان کے زیادہ تر لوگ عرب ممالک میں کام کرنے جاتے ہیں ان ممالک میں عربی نہ جاننے کی وجہ سے وہ اپنے ہی مسلم بھائیوں میں اجنبی بن جاتے ہیں اگر پاکستان کی قومی زبان اردو کی بجائے عربی ہوتی تو عرب ممالک سے اچھے رابطہ بھی استوار ہوجاتے اور ہمارا ملک بھی ان کی طرح اقتصادی اعتبار سے امیر ملک بن جاتا اور پاکستانی مسلمانوں کو عربی سیکھانا اتنا مشکل بھی نہیں آخر عربی سے مُتَشابہ ۲ فیصد عوام کی زبان ’’اُردو‘‘ کو بھی ۹۸ فیصد پاکستانی سیکھتے ہی ہیں جن سے ان کو کوئی معاشی فائدہ نہیں بلکہ اُلٹا نقصان ہوتا ہے جبکہ عربی سیکھنے سے ہر پاکستانی کو فائدہ ہے!!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
علاقائی زبانیں:
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں بولی جانے والی کل زبانوں کی تعداد (3824) ہیں۔ یورپ میں (۵۸۷)، ایشیا میں (۹۳۷)، بھارت میں (۴۰۰)، افریقہ میں (۲۷۲) اور دونوں براعظم امریکہ میں (۱۶۳۴) زبانیں بولی جارہی ہیں اگر ہم تمام عرب دنیا کا جغرافیائی جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں صرف عرب ممالک میںعلاقائی زبانوں کی تعداد سب سے کم ہے جبکہ پوری دنیا میں ہر تیس چالیس کلو میٹر کے بعد زبان کی تبدیلی اور لب و لہجہ کا تغیر کا اصول ملتا ہے ۔ مثلاً یورپ کی سرحدیں روس کو چھوڑ کر 5.6 ملین اسکوائر کلومیٹر ہے اور اس پورے خطے میں (۵۸۷) زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح عرب ممالک کی سرحدیں 11 ملین اسکوائر کلو میٹر (یعنی ۴ ملین اسکوائر میل) ہے یعنی عرب ممالک کی سرحدیں یورپ سے دگنی ہیں۔ تبدیلی زبان کے قانون کے تحت یورپ کے مقابلہ میں عرب ممالک میں تقریباً ایک ہزار ایک سو (1100) زبانیں بولی جانی چاہیے۔ لیکن اس دو براعظم پر مشتمل پورے عرب خطے میں علاقائی زبانوں کی تعداد سو (100) سے زیادہ نہیں ہے۔ یعنی دنیا میں کلو میٹر کے حساب سے تبدیلی زبان کا اصول عرب دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ یعنی عرب ممالک میں آغازِ اسلام کے بعد امت واحدۃ کے عقیدہ نے اب تک تقریباً ایک ہزار زبانوں کو بالکل معدوم کردیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی سرحدیں (2) ملین سکوائر کلو میٹر تک ہے جو بھارت سے تقریباً نصف ہے۔ بھارت میں چار سو زبانیں بولی جاتی ہیں تو تبدیلی زبان کے قانون کے تحت سعودیہ میں بھی دو سو زبانیں ہونی چاہئے لیکن اس پورے خطے میں عربی کے علاوہ سعودیہ کی کوئی علاقائی زبان نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ شروع کے مسلمانوں کے نزدیک ہر مسلم کو عربی سیکھنا اور سکھانا فرض تھا۔ بعد میں لوگوں نے اسلام کی محبت میں اپنی علاقائی زبانوں کو بھی ترک کردیا اور اپنے آپ کو اسلامی نسبت سے عربی مسلم کہلایا اور اپنے بچوں کو صرف عربی زبان سکھائی جس کی وجہ سے اس پورے عرب خطے میں علاقائی زبانیں ناپید ہوگئیں۔ یہ سب کام عہدِ رسالت اور عصرِ صحابہؓ کے دور میں ہوا جس کو ’’خیرالقرون‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اللہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں فرماتا ہے۔ : ’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحاً قَرِیْباً (18) (۴۸:الفتح) (اے رسول!) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ ان سے راضی ہوا اور جو ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔۱۸‘‘ ’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْ عَنْہُ اُوْلَئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ (22) (۵۸:مجادلہ) اللہ ان (صحابہ ِ رسول ) سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہیں یہی اللہ کا لشکر ہے۔۲۲۔‘‘مادری زبان کے ساتھ انسان کا جو فطری لگاؤ ہوتا ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ لیکن صحابہ رسولؓ کی دعوت پر دینِ حق کو قبول کرنے والوں نے اس طبعی رجحان کو بھی الٹ کر رکھ دیا۔ اگر اس وقت کے مسلمین اپنی علاقائی زبانوں کو عربی زبان کی خاطر چھوڑ سکتے تھے تو کیا ہماری زبانیں قرآن کی زبان سے بھی زیادہ افضل ہے؟؟؟ جو اسے ہم نہیں چھوڑ سکتے ہیں!!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خلافتِ اسلامی:
اسلامی خلافت کا آغاز 622ء میں یثرب کے شہر سے ہوا۔ جو 630ء میں بڑھ کر مکہ تک پہنچ گیا اور اس پہلی اسلامی ریاست کے سرکاری زبان عربی تھی۔ محمد رسول اللہؐ کی وفات 632ء کے بعد مسلمین کے خلیفہ ابو بکرؓ بنے۔ جنہوں نے اس اسلامی خلافت کو موجودہ عراق اور شام تک پھیلا دیا۔ جس میں ایران کے کچھ شہر بھی شامل تھے، پہلے خلیفہ کی وفات 634ء کے بعد دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب ؓ بنے۔ جنہوں نے اسلامی خلافت کو اسرائیل، مصر، ایران تک پھیلایا، دوسرے خلیفہ کی وفات 644ء کے بعد خلیفہ عثمان غنی ؓ 658ء اور پھر خلیفہ علی ؓ بن ابو طالب 661ء تک رہے۔ اس کے بعد اسلامی خلافت میں کئی اچھے برے خلیفہ آئے اور کسی نہ کسی قسم میں یہ اسلامی خلافت 1922ء تک برقرار رہی۔ مگر ترکوں کی قوم پرستی کی وجہ سے اس عظیم اسلامی خلافت کا خاتمہ ہوگیا جو رسول اللہؐ کے دور سے جاری تھی۔ جب (40) سے زیادہ یورپی ممالک ایک ’’یورپ‘‘ ملک میں بدل سکتے ہیں تو اسلامی ممالک کیوں نہیں ایک ’’اسلامی خلافت‘‘ ملک میں بدلے سکتے؟ جبکہ اللہ کا وعدہ ہے۔ ’’وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (55) (۲۴:النور) جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور صالح عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین کا خلیفہ بنادے گا جیسا ان سے قبل لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔۵۵۔‘‘ اگر اس زمین پر یورپی طرز پر پھر سے ایک ’’عظیم اسلامی خلافت‘‘ کے اتحاد کا آغاز
ہوا تو ان شاء اللہ اس ’’عظیم عالمی ریاست ‘‘ کی بھی سرکاری قومی زبان صرف ’’عربی‘‘ ہی ہوگی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس مقالہ میں قوت استنباط اور جدت فکر کو عربی زبان کی محبت کے لیے جس طرح استعمال کیا گیا ہے قابل تعریف ہے
 
Top