محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
زبانوں کے بارے میں چند غلط فہمیاں:
مثلاً لوگوں میں غلط فہمی ڈالی گئی ہے کہ انگریزی ہی دنیا کی واحد عالمی زبان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے ماضی میں جن ممالک پر حکمرانی کی ہے۔ صر ان ممالک کی سرکاری زبان انگریزی ہے جن کی تعداد (۵۷) ہے۔ جو تمام ’’دولتِ مشترکہ‘‘ کے ممبرز بھی ہیں جن کے ذریعے آج بھی انگریز ان پر حکومت کرتا ہے۔ دنیا میں برطانیہ کی ریاست انگلینڈ کے علاوہ کسی ریاست میں ۸۰ فیصد سے زیادہ انگریزی نہیں بولی جاتی ہے۔ پاکستان میں دو سو سال سے زائد عرصے تک سرکاری زبان رہنے کے باوجود آج تک انگریزی عوامی زبان نہیں بن سکی، اب تک صرف تعلیم یافتہ لوگ مجبوراً انگریزی سیکھتے ہیں اور تقریباً یہی حال پوری دنیا میں انگریزی زبان کے ماتحت ممالک کا ہے۔ پاکستان میں انگریزی کی ناکامی کی وجہ اس کا مشکل لہجہ، بے قاعدہ گرامر، بہت سی زبانوں کے الفاظ کی ملاوٹ ہے اور انگریزی زبان سے کوئی زمینی، تہذیبی اور دینی رشتہ کا نہ ہونا بھی اس کی ناکامی کے بہت بڑے اسباب ہیں۔
انگریزوں کی طرح ہسپانویوں، فرانسیسیوں اور دوسری بہت سی قوموں نے دنیا کے بہت سے علاقوں پر حکومت کی۔ اسی لئے دنیا کے بہت سے ممالک کی سرکاری زبانیں مختلف ہیں۔ جیسے (31) ممالک کی سرکاری زبان ’’ہسپانوی‘‘، (26) ’’عربی‘‘، (21) ’’فرانسیسی‘‘، (10) ’’پرتگالی‘‘، (5) ’’جرمن‘‘ اور (2) ممالک کی سرکاری زبان ’’چینی‘‘ ہے۔
دوسری غلط فہمی اردو کے بارے میں پھیلائی جاتی ہے کہ اردو ایک مصنوعی زبان ہے جوکہ غلط ہے اور یہ بات قرآن کی آیت (۲۲:۳۰) کے خلاف بھی ہے اور نہ ہی تاریخ میں کسی شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اردو اس کی ایجاد ہے۔ قرآن کی آیت (۱۴:۴) کے مطابق اللہ نے ہر قوم کو ایک زبان دی ہے۔ ہندوستان میں صوبہ یو پی اور اس کے اطراف کے تمام گاؤں میں صرف اردو/ہندی بولتے ہیں بقول ان کے اردو ان کی مادری زبان ہے۔ یہ دعویٰ ہندستان کا کوئی دوسرا صوبہ نہیں کرتا ہے اگر یہ ان لوگوں کی زبان نہیں تو یو پی کے لوگوں کی زبان کونسی تھی؟ جبکہ ہندستان پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ حکومت میں اردو کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ اردو زبان کا نام بھی زبان کی ناواقفی سے پڑا۔ فارسی اور ترکی میں اردو کے معنی لشکر اور چھاؤنی کے ہیں۔ مسلمانوں کے دور میں لشکر میں زیادہ تر دہلی، یوپی کے مقامی لوگ ہوتے تھے تو مسلمانوں نے دہلوی زبان کو ’’زبانِ اُردو‘‘ یعنی لشکر والوں کی زبان سے پُکارا جو اُس کا نام ہی پڑگیا۔ مسلمانوں سے پہلے اردو صرف بولی جاتی تھی لکھی نہیں جاتی تھی۔ مسلمانوں نے پہلی بار اردو کو عربی رسم الخط میں لکھا۔ یہ وہ عرب مسلم مبلغ تھے جو مستقلاً ہندوستان میں بس گئے جن کی اولاد آج سید، قریشی، صدیقی، ہاشمی، عباسی، ایوبی، کاظمی انصاری، قادری وغیرہ کہلاتی ہیں، آج بھی ’’اردو قوم‘‘ میں عرب نسل کے مسلمان، ہندی و ایرانی نسل کے مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔ ہندستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ۱۸۳۵ء میں انگریزوں نے فارسی کو ہٹا کر اردو کو پہلی مرتبہ پورے ہندوستان کی سرکاری زبان بنادیا۔ جسکے بعد انگریزوں کے حواریوں نے اس زبان کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لئے یہ غلط فہمی پھیلائی، جس کے جواب میں ہندووں نے بھی قوم پرستی میں آکر ہندی کے نام سے اردو میں مزید بہت سی تبدیلیوں کی خواہش کی۔ مثلاً عربی رسم الخط کی تبدیلی، عربی اور فارسی الفاظ کی جگہ مقامی زبانوں کے الفاظ وغیرہ جو انگریزوں نے رد کردی۔ لیکن آج اردو کی وہ تبدیل شدہ شکل ’’ہندی‘‘ بھارت کی قومی زبان ہے۔
البتہ دنیا کے کچھ ماہر لسانیات نے کئی مصنوعی زبانیں بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں جتنی بھی زبانیں بنی ہیں ان میں سے کسی بھی زبان کے الفاظ یا گرامر ایسی نہیں تھی جو بالکل نئی ہو کیونکہ ایسی زبانیں بنانا قرآن کے مطابق اللہ کی شان ہے۔ یہ تمام زبانیں جو اب تک بنی ہے، پہلے سے موجود مختلف قومی زبانوں کی جدید شکلیں کہی جاسکتی ہیں۔ جن میں سے ابھی تک صرف ’’اِسپَرانتو۔ Esperanto‘‘ زبان کامیاب رہی ہے۔ جس کو پوری دنیا کے اتحاد کے لئے ۱۸۸۷ء میں ڈاکٹر زمن ہوف‘‘ نے آسان زبان کے اصول پر بنایا تھا۔ دنیا میں اس زبان کو کافی پذیرائی ملی جس کی وجہ سے بہت سے مسلم اس زبان کو تبلیغی مقاصد کے لئے سیکھتے ہیں۔ اگر دنیا کی اکثریت اِسپرانتو، انگریزی یا کسی اور زبان کو واحد عالمی زبان تسلیم کرلیں تو بھی تمام مسلمین کا فرض ہے کہ وہ عربی لسان کو ہی اپنے درمیان رابطے کی زبان رکھے اور اسی کو عالمی لسان بنانے کی کوشش جاری رکھیں۔
مثلاً لوگوں میں غلط فہمی ڈالی گئی ہے کہ انگریزی ہی دنیا کی واحد عالمی زبان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے ماضی میں جن ممالک پر حکمرانی کی ہے۔ صر ان ممالک کی سرکاری زبان انگریزی ہے جن کی تعداد (۵۷) ہے۔ جو تمام ’’دولتِ مشترکہ‘‘ کے ممبرز بھی ہیں جن کے ذریعے آج بھی انگریز ان پر حکومت کرتا ہے۔ دنیا میں برطانیہ کی ریاست انگلینڈ کے علاوہ کسی ریاست میں ۸۰ فیصد سے زیادہ انگریزی نہیں بولی جاتی ہے۔ پاکستان میں دو سو سال سے زائد عرصے تک سرکاری زبان رہنے کے باوجود آج تک انگریزی عوامی زبان نہیں بن سکی، اب تک صرف تعلیم یافتہ لوگ مجبوراً انگریزی سیکھتے ہیں اور تقریباً یہی حال پوری دنیا میں انگریزی زبان کے ماتحت ممالک کا ہے۔ پاکستان میں انگریزی کی ناکامی کی وجہ اس کا مشکل لہجہ، بے قاعدہ گرامر، بہت سی زبانوں کے الفاظ کی ملاوٹ ہے اور انگریزی زبان سے کوئی زمینی، تہذیبی اور دینی رشتہ کا نہ ہونا بھی اس کی ناکامی کے بہت بڑے اسباب ہیں۔
انگریزوں کی طرح ہسپانویوں، فرانسیسیوں اور دوسری بہت سی قوموں نے دنیا کے بہت سے علاقوں پر حکومت کی۔ اسی لئے دنیا کے بہت سے ممالک کی سرکاری زبانیں مختلف ہیں۔ جیسے (31) ممالک کی سرکاری زبان ’’ہسپانوی‘‘، (26) ’’عربی‘‘، (21) ’’فرانسیسی‘‘، (10) ’’پرتگالی‘‘، (5) ’’جرمن‘‘ اور (2) ممالک کی سرکاری زبان ’’چینی‘‘ ہے۔
دوسری غلط فہمی اردو کے بارے میں پھیلائی جاتی ہے کہ اردو ایک مصنوعی زبان ہے جوکہ غلط ہے اور یہ بات قرآن کی آیت (۲۲:۳۰) کے خلاف بھی ہے اور نہ ہی تاریخ میں کسی شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اردو اس کی ایجاد ہے۔ قرآن کی آیت (۱۴:۴) کے مطابق اللہ نے ہر قوم کو ایک زبان دی ہے۔ ہندوستان میں صوبہ یو پی اور اس کے اطراف کے تمام گاؤں میں صرف اردو/ہندی بولتے ہیں بقول ان کے اردو ان کی مادری زبان ہے۔ یہ دعویٰ ہندستان کا کوئی دوسرا صوبہ نہیں کرتا ہے اگر یہ ان لوگوں کی زبان نہیں تو یو پی کے لوگوں کی زبان کونسی تھی؟ جبکہ ہندستان پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ حکومت میں اردو کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ اردو زبان کا نام بھی زبان کی ناواقفی سے پڑا۔ فارسی اور ترکی میں اردو کے معنی لشکر اور چھاؤنی کے ہیں۔ مسلمانوں کے دور میں لشکر میں زیادہ تر دہلی، یوپی کے مقامی لوگ ہوتے تھے تو مسلمانوں نے دہلوی زبان کو ’’زبانِ اُردو‘‘ یعنی لشکر والوں کی زبان سے پُکارا جو اُس کا نام ہی پڑگیا۔ مسلمانوں سے پہلے اردو صرف بولی جاتی تھی لکھی نہیں جاتی تھی۔ مسلمانوں نے پہلی بار اردو کو عربی رسم الخط میں لکھا۔ یہ وہ عرب مسلم مبلغ تھے جو مستقلاً ہندوستان میں بس گئے جن کی اولاد آج سید، قریشی، صدیقی، ہاشمی، عباسی، ایوبی، کاظمی انصاری، قادری وغیرہ کہلاتی ہیں، آج بھی ’’اردو قوم‘‘ میں عرب نسل کے مسلمان، ہندی و ایرانی نسل کے مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔ ہندستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ۱۸۳۵ء میں انگریزوں نے فارسی کو ہٹا کر اردو کو پہلی مرتبہ پورے ہندوستان کی سرکاری زبان بنادیا۔ جسکے بعد انگریزوں کے حواریوں نے اس زبان کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لئے یہ غلط فہمی پھیلائی، جس کے جواب میں ہندووں نے بھی قوم پرستی میں آکر ہندی کے نام سے اردو میں مزید بہت سی تبدیلیوں کی خواہش کی۔ مثلاً عربی رسم الخط کی تبدیلی، عربی اور فارسی الفاظ کی جگہ مقامی زبانوں کے الفاظ وغیرہ جو انگریزوں نے رد کردی۔ لیکن آج اردو کی وہ تبدیل شدہ شکل ’’ہندی‘‘ بھارت کی قومی زبان ہے۔
البتہ دنیا کے کچھ ماہر لسانیات نے کئی مصنوعی زبانیں بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں جتنی بھی زبانیں بنی ہیں ان میں سے کسی بھی زبان کے الفاظ یا گرامر ایسی نہیں تھی جو بالکل نئی ہو کیونکہ ایسی زبانیں بنانا قرآن کے مطابق اللہ کی شان ہے۔ یہ تمام زبانیں جو اب تک بنی ہے، پہلے سے موجود مختلف قومی زبانوں کی جدید شکلیں کہی جاسکتی ہیں۔ جن میں سے ابھی تک صرف ’’اِسپَرانتو۔ Esperanto‘‘ زبان کامیاب رہی ہے۔ جس کو پوری دنیا کے اتحاد کے لئے ۱۸۸۷ء میں ڈاکٹر زمن ہوف‘‘ نے آسان زبان کے اصول پر بنایا تھا۔ دنیا میں اس زبان کو کافی پذیرائی ملی جس کی وجہ سے بہت سے مسلم اس زبان کو تبلیغی مقاصد کے لئے سیکھتے ہیں۔ اگر دنیا کی اکثریت اِسپرانتو، انگریزی یا کسی اور زبان کو واحد عالمی زبان تسلیم کرلیں تو بھی تمام مسلمین کا فرض ہے کہ وہ عربی لسان کو ہی اپنے درمیان رابطے کی زبان رکھے اور اسی کو عالمی لسان بنانے کی کوشش جاری رکھیں۔