• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"اللطيف" کی تفسیر چاھیے.

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسم مبارک "اللطيف" کی تفسير چاھیے.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ یہاں پر دیکھ لیجیئے!
جزاك الله خير الجزاء،
اس اسم مبارک کا ایک مفہوم "باریک بیں" بھی ہے. اس حوالے سے عربی متن کے ساتھ شرح ملے تو بہت اچھا ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اوہ، عربی متن کے ساتھ اردو زبان میں شرح..... چاھیے.
یہ لکھنا تھا. اردو زبان میں بھی دیجئے.
"لطیف " عربی زبان میں :
صفة مشبَّهة تدلّ على الثبوت من لطَفَ یعنی یہ اسم صفت مشبہہ ہے ، جو اس صفت کے ہمیشہ قائم رہنے پر دلالت کرتی ہے ، یعنی دوام و ہمیشگی کا مفہوم دیتی ہے ،مطلب یہ کہ اللہ کا لطف حقیقی اور ہمیشہ قائم و دائم ہے نہ کہ عارضی اور وقتی ، جیسے " علیم " جو اس کے علم کے دوام و ثبوت پر دلالت کرتا ہے ،
اس کا علم تمام خفیہ معاملات اور اسرار کو محیط ہے۔ وہ پوشیدہ اشیاء، ہر کسی کے باطن اور باریک معاملات سے باخبر ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنے مومن بندوں پر لطف وکرم کرنے والا ہے۔ اس لطف واحسان کی وجہ سے وہ ان تک ان کے فائدے کی اشیاء اس انداز سے پہنچادیتا ہے کہ انھیں معلوم بھی نہیں ہوتا۔
الأول : أن الله يعلم دقائق الأمور وخفاياها ، وما في الضمائر والصدور .
قال الشيخ عبد الرحمن السعدي شارحاً معنى هذا الاسم : " الذي لَطُفَ علمه حتى أدرك الخفايا ، والخبايا ، وما احتوت عليه الصدور، وما في الأراضي من خفايا البذور "
انتهى من "تفسير أسماء الله الحسنى " للسعدي (ص: 225)

یعنی اللہ تعالی اسم " اللطیف " کے دو بنیادی معانی ہیں ،
پہلا یہ کہ :اللہ کریم مخفی ،اور دقیق امور جانتا ہے ،قلوب و ضمائر کی پوشیدہ باتوں اور رازوں سے خوب آگاہ اور باخبر ہے ۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں باریک بین کہاجاتا ہے ۔
شیخ عبدالرحمن السعدیؒ لکھتے ہیں :وہ نہایت باریک بین، خبر دار ہے “ یعنی جس کا علم اور خبر بہت باریک اور دقیق ہے حتیٰ کہ اسرار نہاں، چھپی ہوئی چیزوں اور باطن کا بھی ادراک اور زمین کے اندر پوشیدہ بیج اور تخم تک کی حالت و کیفیت کا علم رکھتا ہے ،

المعنى الثاني : أن الله تعالى يحسن إلى عباده من حيث لا يحتسبون .
قال الزجاج : " وَهُوَ فِي وصف الله يُفِيد أَنه المحسن إِلَى عباده فِي خَفَاء وَستر من حَيْثُ لَا يعلمُونَ ، ويسبب لَهُم أَسبَاب معيشتهم من حَيْثُ لَا يحتسبون " .

انتهى " تفسير أسماء الله الحسنى " للزجاج (ص: 44)
اس اسم کا دوسرا معنی یہ ہے کہ : اللہ عزوجل اپنے بندوں سے احسان و عطا کا معاملہ کچھ ایسے کرتا ہے کہ اسے سمجھنا ان کے گمان و اندازوں کی سرحد سے باہرہوتا ہے ۔
عربی زبان اور تفسیر کےمشہور جید امام أَبُو إِسْحَاق إِبْرَاهِيم بن السّري الزّجاج رَحمَه الله(المتوفی 311ھ) فرماتے ہیں :یہ اللہ تعالی کا وصف ہے ،جس کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں پرپردے اور ستر میں لطف و احسان کرتا رہتا ہے ،اس لطف و کرم کے اسباب و کیفیت کو سمجھنا بندوں کے بس کی بات نہیں ،ان کے اسباب حیات و معاش ان کے گمان و ادراک سےورے انہیں بہم پہنچاتا ہے ،
https://islamqa.info/ar/answers/214374/
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
"لطیف " عربی زبان میں :
صفة مشبَّهة تدلّ على الثبوت من لطَفَ یعنی یہ اسم صفت مشبہہ ہے ، جو اس صفت کے ہمیشہ قائم رہنے پر دلالت کرتی ہے ، یعنی دوام و ہمیشگی کا مفہوم دیتی ہے ،مطلب یہ کہ اللہ کا لطف حقیقی اور ہمیشہ قائم و دائم ہے نہ کہ عارضی اور وقتی ، جیسے " علیم " جو اس کے علم کے دوام و ثبوت پر دلالت کرتا ہے ،
اس کا علم تمام خفیہ معاملات اور اسرار کو محیط ہے۔ وہ پوشیدہ اشیاء، ہر کسی کے باطن اور باریک معاملات سے باخبر ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنے مومن بندوں پر لطف وکرم کرنے والا ہے۔ اس لطف واحسان کی وجہ سے وہ ان تک ان کے فائدے کی اشیاء اس انداز سے پہنچادیتا ہے کہ انھیں معلوم بھی نہیں ہوتا۔
الأول : أن الله يعلم دقائق الأمور وخفاياها ، وما في الضمائر والصدور .
قال الشيخ عبد الرحمن السعدي شارحاً معنى هذا الاسم : " الذي لَطُفَ علمه حتى أدرك الخفايا ، والخبايا ، وما احتوت عليه الصدور، وما في الأراضي من خفايا البذور "
انتهى من "تفسير أسماء الله الحسنى " للسعدي (ص: 225)

یعنی اللہ تعالی اسم " اللطیف " کے دو بنیادی معانی ہیں ،
پہلا یہ کہ :اللہ کریم مخفی ،اور دقیق امور جانتا ہے ،قلوب و ضمائر کی پوشیدہ باتوں اور رازوں سے خوب آگاہ اور باخبر ہے ۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں باریک بین کہاجاتا ہے ۔
شیخ عبدالرحمن السعدیؒ لکھتے ہیں :وہ نہایت باریک بین، خبر دار ہے “ یعنی جس کا علم اور خبر بہت باریک اور دقیق ہے حتیٰ کہ اسرار نہاں، چھپی ہوئی چیزوں اور باطن کا بھی ادراک اور زمین کے اندر پوشیدہ بیج اور تخم تک کی حالت و کیفیت کا علم رکھتا ہے ،

المعنى الثاني : أن الله تعالى يحسن إلى عباده من حيث لا يحتسبون .
قال الزجاج : " وَهُوَ فِي وصف الله يُفِيد أَنه المحسن إِلَى عباده فِي خَفَاء وَستر من حَيْثُ لَا يعلمُونَ ، ويسبب لَهُم أَسبَاب معيشتهم من حَيْثُ لَا يحتسبون " .

انتهى " تفسير أسماء الله الحسنى " للزجاج (ص: 44)
اس اسم کا دوسرا معنی یہ ہے کہ : اللہ عزوجل اپنے بندوں سے احسان و عطا کا معاملہ کچھ ایسے کرتا ہے کہ اسے سمجھنا ان کے گمان و اندازوں کی سرحد سے باہرہوتا ہے ۔
عربی زبان اور تفسیر کےمشہور جید امام أَبُو إِسْحَاق إِبْرَاهِيم بن السّري الزّجاج رَحمَه الله(المتوفی 311ھ) فرماتے ہیں :یہ اللہ تعالی کا وصف ہے ،جس کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں پرپردے اور ستر میں لطف و احسان کرتا رہتا ہے ،اس لطف و کرم کے اسباب و کیفیت کو سمجھنا بندوں کے بس کی بات نہیں ،ان کے اسباب حیات و معاش ان کے گمان و ادراک سےورے انہیں بہم پہنچاتا ہے ،
https://islamqa.info/ar/answers/214374/
اللہ تعالیٰ آپ پر لطف و کرم کی بارش کر دے آمین.

ایک ادھوری سی کوشش یہ کی تھی.
وهو اللطيف بعبده ولعبده ... وہی اپنے بندے کے معاملات میں باریک بیں ہے اور بندے پر کرم کرنے والا

واللُطف في أوصافه نوعان... اسکے لطف و کرم کی دو انواع ہیں

إدراك أسرار الأمور بخبرةٍ ... وہ اسرار و رموز اور مخفی امور اور معاملات کے منطقی انجام سے واقف ہے

واللطف عند مواقع الإحسان... بڑے ہی لطیف انداز میں وہ اپنے ایماندار بندوں پر مہربانی کرتا ہے

فيريك عزَّته و يُبدي لطفه ...
والعبد في الغفلات عن ذا الشَّان... اور بندہ ہے کہ اس ذات کی شان و عظمت سے غافل رہتا ہے.

وقد أفاض الشيخ عبد الرحمن السعدي في بيان صور وحالات من لطف الله بعباده في رسالته " تفسير أسماء الله الحسنى " (ص: 225) .
 
Top