علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک شاذ روایت کو بطور شاہد سامنے رکھ کر تصحیح کی ہے لیکن غالبا علامہ البانی رحمہ اللہ پر اس روایت کا شذوذ واضح نہیں ہوسکا کیونکہ خود علامہ ہی کے اصولوں کی روشنی میں یہ روایت شاذ و مردود ہے ۔
کوئی اگلا سوال اٹھانے سے قبل یہ بھی واضح کردیا جائے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کی تحسین کی ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تحسین کی بنیاد ایک ایسے شاہد کو بنایا ہے جس کا حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے ، اس اجمال کی تفصیل اصل موضوع میں موجود ہے۔
میں نے اصل مضمون میں تینوں شخصیات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، علامہ البانی رحمہ اللہ ، حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے دلائل کا جائزہ لیا ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے موقف کا رد پوسٹ نمبر 7 میں ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کے موقف کا رد پوسٹ نمبر 6 میں ہے۔
اور حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے موقف کا رد پوسٹ نمبر 5 میں ہے۔
لیکن میں نے ان شخصیات کا نام نہیں لیا تھا ، ہاں اردو مجلس کے ایک دوست سے دوران گفتگو میں نے بہت پہلے یہ صراحت کی تھی کی اس مضمون میں فلاں فلاں شخصیات پر رد ہے لیکن میں نے ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھا اس پر ہمارے فاضل دوست نے ہمارے اس طرزعمل کی تحسین کی تھی ۔
مگر اب تک کے تجربے سے میں نے یہی سیکھا ہے کہ جب بھی رد کیا جائے تو شخصیتوں کا نام صراحت کے ساتھ لینا چاہئے تاکہ رد پڑھنے اور سننے والا اچھی طرح جان لے کہ فلاں فلاں کا موقف اور ان کے دلائل کو بھی رد کرنے والے نے دیکھ لیا ہے ۔ بصورت دیگر سامع یا قاری کی پوری تسلی نہیں ہوتی ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ رد کرنے والے نے فلاں فلاں کی تحقیق دیکھی ہی نہیں بلکہ بسا اوقات تو پور رد پڑھنے اور سننے کے بعد یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں نے اس کو صحیح کہا ہے لیکن اگر دوران رد ہی نام لے کر رد کردیا جائے تو سامع یا قاری اختلاف کرنے کے باوجود بھی محض تصحیح کا حوالہ نہیں دیتا بلکہ یا تو خاموش ہوتا ہے یا دلائل کی روشنی میں بات کرتا ہے۔