ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
اللہ الصمد اور ایمان و مومن
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تفسیر سورة الاخلاص میں ’’صمد‘‘ کی تعریف میں فرماتے ہیں: صمد وہ ہے جس میں نہ تو کوئی چیز داخل کی جا سکے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز نکالی جا سکے۔ (مفہوماً)۔
چنانچہ اللہ رب العزت جو کہ ’’الصمد‘‘ ہے، نے دین اسلام نازل فرمایا ہے، اس کی بنیاد ’’توحید‘‘ پر ہے خصوصاً ’’توحید اُلوہیت‘‘ پر۔ مثلاً:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (سورة النحل:36)
اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو۔ (ترجمہ از جالندھری)۔
عبادت کسی بھی قسم کی ہو اُس کا تعلق توحید کی قسم ’’اُلوہیت‘‘ کے ساتھ ہے۔
یہاں پر یہ آیت ذکر کرنے کے دو مقصد ہیں۔
1۔ الصمد نے یہ دین نازل فرمایا، جس طرح اُس ذات (الصمد) میں سے کوئی چیز نکالی جا سکتی ہے اور نہ داخل کی جا سکتی ہے، بعینہٖ اُس کے نازل کردہ دین (اسلام) میں سے نہ تو کوئی چیز داخل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی نکالی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورة الحجر:۹)۔
بےشک یہ ذکر (کتاب و سنت) ہم ہی نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
2۔ طاغوت ہمیشہ سرکشی کرتا ہے اور وہ (شیطانی شکل میں ہو یا انسانی شکل میں) ہمیشہ سے یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ جو کوئی بھی اسلام کی بنیاد ’’توحید اُلوہیت‘‘ کی دعوت دے اُس کی ذات میں رخنہ ڈالے۔ اگر تو وہ شیطانی طاغوت ہے تو وہ وساوس سے کام چلائے گا اور ’’داعی‘‘ کی ذات کے متعلق دوسرے لوگوں کےدلوںمیں بھی وساوس ڈالے گا اور اس ’’دعوت‘‘ کو روکنے کی کوشش کرے گا۔
اگر طاغوت کا تعلق انسانی کنبے سے ہے تو وہ اُس شخص کو ’’فزیکلی‘‘ روکے گا جو خالص ’’توحید اُلوہیت‘‘ کی دعوت دے گا۔
طاغوت ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور وہ اپنی جماعت اور جماعت میں آئے بغیر بھی انسانی ہمنوا بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ چاہے اُس کے لئے ملمع ساز فیکٹریوں سے درآمد شدہ نئی نئی اصطلاحات ہوں، یا ’’کمپرومائز‘‘ کا سبق۔ چاہے وہ ’’لچک‘‘ ہو یا عملی طور پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی پٹائی۔
مگر ان سب چیزوں کے باوجود ’’اخلاص پر مبنی‘‘ ایمان والے بندے طاغوت کے نرغے میں نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۔ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ (سورة ص: 82-83)
(رب ذوالجلال سے طواغیت کا سردار) کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا۔ سوا ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں۔
خلاصہ کلام: جو بھی شخص، جماعت، گروہ یا ملت اخلاص کے ساتھ خالصتاً توحید اُلوہیت کی بنیاد پر کھڑے ہونا چاہیے اُن میں نہ تو کوئی چیز اسلام کے علاوہ داخل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اُن میں سے کچھ نکالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہی اُن کے رُب کی شان ہے۔ یہی اُن کے دین و ایمان کی بھی یہی شان ہے۔
ایک مومن شخص توحید اُلوہیت پر کبھی بھی لچک نہیں دکھلاتا، نہ مصلحت کا شکار ہوتا ہے، نہ سمجھوتا کرتا ہے اور نہ ہی طاغوت کے سامنے جھکتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے:
ع مرنے کے بعد بھی ہے تو جاوداں اے مسلماں
تحریر: محمد آصف مغل
چنانچہ اللہ رب العزت جو کہ ’’الصمد‘‘ ہے، نے دین اسلام نازل فرمایا ہے، اس کی بنیاد ’’توحید‘‘ پر ہے خصوصاً ’’توحید اُلوہیت‘‘ پر۔ مثلاً:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (سورة النحل:36)
اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو۔ (ترجمہ از جالندھری)۔
عبادت کسی بھی قسم کی ہو اُس کا تعلق توحید کی قسم ’’اُلوہیت‘‘ کے ساتھ ہے۔
یہاں پر یہ آیت ذکر کرنے کے دو مقصد ہیں۔
1۔ الصمد نے یہ دین نازل فرمایا، جس طرح اُس ذات (الصمد) میں سے کوئی چیز نکالی جا سکتی ہے اور نہ داخل کی جا سکتی ہے، بعینہٖ اُس کے نازل کردہ دین (اسلام) میں سے نہ تو کوئی چیز داخل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی نکالی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورة الحجر:۹)۔
بےشک یہ ذکر (کتاب و سنت) ہم ہی نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
2۔ طاغوت ہمیشہ سرکشی کرتا ہے اور وہ (شیطانی شکل میں ہو یا انسانی شکل میں) ہمیشہ سے یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ جو کوئی بھی اسلام کی بنیاد ’’توحید اُلوہیت‘‘ کی دعوت دے اُس کی ذات میں رخنہ ڈالے۔ اگر تو وہ شیطانی طاغوت ہے تو وہ وساوس سے کام چلائے گا اور ’’داعی‘‘ کی ذات کے متعلق دوسرے لوگوں کےدلوںمیں بھی وساوس ڈالے گا اور اس ’’دعوت‘‘ کو روکنے کی کوشش کرے گا۔
اگر طاغوت کا تعلق انسانی کنبے سے ہے تو وہ اُس شخص کو ’’فزیکلی‘‘ روکے گا جو خالص ’’توحید اُلوہیت‘‘ کی دعوت دے گا۔
طاغوت ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور وہ اپنی جماعت اور جماعت میں آئے بغیر بھی انسانی ہمنوا بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ چاہے اُس کے لئے ملمع ساز فیکٹریوں سے درآمد شدہ نئی نئی اصطلاحات ہوں، یا ’’کمپرومائز‘‘ کا سبق۔ چاہے وہ ’’لچک‘‘ ہو یا عملی طور پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی پٹائی۔
مگر ان سب چیزوں کے باوجود ’’اخلاص پر مبنی‘‘ ایمان والے بندے طاغوت کے نرغے میں نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۔ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ (سورة ص: 82-83)
(رب ذوالجلال سے طواغیت کا سردار) کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا۔ سوا ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں۔
خلاصہ کلام: جو بھی شخص، جماعت، گروہ یا ملت اخلاص کے ساتھ خالصتاً توحید اُلوہیت کی بنیاد پر کھڑے ہونا چاہیے اُن میں نہ تو کوئی چیز اسلام کے علاوہ داخل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اُن میں سے کچھ نکالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہی اُن کے رُب کی شان ہے۔ یہی اُن کے دین و ایمان کی بھی یہی شان ہے۔
ایک مومن شخص توحید اُلوہیت پر کبھی بھی لچک نہیں دکھلاتا، نہ مصلحت کا شکار ہوتا ہے، نہ سمجھوتا کرتا ہے اور نہ ہی طاغوت کے سامنے جھکتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے:
ع مرنے کے بعد بھی ہے تو جاوداں اے مسلماں
تحریر: محمد آصف مغل