- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
عن أبي إسحاق الفزاري عن سفيان الثوري قال: البكاء عشرة أجزاء: جزء لله، وتسعة لغير الله، فإذا جاء الذي لله في العام مرة فهو كثير. سیر اعلام النبلاء، جلد7، ص258
ابو اسحاق فزاری سے روایت ہے کہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا: رونے کے دس قسمیں ہیں، ان دس میں سے ایک اللہ کے لیے ہے اور نو غیر اللہ کے لیے۔ پس اگر سال میں بھی ایک مرتبہ اللہ کے لیے رونے والی صورت حاصل ہو جائے تو بہت کافی ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس قول میں انسان کے رونے کے اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر انسان کو دس مرتبہ رونا آئے تو ان دس میں سے ایک مرتبہ اللہ کے لیے ہوتا ہے اور نو مرتبہ کے اسباب اللہ کی خشیت کے علاوہ ہوتے ہیں۔ دوسری بات جو انہوں نے کی وہ یہ ہے کہ اخلاص یعنی خالصتا اللہ کے لیے رونا اگرچہ یہ نادر ہے لیکن اتنا قیمتی ہے کہ اگر سال میں ایک بار بھی حاصل ہو جائے تو انسان کو اطمینان حاصل ہو جانا چاہیے کہ اسے بڑی چیز حاصل ہو گئی ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی ایسی ہی روایت اپنی کتاب ’الزھد‘ میں نقل کی ہے۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سلف صرفاس بات سے مطمئن نہیں ہو جاتے تھے کہ ہمیں رونا زیادہ آتا ہے بلکہ وہ اپنے رونے کا بھی نفسیاتی تجزیہ کرتے تھے اور گہرائی میں اس کے اسباب تلاش کرتے تھے تا کہ محض آنسو بہا لینا شیطان کی طرف سے اس نفسیاتی تسکین کا موجب نہ بن جائے کہ میں گناہوں سے پاک ہو گیا ہوں۔
ابو اسحاق فزاری سے روایت ہے کہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا: رونے کے دس قسمیں ہیں، ان دس میں سے ایک اللہ کے لیے ہے اور نو غیر اللہ کے لیے۔ پس اگر سال میں بھی ایک مرتبہ اللہ کے لیے رونے والی صورت حاصل ہو جائے تو بہت کافی ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس قول میں انسان کے رونے کے اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر انسان کو دس مرتبہ رونا آئے تو ان دس میں سے ایک مرتبہ اللہ کے لیے ہوتا ہے اور نو مرتبہ کے اسباب اللہ کی خشیت کے علاوہ ہوتے ہیں۔ دوسری بات جو انہوں نے کی وہ یہ ہے کہ اخلاص یعنی خالصتا اللہ کے لیے رونا اگرچہ یہ نادر ہے لیکن اتنا قیمتی ہے کہ اگر سال میں ایک بار بھی حاصل ہو جائے تو انسان کو اطمینان حاصل ہو جانا چاہیے کہ اسے بڑی چیز حاصل ہو گئی ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی ایسی ہی روایت اپنی کتاب ’الزھد‘ میں نقل کی ہے۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سلف صرفاس بات سے مطمئن نہیں ہو جاتے تھے کہ ہمیں رونا زیادہ آتا ہے بلکہ وہ اپنے رونے کا بھی نفسیاتی تجزیہ کرتے تھے اور گہرائی میں اس کے اسباب تلاش کرتے تھے تا کہ محض آنسو بہا لینا شیطان کی طرف سے اس نفسیاتی تسکین کا موجب نہ بن جائے کہ میں گناہوں سے پاک ہو گیا ہوں۔