وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی جب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا ۔۔۔۔
منکرین حدیث کودراصل اسلام کی کوئی بھی بات ہضم نہیں ہوتی ، لیکن بے چارے اسلام کا نام لےکربرا بھلا کہنے کی بجائے احادیث کو نشانہ بناتے ہیں ،اور
’’ دوکان ‘‘ چلانے کیلئے
برانڈ نیم brand name کے طور پر مختلف چیزوں کی دہائی دیتے ہیں ،
مستشرقین نے مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو متزلزل کرنے کے لئے حدیث ِرسول ﷺ کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات اور بے بنیاد اعتراضات پیش کرکے حدیث پرمسلمانوں کے اعتماد کو اٹھانے کی سر توڑ کوششیں کیں جس کے اثرات برصغیر کے دین بیزار طبقہ اور منکرین حدیث پر بھی پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے بارے میں یہاں کے منکرین حدیث کے بڑے بڑے شبہات اور مستشرقین کے شبہات میں مماثلت پائی جاتی ہے، جس سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں انکارِ حدیث کا ایک اہم سبب مستشرقین کی حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف علمی فتنہ انگیزیاں ہیں۔ مستشرقین کے فتنۂ انکار حدیث کے محرک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ:
”ان لوگوں کے اکثر اعتراضات مستشرقین یورپ ہی کے اسلام پر اعتراضات سے براہِ راست ماخوذ ہیں مثلاً حدیث کے متعلق اگر گولڈ زیہر (Gold Ziher)، سپرنگر(Sprenger) اور ڈوزی (Dozy) کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو آپ فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے جانے والے بڑے بڑے اعتراضات من و عن وہی ہیں جو ان غیر مسلم مستشرقین نے کئے ہیں۔
منکرین حدیث نے اسلام دشمنی میں ایک صحیح حدیث پر اعتراض کیا ہے ،جس حدیث میں ہے کہ روز محشر جب جہنم بار بار {هل من مزيد} کا مطالبہ کرے گی ،تواللہ تعالی اس پر اپنا قدم رکھیں گے تو وہ بس ،بس کرے گی ،
اس حدیث سے عامۃ الناس کو متنفر کرنے کیلئے منکرین حدیث نے اس کو یہ عنوان دیا ہے کہ
’’صحیح بخاری کے مطابق خدا بھی جہنم میں ‘‘ معاذ اللہ
جبکہ حقیقت میں حدیث میں یہ بات بالکل نہیں ،اس حدیث میں یہ نہیں کہ
اللہ تعالی جہنم میں اپنے قدم رکھے گا ،بلکہ فرمایا :
جہنم پر اپنا قدم رکھے گا ۔
مکمل حدیث میں دراصل جہنم کا وسیع وعریض ہونا اور اس میں جانے والوں کی کثرت کے باوجود اس کا نہ بھرنا ،اور اس کا بار بار ’’
کیا مزید کوئی ہے ‘‘ کی صدا لگانا ،اور بالآخر اللہ تعالی کا اس پر اپنا قدم رکھنا بیان ہوا ہے ،
اصل حدیث صحیح بخاری شریف ، كتاب تفسير القرآن ،باب قوله:
{وتقول هل من مزيد} (4850 ) میں ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم " تحاجت الجنة والنار، فقالت النار: أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين، وقالت الجنة: ما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم، قال الله تبارك وتعالى للجنة: أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادي، وقال للنار: إنما أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادي، ولكل واحدة منهما ملؤها، فأما النار: فلا تمتلئ حتى يضع رجله فتقول: قط قط، فهنالك تمتلئ ويزوى بعضها إلى بعض، ولا يظلم الله عز وجل من خلقه أحدا، وأما الجنة: فإن الله عز وجل ينشئ لها خلقا "
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت اور دوزخ نے بحث کی ، دوزخ نے کہا میں متکبروں اورظالموں کے لئے خاص کی گئی ہوں ۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہواکہ میرے اندر صرف کمزور اور دنیوی نقطہ نظر سے کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے ، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں ۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی ۔ دوزخ تو اس پر وقت تک نہیں بھرے گی جب تک
اللہ رب العزت اپنا قدم نہ رکھ دے گا ۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس ! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پرچڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لئے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا “
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’ قدم ‘‘ کا ثبوت ہے ، اللہ کریم کی شان وعظمت کے لائق جیسا قدم ہونا چاہیئے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے ، اللہ عزوجل کا قدم اور اس کے رکھنے کی کیفیت کیا ہوگی یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ہم دنیامیں رہتے ہوئے اپنے محدود علم وفہم سے اس کی کیفیت کا نہ ادراک کر سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں ہاں اس پرایمان رکھتے ہیں کہ جیسا بھی اللہ تعالی اور اللہ کے رسول مکرم ﷺ نے فرمادیا وہ حق اور سچ ہے۔اس کا قدم مخلوق میں کسی چیز کے مشابہ نہیں ،
کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے تعارف میں خود فرمایا ہے کہ:
(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) (الشُّورٰی : ١١) کوئی چیز اس کی مثل نہیں، وہ سمیع و بصیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ داؤد رازؒ دہلوی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
حدیث میں جو لفظ "قدم" آیا ہے ، اس پر ایمان لانا فرض ہے۔ اور "قدم" کی حقیقت پر بحث کرنا بدعت ہے اور اس کی حقیقت کو علم الٰہی کے حوالے کر دینا کافی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں انسان کی بنائی ہوئی جیل کے متعلق جب کہا کہ فلاں آدمی جیل چلا گیا ہےتو اس کا جیل جانا اس کی توہین و بے عزتی ہے ،کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے جس کی پاداش میں سزا کے طور پر اسے جیل میں قید میں ڈال دیا گیا ہے ،لیکن جب اسی جیل میں خود حاکم جیل معائنہ کیلئے یا اپنے کسی منصوبہ کی انجام دہی کیلئے جائے تو اس کا جیل جانا اس حاکم کی توہین و بے عزتی نہیں ،بلکہ اس کے با اختیار ہونے کی دلیل ہوتی ہے ، اسی طرح جہنم دراصل اللہ کے مجرموں کیلئے جیل ہے اور اللہ تعالی حاکم ہے ، اللہ بطورحاکم اس پر اپنا قدم رکھے اور وہ بس بس کرنے لگے تو اس میں اللہ کی عظمت و جبروت کا اظہار ہے ،
اور
صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے کہ :
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « تَحَاجَّتِ النَّارُ وَالْجَنَّةُ فَقَالَتِ النَّارُ أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ. وَقَالَتِ الْجَنَّةُ فَمَا لِى لاَ يَدْخُلُنِى إِلاَّ ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ وَعَجَزُهُمْ. فَقَالَ اللَّهُ لِلْجَنَّةِ أَنْتِ رَحْمَتِى أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِى. وَقَالَ لِلنَّارِ أَنْتِ عَذَابِى أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِى وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمْ مِلْؤُهَا فَأَمَّا النَّارُ فَلاَ تَمْتَلِئُ. فَيَضَعُ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتَقُولُ قَطْ قَطْ. فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ».
ترجمہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: جہنم اور جنت میں مباحثہ ہوا ، جہنم نے کہا: مجھے جباروں اورمتکبروں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے،جنت نے کہا: مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ میں صرف کمزور ، لاچار ، اور عاجز لوگ داخل ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تم میری رحمت ہو ، میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے رحمت کروں گا ، اور جہنم سے فرمایا: تم میرا عذاب ہو میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے عذاب دوں گا اور تم میں سے ہر ایک کے لیے پُر ہونا ہے ، لیکن جہنم پُر نہیں ہوگی ، پھر اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم دے گا، وہ کہے گی : بس بس !اس وقت وہ پُر ہوجائے گی ، اور اس کا بعض حصہ ، بعض سے مل جائے گا۔
ص
حیح مسلم ، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔