• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ جب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا تو وہ سکڑ اور سمٹ جائے گی ۔

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
واٹس ایپ پر ایک بھائی نے اس متعلق وضاحت دریافت کی ہے ۔ اہل علم سے گزارش ہے کہ علمی جواب لکھ دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا

IMG-20191023-WA0001.jpg


نوٹ => اگر عنوان درست نہ ہو تو اس کو درست کر دیں ۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
واٹس ایپ پر ایک بھائی نے اس متعلق وضاحت دریافت کی ہے ۔ اہل علم سے گزارش ہے کہ علمی جواب لکھ دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا

21538 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

نوٹ => اگر عنوان درست نہ ہو تو اس کو درست کر دیں ۔
منکرین حدیث جاہل قوم ہے یہ اردو تو صحیح سمجھ نہیں سکتے تو عربی کیا خاک سمجھیں گے؟
اکثر جہالت کی وجہ سے اور متکلم کے کلام کو نا سمجھنے کی وجہ سے اس طرح کی جہالتیں سامنے آتی رہتی ہیں اس سے قبل بھی سوامی دیانند سرسوتی نے بھی اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں قرآن مجید پر اپنی جہالت کی بنیاد پر 159 اعتراض کئے تھے علامہ ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ نے اسی وقت حق پرکاش کے نام سے اس کا جواب دیا تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آدمی اپنی جہالت پر آجائے تو کلام الہی بھی اس کی خورد برد سے نہیں بچ سکتا بخاری کی یہ حدیث تو پھر بھی کلام رسول ہی ہے ائمہ حدیث نے اپنی صحیح ترین اسناد اور نا قابل انکار دلائل کے ساتھ احادیث کو ان کے قائل تک پہنچا دیا ہے تو یہ لوگ اسناد پر تو کلام کر نہیں سکتے اس لئے جہالت پر اتر آئے ہیں دراصل یہ احساس کمتری کا شکار ٹولہ ہے
بزعمِ خود یہ حضرات بڑے علامہ بنتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ان سے دشمنان اسلام کا جواب نہیں بنتا تو نصوص کو انکار کی خراد مشین پر چڑھا دیتے ہیں جس طرح سے پچھلے زمانے میں معتزلہ نے کیا تھا خیر اللہ ہی ان کو عقل سلیم عطاء کر سکتا ہے سو اسی سے ہم ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں!
رہی بات اس پوسٹ کی تو اس میں کئی جہالتیں ہیں
وہ ہستی جس کے حکم سے مجرموں کو جہنم میں پھینکا جائے گا جعلی حدیثیں بنانے والوں نے اسی ہستی کو جہنم میں ڈال دیا
یہ اس صاحب پوسٹ کی بد ترین جہالت اور خیانت ہے حدیث میں اس معنی کی کہیں گنجائش نہیں جو اردو ترجمہ موجود ہے اس سے بھی اس باطل معنی کی تعیین نہیں ہوتی حدیث میں صرف اتنی بات ہے اللہ تعالیٰ اپنا قدم رکھ دیگا اس میں کہاں ہے وہ بات جو چٹپٹی ہیڈنگ میں کہی گئی ہے؟ اللہ کا قدم رکھنا امور غیب میں سے ہے وہ کیسے قدم رکھیگا؟ اس کی تفصیل تو کبھی اہل سنت نے بیان نہیں کی اور نا وہ باطل معنی کسی نے مراد لیا جو اس پوسٹ میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پھر ان کی جانب یہ منسوب کرنا کہ
اصل بات یہ ہے کہ جعلی حدیثیں بنانے والوں کو علم ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے جہنم میں پھینکا جائے گا لہٰذا انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر خدا کو پہلے ہی جہنم میں پھینک کر انتقام کی آگ ٹھنڈی کر لی ہے
سبحانك هذا بهتان عظيم یہ محض بہتان عظیم ہے جس سے محدثین بری ہیں منکرین حدیث سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ کسی بھی محدث سے اس حدیث کا یہ مفہوم ثابت کریں؟ اگر ثابت نہیں کر سکتے اور یقیناً ثابت نہیں کر سکتے تو یہ بےہودگی خود ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے جس سے ان کو فوراً توبہ کرنا چاہئے ہمارا بلکہ تمام محدثین کا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق سے بلند اور جدا ہے اس کا قدم اور قدم رکھنا حق ہے لیکن اس کی کیفیت کیا ہوگی نا تو اس نے بیان کیا ہے اور نا ہی ہمارے لئے اس کا جاننا ضروری، اور حدیث پر اعتراض محض نادانی اور شریعت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
واٹس ایپ پر ایک بھائی نے اس متعلق وضاحت دریافت کی ہے ۔ اہل علم سے گزارش ہے کہ علمی جواب لکھ دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی جب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا ۔۔۔۔


منکرین حدیث کودراصل اسلام کی کوئی بھی بات ہضم نہیں ہوتی ، لیکن بے چارے اسلام کا نام لےکربرا بھلا کہنے کی بجائے احادیث کو نشانہ بناتے ہیں ،اور ’’ دوکان ‘‘ چلانے کیلئے برانڈ نیم brand name کے طور پر مختلف چیزوں کی دہائی دیتے ہیں ،

مستشرقین نے مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو متزلزل کرنے کے لئے حدیث ِرسول ﷺ کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات اور بے بنیاد اعتراضات پیش کرکے حدیث پرمسلمانوں کے اعتماد کو اٹھانے کی سر توڑ کوششیں کیں جس کے اثرات برصغیر کے دین بیزار طبقہ اور منکرین حدیث پر بھی پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے بارے میں یہاں کے منکرین حدیث کے بڑے بڑے شبہات اور مستشرقین کے شبہات میں مماثلت پائی جاتی ہے، جس سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں انکارِ حدیث کا ایک اہم سبب مستشرقین کی حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف علمی فتنہ انگیزیاں ہیں۔ مستشرقین کے فتنۂ انکار حدیث کے محرک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ:
”ان لوگوں کے اکثر اعتراضات مستشرقین یورپ ہی کے اسلام پر اعتراضات سے براہِ راست ماخوذ ہیں مثلاً حدیث کے متعلق اگر گولڈ زیہر (Gold Ziher)، سپرنگر(Sprenger) اور ڈوزی (Dozy) کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو آپ فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے جانے والے بڑے بڑے اعتراضات من و عن وہی ہیں جو ان غیر مسلم مستشرقین نے کئے ہیں۔

منکرین حدیث نے اسلام دشمنی میں ایک صحیح حدیث پر اعتراض کیا ہے ،جس حدیث میں ہے کہ روز محشر جب جہنم بار بار {هل من مزيد} کا مطالبہ کرے گی ،تواللہ تعالی اس پر اپنا قدم رکھیں گے تو وہ بس ،بس کرے گی ،
اس حدیث سے عامۃ الناس کو متنفر کرنے کیلئے منکرین حدیث نے اس کو یہ عنوان دیا ہے کہ ’’صحیح بخاری کے مطابق خدا بھی جہنم میں ‘‘ معاذ اللہ
جبکہ حقیقت میں حدیث میں یہ بات بالکل نہیں ،اس حدیث میں یہ نہیں کہ اللہ تعالی جہنم میں اپنے قدم رکھے گا ،بلکہ فرمایا :جہنم پر اپنا قدم رکھے گا ۔

مکمل حدیث میں دراصل جہنم کا وسیع وعریض ہونا اور اس میں جانے والوں کی کثرت کے باوجود اس کا نہ بھرنا ،اور اس کا بار بار ’’ کیا مزید کوئی ہے ‘‘ کی صدا لگانا ،اور بالآخر اللہ تعالی کا اس پر اپنا قدم رکھنا بیان ہوا ہے ،

اصل حدیث صحیح بخاری شریف ، كتاب تفسير القرآن ،باب قوله: {وتقول هل من مزيد} (4850 ) میں ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم " تحاجت الجنة والنار، فقالت النار: أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين، وقالت الجنة: ما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم، قال الله تبارك وتعالى للجنة: أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادي، وقال للنار: إنما أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادي، ولكل واحدة منهما ملؤها، فأما النار: فلا تمتلئ حتى يضع رجله فتقول: قط قط، فهنالك تمتلئ ويزوى بعضها إلى بعض، ولا يظلم الله عز وجل من خلقه أحدا، وأما الجنة: فإن الله عز وجل ينشئ لها خلقا "
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت اور دوزخ نے بحث کی ، دوزخ نے کہا میں متکبروں اورظالموں کے لئے خاص کی گئی ہوں ۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہواکہ میرے اندر صرف کمزور اور دنیوی نقطہ نظر سے کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے ، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں ۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی ۔ دوزخ تو اس پر وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم نہ رکھ دے گا ۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس ! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پرچڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لئے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا “

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’ قدم ‘‘ کا ثبوت ہے ، اللہ کریم کی شان وعظمت کے لائق جیسا قدم ہونا چاہیئے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے ، اللہ عزوجل کا قدم اور اس کے رکھنے کی کیفیت کیا ہوگی یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ہم دنیامیں رہتے ہوئے اپنے محدود علم وفہم سے اس کی کیفیت کا نہ ادراک کر سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں ہاں اس پرایمان رکھتے ہیں کہ جیسا بھی اللہ تعالی اور اللہ کے رسول مکرم ﷺ نے فرمادیا وہ حق اور سچ ہے۔اس کا قدم مخلوق میں کسی چیز کے مشابہ نہیں ،
کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے تعارف میں خود فرمایا ہے کہ
:(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) (الشُّورٰی : ١١) کوئی چیز اس کی مثل نہیں، وہ سمیع و بصیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ داؤد رازؒ دہلوی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
حدیث میں جو لفظ "قدم" آیا ہے ، اس پر ایمان لانا فرض ہے۔ اور "قدم" کی حقیقت پر بحث کرنا بدعت ہے اور اس کی حقیقت کو علم الٰہی کے حوالے کر دینا کافی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں انسان کی بنائی ہوئی جیل کے متعلق جب کہا کہ فلاں آدمی جیل چلا گیا ہےتو اس کا جیل جانا اس کی توہین و بے عزتی ہے ،کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے جس کی پاداش میں سزا کے طور پر اسے جیل میں قید میں ڈال دیا گیا ہے ،لیکن جب اسی جیل میں خود حاکم جیل معائنہ کیلئے یا اپنے کسی منصوبہ کی انجام دہی کیلئے جائے تو اس کا جیل جانا اس حاکم کی توہین و بے عزتی نہیں ،بلکہ اس کے با اختیار ہونے کی دلیل ہوتی ہے ، اسی طرح جہنم دراصل اللہ کے مجرموں کیلئے جیل ہے اور اللہ تعالی حاکم ہے ، اللہ بطورحاکم اس پر اپنا قدم رکھے اور وہ بس بس کرنے لگے تو اس میں اللہ کی عظمت و جبروت کا اظہار ہے ،
اور
صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے کہ :
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « تَحَاجَّتِ النَّارُ وَالْجَنَّةُ فَقَالَتِ النَّارُ أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ. وَقَالَتِ الْجَنَّةُ فَمَا لِى لاَ يَدْخُلُنِى إِلاَّ ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ وَعَجَزُهُمْ. فَقَالَ اللَّهُ لِلْجَنَّةِ أَنْتِ رَحْمَتِى أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِى. وَقَالَ لِلنَّارِ أَنْتِ عَذَابِى أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِى وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمْ مِلْؤُهَا فَأَمَّا النَّارُ فَلاَ تَمْتَلِئُ. فَيَضَعُ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتَقُولُ قَطْ قَطْ. فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ».
ترجمہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: جہنم اور جنت میں مباحثہ ہوا ، جہنم نے کہا: مجھے جباروں اورمتکبروں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے،جنت نے کہا: مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ میں صرف کمزور ، لاچار ، اور عاجز لوگ داخل ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تم میری رحمت ہو ، میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے رحمت کروں گا ، اور جہنم سے فرمایا: تم میرا عذاب ہو میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے عذاب دوں گا اور تم میں سے ہر ایک کے لیے پُر ہونا ہے ، لیکن جہنم پُر نہیں ہوگی ، پھر اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم دے گا، وہ کہے گی : بس بس !اس وقت وہ پُر ہوجائے گی ، اور اس کا بعض حصہ ، بعض سے مل جائے گا۔
صحیح مسلم ، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
@اسحاق سلفی
السلام علیکم
محترم صحیح بخاری حدیث نمبر 7439 پر ایک طویل حدیث ہے اس کے اس حصہ کی تشریح درکار ہے ۔
اپنے رب کے دیدار میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پیش آئے گی جس طرح سورج اور چاند کو دیکھنے میں نہیں پیش آتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ، بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ، تمام جھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ ان میں نیک و بد دونوں قسم کے مسلمانوں ہوں گے اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے۔ پھر دوزخ ان کے سامنے پیش کی جائے گی وہ ایسی چمکدار ہو گی جیسے میدان کا ریت ہوتا ہے۔ (جو دور سے پانی معلوم ہوتا ہے) پھر یہود سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کے پوجا کرتے تھے۔ وہ کہیں گے کہ ہم عزیر ابن اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ انہیں جواب ملے گا کہ تم جھوٹے ہو اللہ کے نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی لڑکا۔ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے سیراب کیا جائے۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو وہ اس چمکتی ریت کی طرف پانی جان کر چلیں گے اور پھر وہ جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے۔ پھر نصاریٰ سے کہا جائے گا کہ تم کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو۔ اللہ کے نہ بیوی تھی اور نہ کوئی بچہ، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی سے سیراب کئے جائیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو (ان کو بھی اس چمکتی ریت کی طرف چلایا جائے گا) اور انہیں بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے، نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان، ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لیے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا۔ پھر پوچھے گا: کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ «ساق‏.‏» پنڈلی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے اسے سجدہ کرتے تھے،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح بخاری حدیث نمبر 7439 پر ایک طویل حدیث ہے اس کے اس حصہ کی تشریح درکار ہے
اس طویل عبارت میں سے قابل تشریح اورمحتاج وضاحت حصہ کو ہائی لائیٹ کریں ، ان شاءالله تعالى اس کی تشریح پیش کردی جائے گی ، والسلام علیکم
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
قصہ اک منکر حدیث کا

بات چونکہ منکرین حدیث کی چل رہی ہے تو خود کا اپنا واقعہ پیش خدمت ہے آپ کی جانکاری کے لئے بتاتا چلوں میں نے کسی کتاب میں ( غالباً انکارِ حدیث حق یا باطل مولف صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) پڑھا ہے ہند و پاک میں انکار حدیث کے تین مرکز رہے ہیں
1- مدھوپور بہار انڈیا
2- گوجرانوالہ پاکستان
3- بدایوں انڈیا
بدایوں سے قریب ہونے کی وجہ سے ہمارا گاؤں بھی منکرین حدیث کی پکڑ میں تھا ایک مسجد بھی تھی لیکن دھیرے دھیرے یہ پکڑ ڈھیلی پڑتی گئی اور مسجد بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی میں نے جب ہوش سنبھالا تو یہ حضرات محلہ کے ایک مکان میں جمعہ قائم کرتے تھے.
قصہ مختصر بات اس وقت کی ہے جب میں جامعہ سلفیہ بنارس میں زیر تعلیم تھا ہمارے گاؤں میں ایک صاحب منکرین حدیث میں سے ہوا کرتے تھے بریلویوں سے، ان کے شرک و بدعات کی وجہ کافی خفا رہتے تھے میں جب چھٹی میں آتا تو آکر بیٹھ جاتے تھے اور حدیث کو لیکن اکثر اعتراض کرتے رہتے کہ دیکھو بریلوی ایسا کرتے ہیں بریلوی ویسا کرتے ہیں اور یہ سب حدیثوں کی وجہ سے ہے ، میں ان کو سمجھاتا اور بتاتا کہ بریلوی حضرات جو کرتے ہیں ان میں سے اکثر احادیث کے خلاف ہے اور بہت ساری چیزیں فہم ناقص کی وجہ سے ہیں، کچھ باتیں مانتے اور کچھ نہیں مانتے لیکن دوسرے دن جب ملاقات کرتے تو پھر نئے سرے سے وہی باتیں دہرایا کرتے مجھے پھر نئے سرے سے بتانا پڑتا تھا میں بھی ان کو ناراض نہیں کرتا تھا، دوبارہ سے ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا وجہ یہی تھی کہ ہو سکتا ہے کوئی بات سمجھ میں آجائے اور انکار حدیث کی راہ سے تائب ہو جائیں مگر افسوس ایسا ہوا نہیں!
ہمارے یہاں ایک بریلوی حافظ ہوتے ہیں اب ایک مدرسہ چلاتے ہیں ان سے بھی تانگہ میں انکار حدیث کو لیکر بات ہوئی بات وہی پرانی قرآن میں سب کچھ ہے حدیث کی ضرورت نہیں ہے حافظ صاحب نے کرتے کا دامن پکڑ کر کہا اس کا ذکر کہاں ہے قرآن میں؟ یہ صاحب بھی ہار ماننے والے نہیں تھے فوراً دلیل میں حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتے کو پیش کر دیا اور حافظ صاحب لا جواب ہو گئے، شام کو جب میرے پاس آئے تو اس واقعہ کو فخریہ بیان کرنے لگے میں نے کہا چچا آپ نے حافظ صاحب کو تو لا جواب کر دیا لیکن میرے بھی ایک سوال کا جواب دے دیں میں نے کہا ہمارے یہاں ہندو سادھو پیلے کپڑے پہنتے ہیں جن پر ہرے رام ہرے کرشنا وغیرہ شرکیا کلمات لکھے رہتے ہیں کیا ان کو پہنا جا سکتا ہے؟ کہنے لگے نہیں پہن سکتے اس پر میں نے کہا اب آپ اس کی دلیل قرآن سے دے دیں کوئی جواب نہیں بنا کہنے لگے ہم ان احادیث کو مانتے ہیں جو قرآن کے خلاف نہیں ہیں بات آئی گئی ہو گئی لیکن دوسرے... تیسرے.. چوتھے دن کو آئے تو بات پھر وہی حافظ کو میں نے ایسے جواب دیا ویسے جواب دیا یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے گئے بریلویوں نے نماز جنازہ سے انکار کر دیا گھر والے دوسرے محلہ سے کسی دیوبندی صاحب کو بلا کر لائے اور ان سے نماز جنازہ پڑھوایا ادھر بریلویوں نے فتویٰ دیا جو نماز جنازہ میں شریک ہوئے ہیں ان کا نکاح ٹوٹ گیا ( ان کے نکاح سے متعلق مشہور ہے، وضو پتھر نکاح موم) گاؤں میں بڑی ہائے توبہ ہوئی بے چارے دیوبندی صاحب کو دیوبند سے فتویٰ منگوانا پڑھا جب میں چھٹی میں گاؤں پہنچا تو میرے سامنے بھی بات آئی میں نے کہا بلا وجہ اتنا ہنگامہ ہوا وہ تو قرآن کو ماننے والے تھے اور قرآن میں کہاں نماز جنازہ کا ذکر ہے اور طریقہ ہے ایسے ہی کوے کی طرح گڑھا کھود کر دفنا دیا ہوتا؟
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی جب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا ۔۔۔۔


منکرین حدیث کودراصل اسلام کی کوئی بھی بات ہضم نہیں ہوتی ، لیکن بے چارے اسلام کا نام لےکربرا بھلا کہنے کی بجائے احادیث کو نشانہ بناتے ہیں ،اور ’’ دوکان ‘‘ چلانے کیلئے برانڈ نیم brand name کے طور پر مختلف چیزوں کی دہائی دیتے ہیں ،

مستشرقین نے مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو متزلزل کرنے کے لئے حدیث ِرسول ﷺ کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات اور بے بنیاد اعتراضات پیش کرکے حدیث پرمسلمانوں کے اعتماد کو اٹھانے کی سر توڑ کوششیں کیں جس کے اثرات برصغیر کے دین بیزار طبقہ اور منکرین حدیث پر بھی پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے بارے میں یہاں کے منکرین حدیث کے بڑے بڑے شبہات اور مستشرقین کے شبہات میں مماثلت پائی جاتی ہے، جس سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں انکارِ حدیث کا ایک اہم سبب مستشرقین کی حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف علمی فتنہ انگیزیاں ہیں۔ مستشرقین کے فتنۂ انکار حدیث کے محرک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ:
”ان لوگوں کے اکثر اعتراضات مستشرقین یورپ ہی کے اسلام پر اعتراضات سے براہِ راست ماخوذ ہیں مثلاً حدیث کے متعلق اگر گولڈ زیہر (Gold Ziher)، سپرنگر(Sprenger) اور ڈوزی (Dozy) کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو آپ فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے جانے والے بڑے بڑے اعتراضات من و عن وہی ہیں جو ان غیر مسلم مستشرقین نے کئے ہیں۔

منکرین حدیث نے اسلام دشمنی میں ایک صحیح حدیث پر اعتراض کیا ہے ،جس حدیث میں ہے کہ روز محشر جب جہنم بار بار {هل من مزيد} کا مطالبہ کرے گی ،تواللہ تعالی اس پر اپنا قدم رکھیں گے تو وہ بس ،بس کرے گی ،
اس حدیث سے عامۃ الناس کو متنفر کرنے کیلئے منکرین حدیث نے اس کو یہ عنوان دیا ہے کہ ’’صحیح بخاری کے مطابق خدا بھی جہنم میں ‘‘ معاذ اللہ
جبکہ حقیقت میں حدیث میں یہ بات بالکل نہیں ،اس حدیث میں یہ نہیں کہ اللہ تعالی جہنم میں اپنے قدم رکھے گا ،بلکہ فرمایا :جہنم پر اپنا قدم رکھے گا ۔

مکمل حدیث میں دراصل جہنم کا وسیع وعریض ہونا اور اس میں جانے والوں کی کثرت کے باوجود اس کا نہ بھرنا ،اور اس کا بار بار ’’ کیا مزید کوئی ہے ‘‘ کی صدا لگانا ،اور بالآخر اللہ تعالی کا اس پر اپنا قدم رکھنا بیان ہوا ہے ،

اصل حدیث صحیح بخاری شریف ، كتاب تفسير القرآن ،باب قوله: {وتقول هل من مزيد} (4850 ) میں ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم " تحاجت الجنة والنار، فقالت النار: أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين، وقالت الجنة: ما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم، قال الله تبارك وتعالى للجنة: أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادي، وقال للنار: إنما أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادي، ولكل واحدة منهما ملؤها، فأما النار: فلا تمتلئ حتى يضع رجله فتقول: قط قط، فهنالك تمتلئ ويزوى بعضها إلى بعض، ولا يظلم الله عز وجل من خلقه أحدا، وأما الجنة: فإن الله عز وجل ينشئ لها خلقا "
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت اور دوزخ نے بحث کی ، دوزخ نے کہا میں متکبروں اورظالموں کے لئے خاص کی گئی ہوں ۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہواکہ میرے اندر صرف کمزور اور دنیوی نقطہ نظر سے کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے ، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں ۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی ۔ دوزخ تو اس پر وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم نہ رکھ دے گا ۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس ! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پرچڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لئے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا “

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’ قدم ‘‘ کا ثبوت ہے ، اللہ کریم کی شان وعظمت کے لائق جیسا قدم ہونا چاہیئے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے ، اللہ عزوجل کا قدم اور اس کے رکھنے کی کیفیت کیا ہوگی یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ہم دنیامیں رہتے ہوئے اپنے محدود علم وفہم سے اس کی کیفیت کا نہ ادراک کر سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں ہاں اس پرایمان رکھتے ہیں کہ جیسا بھی اللہ تعالی اور اللہ کے رسول مکرم ﷺ نے فرمادیا وہ حق اور سچ ہے۔اس کا قدم مخلوق میں کسی چیز کے مشابہ نہیں ،
کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے تعارف میں خود فرمایا ہے کہ
:(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) (الشُّورٰی : ١١) کوئی چیز اس کی مثل نہیں، وہ سمیع و بصیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ داؤد رازؒ دہلوی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
حدیث میں جو لفظ "قدم" آیا ہے ، اس پر ایمان لانا فرض ہے۔ اور "قدم" کی حقیقت پر بحث کرنا بدعت ہے اور اس کی حقیقت کو علم الٰہی کے حوالے کر دینا کافی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں انسان کی بنائی ہوئی جیل کے متعلق جب کہا کہ فلاں آدمی جیل چلا گیا ہےتو اس کا جیل جانا اس کی توہین و بے عزتی ہے ،کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے جس کی پاداش میں سزا کے طور پر اسے جیل میں قید میں ڈال دیا گیا ہے ،لیکن جب اسی جیل میں خود حاکم جیل معائنہ کیلئے یا اپنے کسی منصوبہ کی انجام دہی کیلئے جائے تو اس کا جیل جانا اس حاکم کی توہین و بے عزتی نہیں ،بلکہ اس کے با اختیار ہونے کی دلیل ہوتی ہے ، اسی طرح جہنم دراصل اللہ کے مجرموں کیلئے جیل ہے اور اللہ تعالی حاکم ہے ، اللہ بطورحاکم اس پر اپنا قدم رکھے اور وہ بس بس کرنے لگے تو اس میں اللہ کی عظمت و جبروت کا اظہار ہے ،
اور
صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے کہ :
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « تَحَاجَّتِ النَّارُ وَالْجَنَّةُ فَقَالَتِ النَّارُ أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ. وَقَالَتِ الْجَنَّةُ فَمَا لِى لاَ يَدْخُلُنِى إِلاَّ ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ وَعَجَزُهُمْ. فَقَالَ اللَّهُ لِلْجَنَّةِ أَنْتِ رَحْمَتِى أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِى. وَقَالَ لِلنَّارِ أَنْتِ عَذَابِى أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِى وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمْ مِلْؤُهَا فَأَمَّا النَّارُ فَلاَ تَمْتَلِئُ. فَيَضَعُ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتَقُولُ قَطْ قَطْ. فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ».
ترجمہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: جہنم اور جنت میں مباحثہ ہوا ، جہنم نے کہا: مجھے جباروں اورمتکبروں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے،جنت نے کہا: مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ میں صرف کمزور ، لاچار ، اور عاجز لوگ داخل ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تم میری رحمت ہو ، میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے رحمت کروں گا ، اور جہنم سے فرمایا: تم میرا عذاب ہو میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے عذاب دوں گا اور تم میں سے ہر ایک کے لیے پُر ہونا ہے ، لیکن جہنم پُر نہیں ہوگی ، پھر اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم دے گا، وہ کہے گی : بس بس !اس وقت وہ پُر ہوجائے گی ، اور اس کا بعض حصہ ، بعض سے مل جائے گا۔
صحیح مسلم ، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ محترم
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے، نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان، ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لیے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی ا

ور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا۔ پھر پوچھے گا: کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ
«ساق‏.‏»
پنڈلی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے اسے سجدہ کرتے تھ

ے،
 
Top