تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی گلری،ممبرا ، ممبئی
تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جو زمین میں تباہی ،فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا ،نہ ہی کبروعناد سے راضی ہوتا ہے ۔دلوں کے اندر پوشیدہ باتیں اس پر مخفی نہیں ۔وہ ذات آزمائشوں کے بقدر اجر بھی عطا کرتا ہے یہ اس کا بھت بڑا فضل و احسان ہے۔
فتح ونصرت پانے کے اسباب:
دسواں سبب : بہترین قیادت
قیادت کا مفہوم :
چندخصوصیات ایسی ہیں جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز ونمایاں کرتی ہیں جن میں لیڈرشپ "leadership" (قیادت ) بھی شامل ہے۔
قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔باشعور،باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعدد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
قیادت متعین مقاصد کے حصول کے لئے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طئے شدہ سمت پر گامزن کرنے کانام ہے۔تاثیر و کردار کے مجموعہ کوقیادت کہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر جہت سے مسلمانوں کے سرپرست ورہبر تھے ۔
امت کی قیادت ایسے شخص کو دی جائے جو اسے بحسن و خوبی انجام دے سکے ۔قائد ایسا متعین کریں جو تقوی'شعار ،فوجی مہارت کے ساتھ ہی ساتھ تجربہ کار ہو جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کی تعیین کی تھی ۔
حکومت ، ولایت ، امر بالمعروف معروف و نہی عن المنکر ، دفاع ، قضایا، شہادات ، حدود ، قصاص ، تجارت ، معاملات ، نا بالغوں ، یتیموں اور مجانین کی ولایت ، سماجی اور گھریلو حقوق ، تربیتی اور ثقافتی امور ، اقتصادی مسائل ، زکوٰة ، خمس ، غنائم ، ذمّی اور اھل کتاب کے احکام ، دوسری ملتوں سے امت مسلمہ کے تعلقات ، جنگ و صلح اور اسی طرح کے دوسرے مسائل سب امور میں قرآن کی متعدد آیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ آنحضرت کی وسیع قیادت ورہبری کی گواہی دیتی ھیں جن میں سے بعض آیتیں ہم یہاں ذکر کرتے ھیں:
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
1۔ "یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم" [النساء: 59]
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔
2۔ ” النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ “(الاحزاب:06)
پیغمبر مومنوں (کی جان ومال )پر ان سے زیادہ سزاوار ہے۔
اس وسیع وعریض قیادت ورہبری کاایک پہلو اسلامی سماج میں عدالت قائم کرنا ھے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ میں اپنے قیام کے دوران خود یامدینہ سے باہر دوسروں کے ذریعہ سماج میں عدالت برقرار کرتے تھے ۔
قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاھے کہ اپنے معاملات اور اختلافات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کو بلا چوں وچرا تسلیم کریں:
” فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: 65)۔
(تمہارے پروردگار کی قسم وہ لوگ ہرگز مومن واقعی شمار نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے اختلاف میں تمہیں حَکَم اور قاضی قرار نہ دیں اوراس پر ذرا بھی ملول نہ ہوں اور تمھارے فیصلہ پر مکمل تسلیم ہوں)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کی سماجی رہبری کاایک پہلو اسلام کے مالی واقتصادی امور کو مستحکم و مضبوط کرناتھا کہ ٓانحضرت اپنی حیات میں ان کاموں کوانجام دیتے تھے۔
قرآن مجید نے ان الفاظ میں آپ کوخطاب کیاھے۔
"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "(سورۃ التوبہ:103)
ان کے اموال میں سے زکات لو اور اس طرح انھیں پاک کرو۔
دوسری آیات میں زکات اور ٹیکس کی مقدار اور ان کے مصارف کا بھی پوری باریکی کےساتھ ذکر کیا گیاہے۔
ان آیات کے معانی،ان کی وضاحت کرنے والی روایات اور خود آنحضرت کاطرز عمل یہ بتاتاھے کہ آنحضرت مسلمانوں کے سرپرست ،سماج کے حاکم ،اور ملت وامت کے فرمانروا تھے۔اور جو سماج کامطلق العنان حاکم انجام دیتا ھے وہ انجام دیتے تھے ۔
قائد سے مراد :
قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قیادت کوئی آسان اور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے۔قیادت کاہردم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ ان چیلنجز سے عہدہ براں ہوکر ہی قیادت اعتماد ،استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ صلاحیت و کردار کا حامل کیوں نہ ہو ممکن نہیں ہے ۔اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہونا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
آج ہم قیادت کا مطلب کسی فرد واحد کی آمریت کو سمجھ بیٹھے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے عین مغائر ہیں۔فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے عوام ایک فرد واحد کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ مان کر اسی سے اپنے مقاصد و مسائل کے حل کی توقعات وابستہ کر تے ہوئے نقصان سے دوچار ہیں۔آمریت پسند فرد واحد کی قیادت اپنی ذات کو حقیقی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کودھوکادیتی ہے۔دلفریب نعروں سے یہ قیادت اپنے مفادات کے حصول میں جٹی رہتی ہے اور عوام ان نعروں کی گونج میں اجتماعیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت کے سحر میں گرفتارہوجاتے ہیں۔
مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کا شخصیات کی آڑ اور قوم کی خدمت کے نام پر خوب استحصال ہوا بلکہ کیا جارہاہے لیکن آج تک یہ اپنے استحصال سے بے خبر ہیں۔اس منظر نامے کی تبدیلی کے لئے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔
طلبہ میں اخلاص ،شعوری اور استعداد پیدا کرتے ہوئے حقیقی لیڈر شب کوالیٹیز (قائدانہ اوصاف) کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے۔
قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں تب ہی قابل قبول ا ور واجب العمل ہوں گے ورنہ یکلخت انھیں نامنظور کردیا جائے گا۔
"یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم"
’’اے ایمان والوں ﷲ کی اطاعت کرو اور رسول صلی ﷲ علیہ و سلم کی اور اپنے الوالامر ( صاحبان امر ) کی‘‘ (النساء: 59 )
سورۃ النساء کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ و سلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے۔
اولوالامر کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ ﷲ اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم(قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔
قیادت ( الوالامر) کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول صلی ﷲ علیہ و سلم سے متضاد نہ ہوں ۔
صاحبان امر(قیادت) کے نظریات ، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ ہی باغی۔
اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی ،سنت رسول کی روشنی میں متقی ،باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خدا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو۔
ﷲ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت ،رہنمائی ا ور ہدایت کے ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔
انسان ﷲ کی عطا کردہ ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائے آفرینش سے قیادت و سیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔اساتذہ اپنے تلامذہ کو،اکابر اپنے اصاغر ،راعی اپنی رعیت ،بڑے اپنے چھوٹوں کو زندگی کے راز ہائے سربستہ اور زندگی بسر کرنے سلیقے و طریقے سکھاتے آئے ہیں اور یہ علم و فن انسانی زندگی کے آغاز سے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآرہا ہے۔ قوم وملت کی قیادت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے قیادت کا اولوالعز م ،دوراندیش اور عقابی نگاہ کا حامل ہونا لازمی گردانا گیا ہے۔قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں صراحت کردہ شرائط کی تکمیل لازمی ہے ۔کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ قائد بنے بنائے نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی صورت گری میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔
آج انسان کو ایک ایسے قائد و آئیڈیل کی ضرورت ہے جو ز ندگی کے ہرشعبے میں اس کی رہنمائی و رہبری کرسکے جس کی زندگی میں اعتدال و توازن ہو ۔
قائد کے بیان کردہ اصول و قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہوں۔
قیادت و سیادت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور دنیا کی نامور شخصیات کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اثر کا دائرہ بہت ہی محدودہے لیکن نبی اکرم صلیﷲ علیہ و سلم کی ذات اقدس کے اثرکا دائرہ بسیط و محیط ہے اور ہر طرح کی زمانی اور مکانی حدود کی قید سے آزادبھی ۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیم و ہدایت بذات خود ایک زندہ معجزہ ہے۔
قیادت کے لیے ضروری اوصاف:
(1) مخلص ہونا
(2) علم کاہونا
(3) عقل و حکمت سے پر ہونا
(4) امانت و دیانتداری کا حامل ہونا ؛۔
قیادت ایک امانت ہے اور اس کو اہل افراد تک پہنچانا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓى اَهْلِهَاۙ وَاِذَا حَكَمْتُـمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا (النساء:58)
’’مسلمانوں ﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،ﷲ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا ﷲ سب کچھ دیکھتا ہے۔‘‘
قیادت جب اہل و اعلیٰ صفات افراد تک پہنچتی ہے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکراعلیٰ نصب العین کی جانب گامز ن رہتے ہیں۔
مذکورہ آیت خاندانی اور موروثی حکمرانی وقیادت کے خاتمہ کا اعلان کرتی ہے ۔موروثیت،طاقت ،اثر و رسوخ کے بل پر کوئی قیادت کا دعویدار نہیں ہوگا۔
قائد وہی ہوگا جوقیادت کا اہل ہوگا۔ عوام کی خیر و بہتری کے اقدامات کرنے والے ہوگا۔
(5) عوام میں اعتماد پیدا کرنے سے پہلے قائد کا ﷲ کے بعد اپنی ذات پر کامل یقین و اعتماد ہونا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ﷲ کی ذات پر کامل یقین اوراورخود اعتمادی ہی تھی کہ وہ دہکتی آگ کے شعلوں میں کود پڑے اور ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابربھی لغزش نہیں آئی۔
بہ زبان علامہ اقبالؒ
بے خطر کود پڑا آتش نمرو د میں عشق
عقل ہے محوئے تماشہ لب بام ابھی
ﷲ پر یقین اور اپنی ذات پر جب اعتما د ہوتو نصرت الہی مدد کے لئے پہنچتی ہے ’’ہم نے فرمایا ؛اے آگ تو ابراہیم (علیہ السلام)پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہوجا۔‘‘(الانبیا:69) ۔
(6) اولوالعزمی کا ہونا :
قرآن نے صبر کا ایک ساتھی عزیمت کو قرار دیا ہے۔
"وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ" (سورۃ لقمان:17)
’’اور جو بھی مصیبت تمہیں پہنچے ،اس پر صبر کرو،بلاشبہ یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔
عزم کے معنی پختہ ارادہ کے ہیں وہ آدمی اولوالعزم ہے، جو کسی مقصد کے لیے ارادہ کرے اور اس پر جم جائے۔ ایسا آدمی جو اپنے مقاصد میں پر عزم ہو اور اس کی نگاہیں اپنی منزل پرجمی ہوں تب وہ راستے کی مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔
اس کے برعکس جس کے پاس عزم و ہمت کی کمی ہوگی اس کے ارادے پختہ نہیں ہوں گے اور وہ رئیس المنافقین عبد ﷲ بن ابی کی طرح میدان آزمائش سے بھاگ کھڑاہوگا۔
پست عزم و حوصلے والے کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔اولوالعز م قیادت مصائب و وسائل کی کمی کاشکوہ کرنے کے بجائے عزیمت سے مشکلات کا سامنا کرتی ہے اور پورے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی سمت گامزن رہتی ہے۔
حضرت عمرؓ ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے فرماتے ہیں’’فتح امید سے نہیں ،یقین ِمحکم اور خدا پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔
‘‘طارق بن زیاد کو جب اندلس کی مہم پر سپہ سالار بنا کر بھیجا گیاساحل سمندر پر پہنچ کر اس نے ایک تاریخی اور حیران کن اقدام کرتے ہوئے اپنی ساری کشتیاں جلادیں اور فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی کہ’’ہم لو گ یہاں ﷲ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی حکومت قائم کرنے کے لئے آئے ہیں اب ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں گے یا پھر اپنی جانیں جان آفریں کے حوالے کردیں گے لیکن ﷲ کی حکومت قائم کیئے بغیر نہیں لوٹیں گے‘‘۔یہ طارق کی اولوالعزمی ہی تھی کہ پوری فوج میں ایک ولولہ پیدا ہوگیا اور انھوں نے اندلس کو فتح کرلیا۔
(7)اعتدال اختیار کرنا ؛۔
ہر کام کو عمدگی سے انجام دینے کے لئے اعتدال و توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے"وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا ’’
اور ہم نے تمیں امت وسط بنا یا ہے۔‘‘
(سورہ البقرہ :143)
ﷲ رب العز ت نہ صرف امت کے ہر فرد کو اپنی زندگی میں اعتدال و توازن برقراررکھنے کا حکم دیتے ہیں بلکہ ہادی اعظم صلی ﷲ و علیہ سلم کو بھی اعتدال والی روش اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
اے محمدؐ! کہہ دیجئے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔(اعراف ۔92)۔
قیادت کے مطلوبہ اوصاف میں اعتدال اور توازن کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہر شخص کو اور بالخصوص قائد کو اپنی زندگی میں شدت پسندی،افراط و تفریط اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنا چاہئے۔
(8) ذمہ داری کا احساس ہونا ؛۔
اسلام ہر انسان میں احساس ذمہ داری اور جوابدہی کا ملکہ پیدا کرتا ہے ۔یہ احساس انسان میں نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری، صالحیت اور اعلیٰ اخلاق و اقدار کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔
نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و سلم کا فرمان عالی شان ہے ’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے ہر ایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔‘‘
۔ذمہ داری اور جواب دہی کے اسی احساس نے صحابہ اکرم ؓ کو دنیا والوں کے لئے ایک بے مثال نمونہ بنا دیا۔سرکارصلی ﷲ علیہ و سلم نے صحابہ میں ذمہ داری اور پاسداری کا ایسا جویا پیدا کیا جو رہتی دنیا تک کے لئے ایک روشن مثال ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے پوری ذمہ داری اور دوراندیشی سے خلافت کے فرائض کو انجا م دیا۔بیت المال سے کسی قسم کی مد د یا رعایت کبھی حاصل نہیں کی اور نہایت کسمپرسی میں زندگی گزاری۔
دنیا کے ایک وسیع رقبے کو اسلامی حکومت کے پرچم تلے کرنے والے حضرت فاروق اعظم ؓ کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ کھجور کی چٹائی پر سوتے راتوں کو جاگ کر رعایا کی خبر گیر ی کرتے ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے حتی کہ اپنی پیٹھ پر غلے کا بوجھ لادکر رعایا تک پہنچاتے کیو نکہ آپ نے اپنے آقا و قائد سرور عالم صلی ﷲ علیہ وسلم کو اپنے دست مبارک سے خندق کھودتے ہوئے دیکھا تھا۔
قائد اپنی قوم کا سربراہ ہوتا ہے ۔یہ مخدوم نہیں بلکہ خادم ہوتا ہے۔عوام کی خیرخواہی،ان کی ضرورتوں کا خیال،ان کی بہتری کی فکرنہ صرف قائد کی ذمہ داری ہے بلکہ اس کا فرض منصبی بھی ہے۔قائد میں جب احساس ذمہ داری و جواب دہی جاگزیں ہوتا ہے تو وہ اپنے فرائض کو ٹھیک طور سے انجام دیتا ہے جس کے نتیجے میں عوام اور اس کے ماتحت اس سے خوش رہتے ہیں۔ان میں جاں نثاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور وہ قائد کو اپنا عملی تعاون پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
(9) مقاصد سے آگہی کا ہونا :
قائد کا نصب العین اس کی قوم کا نصب العین ہوتا ہے۔دوراندیش ولائق قیادت اپنے ملک و قوم کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کو وضع کرتی ہے۔
قائد کا فرض ہے کہ وہ متعین مقاصد کو صاف اور شفاف انداز میں پوری قوم کے آگے پیش کرے اور خیال رہے کہ مقاصد کے متعلق قائد اور قوم میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔مقاصد واضح ہوں اور مقاصد کے ادراک و تفہیم میں کسی کو بھی کسی قسم کی دشوار ی نہ پیش آئے ۔
ﷲ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میں زندگی کا مقصد و مدعا بیان کردیا ہے ’’
" وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘( الذاریات:56) ۔
اگر ایک جگہ ﷲ نے حسن عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے۔
"الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘( الملک:02) ۔
تو دوسری جگہ زندگی کا مقصد اور کامیابی کو تزکیہ نفس قراردیا ہے۔
"قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ"
’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔‘‘( الاعلیٰ:14)۔
قرآن کی ان آیات سے جہاں انسان کے مقصد حیات اور زندگی کی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھا جاتا ہے وہیں قیادت کے مقاصد بھی بڑے واضح انداز میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔
’’لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے‘‘۔مقاصد پوری قوم کی آرزؤ ں اور تمناؤ ں کا مرکز ہو تے ہیں اسی لئے قائد مقاصد کے تعین میں اپنے ملک و قوم کے معاشی ،سیاسی،معاشرتی ،اخلاقی،مذہبی ،دینی،اور علمی حالات کو پیش نظر رکھاسلام قائد کو اونچا مقام ضرور عطا کرتا ہے لیکن وہیں اسے پابند بھی کرتا ہے کہ وہ قوم کا خادم ہے’’قوم کا سردار ،قوم کا خادم ہوتا ہے۔‘‘
(10) قوانین واصولوں کی پاسداری کرنا ؛۔
قائد اگر پابند ڈسپلن ہوتو اس کا خوش گوار اثر معاشرے ،ماحول اور عوام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ قائد کی ذات اصول و قوانین سے بالاتر نہیں ہوتی ہے۔ عوام کے ساتھ قائد کی اصول و قوانین پر عمل پیرائی لازمی ہے۔
قیادت کی اصول پسندی سے اس کے رعب ، دبدبے اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ سے ہم کو قانون کی پاسداری اور اصول پسندی کی تعلیم دی ہے۔نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم نے چوری کی مرتکب عرب کی ایک معزز وبا اثرخاتون کے ہاتھ کاٹ دینے کا جب حکم جاری فرمایاتو اس کے قبیلے والوں نے رسوائی اور سزا سے بچنے کے لئے آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے سفارش کی ۔
آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ إنما أهلك من كان قبلكم أنهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد، وأيم الله، لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعتُ يداها[1]،
(متفق عليه أخرجه البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار، برقم (3475)، ومسلم، كتاب الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره، والنهي عن الشفاعة في الحدود، برقم (1688).
پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں،بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا۔
آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا اگر فاطمہؓ بنت محمد صلی ﷲ علیہ و سلم بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘
یہ حدیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولوں کی پاسداری اور حدود کے نفاذ میں تعلقات اور قربت داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔قائد میں جب اصولوں پسندی کا یہ جذبہ بیدار ہوجاتا ہے تو ہر طرف امن و امان کا دور دوررہ رہتا ہے۔امیر غریب الغرض معاشرے کے ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں۔
(11) سخاوت و فیاضی کا ہونا ؛۔
سخاوت ایک عبادت اور ﷲ کی نعمتوں کے شکر کا نام ہے۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے سخاوت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہر چیز کو ﷲ کی راہ میں لٹا دیا اور جتنا بھی تھا سارا کا سارا ﷲ کی راہ میں قربان کردیا اور اپنے پاس کچھ بھی باقی نہ رکھا۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے جب کسی نے مانگا تو آپ نے انکار نہیں کیا،حتیٰ کہ ایک آدمی نے بکریوں سے بھری وادی کا سوال کیا تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسے وہ بھی دے دی۔
آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اپنے تن پر موجود قمیض بھی اتار کر دے دی۔یہ بھی آپ کی سخاوت ہی ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی امت کی خیر خواہی کیلئے وقف کردی۔
ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہے۔
‘‘(سورہ سبا)
امت سے آپ کی محبت بھی آپ کی جود و سخا کی ایک مثال ہے۔
(كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ)
1-ابن المبارك( أحمد 2616) و( تهذيب الاثار للطبري120)(مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا393)و )حديث أبي الفضل الزهري57)
2- ابن وهب ( النسائي2095)و(ابن حبان في صحيحه6370)و(النسائي في الكبرى2405)
3- عثمان بن عمر(أ حمد 3539) وفي مسند ابي يعلى2552)و(الصنف لبن عبد الرزاق 646)و( الاثار للطبري120)۔
حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔
آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سب سے زیادہ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔
آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ایک تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال آپ کے پاس آتا اسے فوراً مستحقین تک پہنچا دیتے۔
جو کچھ دن کو آتا وہ رات آنے سے پہلے پہلے بٹ جاتا تھا اور تقسیم ہوجاتا تھا۔
قیادت سخاوت کے وصف سے آراستہ ہونی چاہئے۔قیادت کو معلوم ہونا چاہئے کہ مال و اسباب کاباٹنا ہی سخاوت نہیں ہے۔
سخاوت کے کئی طریقے ہیں۔
مال خرچ کرناسخاوت ہے۔
ظالم کو معاف کر دیناسخاوت ہے۔
زیادتی کرنے والے سے درگزرکرناسخاوت ہے۔
قطع تعلق کرنے والے سے تعلق جوڑناسخاوت ہے۔مسلمانوں کی اصلاح کرناسخاوت ہے۔
غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دیناسخاوت ہے۔
کسی کا عذرقبول کرناسخاوت ہے۔
علم و معرفت اور اپنا تجربہ کسی کو دینا سخاوت ہے۔ اپنا وقت کسی کو دینا سخاوت ہے۔
کسی کی حق پر سفارش کرناسخاوت ہے۔
کسی کی خدمت کرناسخاوت ہے۔
تکلیف دہ اشیاکو راستے سے ہٹانا اورلوگوں کی خدمت کے لئے ان کے ساتھ چلنا بھی سخاوت ہے۔
قیادت کوعلم ہونا چاہئے کہ سب سے آسان ترین سخاوت ہے۔
ایک مسکراہٹ، کسی کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ملاقات کرنا،اچھی بات کہنا، دعا دینا، کسی کی تھوڑی بہت مدد کردینا، دوا خرید کر دینا،یہ بھی سخاوت ہے۔نہ صرف قیادت بلکہ اب جو چاہے سخاوت کرے ۔سخاوت پر عمل کرنے کے لئے سخاوت کے دروازے اب ہر ایک کے لئے کھلے ہیں ۔
(12) عدل و انصاف کرنا؛۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ " (سورہ النحل :90)۔
بیشک ﷲ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
اس آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر انسان ہے، جس پر عمل پیرا ہو کرنہ صرف دنیا کی مختصر سی زندگی کو کارآمد بنایاجا سکتا ہے بلکہ اپنی آخرت کو بھی سنواراجا سکتا ہے۔پہلا حکم عدل کرنے کا ہے۔
عدل کے معنی انصاف کرنے کے ہیں یعنی ایک انسان دو سرے انسان سے اس دنیاوی زندگی میں انصاف سے کام لے۔ کسی کے بھی ساتھ دشمنی، عناد، محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔غزوہ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہوئے تھے۔قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جا رہا تھا۔ فدیہ کی رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امیر ترین لوگوں سے اس سے بھی کچھ زیادہ رقم لی جا رہی تھی۔حضرت عباسؓ سرکارصلی ﷲ علیہ وسلم کے چچا تھے اس لیے چند صحابہ اکرام نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم اجازت دیجئے کہ حضرت عباسؓ کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور انہیں یو نہی رہا کر دیا جائے یہ سن کر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ عباسؓ سے ان کی امیری کی وجہ سے حسب قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی)۔
اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں قرابت بعد میں ہے اور عدل و انصاف پہلے ہے۔عدل کا دوسرانام اعتدال بھی ہے۔ یعنی آدمی کسی بھی معاملے میں افراط یا تفریط سے کام نہ لے ۔
قائد اس با ت کا خاص خیال رکھے کہ ذرا سی بھی اونچ نیچ عدل وانصاف کے تقاضوں کے منافی ہوتی ہے۔عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل حاکم و رعایا سب پر یکساں عائد ہوتی ہے ۔
ﷲ تعالیٰ حکام(قائدین)کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’
" وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا"
’’اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو یقینا وہ بہتر چیز ہے اس کی نصیحت تمہیں ﷲ کر رہا ہے، بے شک ﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النساء:58) ۔
سورہ مائدہ میں ﷲ تعالیٰ نے بلاتخصیص عوام و خواص کو یہی احکامات صادر فرمائے ہیں۔
"وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ" (المائدہ: 8)
’’کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہر گز نہ چھوڑو،عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت قریب ہے۔‘‘
عدل کا ایک مترادف لفظ انصاف بھی ہے۔عدل کرنے والے کو عادل اور انصاف کرنے والے کو منصف کہاجاتا ہے۔قائد کا عدل و انصاف کے صفات سے متصف ہونا بہت ضروری ہے۔اگر قیادت عدل و انصاف سے کام لینے میں پہلو تہی کر ے تو اسے اس کا خمیازہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر بھگتنا پڑے گا۔عدل و انصاف کے بغیرامن و امان کا تصور بھی محال ہے اسی لئے قیادت کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر جگہ ،ہر معاملے میں عدل و انصاف کادامن تھامے رہے ۔
(13) شجاعت و بہادری کا ہونا؛۔
قائد میں شجاعت کاہونا بے حدضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر امارت ،قیادت و سیادت ممکن نہیں ہے۔
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و سلم سب سے زیادہ سے زیادہ حسین اوربہادر تھے۔
نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی مقام سب سے بلند اور معروف ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل موقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑجاتے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہتے ، پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے اور کبھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔
حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ (الرحیق المختوم)۔
حضرت انس رضی ﷲ عنہ کا بیان ہے:
" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَى الصَّوْتِ ، وَهُوَ يَقُولُ : لَنْ تُرَاعُوا لَنْ تُرَاعُوا وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ مَا عَلَيْهِ سَرْجٌ ، فِي عُنُقِهِ سَيْفٌ ، فَقَالَ : لَقَدْ وَجَدْتُهُ بَحْرًا . أَوْ : إِنَّهُ لَبَحْرٌ
کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ کر (خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے اس وقت آپ صلی ﷲ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی ﷲ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی۔ اور فرما رہے تھے ڈرو نہیں، ڈرو نہیں (کوئی خطرہ نہیں ہے۔
(صحيح البخاري ,كتاب الأدب ,باب حسن الخلق والسخاء، وما يكره من البخل ,حديث رقم 5709 )۔
اگر آج ہم اپنے سینوں میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی شجاعت بھر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
(14) حسن اخلاق کا پیکر بننا ؛۔
اچھے اخلاق و عمدہ خصائل قیادت کی اعلیٰ خصوصیات ہیں۔حسن اخلاق قیادت و سیادت کو استحکام بخشتے ہیں۔حسن اخلاق کی بدولت اپنے تو اپنے دشمن، باغی اور سرکش لو گ بھی مطیع بن جاتے ہیں۔بااخلاق قیادت سے مرجھے دلوں میں امید ،عزم ، حوصلہ اور زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔عمدہ اخلاق کے ذریعے انسان لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ روز قیامت میزان میں سب سے وزنی چیز اچھے اخلاق ہوں گے۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم اخلاق و کردار کے سب سے افضل اور بلند معیار پر فائز تھے۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے اپنے اخلاق کریمانہ سے پوری دنیا کو فتح کرلیا۔ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم بڑوں سے عزت ،چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم یتیموں، غیریبوں اور نادار لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھتے اور ان سے محبت ،رحم دلی اور جودو سخا کامعاملہ فرماتے تھے۔ گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے۔
"قالت عائشة لما سئلت رضي الله عنها عن خلق النبي عليه الصلاة والسلام، قالت: ( كان خلقه القرآن) (البخاري [4997]
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے آپ صلی ﷲ علیہ و سلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپؓ نے بتا یا کہ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و سلم کے اخلاق مکمل قرآن تھے۔
عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضى الله عنهما- قال: "لم يكن رسول الله ﷺ فاحشاً ولا متفحشاً، وكان يقول: إن من خياركم أحسنكم أخلاقاً" متفق عليه.
(أخرجه البخاري، كتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، برقم (3559)، وبرقم (6029)، في كتاب الأدب، باب لم يكن النبي ﷺ فاحشا ولا متفحشا، ومسلم، كتاب الفضائل، باب كثرة حيائه ﷺ، برقم (2321)
حضرت عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ آپ نہ تو فحش گوئی کرنے والے تھے اور نہ فحش گوئی کو پسند کرتے تھے۔ﷲ رب العزت نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو بڑے ہی اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا۔
یہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ارفع اخلاق ہی تھے جس سے دشمن دوست، بیگانے اپنے اور سخت دل نرم خوبنے۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے اسی بلند اخلاق کی تعریف ﷲ رب العزت نے ان الفاظ میں فرمائی ہےکہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان -: ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ [القلم: 4]،
۔اور بے شک آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کا اخلاق بہت بلند ہے۔
موطا امام مالک میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
’" بعثت لأتمم مكارم الأخلاق" میں بہترین اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔
(صححه الألباني في الصحیحہ 1 / 75 :
رواه البخاري في " الأدب المفرد " رقم ( 273 ) , و ابن سعد في " الطبقات "
( 1 / 192 ) , و الحاكم ( 2 / 613 ) , و أحمد ( 2 / 318 ) , و ابن عساكر في
" تاريخ دمشق " ( 6 / 267 / 1 ) )
خادم رسول حضرت انس ؓ فرماتے ہیں
"يقول سيدنا أَنس بن مالك: "خدمتُ النبي صلى الله عليه وسلم، عشرَ سنين فما قال لي أُفٍّ قَط .. وما قال لشيء صنعتُه لِمَ صنعتَه .. ولا لشيء تركتُه لِمَ تركتَه ..
(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب حسن الخلق,5691)
میں نے دس برس تک نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت کی’’ اس مدت میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا یہ کام کیوں نہیں کیا‘‘
قائد کے اخلاق و اطوار مثالی ہونے چاہئے۔قائد کے لئے منصب کے حصول سے زیادہ ووٹ عوام کے دلوں میں جگہ بنانا ضروری ہوتا ہے اورجو دلوں کو فتح کرتا ہے وہی حقیقی فاتح کہلاتا ہے۔
وہ ادائے دلبر ی ہو یا نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
(16) حلم و بردباری اپنانا (جذباتی ذہانت)؛۔
بعض لوگ اپنے انتہائی بلند آئی کیو لیول کے باوجود دوسروں کی رہبری سے قاصر رہتے ہیں۔ انتہائی ذہین لوگ بھی تنظیمی و انتظامی امور میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔اس کی ایک بالکل سادہ سی وجہ جذباتی ذہانت کا فقدان ہے۔
قائد کا اپنے پیروں اور کارکنان کے مثبت اور منفی جذبات کو پہچان کر خود اپنے جذبات پر قابو رکھنا، ایک اچھی اور کامیاب لیڈرشب کی ضمانت ہے۔حلم و بردباری کی تعریف یہ ہے کہ قائد کسی ناگہانی صورتحال میں بھی جذبات کی رو میں نہ بہے۔ناگہانی صور تحال میں اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھے ۔معاملے پر نہایت سنجیدگی سے غور وخوض کرے۔دوراندیشی سے کام لے اور زعمائے قوم سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ قائد ،قیادت کے نشے میں کسی سے مشاورت کو درخوراعتناء نہیں سمجھ کر جذبات کی رو میں ایسے فیصلے کربیٹھتاہے جو قوم اور ملک کے مفاد میں نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
نبوی تعلیمات کی روشنی میں وہ حلم قابل تعریف ہے جس میں گالیاں دینے والے کو بھی دعائیں دی جاتی ہیں۔زیادتی کے مرتکب افراد کو نہ صرف معاف کردیا جاتاہے بلکہ اس سے مزید حسن سلوک کا معاملہ کیا جاتا ہے۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے اپنے ذاتی دشمنوں اور عزیزوں کے قاتلوں کو تک معاف فرمادیا۔ یہ معاملہ اور حسن سلوک دنیا کی تاریخ میں حلم و بردباری کا ایک سنہری باب ہے۔
مختصراً ذاتی معاملات اور نظریات میں اختلاف رکھنے والوں کو برداشت کرنے اور ان سے حلم و بردباری سے پیش آنا قیادت کی مقبولیت اور اثر پذیری میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔
(17) ایفائے عہد کی پاسداری ؛۔
ایفائے عہد کی اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔قائد میں عہدو پیمان کی پاسداری اگر نہ ہو تو عوام کا قیادت پر سے یقین و اطمینان اٹھجاتا ہے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم وعدے کے اتنے پکے تھے کہ کفارمکہ آپ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔
آج قیادت دھوکہ دہی،مکر و فریب ،جھوٹ،بددیانتی ،خیانت جیسے موذی امراض میں مبتلاہے۔بات بات میں جھوٹ بولنا اور معاملات میں بددیانتی کرنا آج کے قائدین کا وطیرہ بن چکا ہے۔
اسلام میں ایفائے عہد کا بڑی سخت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اور وعدہ خلافی و عہد شکنی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا "
’’عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔‘‘(بنی اسرائیل:34).
قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعدے وفا کرتے ہیں ۔
خود ﷲ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ ﷲ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ "
(آل عمران:9 )۔
رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔
"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((أربع من كُنَّ فيه كان منافقاًخالصا: إذا حدَّث كذب، وإذا عاهد غَدَر، وإذا وعَدَ أخلف، وإذا خاصم فَجَر)) رواه البخاري برقم (3007)، ومسلم رقم (58) واللفظ له.
رواه البخاري برقم (33).
چنانچہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس میں چار باتیں پائی جاتی ہوں وہ پکا منافق ہے : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے،اور جب لڑائی کرے تو گالی دے ۔‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور صحابہ رضی ﷲ عنہم کی نگاہ میں ایفائے عہد کس قدر اہم تھا۔
قائد و کارکنان ہر دم دوست ہو یا دشمن ،اپنا ہو یا بیگانہ،مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر ایک کے ساتھ عہد و پیمان کی پابندی کریں۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم اپنے معاہدات اور عہد و پیمان کا پور اپورا خیال رکھتے تھے ۔
آج کی قیادت خاص طور پر مسلم قیادت میں وعدے اور معاہدے کی پاسداری کا فقدان ہے۔
ایفائے عہد کی تکمیل کے بغیر قیادت نہ تو مقبول ہوتی ہے اور نہ ہی پروان چڑھتی ہے۔
(18) رفق و نرمی سے پیش آنا ؛۔
نرمی اور آسانی اسلامی سمات اور خصوصیات میں داخل ہیں ارشاد باری ہے (یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر)
اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں چاہتا ہے.
(سورۃ البقرہ:185)
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
"یسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا"
(صحیح البخاری ،کتاب الاداب ،باب یسروا ولاتعسروا)
تم دونوں آسانی کرنا مشکل نہ کرنا بشارت دینا نفرت نہ پیدا کرنا ۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت معاذبن جبل اور ابو موسی' اشعری کو تھی۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((دَخَلَ رَہْطٌ مِنَ الْیَہُودِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا: أَلسَّامُ عَلَیْکُمْ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَفَہِمْتُہَا فَقُلْتُ: وَعَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ۔ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَہْلًا یَا عَائِشَۃُ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْأَمْرِ کُلِّہِ۔ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ۔ ))
( أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: الرفق في الأمر کلہ، رقم: 6024).
''یہود کا ایک چھوٹا سا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہوں نے کہا: آپ پر موت ہو (نعوذ باللہ من ذالک) اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ''میں سمجھ گئی ۔
چنانچہ میں نے کہا: تم پر موت واقع ہو اور لعنت بھی۔ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ٹھہرو تو اے عائشہ! یقینا اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔میں نے عرض کیا: ''اے اللہ کے رسول آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''بے شک میں نے کہا تھا ''اور تم پر بھی ہو (موت)۔''
دوسری حدیث میں ارشاد ہے:
(( یَا عَائِشَۃُ إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُّحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِيْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِيْ عَلَی مَا سِوَاہُ"
(أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: 6601)
'' بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر جو دیتا ہے وہ سختی اور دیگر اشیاء پر نہیں دیتا۔ ''
ان احادیث میں نرمی کی فضیلت اور اسے عادت بنانے پر ابھارا گیا ہے، نیز سختی کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ـ
کہا گیا ہے کہ جب لوگ کوئی سخت کلام کرتے ہیں تو اس کی ایک جانب ضرور اس سے زیادہ نرم بات بھی ہوتی ہے جو کہ اس کے قائم مقام کھڑی ہوتی ہے۔ عمومی حالات اور اکثر امور میں نرمی قابل ستائش ہے اگرچہ سختی کی ضرورت پڑتی ہے مگر یہ کبھی کبھی ہے۔
کامل وہی ہے جو نرمی اور سختی کے مواقع کو پہچان لے اور ہر جگہ ویسا ہی معاملہ کرے اور اگر کم بصیرت والا ہے یا مواقع کی پہچان اس کے لیے مشکل ہے تو اسے نرمی کی طرف ہی مائل رہنا چاہیے کیونکہ اکثر طور پر اسی میں کامیابی ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(إِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُوْنُ فِيْ شَيْئٍ إِلاَّ زَانَہُ وَلَا یُنْزَعُ مِنْ شَيْئٍ إِلاَّ شَانَہُ
'' نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت کردیتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جائے اسے عیب دار کردیتی ہے۔ ''
( أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: 6602)۔ [احیاء علوم الدین للغزالی ص :184/ 186/3 نووی شرح مسلم ص :145/16 عون المعبود ص :114-113)۔
ہر بھلائی کا سبب نرمی ہے۔
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ"(صحيح مسلم:2593)
'' اور جو نرمی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ''
إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْق یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر شفقت اور آسانی کرنے والا ہے سختی اور تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا چنانچہ رب کریم نے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا۔
وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ: یعنی جتنا ثواب نرمی کی وجہ سے ملتا ہے کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں ملتا نیز اس کی وجہ سے دنیا میں اللہ تعالیٰ عمدہ ثناء اور تعریف کا حقدار بناتا ہے اور مقاصد تک پہنچنا آسان بنا دیتا ہے اور آخرت میں اتنا زیادہ ثواب مہیا کرے گا جو کہ سختی اور دیگر اشیاء کی وجہ سے نہیں دے گا۔
نرمی، قابل تعریف صفت ہے اس کی ضد سختی اور گرمی ہے۔ نرمی، حسن اخلاق کا نتیجہ ہے چنانچہ تمام امور میں نرمی کو نتیجہ خیز صرف اور صرف عمدہ اخلاق ہی بناتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام امور کو ان کی جگہوں پر رکھنا نرمی کہلاتا ہے یعنی سختی کے مقام پر سختی، نرمی کی جگہ پر نرمی، تلوار کی جگہ پر تلوار اور کوڑے کے مقام پر کوڑا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نرمی کے ساتھ سختی اور گرمی کا عنصر بھی ہونا چاہیے۔
چنانچہ تعریف کے قابل، نرمی اور سختی میں میانہ روی ہے تمام اخلاق میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن طبیعتیں سختی اور گرمی کی طرف زیادہ راغب ہیں چنانچہ انہیں نرمی کی طرف ترغیب دلانے کی زیادہ ضرورت ہے، اسی لیے شریعت اسلامیہ نے نرمی کی زیادہ ثناء اور تعریف کی ہے، گو سختی اپنے مقام پر اور نرمی اپنی جگہ پر اچھی ہے۔ چنانچہ سختی ناگزیر ہو تو انسان کی خواہش حق کے موافق ہوجاتی ہے اور یہ سختی بلحاظِ نتائج شہد ملے مکھن سے بھی زیادہ لذیذ ہوجاتی ہے.
نرم خوئی قیادت کے لئے بہت ضروری ہے۔اگر قائد کے دل میں نرمی ہوگی تو کارکنان(عوام) کے دل میں بھی اس کے لئے محبت و عزت ہوگی اور معاشرہ فتنے و فساد سے محفوظ رہے گا۔
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا:
" حديث عائشة -رضى الله عنها- قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول في بيتي هذا: اللهم من ولي من أمر أمتي شيئاً فشق عليهم فاشقق عليه، ومن ولي من أمر أمتي شيئاً فرفق بهم فارفق به"
[أخرجه مسلم، كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل، وعقوبة الجائر، والحث على الرفق بالرعية، والنهي عن إدخال المشقة عليهم، برقم (1828).
کہ یا ﷲ جو کوئی بھی میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی بھی میری امت کے کسی امر کا ولی بنا اور اس نے نرمی کی تو تو بھی اس پر نر می فرما۔‘‘
اور ایک حدیث جو ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔
’’ رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک ﷲ تعالیٰ نرمی فرمانے والاہے او نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: 6601)
مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات عیا ں ہوجاتی ہے کہ قیادت (اولوالامر ) کے لئے نرم خوئی(رفق) انتہائی اہم ہے۔
(19) تجربہ و مہارت پیدا کرنا ؛۔
قیادت کسی چھوٹے گروہ کی بھی ہوسکتی ہییا پھر ایک بڑی جماعت کی بھی ۔قیادت ادنیٰ درجے کی بھی ہوسکتی ہے اور اعلیٰ درجے کی بھی۔قائد کو جب کوئی قیادت سونپی جائے وہ اس میں مہارت رکھتا ہو یا کم از کم اس کی مبادیات اور اساسیات کا اسے علم ضرور ہو بصورت دیگر وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکے گا۔قائد کا زندگی کے دیگر شعبہ جات جیسے علم ودانش ،معاشیات،مالیات،
سیاسیات،قانون،ثقافت،تعلیم و تربیت ،طب و صحت،فلاح و بہبود وغیرہ سے بھی آگہی رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ قیادت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام نہیں دے پائے گا۔
(20) عفو درگزرکرنا؛۔
زندگی کے سفر میں بعض مرتبہ ناراضگی اوررنجش پیدا ہوسکتی ہے۔ایسے موقعوں پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے آپسی رعایت اور عفو ودرگزر کے ذریعے ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔عفو و درگزر کی وجہ سے زندگی کے معمولات احسن طریقے سے انجام پاتے ہیں اور سماجی تعلقات اور رشتوں کے درمیان توازن اور الفت پیدا ہوتی ہے۔عفو و درگزر کی صفت قائد کی عظمت کو بلندی عطا کرتی ہے۔
ﷲ تعالیٰ بھی عفودرگزر سے کام لینے والے بندوں کو پسند فرماتا ہے۔
" وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (سورہ البقرۃ:134)
’’اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور ﷲ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘
قائد کو چاہئے کہ اپنے اعلیٰ کردار اور عفو ودرگزر کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو فتح کرے انہیں حقائق سے روشناس کرائیں۔
قیا دت کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سختی ،رعونت اور درشتگی کبھی بھی مفید اور کارگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔سخت مخالفت اور تعصب کے باوجود قائد کو نرمی اور خوداری کا مظاہرہ پیش کرنا چاہئے۔قائد اگر ﷲ کی رحمت اور نصرت کا طلب گار ہے تو اسے چاہئے کہ وہ عفوودرگزر کو اپنے اخلاق کا لازمی حصہ بنائے۔
(21) رواداری سے پیش آنا ؛۔
سیرت طیبہ صلی ﷲ علیہ و سلم کے مطابق ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قائد میں رواداری کا عنصر ہونا بے حد ضروری ہے۔
قائد کو چاہئے کہ کو اپنے ہم عقیدہ ،ہم نظریہ اور ہم مذہب سے ہی نہیں بلکہ غیر مذہب اور دیگر عقائد و نظریات کے حامل لوگوں سے بھی رواداری اور حسن سلوک سے پیش آئے۔قائد کے اردگرد مختلف نظریات اور مختلف ذہنوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کے مذہنی نظریات و عقائد کا پا س و لحاظ رکھے اور نہیں مذہبی عبادت کی پوری آزادی فراہم کرے۔اسلام رواداری والا ایک ایسا واحد مذہب ہے جو مسلمانوں کو دیگر باطل مذاہب کے معبودوں کے متعلق بدکلامی اور گالیاں دینے سے روکتا ہے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے رواداری اور صلہ رحمی کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ جس کی مثال قیامت تک کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ایک عیسائی وفد نجران سے مدینہ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے مناظرے کے مقصد سے آیا۔ وفد کا ذہن مذہبی عداوت اور تعصب سے زہر آلود تھا۔جب اس وفد کے قیام کے متعلق آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے اسے مسجد نبوی میں ٹھہرانے کا حکم دیا اور جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو پھر آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے رجوع کیا گیا۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے ان کو مسجد نبوی میں اپنی عبادت کی اجازت مرحمت فرمادی۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم کی تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ رواداری سے اغیار قریب آتے ہیں اور اچھائیاں از خود جنم لینے لگتیں ہیں۔
(22) عوامی رابطہ رکھنا:
ایک اعلیٰ قیادت خود کو کبھی بھی دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رکھتی ۔اسلام ہمیں لوگوں سے الگ تھلگ رہنے اور لوگوں سے منہ پھیرکر زندگی گزارنے سے منع کرتا ہے۔ قرآن مجید نے سختی کے ساتھ اس امر سے منع کیا ہے۔
’’وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ۔ترجمہ؛۔اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘ ۔(سورہ لقمان:18)۔
صعر اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ قیادت جب اناپرستی کا شکار ہوجاتی ہے تو قائد کا رویہ بھی بالکل اسی طرح ہوجاتا ہے۔قائد کو اس طرح کے افعال سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(23)معلومات کا ذخیرہ ہونا؛۔
دنیا میں جتنے بھی کامیاب لیڈر گزرے ہیں ان میں سنجیدگی سے مطالعہ کرنے اور نئی معلومات اکٹھی کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی بھی واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے قائد کے پاس مفید معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ قائد اپنی معلومات کی بنیاد پر جو اچھا یا غلط فیصلہ کر ے گا اس کا براہ راست اثر اس کے پیرروں اور متعلقہ ادارے پر پڑے گا۔ بعض اوقات غلط معلومات یا معلومات نہ ہونے کی وجہ سے قائد سے ناقابل تلافی سرزدہوجاتی ہے۔قائد کو اپنے وسائل سے باخبر اور آشنا رہنا چاہئے۔ قائد کو سخت محنت کے بجائے دانشمندانہ سرگرمیوں اور افعال کی جانب رخ کرنا چاہئے۔ اکثر عام قائد سخت اور کڑی محنت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ایک ہی کاز کی تکمیل کے لئے دیر تک کاوش و کوشش کرنا سخت محنت کے زمرے میں آتاہے۔دانشنمدانہ انداز میں مسائل و کاز کو تخلیقی ،تعمیری اور منطقی انداز میں دیکھا جانا ضروری ہے ۔اس طریقہ کار میں تنوع پایا جاتا ہے۔اگر سخت محنت کے نکتہ پر ہی انسان اڑا رہتا تو بتایئے کہ گوگل اورجاوا جیسی اختراعات آج عالم منظر پر نہیں ابھرسکتی تھیں۔قائد اسی لئے ہاڑورک کے ساتھ اسمارٹ ورک کو ترجیح دے۔اپنے کارکنوں کے اچھے افعال و اعمال کی ستائش کرے۔کارکنوں کو اختیار ات تفویض کرنے کے بجائے انھیں ذمہ داری سونپے۔
(24) قوت فیصلہ کی صلاحیت ؛۔
عام حالات کی طرح مشکل اور ہنگامی حالات میں ہر شخص کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔
ایک بااثر قائد مشکل اور کٹھن وقت میں بھی اپنی دانش و بینش کے بل پر اہم فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہتر قائد ہمیشہ فیصلہ سازی میں جماعت کے تجربہ کار اہل علم افراد کو نہ صرف شامل رکھتا ہے بلکہ ان تجاویز و آرا پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔آرا وتجاویز کو رد کرتے وقت ان کی عزت نفس کا بھی خاص خیال رکھتا ہے۔
اگر قائد ان امور پر توجہ مرکوز نہیں کرے گا تو اپنے ماتحتوں کے مشوروں اور تجاویز سے وہ محروم ہوجائے گا اور وہ اسے ایک آمر یت پسند قائد کے طور پر دیکھنے لگیں گے۔
(25) مسائل کا حل کرنا ؛۔
قائد کے لئے عوامی (تنظیمی)حالات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ان کی فلاح وبہبود کے کام انجام دے سکے۔قائد اپنے کارکنوں اورپیروں سے باخبر رہے ۔اس جانب قرآن ہماری توجہ مبذول کرتاہے.
"وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ"
’’انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کہ کیا ہوگیا مجھے ہدہد نظر نہیں آرہا ہے وہ غائب ہے۔‘‘ (سورہ نمل:20)۔
اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنہیں ﷲ نے عظیم الشان سلطنت عطا کی تھی وہ نہ تو ہدہد سے بے خبر تھے اور نہ ہی اس کے معاملات سے۔حضرت عمر ؓ رعایا کی خبر گیری کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ اسی لئے آپ نے کہا ’’اگر فرات کے کنارے بھیڑ کا بچہ (بھوک سے)بھی مرگیا تو مجھے ڈر ہے کہ ﷲ مجھ سے اس کے متعلق سوال کرے گا۔‘‘(حلیۃ الاولیاء:53/1)
(26) اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کاملکہ ہونا؛۔
تقریر ہو یا تحریر، قائد کے پاس دوسروں تک موثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچانے کا گر ہونا چاہئے۔ اسکے پاس اچھے اور متبادل الفاظ کی فراوانی، جملوں کی روانی، زبان کی شائستگی اور بولنے میں سوز و گداز جیسے عناصر کا لازمی طور پر ذخیرہ ضروری ہے۔
قائدین مطالعہ اور اہل علم حضرات کی صحبتوں سے اپنی اس کمی کو دور کرسکتے ہیں۔
آج کے اس پرفتن در رمیں ایسی صفات کی حامل قیاد ت کا ملنا مشکل تو ضرورہے لیکن محال بھی نہیں ہے۔آج قیادت بدترین شخصیت پرستی اور آمریت کے دور سے گزر رہی ہے۔
قیادت و سیادت آج احساس ذمہ دار اور اپنے فرض منصبی سے عاری ہے۔قیادت عیاری ومکاری کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے۔قوم کے مال پر قائدین اپنی زندگی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور کروفر سے بسر کررہے ہیں۔معصوم عوام قیادت کے ظلم وستم سہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ قیاد ت کی عیاری سے واقف نہیں ہے ۔یہ بالکل واقف ہیں لیکن ان کے پاس جرات نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے ۔اگر علم ہوتو بھی یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے لاعلم ونابلد ہیں۔علم آدمی میں اعتماد پیدا کرتا ہے پھر اعتماد آدمی میں جرات پیدا کرتا ہے۔
شخصی و موروثی قیادت کی موجودگی میں نوجوان نسل کی قائدانہ تعلیم وتربیت کا انتظام کیئے بغیر اس منظر نامے کو نہ تو ہم بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی ،خوشحالی اور امن و استحکام کی توقع کرسکتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اپنی طرف سے فتح ونصرت سے ہمکنار فرما مزید ہمیں اسلام کے کلمے اور اس کے علم کو بلند کرنے والا والا بنا اور ہمیں اپنی طرف سے بہترین دینی وملی وسماجی قائد ورہبر بنا ۔ آمین تقبل یا رب العالمین۔
(جاری )
afrozgulri@gmail.com
16/07/2019
at 06:35 am
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2389362187958846&id=100006552645719
Sent from my TA-1053 using Tapatalk