• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی اور بندہ کے تعلق پر کچھ سوال اور الجھن!

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
3604/8- حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الأَشْعَثِ السِّجْزِيُّ، حَدَّثَنَا قَطَنٌ الْبَصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)
(اس روایت کا مرسل (بدون ذکر انس) ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کے راوی ''قطن بن نسیر'' روایت میں غلطیاں کرجاتے تھے، یہ انہی کی غلطی ہے کہ مرفوعا روایت کردی ہے ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم: ۱۳۶۲)
۳۶۰۴/۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہر ایک اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ ہی سے مانگے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- کئی اور راویوں نے یہ حدیث جعفر بن سلیمان سے اور جعفر نے ثابت بنانی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن اس روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے (یعنی مرسلاً روایت کی ہے جوآگے آرہی ہے)۔


3604/ 9- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ حَتَّى يَسْأَلَهُ الْمِلْحَ، وَحَتَّى يَسْأَلَهُ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ" وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ قَطَنٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)۳۶۰۴/م۹- ثابت بنانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہرایک اپنی ضرورت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک اوراپنے جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی اسی سے طلب کرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت قطن کی مذکورہ روایت سے جسے وہ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے (یعنی: اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے)۔
اس آخری سطر کا کیا مطلب ہے۔ اوپر تو کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس آخری سطر میں کہا جارہا ہے کہ صحیح ہے ؟؟؟ اس تحقیق کا نتیجہ بتلائیے کہ یہ حدیث صحیح ہے ہا ضعیف ؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندہ آپ کی درج ذیل عبارت کا مطلب نہیں سمجھ سکا :
ٍفرض کیجیئے کہ کوئی گھر لینا چاہتا ہے اور حدیث میں حکم کے مطابق اللہ سے مانگتا ہے لیکن اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کے لیے بہتر ہے یا نہیں؟ تو کیا وہ مانگتا ہی جائے ؟ یا اللہ سے بہتری کا سوال کرے ؟ اسی طرح اگر وہ بہتری کا سوال کرے تو ہم کون ہوتے ہیں اللہ کو چوائس دینے والے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فرض کیجیئے کہ کوئی گھر لینا چاہتا ہے اور حدیث میں حکم کے مطابق اللہ سے مانگتا ہے لیکن اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کے لیے بہتر ہے یا نہیں؟ تو کیا وہ مانگتا ہی جائے ؟ یا اللہ سے بہتری کا سوال کرے ؟ اسی طرح اگر وہ بہتری کا سوال کرے تو ہم کون ہوتے ہیں اللہ کو چوائس دینے والے ؟
لیکن اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کے لیے بہتر ہے یا نہیں؟ تو کیا وہ مانگتا ہی جائے ؟ یا اللہ سے بہتری کا سوال کرے ؟
آپ کے الفاظ کا مفہوم ہے کہ مانگنے والا ۔۔ممنوع ۔۔چیز کی طلب تو نہیں کر رہا ۔۔بلکہ مباح کا سوالی ہے ۔۔مگر اس کے نتیجے سے بے خبر ہے۔
تو عرض ہے کہ اس طرح تو پھر اولاد ،جو بہت ضروری نعمت ہے اور انبیاء نے بھی مانگی ہے ۔وہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ اس کیلئے بہتر ثابت ہوگی ۔یا۔ نہیں ؛
ہاں اتنا تو سبھی جانتے ہیں کہ اولاد صالح مانگنی چاہیئے ۔
اسی طرح اگر کسی نے گھر ، مکان کا سوال کرنا ہو ۔۔مفید ،بابرکت گھر کا سوال کرے،یعنی۔ (اے اللہ ! مجھے کشادہ گھر عطا فرما ۔جو میرےلئے با برکت ہو،مبارک ہو)
اور اللہ کریم سے سوال جزم و عزم کیساتھ کرے ؛
صحیح بخاری ، باب ليعزم المسألة فإنه لا مكره له:
باب: اللہ پاک سے اپنا مقصد قطعی طور سے مانگے اس لیے کہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے

حدیث نمبر: 6338
’’ عن انس رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"إذا دعا احدكم فليعزم المسالة ولا يقولن اللهم إن شئت فاعطني فإنه لا مستكره له".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اللہ سے قطعی طور پر مانگے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔“
(فليعزم المسألة) فليجزم بسؤاله وليجتهد وليلح به ولا يعلقه بالمشيئة۔۔۔یعنی پورے عزم سے طلب کرے ،اس کی مشیئت سے معلق نہ کرے
Narrated Anas: Allah's Apostle said, "When anyone of you appeal to Allah for something, he should ask with determination and
should not say, 'O Allah, if You wish, give me.', for nobody can force Allah to do something against His Will.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورآٹھویں صدی ہجری کے مشہور علامہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے :
" الحاجات التي يطلبها العبد من اللَّه عز وجل نوعان:
أحدهما: ما علم أنه خير محض ، كسؤاله خشيته من اللَّه تعالى وطاعته وتقواه ، وسؤاله الجنة ، والاستعاذة به من النار ، فهذا يُطلَب من اللَّه تعالى بغير تردد ، ولا تعليق بالعلم بالمصلحة ؛ لأنّه خير محض ، ومصلحة خالصة ؛ فلا وجه لتعليقه بشرط وهو معلوم الحصول ...
النوع الثاني: ما لا يعلم هل هو خير للعبد أم لا ، كالموت والحياة ، والغنى والفقر ، والولد والأهل ، وكسائر حوائج الدُّنْيَا التي تُجْهَل عواقبها .
فهذه لا ينبغي أن يسأل الله منها إلا ما يعلم فيه الخيرة للعبد ، فإن العبد جاهل بعواقب الأمور ، وهو مع هذا عاجز عن تحصيل مصالحه ودفع مضاره ، فيتعين عليه أن يسأل حوائجه من هو عالم قادر ، ولهذا شرعت الاستخارة في الأمور الدنيوية كلها ، وشُرع أن يقول الداعي في استخارته : " اللَّهُمَّ أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العَظِيم ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ -ويسميه باسمه- خَيْرٌ لِي فِي دِينِي ودُنْيَايَ..." انتهى من " مجموع رسائل ابن رجب" (1/153).
 
Last edited:

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اس آخری سطر کا کیا مطلب ہے۔ اوپر تو کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس آخری سطر میں کہا جارہا ہے کہ صحیح ہے ؟؟؟ اس تحقیق کا نتیجہ بتلائیے کہ یہ حدیث صحیح ہے ہا ضعیف ؟
3604/8- حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الأَشْعَثِ السِّجْزِيُّ، حَدَّثَنَا قَطَنٌ الْبَصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)
(اس روایت کا مرسل (بدون ذکر انس) ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کے راوی ''قطن بن نسیر'' روایت میں غلطیاں کرجاتے تھے، یہ انہی کی غلطی ہے کہ مرفوعا روایت کردی ہے ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم: ۱۳۶۲)
۳۶۰۴/۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہر ایک اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ ہی سے مانگے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- کئی اور راویوں نے یہ حدیث جعفر بن سلیمان سے اور جعفر نے ثابت بنانی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن اس روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے (یعنی مرسلاً روایت کی ہے جوآگے آرہی ہے)۔

3604/ 9- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ حَتَّى يَسْأَلَهُ الْمِلْحَ، وَحَتَّى يَسْأَلَهُ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ" وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ قَطَنٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)۳۶۰۴/م۹- ثابت بنانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہرایک اپنی ضرورت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک اوراپنے جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی اسی سے طلب کرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت قطن کی مذکورہ روایت سے جسے وہ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے (یعنی: اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے)۔
بھائی سمجھنے کی بات ہے دونوں ہی حدیثیں ضعیف ہیں، صاف لکھا ہے :یہ روایت قطن کی مذکورہ روایت سے جسے وہ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے (یعنی: اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے)۔
اس میں حدیث کو صحیح نہیں کہا گیا بلکہ اس کی روایت کے سلسلہ کو اوپر والی حدیث کے سلسلہ سے زیادہ صحیح کہا گیا ہے، لیکن ہے دونوں ہی ضعیف۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس آخری سطر کا کیا مطلب ہے۔ اوپر تو کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس آخری سطر میں کہا جارہا ہے کہ صحیح ہے ؟؟؟ اس تحقیق کا نتیجہ بتلائیے کہ یہ حدیث صحیح ہے ہا ضعیف ؟
محترم یوسف ثانی صاحب ۔۔۔عامر بھائی کا مطلب ہے کہ (( یہ الفاظ :' تم میں سے ہرایک اپنی ضرورت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک اوراپنے جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی اسی سے طلب کرے''۔۔ جناب نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ویسے یہ بات بالکل درست ہے کہ جو بھی مانگنا ہو ،اللہ سے مانگ سکتا ہے کیونکہ )):
:فرمان نبوی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام ہے :
’’ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ» قال الترمذی : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ "
جب کچھ مانگنا ہو تو اللہ ہی مانگو ، اور جب بھی مدد کی طلب ہو ،تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو ،اور یقین رکھو! کہ ساری امت تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی،
سوائے اتنے نفع کے جو پہلے اللہ نے تیرے لئے لکھ رکھا ہے ،اور سارے لوگ تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں۔۔تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس نقصان کے جو اللہ تعالی نے تیرے لئے لکھا ہوا ہے۔۔قلمیں (مقدر ،نصیب لکھ کر )خشک ہو چکیں ،اور صحیفے بند )‘‘
اور اللہ عزوجل خود فرماتا ہے :
’’ وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (34)ابراهيم
اور جو کچھ بھی تم نے اللہ سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ (لگا )سکو گے۔ یقیناً انسان تو ہے ہی حد درجہ بےانصاف اور بڑا ناشکرا‘‘ سورہ ابراہیم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
( دعا اے ہمارے رب ! )

اس لیے کہ کائنات کا مالک خود فرماتا ہے:-

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا

اس لیے کہ ارشاد ربانی ہے

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۭاِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ 55؀ۚ
تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نہ پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔

اس لیے کہ رب العالمین خود فرماتا ہے

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ١٨٦؁
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں (١) اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھتیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔

اس لیے کہ سب کا مشکل کُشا اللہ ہے
خود اعلان فرماتا ہے:-

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ۭءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ 62۝ۭ
بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے (١) اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے (٢) کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔

اس لیے کہ حدیث قدسی ہے :

اے میرے بندو تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں کھلاؤں تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سواۓ اس کے کہ جسے میں پہناؤں تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں تمہیں لباس پہناؤں گا اے میرے بندو تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخشتا ہوں تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخش دوں گا اے میرے بندو تم مجھے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو اے میرے بندو اگر تم سب اولین و آخریں اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں کچھ کمی نہیں کر سکتے اے میرے بندو اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں تو پھر بھی میرے خزانوں میں اس قدر بھی کمی نہیں ہوگی جتنی کہ سمندر میں سوئی ڈال کر نکالنے سے۔الحدیث (صحیح مسلم حدیث نمبر 2027)


اس لیے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :-

اللہ تعالیٰ حیا دار اور کریم ہے۔ جب کوئی بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اسے خالی اور نامراد واپس کرے۔
(جامع ترمذی کتاب الدعوات)

اس لیے کہ صادق المصدوق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے :


کہ جب آدھی رات یا رات کا دو تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، کیا ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اسکی دعا قبول کی جائے، کیا ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ اسے بخش دیا جائے، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم،سنن ابو داؤد، جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ)

اس لیے کہ محمد عربی علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں:

جب تک آدمی کسی گناہ یا قطع رحمی اور قبولیت میں جلدی نہ کرے اس وقت تک بندہ کی دعا قبول کی جاتی رہتی ہے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول جلدی کیا ہے آپ نے فرمایا وہ کہے میں نے دعا مانگی تھی میں نے دعا مانگی تھی لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میری دعا قبول ہوئی ہو پھر وہ اس سے نا امید ہو کر دعا مانگنا چھوڑ دیتا ہے۔
(صحیح مسلم باب الذکرو الدعا و الاستغفار)

اس لیے کہ آقا علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں:

الدعا هو العبادة۔دعا ہی تو عبادت ہے


اپنے خالق مالک اور رازق سے مانگتے ہوئے کچھ باتیں ذہن میں رکھیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے، تو یقین کے ساتھ دعا مانگے، یہ نہ کہے کہ یا اللہ اگر چاہے، تو مجھے دے دے، اس لئے کہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الدعوات)


ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی پھر اللہ سے مغفرت مانگنے اور اسکی رحمت کا سوال کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے نمازی تو نے جلدی کی۔ جب نماز پڑھ چکو تو اللہ کی اس طرح حمد وثناء بیان کرو جیسا کہ اسکا حق ہے پھر مجھ پر درود بھیجو اور پھر اس سے دعا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی پھر اللہ کی تعریف بیان کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے نمازی دعا کرو قبول کی جائے گی۔(ترمذی کتاب الدعوات )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین سے ساتھ دعا مانگا کرو۔ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور لہو ولعب میں مشغول دل کی دعا قبول نہیں فرماتے۔(ترمذی کتاب الدعوات )

تو آیئے مانگتے ہیں اپنے اللہ سے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٢٠١؁
اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے (١) اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ وَاعْفُ عَنَّا ۪ وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ٢٨٦؀ۧ
اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هدَيْتَنَا وَهبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهابُ Ď۝ آل عمران
اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 23؀الاعراف
اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے (١)۔

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ ، رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ 41ابراھیم
اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، (١) اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔
اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی (۱) بخش اور دیگر مومنوں کو بھی جس دن حساب ہونے لگے۔

رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِيْمِنَ ١٠٩؀المومنون
اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لا چکے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا 74؀الفرقان
اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (١)

رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ 24؀ القصص
اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں (١)

لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀الانبیا ء
الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا۔

رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ 97؀ۙ وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ 98؀
اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں (١)۔
اور اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں (١)

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 10۝ۧالحشر
اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کہیں (اور دشمنی) نہ ڈال (۱) اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا اسحاق بھائی۔آپ نے بہت اچھا سمجھا دیا۔واقعی ہی مجھے اب سوال پر الجھن نہیں رہی۔اسی عنوان سے متعلق دوسرا سوال بھی پیش کروں گی۔امید ہے اراکین کے لیے بھی علم میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ان شاء اللہ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

دوسرا سوال !!!

جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور وہ اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اسے کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے ؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

دوسرا سوال !!!
جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور وہ اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اسے کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے ؟؟
اس سوال کا جواب دو شقوں پر مشتمل ہے ؛
پہلی بات تو لازماً سمجھنے کی یہ ہے کہ : شرعی توبہ کی کچھ شرائط ہیں ، جن کے بغیر توبہ مقبول ۔۔یا۔۔صحیح نہیں ہوتی ۔اس کیلئے ذیل کا فتوی بغور ملاحظہ فرمائیں :

فتاویٰ جات: متفرقات فتویٰ نمبر : 9090

توبہ کی شرائط

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
توبہ کی شرائط کیا ہیں ۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ ایک انسان سے بشری تقاضے کی بنیاد پر خطائیں اور غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان خطاؤں اور غلطیوں سے توبہ بھی بے حد ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَ‌بُّكُم أَن يُكَفِّرَ‌ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ‌...٨﴾... سورة التحريم

ترجمہ : اے ایمان والو تم اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ معاف فرمادے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم " يأيها الناس توبوا إلى الله واستغفروه فإني أتوب في اليوم مائة مرة ,,(رواه مسلم )
اے لوگو تم اللہ کی حضور میں توبہ واستعفار کرو کیونکہ میں ایک دن میں سو بار توبہ واستغفار کرتا ہوں ۔
توبہ میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ توبہ خالص اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے لئے کی جائے،اور اس میں کوئی اور دنیاوی مقصد پوشیدہ نہ ہو ۔
2 ۔پچھلے دنوں میں جو گناہ ہوۓ ہیں اسپر نادم وشرمندہ ہو ۔
3۔ توبہ کرنے والا پختہ ارادہ کرے کہ وہ آئندہ اس گناہ کے قریب نہیں جائیگا جس سے وہ اللہ کے حضور توبہ کررہا ہے ۔
4 ۔ توبہ قبول ہونے کے وقت میں کی جاۓ ۔
5 ۔ اگر اس گناہ کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو توبہ کے قبول ہونے کی پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ صاحب حق کا حق ادا کردے یعنی اگر اسنے کسی کا مال ہڑپ کیا ہے تو اسے واپس کردے یا کسی کو ناحق ستایا ہے یا کسی کی غیبت و چغلخوری وعیب جوئی کی ہے تو اس سے معاقی کا طلبگار ہو ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث فتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب کی دوسری شق یہ ہے :جو آپ کے سوال کا آخری حصہ ہے کہ:
'' وہ اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اسے کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے ؛؛ ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ؛
  1. بندے کو بعد از توبہ مسلسل اپنے گناہ اور قصور کے بارے دھڑکا لگا رہنا چاہیئے کہ مبادا میرا گناہ معاف نہ ہوا ہو ، یعنی توبہ کے بعد نڈر اور غافل نہ ہو جائے ؛
  2. توبہ کے بعد ہر گناہ اور اسباب گناہ سے(ایمانی شعور و اختیار کے ساتھ ) مجتنب رہے ؛
  3. اپنی توبہ کو مولائے کریم کی خصوصی نعمت سمجھتے ، مانتے ہوئے ہر حال میں اس کا دھیان رکھے۔یعنی اسکی رضا اور خلاف رضا سے غفلت نہ کرے ۔اور اندیشہ رکھے کہ کہیں انابت و توبہ کی نعمت چھن نہ جائے؛
اور آنے والے ہر روز اطاعت الہی میں مزید آگے ہوتا جائے۔۔کیونکہ یہ بھی قبولیت کی بڑی دلیل ہے جیسے کہ خود مالک حقیقی نے فرمایا ہے ( وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى)یعنی اللہ تعالی ہدایت کے راہیوں کو توفیق مزید دیتا ہے ؛؛۔۔تو جو شخص آئے روز ہدایت کی راہ بڑھتا جائے ،سمجھ لینا چاہیئے کہ قبولیت سے اور توفیق توبہ سے محروم نہیں ؛
فينبغي أن تكون حالك بين رجاء قبول التوبة، ومخافة العقاب من الله تعالى، فذلك أدعى لأن يغفر الله لك ويرحمك، لكن لا مانع من أن يكون هناك علامات تدل على قبول التوبة يستأنس العبد بها.
فمن ذلك: أن يجد العبد التائب حرقة في قلبه على ما فرط منه في جنب الله، وأن ينظر لنفسه بعين التقصير في حق الله الجليل.
ومنها: أن يكون أشد تجافيا عن الذنب وعن أسبابه، نائيا بنفسه عن هذه الموارد.
ومنها: أن يميل إلى الإقبال على ربه ومولاه، وينظر إلى توفيق الله له بالتوبة على أنه نعمة عظيمة من أعظم النعم عليه، فيفرح بها ويحافظ عليها ويخاف زوالها، ويخشى عقوبة نكثها.
ومنها: أن يصاحب أهل الفضل والخير ويقاطع أصدقاء السوء ومن لا خير فيهم.
ومنها: أن يستمر على الاستقامة على دين الله تعالى.
ومنها: أن يوفق للطاعة، فمن رأى أنه موفق للطاعات وعمل الخيرات وهو مخلص في ذلك لله تعالى فليبشر، فهذا من دلائل رضا الله عنه في تلك الحال ولا يأمن مكر الله بل يسأل الله الثبات وحسن الخاتمة. ومن رأى من نفسه حب المعاصي والإصرار عليها وعدم التوفيق لكثير من الخير فهذا -عياذاً بالله- من دلائل غضب الله عليه، فليتدارك ذلك بتوبة نصوح لعل الله يوفقه إليها فيختم له بخير.
وليس من علامات قبول التوبة أن تعود الأحوال التي زالت عن الشخص إليه، بل قد يقبل الله توبته ولا يبسط له في رزقه مثل ما كان أولا، المهم أن يتوب المرء إلى الله تعالى وينيب إليه، فإن بسط له فذلك من نعم الله عليه، وإن لم يبسط له فقد أنعم عليه نعما أخرى قد يكون غافلا عنها، وهي صحة البدن مثلا، ونعمة الإسلام التي هي أعظم النعم، ونعمة التوفيق إلى التوبة. قال تعالى: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا {النحل: 18}.
والتوبة إذا كانت صادقة فإن الله قد وعد بقبولها. قال تعالى: وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ {الشورى: 25}.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اللہ کریم کا فرمان ہے کہ :
''إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ[ [البقرة:222]
یقیناً اللہ تعالیٰ کثرت سے توبہ کرنے والوں ، اور خوب پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے "
التوّاب : صيغة مبالغة من التوبة ، وهو كثير الرّجوع إلى الله ، والتّوبة هي الرّجوع إلى الله من معصيته إلى طاعته "
معصیت اور بے راہ روی کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کرنے کو " توبہ " کہا جاتا ہے ۔ "التواب " جو مبالغہ کا صیغہ ہے ، جسکے معنی ہیں ۔۔کثرت سے توبہ کرنے والا ۔۔ یعنی جو بندہ بار بار اللہ کی طرف رجوع کرکے اسکی رضا کا متلاشی ہو اس آیت میں میں اس کیلئے یہ خوشخبری ہے کہ اللہ اس کو پسند کرتا ہے؛
اسے اپنی محبت کا انعام دیتا ہے ؛

اس لئے جو بھی سچے دل اور پختہ ارادہ سے توبہ کرے۔۔۔۔تو وہ یہ یقین رکھے کہ اللہ اپنی رضا کے طالب کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا ؛
.
 
Top