السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
دوسرا سوال !!!
جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور وہ اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اسے کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے ؟؟
اس سوال کا جواب دو شقوں پر مشتمل ہے ؛
پہلی بات تو لازماً سمجھنے کی یہ ہے کہ : شرعی توبہ کی کچھ شرائط ہیں ، جن کے بغیر توبہ مقبول ۔۔یا۔۔صحیح نہیں ہوتی ۔اس کیلئے ذیل کا فتوی بغور ملاحظہ فرمائیں :
فتاویٰ جات: متفرقات فتویٰ نمبر : 9090
توبہ کی شرائط
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
توبہ کی شرائط کیا ہیں ۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ ایک انسان سے بشری تقاضے کی بنیاد پر خطائیں اور غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان خطاؤں اور غلطیوں سے توبہ بھی بے حد ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَبُّكُم أَن يُكَفِّرَ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّـٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ...٨﴾... سورة التحريم
ترجمہ : اے ایمان والو تم اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ معاف فرمادے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
" يأيها الناس توبوا إلى الله واستغفروه فإني أتوب في اليوم مائة مرة ,,(رواه مسلم )
اے لوگو تم اللہ کی حضور میں توبہ واستعفار کرو کیونکہ میں ایک دن میں سو بار توبہ واستغفار کرتا ہوں ۔
توبہ میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ توبہ خالص اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے لئے کی جائے،اور اس میں کوئی اور دنیاوی مقصد پوشیدہ نہ ہو ۔
2 ۔پچھلے دنوں میں جو گناہ ہوۓ ہیں اسپر نادم وشرمندہ ہو ۔
3۔ توبہ کرنے والا پختہ ارادہ کرے کہ وہ آئندہ اس گناہ کے قریب نہیں جائیگا جس سے وہ اللہ کے حضور توبہ کررہا ہے ۔
4 ۔ توبہ قبول ہونے کے وقت میں کی جاۓ ۔
5 ۔
اگر اس گناہ کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو توبہ کے قبول ہونے کی پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ صاحب حق کا حق ادا کردے یعنی اگر اسنے کسی کا مال ہڑپ کیا ہے تو اسے واپس کردے یا کسی کو ناحق ستایا ہے یا کسی کی غیبت و چغلخوری وعیب جوئی کی ہے تو اس سے معاقی کا طلبگار ہو ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث فتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب کی دوسری شق یہ ہے :جو آپ کے سوال کا آخری حصہ ہے کہ:
'' وہ اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اسے کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے ؛؛ ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ؛
- بندے کو بعد از توبہ مسلسل اپنے گناہ اور قصور کے بارے دھڑکا لگا رہنا چاہیئے کہ مبادا میرا گناہ معاف نہ ہوا ہو ، یعنی توبہ کے بعد نڈر اور غافل نہ ہو جائے ؛
- توبہ کے بعد ہر گناہ اور اسباب گناہ سے(ایمانی شعور و اختیار کے ساتھ ) مجتنب رہے ؛
- اپنی توبہ کو مولائے کریم کی خصوصی نعمت سمجھتے ، مانتے ہوئے ہر حال میں اس کا دھیان رکھے۔یعنی اسکی رضا اور خلاف رضا سے غفلت نہ کرے ۔اور اندیشہ رکھے کہ کہیں انابت و توبہ کی نعمت چھن نہ جائے؛
اور آنے والے ہر روز اطاعت الہی میں مزید آگے ہوتا جائے۔۔کیونکہ یہ بھی قبولیت کی بڑی دلیل ہے جیسے کہ خود مالک حقیقی نے فرمایا ہے ( وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى)یعنی اللہ تعالی ہدایت کے راہیوں کو توفیق مزید دیتا ہے ؛؛۔۔تو جو شخص آئے روز ہدایت کی راہ بڑھتا جائے ،سمجھ لینا چاہیئے کہ قبولیت سے اور توفیق توبہ سے محروم نہیں ؛
فينبغي أن تكون حالك بين رجاء قبول التوبة، ومخافة العقاب من الله تعالى، فذلك أدعى لأن يغفر الله لك ويرحمك، لكن لا مانع من أن يكون هناك علامات تدل على قبول التوبة يستأنس العبد بها.
فمن ذلك: أن يجد العبد التائب حرقة في قلبه على ما فرط منه في جنب الله، وأن ينظر لنفسه بعين التقصير في حق الله الجليل.
ومنها: أن يكون أشد تجافيا عن الذنب وعن أسبابه، نائيا بنفسه عن هذه الموارد.
ومنها: أن يميل إلى الإقبال على ربه ومولاه، وينظر إلى توفيق الله له بالتوبة على أنه نعمة عظيمة من أعظم النعم عليه، فيفرح بها ويحافظ عليها ويخاف زوالها، ويخشى عقوبة نكثها.
ومنها: أن يصاحب أهل الفضل والخير ويقاطع أصدقاء السوء ومن لا خير فيهم.
ومنها: أن يستمر على الاستقامة على دين الله تعالى.
ومنها: أن يوفق للطاعة، فمن رأى أنه موفق للطاعات وعمل الخيرات وهو مخلص في ذلك لله تعالى فليبشر، فهذا من دلائل رضا الله عنه في تلك الحال ولا يأمن مكر الله بل يسأل الله الثبات وحسن الخاتمة. ومن رأى من نفسه حب المعاصي والإصرار عليها وعدم التوفيق لكثير من الخير فهذا -عياذاً بالله- من دلائل غضب الله عليه، فليتدارك ذلك بتوبة نصوح لعل الله يوفقه إليها فيختم له بخير.
وليس من علامات قبول التوبة أن تعود الأحوال التي زالت عن الشخص إليه، بل قد يقبل الله توبته ولا يبسط له في رزقه مثل ما كان أولا، المهم أن يتوب المرء إلى الله تعالى وينيب إليه، فإن بسط له فذلك من نعم الله عليه، وإن لم يبسط له فقد أنعم عليه نعما أخرى قد يكون غافلا عنها، وهي صحة البدن مثلا، ونعمة الإسلام التي هي أعظم النعم، ونعمة التوفيق إلى التوبة. قال تعالى: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا {النحل: 18}.
والتوبة إذا كانت صادقة فإن الله قد وعد بقبولها. قال تعالى: وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ {الشورى: 25}.