• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی اور بندہ کے تعلق پر کچھ سوال اور الجھن!

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عَنْ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ) رواه مسلم (2702) .
اغر مزنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں ايك دن ميں سو بار اللہ سے استغفار كرتا ہوں "

وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ )رواه النسائي في "السنن الكبرى" (6/114) وأحمد في "المسند" (2/450) وحسنه محققو المسند .
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلاشبہ ميں روزانہ اللہ عزوجل سے ايك سو بار استغفار كرتا ہوں "
سنن نسائى ( 6 / 114 ) مسند احمد ( 2 / 450 ) محققين نے اس كى سند حسن قرار دي ہے.

وقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( وَاللَّهِ إِنِّي لاَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً ) رواه البخاري (6307) .
اور ايك روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" اللہ كى قسم ميں دن ميں ستر بار سے زيادہ اللہ تعالى سے استغفار اور توبہ كرتا ہوں "۔۔۔۔صحيح بخارى حديث نمبر ( 6307 ).

وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : ( إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ مِائَةَ مَرَّةٍ : رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ) رواه أبو داود ( 1516 ) ، والترمذي ( 3430 ) . وصححه الشيخ الألباني في صحيح أبي داود .
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" ہم ايك مجلس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سو بار درج ذيل دعا پڑھنا شمار كرتے تھے:
" رب اغفر لى و تب على انك انت التواب الرحيم " اے ميرے پروردگار مجھے بخش دے اور ميرى توبہ قبول فرما يقنا تو توبہ قبول كرنے والا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1516 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 3430 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے "صحيح ابو داود " ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

وقال أبو هريرة رضي الله عنه : ( ما رأيتُ أحداً أكثر من أن يقول : (أستغفر الله وأتوب إليه) مِن رسول الله صلى الله عليه وسلم )
رواه النسائي في "السنن الكبرى" (6/118) .
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے زيادہ كسى اور كو يہ كلمات پڑھتے ہوئے نہيں ديكھا:
" استغفر اللہ و اتوب اليہ "
ميں اللہ سے بخشش طلب كرتا ہوں، اور اس كى جانب توبہ كرتا ہوں "
سنن نسائى ( 6 / 118 ).
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اس سوال کا جواب دو شقوں پر مشتمل ہے ؛
پہلی بات تو لازماً سمجھنے کی یہ ہے کہ : شرعی توبہ کی کچھ شرائط ہیں ، جن کے بغیر توبہ مقبول ۔۔یا۔۔صحیح نہیں ہوتی ۔اس کیلئے ذیل کا فتوی بغور ملاحظہ فرمائیں :

فتاویٰ جات: متفرقات فتویٰ نمبر : 9090

توبہ کی شرائط

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
توبہ کی شرائط کیا ہیں ۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ ایک انسان سے بشری تقاضے کی بنیاد پر خطائیں اور غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان خطاؤں اور غلطیوں سے توبہ بھی بے حد ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَ‌بُّكُم أَن يُكَفِّرَ‌ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ‌...٨﴾... سورة التحريم

ترجمہ : اے ایمان والو تم اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ معاف فرمادے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم " يأيها الناس توبوا إلى الله واستغفروه فإني أتوب في اليوم مائة مرة ,,(رواه مسلم )
اے لوگو تم اللہ کی حضور میں توبہ واستعفار کرو کیونکہ میں ایک دن میں سو بار توبہ واستغفار کرتا ہوں ۔
توبہ میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ توبہ خالص اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے لئے کی جائے،اور اس میں کوئی اور دنیاوی مقصد پوشیدہ نہ ہو ۔
2 ۔پچھلے دنوں میں جو گناہ ہوۓ ہیں اسپر نادم وشرمندہ ہو ۔
3۔ توبہ کرنے والا پختہ ارادہ کرے کہ وہ آئندہ اس گناہ کے قریب نہیں جائیگا جس سے وہ اللہ کے حضور توبہ کررہا ہے ۔
4 ۔ توبہ قبول ہونے کے وقت میں کی جاۓ ۔
5 ۔ اگر اس گناہ کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو توبہ کے قبول ہونے کی پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ صاحب حق کا حق ادا کردے یعنی اگر اسنے کسی کا مال ہڑپ کیا ہے تو اسے واپس کردے یا کسی کو ناحق ستایا ہے یا کسی کی غیبت و چغلخوری وعیب جوئی کی ہے تو اس سے معاقی کا طلبگار ہو ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث فتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب کی دوسری شق یہ ہے :جو آپ کے سوال کا آخری حصہ ہے کہ:
'' وہ اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اسے کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے ؛؛ ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ؛
  1. بندے کو بعد از توبہ مسلسل اپنے گناہ اور قصور کے بارے دھڑکا لگا رہنا چاہیئے کہ مبادا میرا گناہ معاف نہ ہوا ہو ، یعنی توبہ کے بعد نڈر اور غافل نہ ہو جائے ؛
  2. توبہ کے بعد ہر گناہ اور اسباب گناہ سے(ایمانی شعور و اختیار کے ساتھ ) مجتنب رہے ؛
  3. اپنی توبہ کو مولائے کریم کی خصوصی نعمت سمجھتے ، مانتے ہوئے ہر حال میں اس کا دھیان رکھے۔یعنی اسکی رضا اور خلاف رضا سے غفلت نہ کرے ۔اور اندیشہ رکھے کہ کہیں انابت و توبہ کی نعمت چھن نہ جائے؛
اور آنے والے ہر روز اطاعت الہی میں مزید آگے ہوتا جائے۔۔کیونکہ یہ بھی قبولیت کی بڑی دلیل ہے جیسے کہ خود مالک حقیقی نے فرمایا ہے ( وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى)یعنی اللہ تعالی ہدایت کے راہیوں کو توفیق مزید دیتا ہے ؛؛۔۔تو جو شخص آئے روز ہدایت کی راہ بڑھتا جائے ،سمجھ لینا چاہیئے کہ قبولیت سے اور توفیق توبہ سے محروم نہیں ؛
فينبغي أن تكون حالك بين رجاء قبول التوبة، ومخافة العقاب من الله تعالى، فذلك أدعى لأن يغفر الله لك ويرحمك، لكن لا مانع من أن يكون هناك علامات تدل على قبول التوبة يستأنس العبد بها.
فمن ذلك: أن يجد العبد التائب حرقة في قلبه على ما فرط منه في جنب الله، وأن ينظر لنفسه بعين التقصير في حق الله الجليل.
ومنها: أن يكون أشد تجافيا عن الذنب وعن أسبابه، نائيا بنفسه عن هذه الموارد.
ومنها: أن يميل إلى الإقبال على ربه ومولاه، وينظر إلى توفيق الله له بالتوبة على أنه نعمة عظيمة من أعظم النعم عليه، فيفرح بها ويحافظ عليها ويخاف زوالها، ويخشى عقوبة نكثها.
ومنها: أن يصاحب أهل الفضل والخير ويقاطع أصدقاء السوء ومن لا خير فيهم.
ومنها: أن يستمر على الاستقامة على دين الله تعالى.
ومنها: أن يوفق للطاعة، فمن رأى أنه موفق للطاعات وعمل الخيرات وهو مخلص في ذلك لله تعالى فليبشر، فهذا من دلائل رضا الله عنه في تلك الحال ولا يأمن مكر الله بل يسأل الله الثبات وحسن الخاتمة. ومن رأى من نفسه حب المعاصي والإصرار عليها وعدم التوفيق لكثير من الخير فهذا -عياذاً بالله- من دلائل غضب الله عليه، فليتدارك ذلك بتوبة نصوح لعل الله يوفقه إليها فيختم له بخير.
وليس من علامات قبول التوبة أن تعود الأحوال التي زالت عن الشخص إليه، بل قد يقبل الله توبته ولا يبسط له في رزقه مثل ما كان أولا، المهم أن يتوب المرء إلى الله تعالى وينيب إليه، فإن بسط له فذلك من نعم الله عليه، وإن لم يبسط له فقد أنعم عليه نعما أخرى قد يكون غافلا عنها، وهي صحة البدن مثلا، ونعمة الإسلام التي هي أعظم النعم، ونعمة التوفيق إلى التوبة. قال تعالى: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا {النحل: 18}.
والتوبة إذا كانت صادقة فإن الله قد وعد بقبولها. قال تعالى: وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ {الشورى: 25}.
ٰلیکن یہی دھڑکا اور خوف انسان کو دکھی رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کی بندگی نہ کر سکے۔کیا اس افسوس اور دکھ میں ہی زندگی گزارنی ہو گی؟کیا انسان کی یہ کیفیت بھی اس کے دین کا حصہ ہے؟
 
Top