• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی کا اپنی مخلوق کے اندر حلول کا عقیدہ رکھنے والے کو جواب !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اللہ تعالی کا اپنی مخلوق کے اندر حلول کا عقیدہ رکھنے والے کو جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أما بعد:

ایسے شخص کے سلسلے میں کئی مرتبہ سوالات کئے جاچکے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق میں حلول کئے ہوئے ہے، اور ان میں خلط ملط ہے، اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہی عام معیت کا مفہوم ہے، اس کے قائلین اس کی تشبیہہ اللہ تعالی کے اس قول سے دیتے ہیں:

اللہ تعالی کے اس فرمان سے مثال دیتے ہیں:

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ
ﺍﻭﺭ ﻃﻮﺭ ﻛﮯ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺗﻮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ

اور اللہ تعالی کے اس فرمان سے مثال دیتے ہیں:

وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ
ﺗﻮ ﺍﻥ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﻠﻢ ﮈﺍﻝ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا

اس کا معنی (ان کے قول کے مطابق) یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالی ان کی معیت میں اپنی ذات کے ساتھـ تھا، کیونکہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے ۔

چونکہ اس بات کا قائل غلط فہمی کا شکار ہوگیا، اور فحش غلطی کر بیٹھا جو قرآن وسنت اور سلف صالح کے عقیدہ کے خلاف ہے، اس لیے میں نے صحیح بات بتانے اور اس کے قائلین کے شبہات کا ازالہ کرنا مناسب سمجھا، لہذا اللہ سبحانہ وتعالی کو ان ہی اوصاف سے متصف کیا جائے، جن اوصاف سے خود کو اس نے متصف کیا ہے ، اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اوصاف سے متصف کیا ہے، جو اوصاف اللہ کی عظمت کے شایان شان ہیں، اس کی نہ مثال دی جاسکتی ہے، نہ کیفیت سازی کی جاسکتی ہے، اور نہ ہی تحریف اور تعطیل (بے معنی قرار دینا) کی جاسکتی،

جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
ﺍﺱ ﺟﯿﺴﯽ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ، ﻭﮦ ﺳﻨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻜﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ۔


جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قرآن وسنت اور اجماع سلف سے جو ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق کے اوپر ہے، ان سے الگ ہے، عرش پر اس طور پر مستوی ہے جو اس کی عظمت کے شایان شان ہے، اس استواء میں کسی مخلوق کے مشابہ نہیں ہے، اللہ تعالی اپنے علم کے ساتھـ ان کی معیت میں ہے، مخلوق پر اللہ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، یہی قرآن کریم کی آیتوں کا بلیغ اور واضح مفہوم ہے ، اور اس مفہوم پر صحیح ثابت اور واضح احادیث دلالت کرتی ہیں،

اللہ تعالی کا مخلوقات کے اوپر بلند ہونے اور عرش پر مستوی ہونے کے دلائل میں سے قرآن کی یہ آیت بھی ایک دلیل ہے:

إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ
ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﺳﺘﮭﺮﮮ کلمات ﺍﺳﯽ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻚ ﻋﻤﻞ ﺍﻥ ﻛﻮ ﺑﻠﻨﺪ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ

انِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ
ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ

تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ
ﺟﺲ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺡ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ
ﭘﮭﺮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻮﯼ ﮨﻮﺍ، ﻭﮦ ﺭﺣﻤٰﻦ ﮨﮯ

أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ
کیا ﺗﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻛﮧ ﺁﺳﻤﺎنوں ﻭﺍﻻ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻨﺴﺎ ﺩﮮ

أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا
یا كيا تم اس بات سے نڈرہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسادے؟

اور الله تعالی كا یہ فرمان بھی:

الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى ،
ﺟﻮﺭﺣﻤٰﻦ ﮨﮯ، ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﮯ ۔

يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الأَسْبَابَ (36)
ﺍﮮ ﮨﺎﻣﺎﻥ ! ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﻚ ﺑﺎﻻﺧﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻛﮯﺟﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮨﯿﮟ۔ ( ﺍﻥ ) ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﺗﻚ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎوﮞ(36)

أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لأَظُنُّهُ كَاذِبًا
ان دروازوں تك ﭘہﻨﭻ ﺟﺎوﮞ ﺍﻭﺭﻣﻮﺳﲐ ﻛﮯﻣﻌﺒﻮﺩ ﻛﻮﺟﮭﺎﻧﻚ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺸﻚ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺟﮭﻮﭨﺎ ﮨﮯ ۔

اور حدیثِ نبوی میں اس حقیقت کے دلائل صحیح اور حسن احادیث سے اتنے زیادہ وارد ہیں جنہیں بہ مشقت ہی شمار کیا جاسکتا ہے، مثلا معراج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ، اور جھاڑ پھونک کی حدیث، جسے امام ابوداؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے :

ہمارا وہ پروردگار ہے ، جو آسمانوں میں ہے ، اس کا نام بہت ہی مقدس ہے ، اور زمین و آسمان میں اسی کی حکومت ہے پوری حدیث ۔

اور اوعال ( پہاڑی بکروں کے مانند فرشتے) کی حدیث میں آپ کا فرمان ہے:

اور عرش اس کے اوپر ہے ، اور اللہ تعالی اس کے اوپر ہے، اور وہ تمہاری ہر حرکت سے واقف ہے - اسے امام احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح حدیث میں باندی کے متعلق :

اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے کہا : آسمان میں ۔ پھر آپ نے اس سے کہا : میں کون ہوں؟ تو اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو آزاد کردو ، یہ ایمان والی ہے ۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے


جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اس سلسلہ میں اور بھی بے شمار احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، اور جو اس بات کا یقینی علم دیتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان کیا، کہ اللہ تعالی آسمان کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے، اسی فطرت پر اللہ تعالی نے تمام امتوں اور قوموں کو چاہے عرب ہوں یا عجم، زمانہ جاہلیت میں ہوں یا اسلام میں، پیدا کیا ، چنانچہ انسان فطری طور پر یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالی اوپر ہے، الا یہ کہ جسے شیطان اپنی فطرت سے ہٹا دے-

اور پھر اسلافِ امت سے اس بارے میں جو اقوال منقول ہیں، اگر ان کو جمع کیا جائے، تو ان اقوال کی تعداد سیکڑوں بلکہ ہزاروں تک پہنچ جائے گی، ، لیکن قرآن و حدیث یا سلف امت کے صحابہ کرام اور تابعین عظام، یا ان ائمہ کرام سے جنہوں نے نفس پرستی اور بدعات و خرافات کا زمانہ دیکھا، ان لوگوں سے ایک بھی ایسا قول یا حرف ظاہر یا مبہم پایا نہیں جاتا جس سے پتہ چلے کہ اللہ تعالی آسمان میں نہیں ہے، یا یہ کہ وہ عرش پر نہیں ہے، یا یہ کہ اپنی ذات کے ساتھـ ہر جگہ موجود ہے، یا یہ کہ اس کے لئے تمام جگہیں برابر ہیں، یا یہ کہ وہ نہ عالم کے اندر ہے اور نہ باہر، یا یہ کہ اس کی طرف انگلیوں سے حسی اشارہ جائز نہیں ہے وغیرہ وغیرہ باطل اقوال،

بلکہ صحیح بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عرفات کے روز سب سے عظیم مجمع میں خطبہ دیا تو آپ نے کئی مرتبہ یہ ارشاد فرمایا :

یاد رکھو ! کیا میں نے تمہیں اپنا پیغام پہنچادیا ہے ؟ تو صحابہ نے کہا : ہاں ، تو آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی ، پھر لوگوں کی طرف اس کا رخ کرتے ہوئے فرمایا کہ : اے اللہ تو گواہ رہ اس طرح کی بکثرت مثالیں مل سکتی ہیں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اور دیگر اہل علم نے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے۔
( دیکھئے فتاوی ابن تیمیہ جلد 5 صفحہ 14)

مقصد یہ ہے کہ یہ عقیدہ جو جمہیہ معطلہ اور ان کے راستے پر چلنے والے بدعتی افراد کا عقیدہ ہے نہایت خبیث اور فاسد عقیدہ ہے، اور اس میں رب العالمین کی تنقیص لازم آتی ہے، اللہ تعالی ہمیں کج روی سے محفوظ رکھے ۔ اور اس عقیدہ کے باطل ہونے کے بہت زیادہ دلائل ہیں، کیونکہ عقل سلیم اور فطرت سلیمہ دونوں اسے قبول نہیں کرتے، چہ جائے کہ شریعت کے ثابت دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے، رہی بات مذکورہ آیتوں سے کچھـ لوگوں کے استدلال کی ، تو یہ نہایت باطل استدلال ہے، کیونکہ ان کا گمان ہے کہ آیات سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کوہ طور کے ایک جانب زمین میں اپنی ذات کے ساتھـ موجود ہے، ( اللہ تعالی اس سے کہیں زیادہ بلند وبالا ہے) ۔

اس بات کے قائل کو پتہ نہیں کہ معیت کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

ایک معیت عام، اور دوسری معیت خاص،

خاص معیت کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ
ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺍللہ تعالیٰ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻚ ﰷﺭﻭﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اور الله سبحانه و تعالى كا فرمان ہے:

لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
ﻏﻢ ﻧﮧ ﻛﺮ ﺍﹴ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ

اورتعالی الله كا فرمان ہے:

إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى
ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺘﺎ ﺩﯾﻜﮭﺘﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ

یا اس جیسی آیتیں، لہذا اللہ سبحانہ وتعالی اپنے انبیاء کرام اور نیک متقی بندوں کے ساتھـ اپنی مدد، تائید ، اعانت، توفیق، درستگی، کفایت، نگہداشت اور ہدایت کے ذریعہ ہوتا ہے-

جیسا کہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اور بندہ نوافل سے میری قربت حاصل کرتے رہتا ہے ، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، تو میں اس کا وہ کان ہوجاتا ہوں ، جس سے وہ سنتا ہے ۔ وہ آنکھـ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اور میں اس کا وہ ہاتھـ اور پیر ہوجاتا ہوں ، جس سے وہ پکڑتا اور چلتا ہے اس کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی بندوں کے لئے اعضاء بن جاتا ہے، (اللہ تعالی اس سے بلند وبالا ہے) ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کو درستگی اور توفیق سے ہم کنار کرتا ہے، جیسا کہ دوسری روایت اس مفہوم کی توضیح کرتی ہے،

اللہ سبحانہ تعالی نے فرمایا:

چنانچہ وہ میرے کانوں سے سنتا ہے ، میری آنکھوں سے دیکھتا ہے ، میرے ہاتھوں سے پکڑتا ہے ، اور میرے پاؤں سے چلتا ہے اس سے واضح ہوا کہ

اللہ تعالی کے اس فرمان : " میں اس کا کان بن جاتا ہوں" الخ۔۔ کا مطلب اس کو درستگی اور توفیق سے ہم کنار کرنا ہے، اور غضب الہی میں واقع ہونے سے اسے بچائے رکھنا ہے۔


رہی بات عام معیت کی تو اس کا مفہوم:

مکمل علم واحاطہ ہے، اور اس قسم کی معیت کا ذکر بکثرت قرآنی آیات میں مذکور ہے،

مثلا اللہ تعالی کا یہ فرمان:

مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلاَ خَمْسَةٍ إِلا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلاَ أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلاَ أَكْثَرَ إِلا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا
ﺗﯿﻦ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﻛﯽ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﻣﮕﺮ ﺍللہ ﺍﻥ کا ﭼﻮﺗﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﭻ ﻛﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﻥ کا ﭼﮭﭩﺎ ﻭﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻛﻢ ﻛﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻛﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺳﺎتھـ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮨﻮﮞ

اور الله تعالی كا فرمان:

ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﻛﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗھ ﮨﮯ

اور الله تعالی كا فرمان:

وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ
ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﭼﻮﻧﻜﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﺧﺒﺮ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺭﻭﺑﺮﻭ ﺑﯿﺎﻥ ﻛﺮﺩﯾﮟ ﮔﮯ ، ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻛچھـ ﺑﮯ ﺧﺒﺮ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ

اور الله تعالی كا فرمان:

وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ
ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻛﺴﯽ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺠﻤﻠﮧ ﺍﻥ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﻛﮯ ﺁﭖ ﻛﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ کاﻡ ﺑﮭﯽ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﮨﻢ ﻛﻮ ﺳﺐ ﻛﯽ ﺧﺒﺮ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﻢ ﺍﺱ کاﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮ

اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیتیں ہیں، چنانچہ اللہ عزوجل اپنے عرش پر مستوی ہے، ایسی کیفیت کے ساتھـ جو اس کی عظمت وجلال کے شایان شان ہے، وہ علمی لحاظ سے اپنی مخلوقات کو محیط ہے، مخلوقات جہاں کہیں ہوں ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہے، چاہے بر و بحر میں ہوں یا روشنی یا تاریکی میں، گھر کے اندر ہوں یا صحراء میں، سب اللہ کے علم میں ہیں، اور سب اس کی نگاہ اور سماعت کے تحت ہیں، وہ ان کی باتوں کو سنتا ہے، ان کی جگہوں کو دیکھتا ہے

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اور ان کے اسرار و سرگوشیوں سے بخوبی واقف رہتا ہے -

جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ
ﯾﺎﺩ ﺭﻛﮭﻮ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﻮﮞ ﻛﻮ ﺩﮨﺮﺍ ﻛﯿﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﻛﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ( ﺍللہ ) ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﺳﻜﯿﮟ ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﻛﮭﻮ ﻛﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﻛﭙﮍﮮ ﻟﭙﯿﭩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺳﺐ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻛچھـ ﭼﮭﭙﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻛچھـ ﻭﮦ ﻇﺎﮨﺮ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﻦ ﻭﮦ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻛﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ

اور الله تعالی كا فرمان ہے:

ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ کا ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﻛﻮ ﭼﮭﭙﺎ ﻛﺮ ﻛﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺂﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﺍﺳﮯ ﻛﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺭﺍﺕ ﻛﻮ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ہو

اور فرمایا:

سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ
ﺗﺎﻛﮧ ﺗﻢ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﻛﮧ ﺍﹴ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﮯ، اور اللہﹴ تعالیٰ ﻧﮯ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻛﻮ ﺑﮧ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﻋﻠﻢ ﮔﮭﯿﺮ ﺭﻛﮭﺎ ﮨﮯ لہذا اس کے سوا کوئی معبود اور رب نہیں ہے۔

اللہ تعالی نے عام معیت کی آیتوں کی ابتداء علم سے کی ہے، اور اس کا اختتام بھی علم سے کیا ہے، تاکہ اس کے بندے یہ جان لیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے احوال اور تمام امور سے مطلع ہے، نہ یہ بتانا کہ اللہ تعالی ان کے ساتھـ ان کے گھروں اور حمامات وغیرہ میں ہے، ( اللہ تعالی ان اقوال سے بلند وبالا ہے)-

اور یہ کہنا کہ اللہ کی معیت کا مفہوم اللہ کی ذات سے مختلط اور مل جانا ہے ، یہ بات حلول کا عقیدہ رکھنے والے کہتے ہیں، جو یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کا معبود اپنی ذات کے ساتھـ ہر جگہ موجود ہے، اور اللہ کو عرش پر مستوی ہونے سے اور مخلوق پر بلند ہونے سے منزہ کرتے ہیں، مگر اللہ کی ذات کو گندی سے گندی جگہوں سے بھی پاک کرنے سے گریز نہیں کرتے، ( اللہ انہیں رسوا کرے)، اس طرح کے قائلین کی تردید متعدد اسلاف و ائمہ نے مثلا امام احمد بن حنبل ، عبداللہ بن مبارک ، اسحاق بن راہویہ ، امام ابوحنیفہ اور ان کے بعد آنے والے دوسرے ائمہ مثلا امام ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم اور حافظ ابن کثیر وغیرہ نے کی ہے ۔

اس وضاحت کے بعد بلاشبہ اللہ تعالی کے اس فرمان:

وَهُوَ مَعَكُمْ
ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗھ ﮨﮯ

سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کی ذات مخلوقات سے ملی ہوئی ہے، نہ تو ظاہری اور نہ ہی مخفی طور پر، اس مفہوم پر لفظ ( معیت) کسی بھی طرح سے دلالت نہیں کرتا ، زیادہ سے زیادہ اس لفظ سے ساتھـ ہونے، موافقت کرنے اور کسی معاملہ میں شریک ہونے کا مفہوم نکلتا ہے، اور یہ شرکت ہرجگہ کے اعتبار سے مختلف ہے،

ابوعمر طلمنکی رحمہ اللہ کا قول ہے:


تمام مسلمان متفق ہیں کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان: وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﻛﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗھ ﮨﮯ

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اور قرآن کریم کی اس طرح کی آیتیں دلالت کرتی ہیں کہ وہ ان کے ساتھـ اپنے علم وقدرت کے ساتھـ ہے، اور یہ کہ اللہ تعالی کی ذات آسمان کے اوپر عرش پر مستوی ہے، جس کی شہادت قرآن کریم اور علماء امت نیز اسلاف و ائمہ دیتے ہیں، ان کا اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر ہے جوکہ آسمانوں کے اوپر ہے ،

ابونصر سجزی کہتے ہیں:

ہمارے ائمہ مثلا سفیان ثوری، امام مالک، حماد بن سلمہ ، حماد بن زید، سفیان بن عیینہ، فضیل، ابن المبارک، امام احمد، اور امام اسحاق وغیرہ متفق ہیں، کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنی ذات کے ساتھـ عرش پر مستوی ہے اور وہ ہرجگہ کا علم رکھتا ہے،

ابو عمر ابن عبد البر کا قول ہے:

کہ علماء صحابہ و تابعین جن سے علم تفسیر اخذ کیا گیا ہے، ان سب کا بالاتفاق یہ کہنا ہے کہ

اللہ تعالی کے اس فرمان:

مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رَابِعُهُمْ
ﺗﯿﻦ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﻛﯽ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﹴ ﺍﻥ ﰷ ﭼﻮﺗﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔

کی تفسیر یہ ہے کہ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ہرجگہ کو محیط ہے، کسی معتبر عالم نے اس سلسلے میں ان کی مخالفت نہیں کی ہے ۔

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ:

وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﻛﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎتھـ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻛﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺍللہ ﺩﯾکھـ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ

کے سلسلے میں کہا:

یعنی اللہ تعالی تمہارے اعمال کو دیکھـ رہا ہے اور نظررکھے ہوئے ہے، چاہے تم سمندر اور خشکی، رات اور دن، یا آبادی اور صحراء میں کہیں بھی رہو، ساری چيز اس کے علم کے لئے برابر اور اس کی سماعت اور بصارت کے ماتحت ہے، وہ تمہاری باتوں کو سنتا ہے اور تمہاری جگہوں کو دیکھتا ہے، اور تمہارے راز اور مخفی چیزوں کو جانتا ہے-

جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:

أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
ﯾﺎﺩ ﺭﻛﮭﻮ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﻮﮞ ﻛﻮ ﺩﮨﺮﺍ ﻛﯿﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﻛﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ( ﺍللہ ) ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﺳﻜﯿﮟ ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﻛﮭﻮ ﻛﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﻛﭙﮍﮮ ﻟﭙﯿﭩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺳﺐ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻛچھـ ﭼﮭﭙﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻛچھـ ﻭﮦ ﻇﺎﮨﺮ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﻦ ﻭﮦ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻛﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ

اور الله تعالى نے فرمايا:

سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ
ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ کا ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﻛﻮ ﭼﮭﭙﺎ ﻛﺮ ﻛﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺂﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﺍﺳﮯ ﻛﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺭﺍﺕ ﻛﻮ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ہو چنانچہ اللہ کے سوا نہ تو کوئی معبود ہے اور نہ کوئی رب،

اور سورہ مجادلہ کی آیت:

مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلاثَةٍ :


ﺗﯿﻦ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﻛﯽ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر نے فرمایا:

یعنی تین لوگوں کا راز، إِلا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلاَ خَمْسَةٍ إِلا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلاَ أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلاَ أَكْثَرَ إِلا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُو ﻣﮕﺮ اللہ ﺍﻥ کا ﭼﻮﺗﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﭻ ﻛﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﻥ کا ﭼﮭﭩﺎ ﻭﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻛﻢ ﻛﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻛﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺳﺎتھـ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮨﻮﮞ یعنی ان پر مطلع ہے،

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ان کی باتوں کو سنتا ہے اور ان کی سرگوشیوں اور رازوں کو جانتا ہے، اس کے فرشتے بھی اس کے باوجود بندوں کی سرگوشیوں کو لکھتے ہیں، جس کا علم اللہ تعالی کو ہے،

جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّهَ عَلامُ الْغُيُوبِ
ﻛﯿﺎ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﻛﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﻮ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻝ کا ﺑﮭﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﯽ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﺳﺐ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻏﯿﺐ ﻛﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ

اور الله تعالی كا فرمان:

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لاَ نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ
ﻛﯿﺎ ﺍﻥ کا ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﻥ ﻛﯽ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﯽ ﺳﺮﮔﻮﺷﯿﻮﮞ ﻛﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﺘﮯ ، ( ﯾﻘﯿﻨﺎً ﮨﻢ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺳﻦ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ) ﺑﻠﻜﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻥ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﻟکھـ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ

اس وجہ سے متعدد ائمہ نے اتفاق نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد اللہ تعالی کے علم کی معیت ہے، اور اس کے ارادے میں کوئی شک نہیں، لیکن اللہ کا سننا بھی اللہ کے علم کے ساتھـ ان کو محیط ہے اور اللہ کی بصارت ان میں نافذ ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنی مخلوق کی ہر چیز سے واقف ہے، اس سے کوئي چیز مخفی نہيں ہے۔

اس مقام پر سلف حضرات کے اقوال لاتعداد ہیں، بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کا اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے ساتھـ ہرجگہ موجود ہے، اور اس آيت: وَهُوَ مَعَكُمْ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗھ ﮨﮯ کا مفہوم یہ بیان کرنا کہ وہ اپنی ذات کے ساتھـ ان کی معیت میں ہے، اور یہ کہ اس کی طرف اشارہ کرنا جائز نہیں ہے، نہایت باطل اور گھٹیا اعتقاد ہے، جیسا کہ سابقہ صریح دلائل سے واضح ہوچکا ہے، اسی طرح علماء کے اتفاق سے اس کا بطلان ثابت ہوچکا ہے ۔

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حلول کا عقیدہ رکھنے والے یعنی یہ کہ اللہ تعالی کی ذات بندوں میں حلول کئے ہے، راہ راست سے ہٹ گئے اور گمراہ ہوگئے اور حق کے خلاف اللہ پر بہتان تراشی کی، اور معیت کے سلسلے میں وارد آیتوں کی غلط تاویل وتفسیر کی، جنہیں علماء تفسیر نے بیان نہیں کیا -

ہم اللہ تعالی سے رسوائی اور بلاعلم اللہ کے سلسلے میں باتیں کرنے سے پناہ مانگتے ہیں، اور اللہ تعالی سے حق وہدایت پر ثبات قدمی کی دعاء کرتے ہیں، یقینا وہ اس پر قادرہے -

وصلى الله على نبينا محمد، وعلى آله وصحبه وسلم۔
 
Top