- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ایک بھائی نے ذاتی پیغام میں محدث میگزین میں شائع ( استواء ) کے متلق ایک مضمون
کی درج ذیل اردو عبارت کی اصل عربی عبارت طلب فرمائی ہے :
علامہ الالبانی (مختصر کتاب العلو ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
وأما المثال الآخر فقوله تعالى: {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وقوله فتأولوه "الله الذي رفع السماوات بغير عمد ترونها ثم استوى على العرش ". فقد تأول الخلف الاستواء المذكور في هاتين الآيتين ونحوهما بالاستيلاء وشاع عندهم في تبرير ذلك إيرادهم قول الشاعر:
قد استوى بشر على العراق
بغير سيف ودم مهراق!
متجاهلين اتفاق كلمات أئمة التفسير والحديث واللغة على إبطاله, وعلى أن المراد بالاستواء على العرش إنما هو الاستعلاء والارتفاع عليه, كما سترى أقوالهم مروية في الكتاب عنهم بالأسانيد الثابتة قرنا بعد قرن, وفيهم من نقل اتفاق العلماء عليه. مثل الإمام إسحاق بن راهويه "الترجمة 67", والحافظ ابن عبد البر "الترجمة 151" وكفى بهما حجة في هذا الباب.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ترجمہ :
کی درج ذیل اردو عبارت کی اصل عربی عبارت طلب فرمائی ہے :
علامہ الالبانی (مختصر کتاب العلو ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
وأما المثال الآخر فقوله تعالى: {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وقوله فتأولوه "الله الذي رفع السماوات بغير عمد ترونها ثم استوى على العرش ". فقد تأول الخلف الاستواء المذكور في هاتين الآيتين ونحوهما بالاستيلاء وشاع عندهم في تبرير ذلك إيرادهم قول الشاعر:
قد استوى بشر على العراق
بغير سيف ودم مهراق!
متجاهلين اتفاق كلمات أئمة التفسير والحديث واللغة على إبطاله, وعلى أن المراد بالاستواء على العرش إنما هو الاستعلاء والارتفاع عليه, كما سترى أقوالهم مروية في الكتاب عنهم بالأسانيد الثابتة قرنا بعد قرن, وفيهم من نقل اتفاق العلماء عليه. مثل الإمام إسحاق بن راهويه "الترجمة 67", والحافظ ابن عبد البر "الترجمة 151" وكفى بهما حجة في هذا الباب.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ترجمہ :
﴿ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ... ٥٤﴾... سورةالاعراف
ترجمہ: "بے شک تمہارا پالنہار ہے وہ جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔"
نیز:﴿ اللَّهُ الَّذى رَفَعَ السَّمـٰوٰتِ بِغَيرِ عَمَدٍ تَرَونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ... ٢﴾... سورةالرعد
ترجمہ: "اللہ جس نے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کر دیا اور پھر عرش پر مستوی ہوا"
ان دونوں آیات میں مذکور استواء خداوندی کی تاویل خلف نے (استیلاء اور غلبہ ) سے کی ہے۔ اس تاویل کی صحت پر ان کے یہاں ایک شاعر کا مندرجہ ذیل شعر رائج ہے۔
قداستوىٰ بشر على العرش بغير سيف او دم مهراق
ترجمہ: بشر عراق پر تلوار سونتے اور خون بہائے بغیر غلبہ پا گیا۔
لیکن یہ تاویل کرنے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تفسیر، حدیث اور لغت کے جلیل القدر ائمہ اس استدلال کے بطلان پر متفق ہیں۔ ساتھ ہی ان ائمہ کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے۔
جیسا کہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے جب کہ مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی @Adnani Salafi
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی نے مقدمہ میں جو کہا کہ : امام اسحاق بن راھویہ ؒ نے استوی کے معنی استعلاء پر اجماع نقل کیا تو اسی کتاب مختصر العلو میں ان کا یہ قول بالاسناد منقول ہے :
قال أبو بكر الخلال" أنبأنا المروذي حدثنا محمد بن الصباح النيسابوري، حدثنا أبو داود الخفاف سليمان بن داود قال: قال إسحاق بن راهويه:
قال الله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} إجماع أهل العلم أنه فوق العرش استوى، ويعلم كل شيء في أسفل الأرض السابعة.
یعنی امام ابوبکر الخلال ؒ نے بسندہ روایت کیا ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘
انتہی
ترجمہ: "بے شک تمہارا پالنہار ہے وہ جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔"
نیز:﴿ اللَّهُ الَّذى رَفَعَ السَّمـٰوٰتِ بِغَيرِ عَمَدٍ تَرَونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ... ٢﴾... سورةالرعد
ترجمہ: "اللہ جس نے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کر دیا اور پھر عرش پر مستوی ہوا"
ان دونوں آیات میں مذکور استواء خداوندی کی تاویل خلف نے (استیلاء اور غلبہ ) سے کی ہے۔ اس تاویل کی صحت پر ان کے یہاں ایک شاعر کا مندرجہ ذیل شعر رائج ہے۔
قداستوىٰ بشر على العرش بغير سيف او دم مهراق
ترجمہ: بشر عراق پر تلوار سونتے اور خون بہائے بغیر غلبہ پا گیا۔
لیکن یہ تاویل کرنے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تفسیر، حدیث اور لغت کے جلیل القدر ائمہ اس استدلال کے بطلان پر متفق ہیں۔ ساتھ ہی ان ائمہ کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے۔
جیسا کہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے جب کہ مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی @Adnani Salafi
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی نے مقدمہ میں جو کہا کہ : امام اسحاق بن راھویہ ؒ نے استوی کے معنی استعلاء پر اجماع نقل کیا تو اسی کتاب مختصر العلو میں ان کا یہ قول بالاسناد منقول ہے :
قال أبو بكر الخلال" أنبأنا المروذي حدثنا محمد بن الصباح النيسابوري، حدثنا أبو داود الخفاف سليمان بن داود قال: قال إسحاق بن راهويه:
قال الله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} إجماع أهل العلم أنه فوق العرش استوى، ويعلم كل شيء في أسفل الأرض السابعة.
یعنی امام ابوبکر الخلال ؒ نے بسندہ روایت کیا ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘
انتہی
Last edited: