• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک بھائی نے ذاتی پیغام میں محدث میگزین میں شائع ( استواء ) کے متلق ایک مضمون
کی درج ذیل اردو عبارت کی اصل عربی عبارت طلب فرمائی ہے :
علامہ الالبانی (مختصر کتاب العلو ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
وأما المثال الآخر فقوله تعالى: {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وقوله فتأولوه "الله الذي رفع السماوات بغير عمد ترونها ثم استوى على العرش ". فقد تأول الخلف الاستواء المذكور في هاتين الآيتين ونحوهما بالاستيلاء وشاع عندهم في تبرير ذلك إيرادهم قول الشاعر:
قد استوى بشر على العراق
بغير سيف ودم مهراق!
متجاهلين اتفاق كلمات أئمة التفسير والحديث واللغة على إبطاله, وعلى أن المراد بالاستواء على العرش إنما هو الاستعلاء والارتفاع عليه, كما سترى أقوالهم مروية في الكتاب عنهم بالأسانيد الثابتة قرنا بعد قرن, وفيهم من نقل اتفاق العلماء عليه. مثل الإمام إسحاق بن راهويه "الترجمة 67", والحافظ ابن عبد البر "الترجمة 151" وكفى بهما حجة في هذا الباب.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ترجمہ :
﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ... ٥٤﴾... سورةالاعراف
ترجمہ: "بے شک تمہارا پالنہار ہے وہ جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔"

نیز:﴿ اللَّهُ الَّذى رَ‌فَعَ السَّمـٰو‌ٰتِ بِغَيرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌ونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ ... ٢﴾... سورةالرعد
ترجمہ: "اللہ جس نے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کر دیا اور پھر عرش پر مستوی ہوا"
ان دونوں آیات میں مذکور استواء خداوندی کی تاویل خلف نے (استیلاء اور غلبہ ) سے کی ہے۔ اس تاویل کی صحت پر ان کے یہاں ایک شاعر کا مندرجہ ذیل شعر رائج ہے۔

قداستوىٰ بشر على العرش بغير سيف او دم مهراق
ترجمہ: بشر عراق پر تلوار سونتے اور خون بہائے بغیر غلبہ پا گیا۔

لیکن یہ تاویل کرنے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تفسیر، حدیث اور لغت کے جلیل القدر ائمہ اس استدلال کے بطلان پر متفق ہیں۔ ساتھ ہی ان ائمہ کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے۔
جیسا کہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے جب کہ مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی @Adnani Salafi
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی نے مقدمہ میں جو کہا کہ : امام اسحاق بن راھویہ ؒ نے استوی کے معنی استعلاء پر اجماع نقل کیا تو اسی کتاب مختصر العلو میں ان کا یہ قول بالاسناد منقول ہے :

قال أبو بكر الخلال" أنبأنا المروذي حدثنا محمد بن الصباح النيسابوري، حدثنا أبو داود الخفاف سليمان بن داود قال: قال إسحاق بن راهويه:
قال الله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} إجماع أهل العلم أنه فوق العرش استوى، ويعلم كل شيء في أسفل الأرض السابعة.

یعنی امام ابوبکر الخلال ؒ نے بسندہ روایت کیا ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘
انتہی​
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@اسحاق سلفی بھائی الله آپ کو جزایۓ خیر دے -

پلیز آپ اپنی ان باتوں کی ذرا وضاحت کر دیں -

علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے

آپ نے جو یہ کہا کہ


علامہ ذہبی کی اس کتاب میں

یہ کتاب کون سی ہے اور امام ذہبی صفات میں کیا عقیدہ رکھتے تھے ؟
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
میں آپ کا پابند نہیں جو اپنی تحریر کی وضاحتیں دیتا پھروں ،
آپ کے الفاظ تھے

ما شاء اللہ
مجھے یہی توقع تھی ، اسلامی بیلف کے نمائندے سے ۔
اسلامیک بیلف والے صرف محدثین کرام کے خلاف بدگمانیاں ، اور اپنی جہالت نشر کرسکتے ہیں ، کسی سوال کا جواب تو درکنار ۔۔ سوال سمجھ بھی نہیں سکتے ۔
وہاں کس درجہ جہالت ہے اس کا اندازہ ابھی پچھلی پوسٹ میں عدیل سلفی بھائی کے امیج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،
بے چارے پتا نہیں کس مذہب کے پیروکار ہیں ، سلام کے الفاظ تک لکھنے بولنے نہیں آتے ،
اور جرات یہ کہ محدثین کی مساعی پر سوال اٹھاتے ہیں ، سبحان اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ان سے پوچھنے کی جراءت تو آپ نہ کرسکے ۔
اتنا تو کرسکتے ہیں کہ خود ہی ان سوالوں کے جواب دے دیں ۔ یعنی ان تین بنیادی امور پر آپ کا موقف کیا ہے ؟
اپنے موقف کے متعلق جواب دینے میں تو آپ کو کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیئے ،
میں نے کہا

میں کہیں بھی سوال پوچھ سکتا ہوں - میں آپ کا یا کسی اور کا پابند نہیں ہوں - آپ خود تو جواب دیتے نہیں - پھر گلہ بھی کرتے ہیں کہ میں جواب نہیں دیتا ----------------------------
اب اس سے آپ کیا اخذ کر رہے ہیں -
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
السلام علیکم اسحاق بھائی۔۔اگر امام عبدالبر کا قول بھی سند کے ساتھ بھیج دیں۔۔۔تو مہربانی ہوگی۔۔۔۔۔
اور انکے سکین بھی چاہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم اسحاق بھائی۔۔اگر امام عبدالبر کا قول بھی سند کے ساتھ بھیج دیں۔۔۔تو مہربانی ہوگی۔۔۔۔۔
اور انکے سکین بھی چاہے
ابن عبدالبر ؒ کے قول کی سند کی ضرورت نہیں ، کیونکہ ان کا قول انہی کی کتاب ۔۔ التمہید ۔۔ سے نقل کیا ہے ، اور ابن راہویہ ؒ کے قول کی سند ساتھ ہے ،
مختصر کتاب العلو سے ۔۔ امام ابن راھویہؒ اور امام ابن عبد البرؒ کے اقوال کے سکین پیش ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قول ابن راهويه.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استواء 1.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام ابن عبدالبر ۔۔التمہید ۔۔ میں لکھتے ہیں :
وفيه دليل على أن الله عز وجل في السماء على العرش من فوق سبع سموات كما قالت الجماعة وهو من حجتهم على المعتزلة والجهمية في قولهم إن الله عز وجل في كل مكان وليس على العرش والدليل على صحة ما قالوه أهل الحق في ذلك قول الله عز وجل الرحمن على العرش استوى وقوله عز وجل ثم استوى على العرش ما لكم من دونه من ولي ولا شفيع وقوله ثم استوى إلى السماء وهي دخان وقوله إذا لابتغوا إلى ذي العرش سبيلا وقوله تبارك اسمه إليه يصعد الكلم الطيب ‘‘ (التمہید ، تحت الحدیث الخامس والعشرون )
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
جزاک اللہ۔۔۔اسحاق بھائی۔
اللہ سبحان و تعالی آپ کو ہم خوش خرم رکھے۔۔۔۔اور آپ کے علم۔۔۔میں۔۔۔اضافہ فرمائے۔۔۔اور اللہ سبحان و تعالی علم بھی دے تو علم نافع دے۔
بہت بہت شکریہ اسحاق بھائی
 

ناصر نواز

مبتدی
شمولیت
جون 08، 2018
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
11
مکان مکین والی یہ لوگ بہت مثالیں دیتے ہیں۔
کیا اس کا صحیح سلیس ترجمہ کوئی بھائی کردے گا مجھے؟

امام ابن عبد البر رحمه الله نے کہا:
وَأَمَّا احْتِجَاجُهُمْ لَوْ كَانَ فِي مَكَانٍ لَأَشْبَهَ الْمَخْلُوقَاتِ لَأَنَّ مَا أَحَاطَتْ بِهِ الْأَمْكِنَةُ وَاحْتَوَتْهُ مَخْلُوقٌ فَشَيْءٌ لَا يَلْزَمُ وَلَا مَعْنَى لَهُ لِأَنَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ مِنْ خَلْقِهِ وَلَا يُقَاسُ بِشَيْءٍ مِنْ بَرِيَّتِهِ لَا يُدْرَكُ بِقِيَاسٍ وَلَا يُقَاسُ بِالنَّاسِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَانَ قَبْلَ كُلِّ شيء ثم خلق الأمكنة والسموات وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا وَهُوَ الْبَاقِي بَعْدَ كُلِّ شَيْءٍ وَخَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا شَرِيكَ لَهُ وَقَدْ قَالَ الْمُسْلِمُونَ وَكُلُّ ذِي عَقْلٍ أَنَّهُ لَا يَعْقِلُ كَائِنٌ لَا فِي مَكَانٍ مِنَّا وَمَا لَيْسَ فِي مَكَانٍ فَهُوَ عَدَمٌ وَقَدْ صح في الْمَعْقُولِ وَثَبَتَ بِالْوَاضِحِ مِنَ الدَّلِيلِ أَنَّهُ كَانَ فِي الْأَزَلِ لَا فِي مَكَانٍ وَلَيْسَ بِمَعْدُومٍ فَكَيْفَ يُقَاسُ عَلَى شَيْءٍ مِنْ خَلْقِهِ أَوْ يَجْرِي بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ تَمْثِيلٌ أَوْ تَشْبِيهٌ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا الَّذِي لَا يَبْلُغُ مِنْ وَصْفِهِ إِلَّا إِلَى مَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ أَوْ وَصَفَهُ بِهِ نَبِيُّهُ وَرَسُولُهُ أَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ الْحَنِيفِيَّةُ عَنْهُ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنَّا وَصَفْنَا رَبَّنَا أَنَّهُ كَانَ لَا فِي مَكَانٍ ثُمَّ خَلَقَ الْأَمَاكِنَ فَصَارَ فِي مَكَانٍ وَفِي ذَلِكَ إِقْرَارٌ مِنَّا بِالتَّغْيِيرِ وَالِانْتِقَالِ إِذْ زَالَ عَنْ صِفَتِهِ فِي الْأَزَلِ وَصَارَ فِي مَكَانٍ دُونَ مَكَانٍ قِيلَ لَهُ وَكَذَلِكَ زَعَمْتَ أَنْتَ أَنَّهُ كَانَ لَا فِي مَكَانٍ وَانْتَقَلَ إِلَى صِفَةٍ هِيَ الْكَوْنُ فِي كُلِّ مَكَانٍ فَقَدْ تَغَيَّرَ عِنْدَكَ مَعْبُودُكَ وَانْتَقَلَ مَنْ لَا مَكَانَ إِلَى كُلِّ مَكَانٍ وَهَذَا لَا يَنْفَكُّ مِنْهُ لِأَنَّهُ إِنْ زَعَمَ أَنَّهُ فِي الْأَزَلِ فِي كُلِّ مَكَانٍ كَمَا هُوَ الْآنَ فَقَدْ أَوْجَبَ الْأَمَاكِنَ وَالْأَشْيَاءَ مَوْجُودَةً مَعَهُ فِي أَزَلِهِ وَهَذَا فَاسِدٌ فَإِنْ قِيلَ فَهَلْ يَجُوزُ عِنْدَكَ أَنْ يَنْتَقِلَ مِنْ لَا مَكَانَ فِي الْأَزَلِ إِلَى مَكَانٍ قِيلَ لَهُ أَمَّا الِانْتِقَالُ وَتَغَيُّرُ الْحَالِ فَلَا سَبِيلَ إِلَى إِطْلَاقِ ذَلِكَ عَلَيْهِ لِأَنَّ كَوْنَهُ فِي الْأَزَلِ لَا يُوجِبُ مَكَانًا وَكَذَلِكَ نَقْلُهُ لَا يُوجِبُ مَكَانًا وَلَيْسَ فِي ذَلِكَ كَالْخَلْقِ لِأَنَّ كَوْنَ مَا كَوْنُهُ يُوجِبُ مَكَانًا مِنَ الْخَلْقِ وَنَقْلَتُهُ تُوجِبُ مَكَانًا وَيَصِيرُ مُنْتَقِلًا مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ كَذَلِكَ لأنه في الأزل غير كَائِنٍ فِي مَكَانٍ وَكَذَلِكَ نَقْلَتُهُ لَا تُوجِبُ مَكَانًا وَهَذَا مَا لَا تَقْدِرُ الْعُقُولُ عَلَى دَفْعِهِ وَلَكِنَّا نَقُولُ اسْتَوَى مِنْ لَا مَكَانَ إِلَى مَكَانٍ وَلَا نَقُولُ انْتَقَلَ وَإِنْ كَانَ الْمَعْنَى فِي ذَلِكَ وَاحِدًا أَلَا تَرَى أَنَّا نقول له العرش وَلَا نَقُولُ لَهُ سَرِيرٌ وَمَعْنَاهُمَا وَاحِدٌ وَنَقُولُ هُوَ الْحَكِيمُ وَلَا نَقُولُ هُوَ الْعَاقِلُ وَنَقُولُ خَلِيلُ إِبْرَاهِيمَ وَلَا۔۔۔۔۔۔۔الخ
[التمھید لابن عبد البر: ج7، ص137]
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ایک بھائی نے ذاتی پیغام میں محدث میگزین میں شائع ( استواء ) کے متلق ایک مضمون
کی درج ذیل اردو عبارت کی اصل عربی عبارت طلب فرمائی ہے :
علامہ الالبانی (مختصر کتاب العلو ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
وأما المثال الآخر فقوله تعالى: {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وقوله فتأولوه "الله الذي رفع السماوات بغير عمد ترونها ثم استوى على العرش ". فقد تأول الخلف الاستواء المذكور في هاتين الآيتين ونحوهما بالاستيلاء وشاع عندهم في تبرير ذلك إيرادهم قول الشاعر:
قد استوى بشر على العراق
بغير سيف ودم مهراق!
متجاهلين اتفاق كلمات أئمة التفسير والحديث واللغة على إبطاله, وعلى أن المراد بالاستواء على العرش إنما هو الاستعلاء والارتفاع عليه, كما سترى أقوالهم مروية في الكتاب عنهم بالأسانيد الثابتة قرنا بعد قرن, وفيهم من نقل اتفاق العلماء عليه. مثل الإمام إسحاق بن راهويه "الترجمة 67", والحافظ ابن عبد البر "الترجمة 151" وكفى بهما حجة في هذا الباب.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ترجمہ :
﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ... ٥٤﴾... سورةالاعراف
ترجمہ: "بے شک تمہارا پالنہار ہے وہ جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔"

نیز:﴿ اللَّهُ الَّذى رَ‌فَعَ السَّمـٰو‌ٰتِ بِغَيرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌ونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ ... ٢﴾... سورةالرعد
ترجمہ: "اللہ جس نے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کر دیا اور پھر عرش پر مستوی ہوا"
ان دونوں آیات میں مذکور استواء خداوندی کی تاویل خلف نے (استیلاء اور غلبہ ) سے کی ہے۔ اس تاویل کی صحت پر ان کے یہاں ایک شاعر کا مندرجہ ذیل شعر رائج ہے۔

قداستوىٰ بشر على العرش بغير سيف او دم مهراق
ترجمہ: بشر عراق پر تلوار سونتے اور خون بہائے بغیر غلبہ پا گیا۔

لیکن یہ تاویل کرنے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تفسیر، حدیث اور لغت کے جلیل القدر ائمہ اس استدلال کے بطلان پر متفق ہیں۔ ساتھ ہی ان ائمہ کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے۔
جیسا کہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے جب کہ مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی @Adnani Salafi
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی نے مقدمہ میں جو کہا کہ : امام اسحاق بن راھویہ ؒ نے استوی کے معنی استعلاء پر اجماع نقل کیا تو اسی کتاب مختصر العلو میں ان کا یہ قول بالاسناد منقول ہے :

قال أبو بكر الخلال" أنبأنا المروذي حدثنا محمد بن الصباح النيسابوري، حدثنا أبو داود الخفاف سليمان بن داود قال: قال إسحاق بن راهويه:
قال الله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} إجماع أهل العلم أنه فوق العرش استوى، ويعلم كل شيء في أسفل الأرض السابعة.

یعنی امام ابوبکر الخلال ؒ نے بسندہ روایت کیا ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘
انتہی​
تعجب ہے کہ ان جلیل القدر آئمہ نے "استواء" کی تاویلیں کیں (یعنی استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے) اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ "اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘ -جب کہ یہ تو بدعت ہے - نبی کریم صل الله اعلیہ و آ له وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان الله اجمین سے لفظ "استواء" کی ایسی کوئی تاویل ثابت نہیں -

قرآن میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ :
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ سوره آل عمران ٧
ترجمہ :
وہی (الله ) ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا- اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں

امام مالک کا قول ہے کہ الله رب العزت نے اپنی ذات و صفات کا بارے میں جو کچھ قرآن میں نازل کیا ہے وہ معلوم ہے لیکن اس کی کفیت "مجہول" ہے- (یعنی اس ذات کی کفیت اور اس کا مستوی ہونا انسان کی عقل سے ماورا ہے ) اس کو کوئی معنی نہیں دیے جا سکتے - اب چاہے وہ استواء ہو یا کچھ اور -اسے ایسا ہی تسلیم کیا جائے گا (بغیر معنی کے) من و عن جیسے قران میں بیان ہوا ہے - حتیٰ کہ عرش کے متعلق بھی ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کیا چیز ہے؟؟ کیا وہ کوئی ٹھوس چیز ہے یا نور کا بنا ہوا کوئی ہالہ ہے وغیرہ ؟؟- انسان کی سوچ اور عقل اس کا ادراک نہیں کرسکتی -

یہی غلطی جھم بن صفوان اور اس کے پیروکاروں نے کی کہ الله رب العزت کی ذات و صفات سے متعلق بے جا بحث و مباحثے کیے اور اس بنا پر بعض اہل سنّت کے نزدیک کافر اور بعض کے نزدیک بدعتی ہوے -اور مذکورہ بالا آیات کا مصادق فتنے برپا کیے-

الله ہم سب کو ان فتنوں سے محفوظ رکھے (آمین)-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تعجب ہے کہ ان جلیل القدر آئمہ نے "استواء" کی تاویلیں کیں (یعنی استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے) اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ "اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘ -جب کہ یہ تو بدعت ہے - نبی کریم صل الله اعلیہ و آ له وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان الله اجمین سے لفظ "استواء" کی ایسی کوئی تاویل ثابت نہیں -
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
انتہائی معذرت سے عرض ہے کہ یہاں آپ کو تین امور میں سخت غلط فہمی ہوئی ہے،
(1) پہلی غلط فہمی تو یہ ہوئی کہ آپ نے (غلط تاویل ) اور کسی لفظ کے اصلی وحقیقی معنی کو ایک چیز سمجھ لیا،
حالانکہ جس ۔۔ تاویل ۔۔ سے منع کیا گیا ،ااس سے مراد (کسی لفظ کے ظاہری معنی کی بجائے دوسرا معنی کرنا) مراد ہے جیسے (استویٰ علی عرش ) کا ظاہری معنی ہے (عرش پر بلند ہوا )
جب کہ اہل ھویٰ نے اس کا معنی (استیلاء، استولیٰ ) یعنی قبضہ اور قدرت غلبہ )کیا ہے ،
ـــــــــــــــــــ
اور استویٰ کا معنی لغت اور شریعت کے نصوص کے مطابق: (استعلاء ۔۔ ارتفاع ) ہے ،
اسی کے مطابق امام مالکؒ کا مشہور فرمان ہے کہ "الاستِواء معْلوم، والكيْف مَجْهول، والإيمان به واجبٌ، والسُّؤال عنْه بدعة" کہ اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی تو معلوم ہے ،لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے ، اور استواء کے معلوم معنی پر ایمان لانا واجب ہے ، جبکہ کیفیت کے متعلق سوال بدعت ہے "
(یعنی استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے)
مشہور محدث اور فقیہ امام عبداللہ بن مبارکؒ کا قول مختلف ائمہ کرام نے نقل کیا ہے کہ :
سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: نعرف ربنا فوق سبع سماوات، على العرش استوى، بائن من خلقه، ولا نقول كما قالت الجهمية بأنه ههنا. وأشار إلى الأرض "
(الأسماء والصفات للبيهقي ، السنۃ لعبداللہ بن الامام احمد ، الرد علی علی الجھمیہ للدارمی )
یعنی جناب عبداللہؒ فرماتے ہیں: ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ ہمارا رب ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہےمخلوق سے جدا علیحدہ ہے اور ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں زمین میں ہے "
ــــــــــــــــــ
دوسری غلط فہمی آپ کو پہلی غلطی کی بنا پر یہ ہوئی کہ : سلف نے استواء کی تاویل کی ہے "
حالانکہ ایسا بالکل نہیں ،بلکہ انہوں نے استوی کا حقیقی معنی بیان فرمایا ہے ،
اس کی مثال یوں ہے کہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا ہوئی ،
اب ایک طرف اہل حق (معراج ،اور اسراء ) کا حقیقی و شرعی معنی بتاتے ہیں کہ
"معراج ،عروج سے ہے ، اور اسراء رات میں سفر کرنے کروانے کو کہا جاتا ہے،اور نبی کریم ﷺ کو جسم و روح کے ساتھ آسمانوں پر لے جایا گیا "

اور دوسری طرف اہل زیغ "معراج " کو "خواب کی واردات " بتاتے ہیں "
ــــــــــــــــــــــــــــ

اسی طرح سلف صالحین (استوی علی العرش ) کا صحیح معنی (استعلاء و ارتفاع ) کیا ہے
بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
تیسری غلط فہمی
آپ کو یہ لاحق ہوئی (استوی علی العرش ) کو بالکل مشتابہ سمجھ لیا ،حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ،
استوی کا ظاہری معنی تو معلوم ہےکہ استعلاء و ارتفاع ہی ہے ، اسلئے اس لحاظ سے تو یہ بالکل واضح ہے ، اورانسانوں کو اتنا جان لینا کافی بھی ہے ،
ہاں (استوی کی کیفیت ) نامعلوم ہے ،اس کو متشابہ کہہ لیں تو بات ٹھیک ہے ،
مشہور سعودی محقق شیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں :
الاحابة
نص السؤال : هل صفات الله عز وجل من قبيل المتشابه أو من قبيل المحكم ‏؟
‏نص الإجابة :
صفات الله سبحانه وتعالى من قبيل المحكم الذي يعلم معناه العلماء ويفسرونه، أما كيفيتها؛ فهي من قبيل المتشابه الذي لا يعلمه إلا الله‏.‏ وهذا ، كما قال الإمام مالك رحمه الله وقال غيره من الأئمة‏:‏ ‏ ‏الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة‏ ‏ ‏.‏ وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله‏:‏ ‏ ‏فإني ما أعلم عن أحد من سلف الأمة ولا من الأئمة؛ لا أحمد بن حنبل ولا غيره؛ أنه جعل ذلك من المتشابه‏ ‏ ‏.‏ ومعنى ذلك أن علماء أهل السنة وأئمتها أجمعوا على أن نصوص الصفات ليست من المتشابه، وإنما ذلك قول المبتدعة والفرق المنحرفة عن منهج السلف‏.‏ ))

https://www.alfawzan.af.org.sa/ar/node/10697
ـــــــــــــــــــــ
خلاصہ اس کا یہ کہ :
اللہ عزوجل کی صفات "محکم " کی قبیل سے ہیں ،جن کے معانی اہل علم جانتے ہیں ،اور ان تفسیر بیان کرتے ہیں ، ہاں ان کی کیفیات " متشابہات " کی قبیل سے ہیں ، ان کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا ، جیسا کہ امام مالکؒ اور دیگر ائمہ کرام ؒ مشہورکا قول ہے کہ
"اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی تو معلوم ہے ،لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے ، اور استواء کے معلوم معنی پر ایمان لانا واجب ہے ، جبکہ کیفیت کے متعلق سوال بدعت ہے "
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ : امام احمدؒ اور سلف امت ،اور دیگر ائمہ میں سے کسی نے آیات صفات کو متشابہات میں سے نہیں کہا ، جس کا مطلب ہے کہ علماء اہل سنت اور ائمہ کرامؒ کا اجماع ہے کہ صفات کی نصوص متشابہات نہیں ہیں ،
بلکہ ان کو متشابہ کہنے والے اہل بدعت ہیں "
 
Top