ہرقسم کی تعریف صرف اللہ کے لئے سزاوار ہے، ایسی تعریف جو اسکی منزلت کے شایان شان ہے،اور میں اسکے اوامر کی بجاآوری کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔
میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ تمام مخلوق اسکی کماحقّہ تعظیم کرنے سے عاجز ہے، کیونکہ اسے اسکی عظمت کا علم نہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں،جنکا شکر ادا نہیں کیا جاسکتا ، اسی کےلئے دنیا اور آخرت ہے ، اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے،اسکے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جسکا کوئی شریک نہیں، اور اسکے علاوہ کوئی سچاعبادت کے لائق نہیں۔
میں نبی اُمّی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجتا ہوں۔
امّا بعد(اللہ کی حمدوثنا اور پیغمبر پردرودوسلام کے بعد):
سب سے عظیم عقلی اور نقلی ذمہ داریوں میں سے خالق سبحانہ وتعالیٰ کے مقام ومرتبہ کو پہچاننا ہے ،جسکی یکتائی اور وحدانیت کا سارا جہان معترف ہے، اور خودہرمخلوق کی ذات کے اندر اسکے خالق کی عظمت ، اسکی عظیم کاریگری اور اختراع پر واضح نشانیاں موجود ہیں،اگرہرشخص اپنے آپ کو دیکھے اور اسمیں غوروفکرکرے ،تو اپنے خالق کی قدرومنزلت کو پہچان جائے گا ، (جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے) :
﴿وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ﴾ [الذاريات : 21 ]
‘‘اور خود تمہاری ذات میں بھی(نشانیاں) ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو’’ [ سورہ الذاریات:21]
اور نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا:
﴿مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا﴾ [نوح: 13-14]
‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیده نہیں رکھتے،حاﻻنکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے ’’ [سورہ نوح: 13-14]
ابن عباس اور مجاہد نے فرمایا : ‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی عظمت وبرتری کا خیا ل نہیں رکھتے ’’) (الدرّ المنثور) :8/-291)۔(
اور ابن عباس نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی کما حقّہ تعظیم نہیں بجالاتے) (جامع البیان )) للطبری :23/296)، و (معالم التنزیل) للبغوی :5/156)۔
نو ح علیہ السلام نے انھیں اپنی ذاتوں اور اپنی (تخلیقی) مراحل کے بارے میں غوروفکر اورتدبّر سے کام لینے کی طرف راہنمائی فرمائی ہے تاکہ اپنے اوپر رب کی حق کو پہچان سکیں۔
اسطرح سے اپنےنفس اور اسکی مختلف مراحل میں غوروفکر کرنا اللہ کی تعظیم کرنے اور اسکے مقام ومرتبہ کو پہچاننے کیلئے کافی ہے۔
تو پھرآسمان وزمین میں اللہ کی تمام مخلوقا ت میں غوروفکر کرنے کی صورت میں کیا نتیجہ ہوگا!
درحقیقت لوگ عظمت الہی سے اس بنا پر جاہل ہیں کیونکہ وہ اللہ کی نشانیوں کونظر بصیرت سے نہیں دیکھتے ہیں ، بلکہ عجلت پسندی اور فائدہ اُٹھاتے ہوئے گذرتے ہیں، عبرت ونصیحت لیتے ہوئے اور غوروفکر کرتے ہوئے نہیں گُذرتے ہیں:
﴿وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ﴾ [يوسف : 105]
‘‘اورآسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ جن سے یہ منھ موڑے گزر جاتے ہیں’’[سورہ یوسف:105]
چنانچہ غافل دلوں اور اعراض کرنے والی عقلوں کو معجزات نفع نہیں دیتی ہیں،اور نہ ہی نشانیاں ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، اللہ جل جلالہ کی تعظیم وہی کرتا ہے جس نے اسکی نشانیوں کو دیکھا ہو، یا اسکی صفات کو پہچاناہو، اسی لئے اعراض کرنے والے غافل دلوں میں اللہ کی قدرومنزلت کمزور ہوتی ہے، چنانچہ اسکی نافرمانی کی جاتی ہے، اسکا انکار کیا جاتا ہے،اور کبھی تو اسے گالی دی جاتی ہے اور اسکا استہزا کیا جاتا ہے!!
اور عظیم(اللہ) کی اسکی عظمت کی جہالت کے بقدر نافرمانی کی جاتی ہے ،اور جس قدر دلوں کے اندر اسکے مقام ومرتبہ کی کمی ہوتی ہے اسی قدر اسکے ساتھ کفرکیا جا تا ہے اوراُ س کے حق کا انکار کیا جاتا ہے،اور کبھی تو اُسے گالی دی جاتی ہے اور اسکا مذاق اُڑایا جاتا ہے!!
اور عظیم (اللہ) کی اسکی عظمت سے ناواقفیت ہونے کے بقدر نافرمانی کی جاتی ہے،اور جس قدر دلوں میں اسکی قدرومنزلت کی کمی ہوتی ہے اسی مقدار میں اسکے ساتھ کُفر کیا جاتا ہے اور اُسکے حق کا انکار کیا جاتا ہے، اور ایک کمزور کی کمزوری سے جہالت کے بقدر اسکی اطاعت کی جاتی ہے،اور جس قدر دلوں کے اندر اسکے مقام ومرتبہ کی زیادتی ہوتی ہے اسی کے بقدر اسکی عبادت کی جاتی ہے اور اسکی تعظیم وتوقیر کی جاتی ہے۔
اسی وجہ سے مشرکوں نے بتوں کی پوجا کی، اور ہڈّیوں کو زندہ کرنے والی ذات (اللہ) کا انکار کیا،اللہ تعالی ٰ نے اسی خرابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾ [الحج : 73- 74 ]
‘‘لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے واﻻ اور بڑا بودا ہے وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں، اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور وقوت واﻻ اور غالب وزبردست ہے’’۔[سورہ حج:73-74]