• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم اور اُسے گالی دینے والے کا حُکم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم اور اُسے گالی دینے والے کا حُکم
عبدالعزیز بن مرزوق الطَّریفی
شفیق الرّحمن ضیاءاللہ مدنی
ہرقسم کی تعریف صرف اللہ کے لئے سزاوار ہے، ایسی تعریف جو اسکی منزلت کے شایان شان ہے،اور میں اسکے اوامر کی بجاآوری کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔
میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ تمام مخلوق اسکی کماحقّہ تعظیم کرنے سے عاجز ہے، کیونکہ اسے اسکی عظمت کا علم نہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں،جنکا شکر ادا نہیں کیا جاسکتا ، اسی کےلئے دنیا اور آخرت ہے ، اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے،اسکے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جسکا کوئی شریک نہیں، اور اسکے علاوہ کوئی سچاعبادت کے لائق نہیں۔
میں نبی اُمّی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجتا ہوں۔
امّا بعد(اللہ کی حمدوثنا اور پیغمبر پردرودوسلام کے بعد):
سب سے عظیم عقلی اور نقلی ذمہ داریوں میں سے خالق سبحانہ وتعالیٰ کے مقام ومرتبہ کو پہچاننا ہے ،جسکی یکتائی اور وحدانیت کا سارا جہان معترف ہے، اور خودہرمخلوق کی ذات کے اندر اسکے خالق کی عظمت ، اسکی عظیم کاریگری اور اختراع پر واضح نشانیاں موجود ہیں،اگرہرشخص اپنے آپ کو دیکھے اور اسمیں غوروفکرکرے ،تو اپنے خالق کی قدرومنزلت کو پہچان جائے گا ، (جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے) :

﴿وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ﴾ [الذاريات : 21 ]
‘‘اور خود تمہاری ذات میں بھی(نشانیاں) ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو’’ [ سورہ الذاریات:21]
اور نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا:

﴿مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا﴾ [نوح: 13-14]
‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیده نہیں رکھتے،حانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے ’’ [سورہ نوح: 13-14]

ابن عباس اور مجاہد نے فرمایا : ‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی عظمت وبرتری کا خیا ل نہیں رکھتے ’’) (الدرّ المنثور) :8/-291)۔(
اور ابن عباس نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی کما حقّہ تعظیم نہیں بجالاتے) (جامع البیان )) للطبری :23/296)، و (معالم التنزیل) للبغوی :5/156)۔
نو ح علیہ السلام نے انھیں اپنی ذاتوں اور اپنی (تخلیقی) مراحل کے بارے میں غوروفکر اورتدبّر سے کام لینے کی طرف راہنمائی فرمائی ہے تاکہ اپنے اوپر رب کی حق کو پہچان سکیں۔
اسطرح سے اپنےنفس اور اسکی مختلف مراحل میں غوروفکر کرنا اللہ کی تعظیم کرنے اور اسکے مقام ومرتبہ کو پہچاننے کیلئے کافی ہے۔
تو پھرآسمان وزمین میں اللہ کی تمام مخلوقا ت میں غوروفکر کرنے کی صورت میں کیا نتیجہ ہوگا!

درحقیقت لوگ عظمت الہی سے اس بنا پر جاہل ہیں کیونکہ وہ اللہ کی نشانیوں کونظر بصیرت سے نہیں دیکھتے ہیں ، بلکہ عجلت پسندی اور فائدہ اُٹھاتے ہوئے گذرتے ہیں، عبرت ونصیحت لیتے ہوئے اور غوروفکر کرتے ہوئے نہیں گُذرتے ہیں:
﴿وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ﴾ [يوسف : 105]
‘‘اورآسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ جن سے یہ منھ موڑے گزر جاتے ہیں’’[سورہ یوسف:105]
چنانچہ غافل دلوں اور اعراض کرنے والی عقلوں کو معجزات نفع نہیں دیتی ہیں،اور نہ ہی نشانیاں ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، اللہ جل جلالہ کی تعظیم وہی کرتا ہے جس نے اسکی نشانیوں کو دیکھا ہو، یا اسکی صفات کو پہچاناہو، اسی لئے اعراض کرنے والے غافل دلوں میں اللہ کی قدرومنزلت کمزور ہوتی ہے، چنانچہ اسکی نافرمانی کی جاتی ہے، اسکا انکار کیا جاتا ہے،اور کبھی تو اسے گالی دی جاتی ہے اور اسکا استہزا کیا جاتا ہے!!

اور عظیم(اللہ) کی اسکی عظمت کی جہالت کے بقدر نافرمانی کی جاتی ہے ،اور جس قدر دلوں کے اندر اسکے مقام ومرتبہ کی کمی ہوتی ہے اسی قدر اسکے ساتھ کفرکیا جا تا ہے اوراُ س کے حق کا انکار کیا جاتا ہے،اور کبھی تو اُسے گالی دی جاتی ہے اور اسکا مذاق اُڑایا جاتا ہے!!
اور عظیم (اللہ) کی اسکی عظمت سے ناواقفیت ہونے کے بقدر نافرمانی کی جاتی ہے،اور جس قدر دلوں میں اسکی قدرومنزلت کی کمی ہوتی ہے اسی مقدار میں اسکے ساتھ کُفر کیا جاتا ہے اور اُسکے حق کا انکار کیا جاتا ہے، اور ایک کمزور کی کمزوری سے جہالت کے بقدر اسکی اطاعت کی جاتی ہے،اور جس قدر دلوں کے اندر اسکے مقام ومرتبہ کی زیادتی ہوتی ہے اسی کے بقدر اسکی عبادت کی جاتی ہے اور اسکی تعظیم وتوقیر کی جاتی ہے۔

اسی وجہ سے مشرکوں نے بتوں کی پوجا کی، اور ہڈّیوں کو زندہ کرنے والی ذات (اللہ) کا انکار کیا،اللہ تعالی ٰ نے اسی خرابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾ [الحج : 73- 74 ]
‘‘لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے وا اور بڑا بودا ہے وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں، اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور وقوت وا اور غالب وزبردست ہے’’۔[سورہ حج:73-74]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
[ اللہ کی تعظیم کی صورتیں]
% اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم میں سے: اسکے ناموں اور صفتوں کی جانکاری،اسکی نشانیوں میں غوروفکر ، اسکی نعمتوں اور عطیوں میں تدبّر کرنا، گزشتہ اقوام کی حالات ،اور جٹھلانے والوں اور تصدیق کرنے والوں،مومنوں اور کافروں کے انجام کے بارے میں بصارت وبصیرت کو کام میں لانا ہے۔
% اوراللہ کی تعظیم میں سے: اسکے قوانین اور اسکے اوامر ونواہی کی معرفت حاصل کرنا،اور انکی بجاآوری کرکے اوران پر عمل کرکے اسکی تعظیم کرنا ہے،کیونکہ یہی دل کے اندر ایمان کو زندہ کرتا ہے، چنانچہ ایمان کی ایک چنگاری اور شعلہ ہوتی ہے، اس (ایمان) کی گرمی اس وقت سرد پڑ جاتی ہے اور اسکی چنگاری اسوقت بُجھ جاتی ہے جب وہ ذات جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں کوئی حکم دیتا ہے تو اسکے حکم کو مانا نہیں جاتا ،اور وہ کسی چیز سے منع کرتا ہے تو اسکے نواہی سے رُکا نہیں جاتا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ھدی(قُربانی) کے شعائراور مناسک حج کی تعظیم کے بارے میں فرمایا :
﴿ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ [الحج :32 ]
‘‘یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں(نشانیوں) کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سےہے’’۔ [سورہ حج:32]

پس امرونہی کی تعظیم کرنا حکم دینے والے (اللہ) کی تعظیم کرنا ہے۔اسی لئے اللہ کے حق میں الحاد کا اظہارنہیں ہوتا ہے، اور اسکے ساتھ کفر نہیں کیا جاتا ہے،اسکا انکار نہیں کیا جاتا اور اسے بُرا بھلا نہیں کہا جاتا ہے، مگراس سے پہلے اسکے اوامر ونواہی کو چھوڑدیا گیا ہوتا ہے ، اور اُنکا مذاق اُڑایا گیا ہوتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قدر ومنزلت سے جاہل منھ موڑنے والے اور –اس سے پہلے- اسکے اوامر ونواہی کو چھوڑدینے والے بعض عوام کے یہاں،خاص طور پر شام اور عراق کے ملکوں اور کچھ افریقی ملکوں میں،اللہ کو گالی دینا ،بُرا بھلا کہنا ،اور کبھی کبھار ایسے الفاظ اور اوصاف سے موسوم کرنا مشہور ہو چکا ہے جن کا تذکرہ کرنا یا انہیں سننا ایک مسلمان کیلئے بہت ناگوار گُذرتا ہے۔اور کبھی تو اسے ایسے لوگ کہتے ہیں جواپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ،اس لئے کہ وہ شہادتین (لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ )کا اقرار کرتے ہیں ،اور کبھی تو بعض نمازیوں سے ایسا ہوجاتا ہے ، اور شیطان انکی زبانوں پر اسے جاری کردیتا ہے، اور ان میں سے بہتوں کیلئے شیطان یہ مزیّن کرتا ہے کہ وہ اسکے معنی کو مراد نہیں لیتے ہیں، اور نہ ہی اس سے اپنے خالق کی تنقیص کرنا چاہتے ہیں،اور انہیں یہ باور کراتا ہے کہ یہ سب فضول باتوں میں سے ہیں جس پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے! اسی وجہ سے انہوں نے اسمیں لا پرواہی سے کا م لیا ہے!

اسطرح کی چیزوں کی وضاحت ضروری ہے- جبکہ صحیح عقل والوں اور آسمانی شریعتوں میں اسکے خطرات ومفاسد واضح ہیں–تاکہ شیطان کے چالوں اور اسکے رسّیوں کو کاٹ دیا جائے،اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم واحترام کی جائے، اور اُسے ہر عیب وبُرائی سے پاک ٹہرایا جائے،چاہے وہ زبان پر کسی بھی شکل میں جاری ہوا ہو، اوردلوں کے اندر اسکا کچھ بھی مقصد رہا ہو۔

اس لئے میں اختصار سے کہتا ہوں کہ:

بے شک گالی دینا -
اور یہ ہر وہ قول ،یا فعل ہے جسکا مقصد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تنقیص وتوہین ہو -کفر ہے،اس سلسلے میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے، خواہ سنجیدہ طور پراستہزا ہو،یا کھیل ہنسی اور مذاق ،یا غفلت اور جہالت کے طور پر ہو! اس میں لوگوں کے نیتوں اور مقاصد کے درمیان کوئی فرق نہیں،کیونکہ ظاہر چیز کا ہی اعتبار کیا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
گالی کی حقیقت اور اسکا مطلب
ہروہ چیز جسے لوگ اپنے عُرف میں گالی ،یا مذاق،یا تحقیر ورسوائی کا نام دیتے ہیں تو وہ شریعت میں بھی اُسی طر ح ہے؛ کیونکہ لوگوں کے عرف عام کی طرف لوٹانے کا اعتبار کیا جائے گا،جیسے لعنت،اہانت،فُحش کلامی،ہاتھ کے ذریعہ فحش اور بُرا اشارہ کرنا،اسی طرح ایسے کلمات جسے کسی خاص ملک(شہر) کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور اسے مذاق اور گالی کا نام دیتے ہیں، تو وہ بھی گالی ہی ہے!اگر چہ وہ دوسرے ملکوں( شہروں) میں گالی نہ سمجھی جاتی ہو۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کا حُکم
اہل اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گالی دینا کُفر ہے، اور
اللہ تعالیٰ کو گالی دینے والا قتل کردیا جائے گا۔ انہوں نے صرف اسکی توبہ کے قبول کئے جانے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اور کیا – اگر اس نے تو بہ کرلیا ہے تو- اسکی توبہ اسے قتل سے بچا لے گی یا نہیں؟اس بارے میں علماء کے دومشہور قول ہیں:
اللہ کو گالی دینااور اسکا مذاق اُڑانا سب سے بڑی تکلیف کی بات ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ﴾ [الأحزاب : 57 – 58 ]

‘‘جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے ،اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں’’[سورہ احزاب:57-58]
اور اللہ کو تکلیف پہنچانے کا مطلب اللہ کو نقصان پہنچانا نہیں ہے؛ کیونکہ تکلیف کی دو قسمیں ہیں:


ایک تکلیف وہ ہے جو نقصان پہنچاتا ہے،اور ایک تکلیف وہ ہے جو نقصان نہیں پہنچاتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے!



چنانچہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
‘‘ اے میرے بندو! اگرتم مجھے تکلیف پہنچانا چاہو تو تم مجھے ہرگز تکلیف نہیں دے سکتے ) (صحیح مسلم ،باب: ظلم کرنا حرام ہے اور استغفار اور توبہ کرنے کا حکم، حدیث نمبر:2577)۔(

% اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے جو اُسے تکلیف پہنچاتا ہے۔
اور لعنت کا مطلب ہے بندے کو رحمت سے دور کردینا،اس آیت سے بندے کو دونوں رحمتوں ؛ دنیا کی رحمت اور آخرت کی رحمت سے دور کردئے جانے کا پتہ چلتا ہے، اور دونوں رحمتوں سے وہی شخص دور کیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کُفر کرنے والا ہو!اور یہ حقیقت اس بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسکے بعد ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو تکلیف پہنچانے والوں کا تذکرہ کیا ہے تو اُس میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ اس نے دنیا وآخرت دونوں میں ان پر لعنت کی ہے؛ کیونکہ لوگوں کو صرف انکے دوسروں کو گالی ،لعنت اور تہمت لگانے کے ذریعہ تکلیف پہنچانے سے کافر نہیں ٹہرایا جاسکتا، بلکہ وہ بہتان (جھوٹا الزام) اور کھلی گنا ہ ہے، اگر اُس پر کوئی دلیل نہ ہو۔


اور اللہ نے اپنے تکلیف پہنچانے والوں پر دنیااورآخرت میں لعنت کی ہے،اور لعنت نام ہے:بندہ کا رحمت الہی سے دوری کا۔اور آیت بھی دنیا وآخرت کی دوری پر دلالت کرتی ہے،اور دونوں رحمتوں سے دور صرف اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہی ہوسکتا ہے۔اور اس بات کی وضاحت اس بات سے بخوبی ہوجاتی ہے کہ اللہ نے اسکے بعد مومن مرد اور مومنہ عورتوں کو تکلیف پہچانے والوں کا تذکرہ کیا ہے مگر اس میں انکے لئے دنیا وآخرت میں لعنت کا تذکرہ نہیں کیا ہے؛کیونکہ لوگ محض کسی کو گالی دینے،لعن طعن کرنے اور تہمت لگانے کی وجہ سے کافرنہیں قرار دئے جاسکتے ہیں، بلکہ یہ دلیل اورثبوت نہ ہونے کی بنا پربہتان اور کھلی گناہ ہوگی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے تکلیف دینے والے کے لئے:‘‘رسواکن عذاب’’ [سورہ احزاب:57]تیار کررکھا ہے،اوررب العالمین نے رسواکن عذاب کا تذکرہ قرآن کریم میں صرف اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کے بارے میں ہی کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہرکفر سے بڑھ کرکفرہے،اور یہ بت پرستوں کے کفر سے بھی بڑھکرہے؛ کیونکہ بت پرستوں نے پتھروں کی تعظیم اللہ کی تعظیم کرنے کی وجہ سے کی ہے! تو انہوں نے اللہ کے مقام ومرتبہ کو گرا کر اسے پتھروں کے برابر نہیں کیا ہے، بلکہ انہوں نے پتھروں کے مقام کو بلند کردیا ہے یہاں تک کہ انہیں اللہ کے برابر کردیا ہے، اسی لئے مشرکین جہنم میں داخل ہونے کے بعد کہیں گے:

﴿تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ 97 إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ [الشعراء : 97 – 98 ]
‘‘کہ قسم اللہ کی! یقیناً ہم تو کھلی گمراہی میں مبتلا تھے جبکہ تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے’’[سورہ الشعراء:97-98]
ان لوگوں نے پتھر کو اونچا کردیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برابر ہوجائے، اللہ تعالی کے مقام ومرتبہ کو گرایا نہیں ہے کہ وہ پتھر کے برابر ہوجائے! تو انکا پتھر کی تعظیم کرنا انکے گمان کے مطابق اللہ کی تعظیم کرنے سے ہے! جبکہ جس نے اللہ کو گالی دیا اور بُرا کہا ہے،اس نے اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کی وجہ سے اسکے مقام سے گرادیا ہے تاکہ پتھر سے کمتر ہوجائے، جبکہ مشرک لوگ اپنے معبودوں کو ہنسی مذاق میں بھی گالی نہیں دیتےہیں؛ کیونکہ وہ انکی تعظیم اورقدر کرتے ہیں! اسی لئے وہ انکی بُرائی کرنے والوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں!
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا یہ فرمان نازل کیا ہے :

﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ [الأنعام : 108 ]
‘‘اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وه براه جہل دشمنی میں اللہ کو گالی دیں گے’’[سورہ اَنعام:۱۰۸]
جبکہ مشرک لوگ کافر ہیں ،لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے معبودوں کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے ،تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی عناد وسرکشی کی وجہ سے اپنے کفر سے بڑھکر کُفر نہ کر بیٹھیں، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معبود کو گالی دینا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
% اللہ کوگالی دینے کےبعض الفاظ الحاد سے بڑھکر ہیں؛کیونکہ ملحد وبےدین شخص نےاللہ کے وجود کا انکار کیا ہے،اورزبان حال سے یہ گویا ہے: ‘‘کہ کاش اگر میں اس کے وجود کومانتا تو اس کی تعظیم کرتا!’’۔
لیکن جو اللہ پر ایمان رکھنےکا گمان رکھتا ہے؛ تو وہ اپنے رب کو ثابت مانتا ہے اور اسے گالی بھی دیتا ہے،اوریہ کھلے طور پر بڑاسرکش اور چیلنج والا ہے !!
اوردنیا کے مُلکوں میں سے کسی مُلک میں بتوں کو رکھ کر انکا طواف کرنا،انکا سجدہ کرنا اور ان سے تبرک حاصل کرنا؛ اللہ رب العزّت کے نزدیک اس مُلک کے کلبوں،شاہ راہوں،بازاروں اور مجلسوں میں اللہ کو گالی دینے کے اشتہار سے کمتر اور آسان ہے؛ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گالی دینے کا پرچار، اُسکے ساتھ بتوں کو ساجھی ٹہرانے سے زیادہ گمبھیر ہے،جبکہ دونوں ہی کفریہ عمل ہیں،مگر مشرک اللہ کی تعظیم کرتاہے،جبکہ گالی دینے والا اللہ کو حقیر جانتا ہے! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اس سے بلندوبر تر ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کسی ملک میں اللہ کوگالی دیکر اسکا پرچار کرنا ،اسمیں زنا کو حلال سمجھنے اور اسے مشروع ٹہرانے سے بڑھکر ہے، اورلوط علیہ السلام کے قوم کی بُرائی اور اسے جائز ٹہرانے سے بڑھکر ہے؛ کیونکہ فواحشات کو حلال سمجھنے کا کُفر ایسا کفر ہے جسکا سبب اللہ کے آسمانی قوانین میں سے ایک قانوں کا انکار کرنا اور اللہ کے احکامات میں سے ایک حکم کی توہین کرنی ہے،
لیکن جہاں تک گالی دینے کی بات ہے تو وہ ایسی کفر ہے جسکا سبب خود قانون سازذات(اللہ) کے ساتھ کُفر کرنا ہے،اور خود قانون ساز ذات (اللہ) کے ساتھ کفر کرنے کا مطلب اسکے سبھی قانون کا انکار کرنا، اور توہین کرنا ہوتا ہے،اور یہ بہت گمبھیر اور شدید تر ہے؛جبکہ دونوں ہی کام کفر ہیں ؛لیکن کفر کی مختلف اقسام ہیں ،جسطرح کہ ایمان کےکئی مراتب ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور جب اللہ نے عیسائیوں کے کفر،اور انکی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف بیٹے کی نسبت کرکے گالی دینے کا تذکرہ کیا، تو انکے جُرم کا تذکرہ کیا ہے اور اسکے اثر کا وصف ، بت پرستوں اور ستارہ پرستوں کے شرک کے وصف سے بڑھکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا 88 لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا 89 تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90 أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا 91 وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا 92 إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا 93 لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا 94 وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ﴾ [مريم : 88 -95 ]
‘‘ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اود اختیار کی ہے ، یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز ئے ہو، قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو جائیں، کہ وه رحمان کی اود ابت کرنے بیٹھے، شان رحمٰن کے ئق نہیں کہ وه اود رکھے، آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں،ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پوری طرح گن بھی رکھا ہے، یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں’’[سورہ مریم:۸۸-۹۵]
کیونکہ اولاد کی نسبت کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان میں کمی کرنا ،اور اسکی برائی کرنا ہے۔ یہ اس چیز سے بڑھکر ہے کہ اگر انہوں نے اللہ کی عبادت کی ہوتی اور اسکے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹہرایا ہوتا، تو وہ مخلوق کواونچا کرکے اللہ کی عزت واحترام کرنے کے برابراسکی تعظیم کرنے والے ہوتے؛اسلئے کہ اولاد کی نسبت کرنا خالق کو نیچے گرانا ہے تاکہ وہ مخلوق کے برابر ہوجائے، جبکہ بت کی پوجا کرنا مخلوق کو اونچا کرنا ہے تاکہ وہ خالق کے برابر ہوجائے، اور خالق کی شان گرانا مخلوق کے مقام کو اونچا کرنے سے بڑھکر (گمبھیر) اور کفر کے اعتبار سے زیادہ سخت ہے۔

گالی دینا اور برائی کرنا ظاہری اورباطنی ایمان کے منافی ہے؛اور یہ دل کے قول کےمنافی ہے،اور یہ اللہ کی تصدیق کرنے، اسکے وجود پر ایمان لانے اور عبادت کامستحق سمجھے جانے کا نام ہے،اسی طرح دل کے عمل کے بھی خلاف ہے،اور یہ اللہ کی محبت وتعظیم اور اسکی توقیر کا نام ہے،اسلئے کسی کی تعظیم کرنے کا دعوی قبول نہیں کیا جائے گا جبکہ آپ اُسے گالی دے رہے ہوں؛ جیسے کہ اللہ کی تعظیم اور ماں باپ کا احترام۔
اسلئے کہ جو شخص والدین کی احترام وتوقیر کا دعوی کرتا ہے حالانکہ وہ انہیں گالی دیتا ہے اور انکا مذاق اُڑاتا ہے، تو وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے!
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گالی دینا اوراُسکی بُرائی کرنا ظاہری ایمان کے خلاف ہے، اور وہ قول و فعل دونوں کو شامل ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ کو گالی دینے والے کے کُفر پر علمائے کرام کا اجماع
ایمان کوقول وعمل کا نام دینے والے تما م مذاہب کے علماء کا اللہ کو گالی دینے والے شخص کے کُفر پر اتفاق ہے،اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ کو گا لی دینے والے یا اسکی صریح تنقیص بیان کرنے والے شخص کے کسی بھی اعذار وبہانے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

امام حرب اپنی کتاب ‘‘مسائل’’ میں مجاہد کے واسطے سےعمررضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :

‘‘کہ جوشخص اللہ کو گالی دے، یا نبیوں میں سے کسی نبی کو گالی دے تو اسکی گردن اُڑادو ) (الصارم المسلول ص:102)۔(


اورامام لیث نے مجاہد کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
‘‘کہ جس مسلمان نے بھی اللہ کو، یا کسی نبی کو گالی دیا، تو اسنے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، اور یہ دین سے مرتد ہوجانا ہے، اس سے توبہ کروایا جائے گا، اگر وہ اسلام کی طرف لوٹ آتا ہے تو ٹھیک ، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا! اور جس معاہد شخص نے سرکشی اختیار کرتے ہوئے اللہ کو ،یا کسی نبی کو گالی دیا ، یا اسکا کھلا مظاہرہ کیا،تو اس نے عہدوپیمان کو توڑڈالا، اس لئے اسے قتل کردو ) (الصارم المسلول ص:201)۔(

اور امام احمد سے اللہ کو گالی دینے والے شخص کے بارے میں پوچھا گیا ؟تو انہوں نے فرمایا:
‘‘ایسا شخص مرتد ہے ،اسکی گردن ماردی جائے گی’’ ۔،جیسا کہ ان کے بیٹے عبد اللہ نے اپنی کتاب ((المسائل )) میں اپنے باپ سے نقل کیا ہے۔)(المسائل،ص:431)
اور اللہ کو گالی دینے والے کےکفرپراوراسکے قتل کا مستحق ہونے کے بارے میں بہت سارے لوگوں نے علماء کا اجماع نقل کیا ہے:
˜ابن راہویہ-رحمہ اللہ –
نے فرمایا:-‘‘مسلمانوں کا اس بات پراجماع ہے کہ جس نے اللہ کوگالی دی ،یا اسکے رسول کو گالی دی، یا اللہ کے نازل کردہ کسی چیزکوٹھکرادیا،یا اللہ کے نبیوں میں سے کسی نبی کو قتل کردیا،: تو وہ اسکی وجہ سے کافر ہے ، گرچہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیزوں کا اقرار کرنے والا ہو ) (امام ابن عبد البرکی ((التمہید4/226))،اور((الاستذکار:2/150)

˜ قاضی عیاض –رحمہ اللہ – نے فرمایا : ‘‘اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مسلمانوں میں سے اللہ کو گالی دینے والا شخص کافر مباح الدّم ہے ) ( الشفا:2/270)۔
˜اور ابن حزم وغیرہ نے بھی اجماع نقل کیا ہے،اورامام ابن ابی زید القیروانی اور ابن قدامہ وغیرہما نے بھی ایسے شخص کے کفر کی تنصیص کی ہے۔ ) ((المحلی)) لابن حزم (11/411)، و((المغنی)) لابن قدامہ (9/33)، و(الصارم المسلول) لابن تیمیہ (ص:512)، و(الفروع) لابن مفلح (6/162)، و(الانصاف) للمرداوی (10/326)، و(التاج والاکلیل) للموّاق (6/288)۔(
اسی طرح تمام علماء اللہ کو گالی دینے والے کے کفرکی تنصیص فرماتے ہیں ،اور اسکے کسی بھی عُذر کو قبول نہیں کرتے،کیونکہ معمولی عقل رکھنے والاشخص گالی اور اُسکے علاوہ میں تمیز کرتاہے ، اور ذم سے مدح کو پہچانتا ہے، لیکن وہ اس پر جسارت کرنے میں تساہل سے کام لیتے ہیں!۔


˜ اور امام ابن ابی زید قیروانی مالکی سےایک ایسے آدمی کے بارے میں دریافت کیا گیاجس نے ایک آدمی پر لعن طعن کیا اور اسکے ساتھ اللہ پر بھی لعنت کیا، تو اس آدمی نے بہانہ کرتے ہوئے کہا : ‘‘میں شیطان کو لعنت کرنا چاہتا تھا تو میری زبان پھسل گئی!
تو ابن ابی زید نے جواب دیتے ہوئے فرمایا : ‘‘اسکے ظاہری کفر کے سبب اسے قتل کردیا جائے گا، اور اسکا عُذر قبول نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ مذاق کرنے والا ہو یاسنجیدگی کی حالت میں ہو’’) (الشفا لعیاض (2/271)۔(
اس طرح فقہ کے تمام مذاہب-جیسے مذاہب اربعہ اور ظاہریہ-کے علماء وقضاۃ ظاہر کے مطابق فیصلہ کرتے اور فتوی دیتے ہیں، اور باطن کا اعتبار نہیں کرتے ہیں، اگرچہ گالی دینے والا یہ گُمان کرے کہ اُس کے باطن میں جو چیز ہے وہ اسکے علاوہ ہے!

اور اگر علماء ظاہر کی کھلی مخالفتوں کو ظاہر کے برعکس باطن کے دعووں کی طرف لوٹاتے، تو شریعت کی نامیں،احکام ،سزائیں اور حدود ساقط ہوجاتیں، اور لوگوں کی حقوق وکرامات پامال ہوجاتیں،مسلمان کو کافر سے اور مومن کو منافق سے تمییز کرنا مشکل ہوجاتا، اور دین و دنیا بے وقوفوں کی زبانوں پر ، اور دل کے مریضوں کے ہاتھوں میں کھلونہ بن کر رہ جاتیں!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ کو گالی دینا کُفرہے گرچہ کُفرکا ارادہ نہ ہو
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گالی دینا کفر ہے اسمیں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور عوام کی اس لا پرواہی کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ انکا ارادہ کُفر کا نہیں تھا، اور گالی پر مبنی انکی بات اللہ کے حق میں بُرائی کا ارادہ کئے بغیر جاری ہوگئی ہے۔اور یہ عُذر پیش کرنا عُذر والے کی جہالت کی بنا پر ہے! اس عُذر کو قبول کرنے کی بات جہم بن صفوان اور غالی مرجئہ کے علاوہ کوئی نہیں کہتا ہے، جنکا کہنا یہ ہے کہ: ‘‘ایمان دل کی جانکاری اور تصدیق کا نام ہے’’۔ اسکا سبب اس بات کی جانکاری کا نہ ہونا ہے کہ ایمان: ‘‘ قول وفعل دونوں کا نام ہے ؛ یعنی : ایمان زبان اور دل کےقول، اور دل اور اعضاء (جوارح)کے عمل کو شامل ہے۔
چنانچہ غالی مرجئہ کا خیال ہے کہ ظاہری عمل ایمان کو ثابت نہیں کرتا ہے،اس بنیاد پر وہ،دل کے ارادے کو دیکھے بغیر ، ایمان کی نفی نہیں کرے گا۔
جبکہ حق ودرست بات یہ ہے کہ ایمان ظاہر وباطن دونوں کا نام ہے،اور ان دونوں میں سے ہرایک دوسرے کے ساتھ ملکر ایمان کو ثابت کرتا ہے،اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے نہ پائے جانے کی وجہ سے پورا ایمان ہی نہیں پایا جاتا ہے۔
اورجسطرح کہ کافر شخص اگر کُفر کا ارادہ اور قصد کرے تو کا فر ہو جاتا ہے ؛ بھلے ہی اس نے اپنی زبان سے اسے نہ کہا ہو، یا اپنے اعضاء سے اسے نہ کیا ہو۔
اسی طرح وہ کُفر کے کہنے کی وجہ سے بھی کافر ہو جاتا ہے ؛ بھلے ہی اس نے اپنے دل سے کفر کی نیت نہ کی ہو اور اپنے اعضاء وجوارح سے اُسے نہ کیا ہو۔اور اسی طرح کُفر کا کرنے والا بھی کافر ہوجاتا ہے ، بھلے ہی اس نے اپنے دل سے کُفر کا ارادہ نہ کیا ہو، اور اپنی زُبان سے اُسے نہ کہا ہو۔

اور جب اعضاء وجوارح کسی حرام کا ارتکاب کریں گے،تو اس پر ان کا مؤاخذہ کیا جائے گا، اور باطن کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے۔
اور ہروہ شخص جس پر- اُسکے ظاہری کفر کےظاہرہونے کیوجہ سے- کفر کا حکم لگایا جاتا ہے وہ باطن میں اللہ کے پاس (بھی) کافر نہیں ہوتا ہے؛ اس لئے کہ باطن کے معاملات اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حوالے ہیں، اور ظاہری چیزوں پر دنیا کے اندر بندے کی پکڑ ہوگی۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اُس شخص پر کفرکا حکم لگایا ہے جس نے اسکا، اسکی کتاب اور اسکے رسول-صلی اللہ علیہ وسلم- کا مذاق اُڑایا ،اور اس کے عذر وبہانہ کو قبول نہیں کیا کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

]وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَ 65 لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ [ [التوبة :65- 66 ]
‘‘اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں؟’’[سورہ توبہ:65-66]
عقل بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ لوگوں کی، ان سے ظاہر ہونے والی چیزوں پر پکڑ کی جائے گی،چنانچہ کسی پر زنا کی تہمت کو قبول نہیں کیا جائے گا، اسی طرح بادشاہ اپنی بُرائی اور لعنت کوقبول نہیں کرے گا، چاہے لوگ لاکھ بہانہ کریں کہ اُنکا ایسا قصد نہیں تھا! چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بغیر ثبوت کے زنا کا تہمت لگانے والے پر، تہمت کی سزا : ۸۰ کوڑا لگانے کا حکم دیا ہے، اور تہمت لگانے کا یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ اُس کا مقصد ہنسی اور کھیل کود کا تھا۔
اس طرح بادشاہ کی ہیبت ختم ہوجائے گی اگر وہ لوگوں کو اپنی عزّت کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے کی چھوٹ دیدے؛ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو سزا دیتا ہے اور انکے ساتھ تادیبی کارروائی کرتا ہے، خواہ ان میں کوئی مذاق کے طور پر ایسا کرنے والا ہو یا سنجیدگی کے ساتھ ۔
اور اس سلسلے میں شریعت کی بہت نصوص پائی جاتی ہیں کہ انسان کی، اسکے اس ظلم و زیادتی پر گرفت کی جائے گی جسکی شریعت اور عقل میں واضح طور سے ثابت عظمت ومنزلت کی جانکاری میں اس نے سستی سے کام لیا ہے، اور اس سلسلے میں اُس کا کوئی بہانہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘کہ بندہ اللہ کی ناراضگی کی کوئی ایسی بات کہدیتا ہے جسکی پرواہ نہیں کرتا اور اسکے بدلے وہ جہنم میں ستّرسال تک گرتا رہتا ہے ) ((صحیح بخاری:6478)، وصحیح مسلم باختصار:2988)۔(
یہاں اللہ تعالیٰ نے اسکے لئے عذاب کو واجب کردیا اور اسے معذور نہیں سمجھا ،جبکہ اسنے اپنی بات کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی! یعنی اپنی بات کی اہمیت و وقعت نہیں دی تھی،کیونکہ وہ اپنی بات پر غور کرنے میں متساہل تھا ،اگر وہ اپنی بات پرغوروفکر سے کام لیتا اور معمولی سا دھیان دیا ہوتا تو اسے اپنے کلام کی قباحت وشناعت کا اندازہ ہوجاتا۔

اور بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :‘‘بےشک تم میں سے ایک شخص اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے جسکی بڑائی کا اسے اندازہ نہیں ہوتا ہے،لیکن اللہ اسکے سبب اسکے لئے قیامت تک کی ناراضگی لکھ دیتا ہے) (مسند احمد:3/469 رقم:18852)، اور (صحیح ابن حبان (280)۔(

اسلئے انسان کا یہ بہانہ کرنا کہ اللہ کو گالی دینا، اور اس پر لعنت کرنا، بغیر اہانت وتذلیل یا تنقیص کا ارادہ کئے ہوئے اسکی زبان پر جاری ہوجاتا ہے :ایسا عُذر ہے جسے ابلیس انسان کیلئے مزیّن کرتا ہے؛ تاکہ اسے اسکے کفر پر باقی رکھے، اور اُسے اپنے خالق کے حق میں اپنے اوپر ظلم وزیادتی پر جمائے رکھے۔
چنانچہ شیطان انسان کو کُفر پر نہیں ابھارتا ہے مگر اسکے لئے کمزور عقلی اور شرعی شبہات پیدا کرکے اسے ان پر مطمئن کردیتا ہے، حالانکہ وہ شبہات خواہشات سے خالی صحیح فہم کے تراضو پر ٹہرنے سے عاجز ہوتی ہیں۔

اور ابلیس کی دسیسہ کاری اور شبہات میں سے یہ ہے کہ: وہ انسان کی نیکیوں کو سامنے کرکے اسکی نگاہ میں کفر اور معصیت کو حقیر اور ہلکا بنا دیتا ہے، جسکی وجہ سے سیاہ کار انسان کے دل میں نافرمانی کی تکلیف اور گناہ پر پچھتاوا ختم ہوجاتا ہے؛ جیسے کہ عوام میں سے اللہ کو گالی دینے والے کو یہ باور کرانا کہ وہ شہادتین (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا اقرار کرتا ہے،اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک وبرتاؤ کرتا ہے! اور ہو سکتا ہے کہ اس نے نماز بھی پڑھی ہو!

اسی طرح کے شبہات اور فریب کے ذریعہ مکّہ میں عرب مشرکین گمراہ ہوئے، انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اور اسے چھوڑ کر بتوں کی پوجا کی،اور اپنے دلوں میں حاجیوں کو پانی پلانے،مسجد حرام کو آبادکرنے اورکعبہ کوغلاف پہنانے کی باتیں رکھیں، لیکن ان سب چیزوں نے اللہ کے نزدیک انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا،کیونکہ انکا اللہ کے ساتھ غیراللہ کو شریک ٹہرانا اسکی تعظیم کرنے کے خلاف ہے، تو وہ بیت الحرام کی تعظیم کرتے ہیں جبکہ بیت الحرام کے مالک کے ساتھ کُفر کرتے ہیں! حالانکہ بیت الحرام کی تعظیم اسکے مالک کی وجہ سے کی جاتی ہے،رب کی تعظیم اسکے گھر کی وجہ سے نہیں کی جاتی ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ [التوبة : 19 ]]
‘‘کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ئے اور اللہ کی راه میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالیٰ الموں کو ہدایت نہیں دیتا’’ [سورہ توبہ:19]
اور اکثر انسان کا اللہ پر ایمان ایک دعوی ہوتا ہے، کیونکہ یہ اسکے علاوہ کے مخالف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فر مایا:

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ﴾ [البقرة : 8 ]
‘‘اور لوگوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ،لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں’’ [سورہ بقرہ:8]
اسلئے اللہ کی تعظیم کرنے اور شہادتین کے اقرار کرنے کا دعوی اللہ سبحانہ تعالیٰ کو گالی دینے اور اسکا مذاق اُڑ انے کے ساتھ درست نہیں ہوسکتا ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ کو گالی دینے والے کی سزا
علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کو گالی دینے والےکو کُفر کرنے کی وجہ سے قتل کردیا جائے گا،اور وہ قتل کئے جانے کے بعد مسلمانوں کے احکام : اس پر جنازہ کی نماز ،غسل،کفن،دفن، اور دعا کا مستحق نہیں ہوگا۔چنانچہ انکا خیال ہے کہ اُس پر (جنازہ کی) نماز پڑھی جائے گی نہ اسے غسل دیا جائے گا، نہ اسے کفن پہنایا جائے گا اور نہ ہی اسے مسلمانوں کی قبرستان میں دفن کیا جا ئے گا، اور اسکے لئے دعا کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے!

علماء نے صرف اسکی توبہ قبول کئے جانے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اگر اس نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں اپنے قبیح قول یا فعل سے توبہ کر لیا ہے، اور کیا قتل سے پہلے اس سے توبہ کروایا جائے گا، یا اسے قتل کر دیا جائے گا اور دنیا میں اسکی توبہ کو نہیں سنا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ آخرت میں اسکے باطن کا ذمہ دار ہوگا؟

اس سلسلے میں انہوں نے علماء کے دو مشہور قولوں پر اختلاف کیا ہے :
پہلا قول :
اسکی توبہ نہیں قبول کی جائے گی، بلکہ بغیر توبہ کرائے ہی اسے قتل کرنا واجب ہے، اوراسکی توبہ آخرت میں اللہ کے حوالے ہے، حنابلہ اور انکے علاوہ فقہاء کے ایک گروہ کے یہاں یہی مشہور قول ہے ۔ یہی عمر بن خطاب اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور انکے علاوہ کا ظاہر قول ہے جیسا کہ پیچھے گُذر چکا، اور یہی احمد بن حنبل کے مشہور قول کا ظاہر ہے ۔
اسکا سبب : یہ ہے کہ توبہ ظاہری جُرم کو ساقط نہیں کرتی ہے، اور نہ ہی لوگوں کے یہاں، اللہ کو گالی دینے اور اسکا مذاق اُڑانے کی لا پرواہی سے جنم لینے والی خرابی کو دُور کر سکتی ہے؛ اسلئے توبہ قبول کر لینے سے لوگ اس عظیم گناہ میں تساہل سے کام لیں گے، اور جب حکومت اورعدالت پر پیش کئے جائیں گے تو توبہ کرکے چھٹکارا حاصل کر لیں گے۔ اور یہ چیز کفر پر اور جری بنادے گا،اورلوگوں کے دلوں میں اسکا معاملہ نہایت ہی آسان اور حقیر کردے گا ، جبکہ سزائیں مجرم کی تادیب کرنے اور اسے پاک کرنے، اور دوسرے شخص کو اس کی طرح کہنے یا کرنے سے روکنے اور دور رکھنے کیلئے متعین کی گئی ہیں، اور توبہ قبول کر لینے سے سزا کے دونوں مقاصد فوت ہوجائیں گے!
دوسرا قول : اس سے توبہ کروایا جائے گا، اور اسکی توبہ قبول کی جائے گی،اگر اس کی طرف سے سچائی اور دوبارہ اس جُرم کی طرف نہ لوٹنے کا ارادہ ظاہر ہو ، اور یہی جمہور فقہاء کا قول ہے۔
اوراسکے توبہ قبول کرنے کا سبب یہ ہے کہ: گالی دینا کفر ہے، اور کافر کا ہر کفر سے توبہ کرنا مقبول ہے، جیسے مشرکین، بت پرست اور بے دین لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ،اور انکا اسلام میں داخل ہونا انکے سابقہ کفر کو مٹا دیتا ہے ،اور اللہ توبہ کرنے والے کی توبہ کو قبول فرماتا ہے اور اسے معاف کر دیتا ہے۔
اور گالی کے ذریعے اللہ پر زیادتی کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حق ہے ،اور اللہ تعالیٰ کوگالی دے کر اپنے آپ پر ظلم کرنے والے شخص کو اللہ نے معاف کردیا ہے، اور ہر شرک کرنے والے کے توبہ کو قبول فرمایا ہے۔
 
Top