• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ سبحا نہٗ و تعالیٰ کا دیدار

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اللہ سبحا نہٗ و تعالیٰ کا دیدار


ہر موجود کا نظر آنا ضروری نہیں، بہت سی چیزیں موجود توہیں مگر نظر نہیں آتیں جیسے ہو ا چلتی ہے، محسوس بھی ہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی، آپ اسکے وجود سے انکار نہیں کرسکتے۔ آپ خوشبو سونگھتے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے، روح آپ کے جسم میں موجود ہے، بغیر روح کے آپ زندہ نہیں رہ سکتے، مگر روح نظر نہیں آتی،کیو نکہ وہ بہت لطیف ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی بہت لطیف ہیں جسے دنیامیںانسانی آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا۔

فرمانِ الٰہی ہے :۔ (ترجمہ)’’(دنیا میں کسی کی) آنکھیں اس(اللہ) کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ نہایت باریک بین اور با خبرہے۔ ‘‘(الانعام 6 :آیت103)
جب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کی درخواست کی تو اللہ کریم نے جواب میں فرمایا:۔ (ترجمہ)’’(اے موسیٰ) تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔‘‘(الاعراف7 : آیت 143)

البتہ جنتیوں کوجنت میں اللہ رب العزّت کے دیدار کا شرف حاصل ہوگا۔
فرمانِ الٰہی ہے :۔ (ترجمہ)’’ اور اس دن(جنت میں)کئی چہرے تروتازہ (خوش) ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘( القیٰمۃ 75 :آیات 22 تا 23)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
1’’ اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا جو انہیں جنت کی دیگر تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب ہوگا۔‘‘ (مسلم۔عن صہیب رضی اللہ عنہ )
2’’ اے لوگو، تم اپنے رب کا (جنت میں) ایسے دیدار کرو گے جیسے چاند کو بغیر کسی مشقت کے دیکھتے ہو۔‘‘ (مسلم۔عن جریر رضی اللہ عنہ )
 
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
45
پوائنٹ
48
السلام علیکم۔۔ ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ اللہ رب العالمین کو دنیاوی آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا لیکن آپ نے جو تشبیہ دی ہے اور آیت کا جو مفہوم بیان کیا ہے وہ بالکل بھی اللہ رب العالمین کے شایان شان نہیں۔بلکہ یہ گمراہ فرقہ مشبہ کا طریقہ ہے۔
اللہ رب العالمین "لطیف" ہے لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ باریک ہے اس لئے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ آیت میں وارد شدہ لفظ اللطیف کا معنی دو طرح سے کیا گیا ہے:
١۔ بمعنی خبیر کے ہےـ یعنی وہ علم کے اعتبار سے باریک بیں ہے باریک سے باریک اور پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے۔
٢- اپنے بندوں اور اولیاء تک ان کی ضرورتوں اور حاجت کی چیزوں کو اپنے اس طرح کے لطف اور کرم سے پہنچاتا ہے کہ ان کو احساس بھی نہیں ہوتا۔(فقہ الاسماء الحسنی: ص ١٣٨،عبد الرزاق البدر)
اور دنیاوی آنکھیں اللہ رب العالمین کو اس لئے نہیں دیکھ سکتی کیوں کہ ان میں اللہ رب العالمین کو دیکھنے کی طاقت اور قوت نہیں، جیسا کہ موسی علیہ السلام کے رویت الہی کے مطالبہ کے وقت اللہ رب العالمین نے اس کا جواب دیا تھا: وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (سورہ اعراف:١٤٣) ، اور جب موسی مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنا دیدار کرا، تاکہ میں تجھے ایک نظر دیکھ لوں ، ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تک اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے، پس جب ان کے رب نے اس پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسی بے ہوش ہوکر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا بے شک آپ کی ذات منزہ ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے اس پر ایمان لانے والا ہوں۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کو اس دنیا میں اس لئے نہیں دیکھ سکتے کیوں کہ اللہ کی ذات عظیم اور پرجلال ہے، رہی بات آخرت میں دیکھنے کی تو اللہ رب العالمین بروز قیامت اپنے بندوں کو وہ قوت اور طاقت دے گا جس کی بنیاد پر وہ اللہ رب العظیم والجلیل کو دیکھ اس کی عظمت اور جلالت کے باوجود دیکھ سکیں گے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ عامر بھائی وجاوید بھائی!

ما شاء اللہ! جاوید بھائی کی پہلی پوسٹ اور وہ بھی اتنی عمدہ!

اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہی نہیں جا سکتا، اس کے متعلق ایک صحیح اور نہایت ہی صریح حدیث مبارکہ یہ ہے، نبی کریمﷺ نے دجال کی اتنی شعبدہ بازیوں کے بعد اس کے ربوبیت کے دعوے کی تردید دو طریقوں سے فرمائی:
1۔ دجال کانا ہے، اور رب کانا نہیں ہو سکتا۔
2۔ کوئی انسان مرنے سے پہلے (جنت میں جانے سے پہلے) اپنے حقیقی رب کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔

ان دونوں قطعی دلائل سے ثابت ہوا کہ دجال اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہوگا۔

فرمانِ نبوی ہے:

«إني حدثتكم عن الدجال حتى خشيت أن لا تعقلوا ، إن المسيح الدجال رجل قصير ، أفحج ، جعد ، أعور ، مطموس العين ، ليست بناتئة ، ولا حجراء ، فإن ألبس عليكم ؛ فاعلموا أن ربكم ليس بأعور ، وأنكم لن تروا ربكم حتى تموتوا » ۔۔۔ صحيح الجامع: 2459

بلا شبہ میں نے تمہیں دجال کے متعلق (اتنا) بتایا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم نے اسے سمجھا ہی نہ ہو (یعنی اتنی زیادہ باتیں کہیں تم پر خلط ملط ہی نہ ہوگئی ہوں)، یاد رکھو کہ مسیح دجال ٹھگنے قد والا، باہر کو نکلی ٹیڑھی پنڈلیوں والا اور بہت گھنگھریالے بالوں والا ہوگا۔ ایک آنکھ سے کانا ہوگا جو مِٹی ہوئی ہوگی، نہ تو ابھری ہوئی اور نہ گہری ہوگی۔ اگر پھر بھی تمہیں شبہ ہو تو یاد رکھنا کہ تمہارا رب کانا نہیں اور (یہ بھی یاد رکھنا کہ) تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے (یعنی اس دنیوی زندگی میں تمہارے پاس اپنے حقیقی رب کے دیدار کی طاقت نہیں ہے۔)
 
Top