• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اللہ کہاں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا
میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے

وہاں سے ایک چروہے کا گزر ہو ا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی
چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے

سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ
رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو

پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما
نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا
اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو،،
چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ
ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا
چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : پھر اللہ کہاں ہے
ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے
اللہ کہاں ہے اور روتے جارہے تھے
اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے
اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں
اور اُسے کہا کہ تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے
کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے

(الراوي : زيد بن أسلم المحدث : الألباني - المصدر : السلسلة الصحيحة - لصفحة أو الرقم : 7/469)

اللہ مالک الملک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں
اپنا تقویٰ اور ڈر پیدا کرے ہم لوگوں کے ڈر سے نہیں بلکہ لوگوں کے
رب کے ڈر سے گناہ اور نافرمانیاں چھوڑ دیں
اللہ ہمارے کاموں اور دلوں میں اخلاص پیدا فرمائے آمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اللہ کہاں ہے۔...

جب كسى سے پوچھا جاے كه الله کہاں ہے۔؟ تو سب يه كہتے ہیں
الله هر جگه موجود ہے۔ يه عقيده غلط ہے الله عرش پر مستوی ہے

الله اپنے علم اپنى قدرت سے هر جگه موجود ہے۔ الله كا ارشاد ہے

{الرحمن علی العرش الستوی } [ طٰہٰ :۵]ا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے۔۔۔۔

عرض کیا کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اس لونڈی نے کہا آسمان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا میں کون ہوں اس لونڈی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لونڈی کے مالک سے فرمایا اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ لونڈی مومنہ ہے۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1194

اس حدیث سے صاف واضح ہے کہ اللہ کہاں ہے۔۔۔۔۔یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقریری عمل۔۔۔

اور اب فعل سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حج کی کیفیت کے بیان میں

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت والی انگلی کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے اور لوگوں کی طرف منہ موڑتے ہوئے فرمایا اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، گواہ رہنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے

صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 456

اب عملی کام سے اللہ کے اعلی ہونے کے دلیل

کہ جب انسان نماز پڑھتا ہے تو دو نو ں سجدوں میں جو پڑھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سبح اسم ربک الاعلی۔۔۔یعنی اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں جو اعلی ہے۔۔۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہے کہ اللہ کہاں ہے ۔۔اگر ہم اپنے خود کے مشاہدوں پر غور کریں توبادشاہ کے لیے تخت اونچے مقام پر ہی رکھا جاتا ہے جہاں سے وہ سب کو دیکھ سکے ۔۔۔۔تو اللہ تو سب مالک ہے تو اس کے لیے ایسی سوچ کیوں ۔۔کیا ہم اپنے بچوں کی وہ عمر جس سے ہم سیکھنے کی عمر کا پہلا دور کہتے ہیں کیا ہم ان کو غلط تعلیم نہیں دلوا رہے ۔۔

اللہ تعالیٰ کے متعلق محدثین و سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{الرحمن علی العرش الستوی } [ طٰہٰ :۵]
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شیئرنگ کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
کراچی میں پروفیسر ابراہیم بھٹی صاحب نے طارق روڈ میں چلڈرن پارک مسجد الرحمن میں یہ واقعہ سنایا تھا۔ اللہ تعالی انہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے آمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
كيا عرش ساتويں آسمان كے اوپر ہے؟
ہم يہ تو جانتے ہیں كہ اللہ تعالى آسمان وزمين كے​
اوپر ہے اور سب كچھ اس كے نيچے ہے، تو كيا اس كا معنى يہ ہے​
كہ عرش ساتويں آسمان پر ہے ؟​

الحمد للہ:​

اس ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ عرش ساتويں آسمان كے ​
اوپر ہے بلكہ وہ سب مخلوقات سے بھى اوپر ہے،​
اور اس پر صريح دلائل بھى دلالت كرتے ہيں ان دلائل ميں سے بعض يہ ہيں:​

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابوہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ​
سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:​

" بلاشبہ جنت ميں سو مرتبے اور درجات ہيں​
جو اللہ تعالى نے اللہ تعالى كے راستے ميں جھاد كرنے والے​
مجاہدين كے ليے تيار كيے ہيں دو درجوں كے مابين اتنا فاصلہ ہے​
جتنا آسمان وزمين كے مابين ہے، لھذا جب تم اللہ تعالى سے​
سوال كرو تو جنت الفردوس مانگا كرو كيونكہ وہ جنت كا وسط ​
اور بلند ترين درجہ ہے اور اس كے اوپر رحمن كا عرش ہے​
اور وہيں سے جنت كى نہريں پھوٹتى ہيں"​

صحيح بخارى​

اور سب مسلمانوں كے ہاں يہ بات مقرر شدہ ہے كہ​
جنت ساتويں آسمان كے اوپر ہے لھذا جب عرش جنت كے ​
اوپر ہے تو پھر اس سے يہ لازم آيا كہ عرش ساتويں آسمان سے بھى اوپر ہے.​

اور اس معنى كى دليل اس حديث سے بھى ملتى ہے جسے​
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں بيان كيا ہے:​

عبد اللہ بن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ​
مجھے ايك انصارى صحابى رضي اللہ تعالى عنہ نے​
بتايا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:​

" ليكن ہمارا رب تبارك وتعالى اس كا نام بابركت ہے جب كسى كام كا فيصلہ فرماتا ہے تو عرش اٹھانے والے فرشتے اس كى تسبيح بيان كرتے ہيں اور پھر ان كے قريبى آسمان والے بھى تسبيح بيان كرتے ہيں حتى كہ تسبيح اس آسمان دنيا والوں تك پہنچ جاتى ہے پھر عرش اٹھانے والوں كے قريب ترين فرشتے عرش اٹھانے والے فرشتوں سے كہتے ہيں: تمہارے رب نے كيا فرمايا: تو جو رب تعالى نے كہا تھا وہ انہيں بتاتے ہيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: آسمان والے ايك دوسرے كو وہ خبر ديتے ہيں حتى كہ وہ خبر آسمان دنيا والوں تك پہنچ جاتى ہے"​
صحيح مسلم ​

لھذا يہ تو بالكل اور بہت زيادہ ظاہر ہے كہ عرش اور اسے​
اٹھانے والے سب آسمانوں سے اوپر ہيں.​

اور ان دلائل ميں سے يہ حديث بھى ہے جسے ابن خزيمہ نے​
صحيح ابن خزيمہ اور اپنى كتاب التوحيد ميں نقل كيا ہے:​

ابن مسعود رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں​
كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:​

" آسمان دنيا اور اس كے ساتھ والے آسمان ميں​
پانچ سو برس كا فاصلہ ہے اور ہر آسمان كے مابين پانچ سو برس كا فاصلہ ہے"​



عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا: كہ اللہ تعالى نے ​
ساتويں آسمان پر پانى بنايا ہے اور پانى كے اوپر عرش ركھا ہے​
" علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس كى سند كو صحيح كہا ہے .​



واللہ اعلم .​

الشیخ محمد صالح المنجد​​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اللہ کہاں ہے؟
س: اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟
ج : ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور وہ خود خالق ہے، خالق عرش پر قائم ہے،​
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :​
(انَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ فِیْ سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ)
(الأعراف :54' یونس: 3)​
''بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا''.

یہ بھی فرمایا :​
(أَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ).
'' رحمن عرش پر قائم ہے''
(طہٰ :5)​
یہ بھی فرمایا :​
(ئ أَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ أَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ فَاذَا ھِیَ تَمُوْرُ)
(الملک:16)​
''کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ جو آسمانوں میں ہے وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پھر وہ (زمین) ہچکولے کھانے لگ جائے'' .
معاویہ بن حکم سُلَمِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری ایک لونڈی تھی جو بکریاں چراتی تھی، ایک دن بھیڑیا ریوڑ میں سے ایک بکری لے گیا، مجھے غصہ آیا اور میں نے اسے تھپڑ رسید کر دیا' میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے میرے فعل کو برا کہا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لے آ، میں اسے آپ کے پاس لے گیا، آپ نے اس سے پوچھا، اللہ تعالیٰ کہاں ہے، لونڈی نے جواب دیا: ''فی السمائ'' آسمان میں، آپ نے پوچھا کہ ''میں کون ہوں؟'' کہنے لگی آپ اللہ کے رسول ہیں، فرمایا: ''اسے آزاد کر دو ''فَانَّھَا مُؤْمِنَة'' ''یہ مومنہ ہے'
' (مسلم: 537)​
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے​
س: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:​
( ھُوَ مَعَھُمْ أَیْنَ مَا کَانُوْا)
''وہ ان کے ساتھ ہے جہاں بھی وہ ہوں''
(المجادلہ:7)​
( وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ)​
'' جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے '' (الحدید: 4).​
جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ ہے، پھر اسے عرش پر کیسے مانا جائے گا؟​
ج: دراصل ''مع'' (ساتھ) کے لفظ سے دھوکا کھایا گیا ہے ''مع'' (ساتھ) صرف ذاتی طور پر اکٹھے ہونے کے لیے نہیں بولا جاتا ، بلکہ اس کے دوسرے معنی بھی ہیں،​
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:​
(الف)(یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ)(التوبہ: 119)​
''اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو''.

''سچوں کے ساتھ رہو'' کا یہ مطلب کون لے سکتا ہے کہ گھر میں' بازار میں غرض ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ پھرو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سچوں کا مذہب اختیار کرو، اور سچوں کے ساتھ تعاون کرو​
.(ب) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(الَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَأُوْلٰئِکَ مَعَ الْمُوْمِنِیْنَ )(النساء : 146 )​
''مگر جنہوں نے توبہ کی' اصلاح کی' اللہ پر کامل یقین رکھا اور خالص اللہ ہی کے لئے دینداری کی، یہی لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں''.
مومنوں کے ساتھ کا مطلب کیا ہے، کیا وہ جسمانی طور پر ہر وقت مومنین کے ساتھ ہیں؟ یا مراد ان کے زمرے میں شامل ہونا ہے۔​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اللہ کہاں ہے؟

اِمام أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی الحنفی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 321ہجری

​​
اپنی مشہور و معروف کتاب"""عقیدہ الطحاویہ"""میں کہتے ہیں ​

اللہ عرش اور اُس کے عِلاوہ بھی ہر ایک چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے أحاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُس کی مخلوق اُس کا أحاطہ کرنے سے قاصر ہے​

اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس " عقیدہ الطحاویہ " کی شرح میں اِمام الطحاوی رحمہُ اللہ کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ​

یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے
یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم کے ذریعے، اِس کے دلائل ابھی آئیں
اِن شاء اللہ تعالیٰ
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے جُدا ، بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں میں وارد ہونے والی نصوص کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصوص تقریباً بیس اقسام میں ہیں ، اور پھر انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے سولہویں قِسم (نمبر 16)کے بیان میں لکھا ​
فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا​

يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ o أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ​

اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں o آسمان کے راستوں تک ، (اور اُن کے ذریعے اُوپر جا کر ) موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور بے شک میں اِسے (یعنی موسی کو )جھوٹا سمجھتا ہوں

(سُورۃ غافر(40) /آیت36،37)

لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے

حوالہ ::: شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 287/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
النواس بن سمعان الکلبی رضی اللہ عنہ ُ فتنہء دجال کے اور یاجوج ماجوج کے نکلنے اور قتل و غارتگری کرنے کی خبروں پر مشتمل ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا​

ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ الْخَمَرِ وَهُوَ جَبَلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِى الأَرْضِ هَلُمَّفَلْنَقْتُلْ مَنْ فِى السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مَخْضُوبَةً دَمًا
پھر یأجوج مأجوج چل پڑیں گے اور خمر نامی پہاڑکے پاس جا پہنچیں گے ، اور یہ پہاڑ بیت المقدس والا پہاڑ ہے(جب وہاں پہنچیں گے) تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے اُنہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ اُن کے تیروں کو خون کی طرح سرخ کر کے اُن کی طرف پلٹا دے گا
صحیح مُسلم / حدیث 2937 /کتاب الفتن و أشراط الساعۃ /باب 20، سُنن النسائی /حدیث 2240/ کتاب الفتن /باب 59 )​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا​

لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ الخَلقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہِ فَہُوَ عِندَہُ فَوق َ العَرشِ إِنَّ رَحمَتِی تَغلِبُ غَضَبِی
جب اللہ تخلیق مکمل کر چکا تو اُس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہو گی وہ کتاب اللہ کے پاس ہے عرش کے اوپر

(صحیح البُخاری /حدیث 3194 /کتاب بداء الخلق /پہلے باب کی پہلی حدیث ، صحیح مُسلم /حدیث 2751 /کتاب التوبہ/باب 4 پہلی حدیث )​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا :​

يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ وَصَلاَةِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِى فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ

رات کے فرشتے اور دِن کے فرشتے تُم لوگوں میں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں(یعنی فرشتوں کا ایک گرو ہ فجر کے وقت آتا ہے اور عصر تک رہتا ہے ، یہ دِن کے فرشتے ہیں اور دوسرا گروہ عصر کے وقت آتا ہے اور فجر تک رہتا ہے یہ رات کے فرشتے ہیں )پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے درمیان رات گذاری ہوتی ہے(یعنی عصر کے وقت آنے والے فرشتے ) اُوپر ( اللہ کی طرف) چڑھتے ہیں تو(وہاں )اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے، جبکہ وہ بندوں کے بارے میں فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے ، تُم نے میرے بندوں کو کِس حال میں چھوڑا ؟ تو فرشتے کہتے ہیں جب ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے -
صحیح مُسلم / حدیث632/کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ / باب 37 کی پہلی حدیث ،صحیح البُخاری / حدیث 555 / کتاب مواقیت الصلاۃ / باب 16کی دوسری حدیث ، صحیح ابنِ خزیمہ/حدیث 321 /کتاب الصلاۃ / باب12 ذكر اجتماع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر وصلاة والعصر جميعا ودعاء الملائكة لمن شهد الصلاتين جميعا کی پہلی حدیث، صحیح ابن حبان /حدیث 1736/کتاب الصلاۃ/باب9،مؤطامالک/حدیث416/کتاب قصر الصلاۃ/ باب24 ،مُسند احمد /مُسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ ،سنن النسائی /حدیث489/ کتاب الصلاۃ/باب21۔​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :​

إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلاَئِكَةً سَيَّارَةً فُضْلاً يَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ - قَالَ - فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِى الأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ

بے شک اللہ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو (زمین میں)چلتے پھرتے ہی رہتے ہیں ،اور(اللہ کے) ذِکر کی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جِس میں (اللہ کا)ذِکر ہو رہا ہو تو وہ ذِکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پَروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ اُن کے اور دُنیا والے آسمان کے ساری جگہ میں وہ فرشتے بھر جاتے ہیں ، اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے اور بُلند ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مزید فرمایا ۔تو(وہاں )اللہ عزّ و جلّ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ """ تُم سب کہاں سے آئے ہو ؟ """ جبکہ اللہ فرشتوں کے بارے میں خود اُن سے زیادہ جانتا ہے، تو فرشتے جواباًعرض کرتے ہیں """ہم آپ کے اُن بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں آپ کی پاکیزگی ، اور آپ کی بڑائی ، اور الوھیت میں آپ کی واحدانیت ،اور آپ کی تعریف بیان کرتے ہیں ، اور آپ سے سوال کرتے ہیں
)صحیح مُسلم /حدیث 7015/کتاب الذکر و الدُعاء والتوبہ/باب 8 (​

قارئین کرام ،ملاحظہ فرمائیے ، اور بغور ملاحظہ فرمایے کہ ان دونوں احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کا اللہ کی طرف چڑھنے کا ذِکر فرما رہے ہیں ، اور غور فرمایے کہ چڑھا اوپر کی طرف جاتا ہے یا کِسی اور طرف ؟؟؟​
اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔
 
Top