گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
ابن جوزی صاحب ! بجائے اس کے کہ بیان کردہ قرآنی دلائل پر غور کرتے۔اپنی کلام میں پڑ گئے۔ اور اس ذات کو جس ذات نے تمہاری عقل بنائی ہے۔ اسی عقل سے اس ذات کے بارے میں پہنچان کرنے بیٹھ گئے۔؟ اتنا بھی نہ سوچا کہ شریعت نے ہمیں کس چیز کامکلف بنایا ہے؟ کیا آپ اللہ تعالی نے آپ کو اس بات کامکلف بنایا ہےکہ آپ اللہ تعالی کے بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائیں ؟
آپ لوگوں کے ہم مثل لوگ پہلے بھی گزرے ہیں۔جن کی مثال اللہ تعالی کچھ یوں بیان فرمائی ہے۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٦٧﴾ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ﴿٦٨﴾ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ﴿٦٩﴾قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِن شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ
امید ہے سمجھ آ گئی ہوگی۔ اگر نہ آئی ہو تو ’’دلیل کیا ہے؟‘‘ کی طرح سمجھادوں گا۔ان شاءاللہ۔اور ہاں آپ کی محبوب ترین چیز جس کو واجب تک کہہ دیا جاتا ہے ’’تقلید کیا ہے؟‘‘ کا تھریڈ بھی بے یارو مددگار اور بآواز بلند مدد کےلیے شیخ وپکار کر رہا ہے۔کچھ اس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر میں آپ کو کہوں کہ مجھے انڈے سے موٹر سائیکل نکال کےدو آپ دو گے ؟ تو جس طرح یہ ناممکنات میں سے ہے تو اسی طرح اللہ تعالی کے بارے میں محدود لا محدود وغیرہ کے بارے میں سوچنا،سوال کرنا بھی ناممکنات میں سے بنا لو۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ان شاءاللہ
آپ لوگوں کے ہم مثل لوگ پہلے بھی گزرے ہیں۔جن کی مثال اللہ تعالی کچھ یوں بیان فرمائی ہے۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٦٧﴾ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ﴿٦٨﴾ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ﴿٦٩﴾قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِن شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ
امید ہے سمجھ آ گئی ہوگی۔ اگر نہ آئی ہو تو ’’دلیل کیا ہے؟‘‘ کی طرح سمجھادوں گا۔ان شاءاللہ۔اور ہاں آپ کی محبوب ترین چیز جس کو واجب تک کہہ دیا جاتا ہے ’’تقلید کیا ہے؟‘‘ کا تھریڈ بھی بے یارو مددگار اور بآواز بلند مدد کےلیے شیخ وپکار کر رہا ہے۔کچھ اس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
الاستواء معلوم والکیفیۃ مجہولۃ والسؤال عنہ بدعۃاس وقت اللہ کی ذات کہاں تھی؟
خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِکیا عرش بھی قدیم ہے؟
سوائے رب العالمین کی ذات کے باقی جگہوں پر یہ سوال قائم کیاجاسکتا ہے۔ لیکن اگر محدود لا محدود کی سوچ کا سوال اللہ تعالی کے بارے میں کریں گے تو یہ سوال ہی بنیادی طور پر غلط ہوگا۔کیا محدود لامحدود کومحیط ہوسکتا ہے؟
اگر میں آپ کو کہوں کہ مجھے انڈے سے موٹر سائیکل نکال کےدو آپ دو گے ؟ تو جس طرح یہ ناممکنات میں سے ہے تو اسی طرح اللہ تعالی کے بارے میں محدود لا محدود وغیرہ کے بارے میں سوچنا،سوال کرنا بھی ناممکنات میں سے بنا لو۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ان شاءاللہ