- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
یہ آیت کریمہ یا تو قبلہ مقرر ہونے سے پہلے کی ہے، یا پھر اس میں نفلی نماز کا تذکرہ ہے۔بھائی ذرا اس آیت کا ترجمہ کردیں
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ (سورہ فصلٰت١١)
اور
ابھی کہاں ہے اسکا تو اللہ نے بتا دیا ہے ۔ وہ عرش کو محدود نہیں۔ وہ تو حدود سے پاک ذات ہے۔ اور اس آیت میں بتا دیا ہے
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ۔۔ سورہ بقرہ آیت١١٥
اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے ہی مشرق ومغرب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہی ان کے اور ان کے مابین تمام مخلوقات کے خالق ومالک ہیں۔
تو تم جہاں بھی چہرہ کرو وہیں اللہ کا (مقررہ کردہ) قبلہ ہے۔
کیونکہ وَجْہ، وِجْہہ اور جِہَہ یہ سب قبلہ کے معنیٰ میں آتے ہیں، جیسے فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ١٤٨ ﴾ ۔۔۔ البقرة
أي قبلة
بعض مفسرین نے وجہ اللہ سے مراد اللہ کی رضا بھی لی ہے، جیسے فرمانِ باری ہے:
﴿ إلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ ٢٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الأعلىٰ
أي رضاه
صحیح حدیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
ما بين المشرق والمغرب قبلة
کہ مشرق ومغرب کے مابین قبلہ ہے۔
یہ حدیث مبارکہ مدینہ نبویہ کے بارے میں ہے، وہاں سے قبلہ جنوب کی سائیڈ پر ہے، تو اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ جنوب کی طرف (مشرق ومغرب کے درمیان) ساری جہت قبلہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
امام ابن جریر طبری نے درج بالا آیت کریمہ میں بعض حضرات سے یہ تفسیر بھی نقل کی ہے کہ وجہ سے مراد چہرہ بذاتہٖ یعنی اللہ تعالیٰ مراد ہیں، امام ابن کثیر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر یہ بھی مراد لیا جائے تو اس سے مراد اللہ کا علم اور قدرت ہے، نہ کہ ذاتِ باری تعالیٰ کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ اپنی مخلوق میں محصور نہیں ہو سکتی۔
تفصیل کیلئے دیکھئے، تفسیر ابن جریر، قرطبی وابن کثیر وغیرہ