• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کی محبت کا سبب بننے والے دس امور

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
664
ری ایکشن اسکور
741
پوائنٹ
301
اللہ کی محبت کا سبب بننے والے دس امور

الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں اور نبی کریمﷺمسجدسے نکل رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی کو ملے ۔ پس اس نے سوال کیا:یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی؟نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((ما أعددت لھا؟))
’’تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟
حضرت انس فرماتے ہیں :گویا کہ وہ شخص الجھن میں پڑ گیا۔پھر بولا :یا رسول اللہ :میں نے اگرچہ زیادہ نمازوں ،روزوں یا صدقات سے اس کی تیاری نہیں کی لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((فأنت مع من أحببت))
’’تو اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ محبت کرے گا۔‘‘
حضرت انس فرماتے ہیں:کہ اسلام لانے کے بعداس جملے سے بڑھ کر ہمیں کبھی خوشی نہیں ہوئی۔[بخاری ،مسلم]
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں بھی اللہ ،اس کے رسول اور ابو بکروعمر سے محبت کرتا ہوں ،اور قیامت کے دن ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی امید رکھتا ہوں،اگرچہ میرے عمل ان جیسے نہیں ہیں۔[مسلم]
جو شخص محب للہ کے مرتبے سے محبوب من اللہ کے مرتبے تک جانا چاہتا ہے اسے چاہئیے کہ وہ ان دس اسباب پر عمل کرے جو امام ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب ’’مدارج السالکین‘‘میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا سبب بننے والے امور کے حوالے سے نقل کئے ہیں۔
۱۔غور وفکر اور تدبر کے ساتھ معانی کو سمجھتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرنا:
جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرے اسے چاہئیے کہ قرآن کی تلاوت کرے۔حضرت حسن بن علی فرماتے ہیں:
((ان من کان قبلکم رأوا القرآن رسائل من ربھم فکانوا یتدبرونھا باللیل، ویتفقدونھافی النھار))
’’کہ تم سے پہلے لوگوں نے قرآن کو اپنے رب کی طرف سے رسائل تصور کیا ،پس وہ لوگ رات کو اس میں غور وفکراور تدبر کرتے تھے جبکہ دن کو اس کی تلاش کرتے تھے۔‘‘امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ تلاوت کرنے والے پر سب سے پہلے اپنے نفس کو حاضر کرنا واجب ہے ۔ اسی وجہ سے ایک صحابی رسول ﷺصرف ایک سورت کی تلاوت اور اس میں فہم کی وجہ سے محبت من اللہ کے مرتبے تک پہنچ گیا۔وہ شخص ہر نماز میں سورۃ الاخلاص کی تلاوت کرتا اور بار بار پڑھتا تھاجب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا:
((لأنھاصفۃ الرحمن،وأنا أحب ان أقرأھا))
’’کہ یہ اللہ کی صفات ہیں اور میں اس سے محبت کرتا ہوں۔‘‘تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((أخبروہ أن اللّٰہ یحبہ))[بخاری]
’’اسے خبر دے دو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
تلاوت قرآن مجید کا بنیادی مقصد تدبر ہے ،اور اگر بار بار تلاوت کرنے کے بغیر تدبر حاصل نہ ہو تو آیت کو بار بار پڑھا جائے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کیا کرتے تھے۔حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک رات اپنے قیام اللیل میں ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے ساری رات گزار دی اور وہ آیت یہ تھی:
((اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ)) [المائدۃ:۱۱۸]
’’اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں،اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو زبر دست ہے حکمت والا ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت تمیم داری نے ایک ہی آیت سے پوری رات کا قیام کیا۔وہ آیت یہ ہے:
((أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیِّئٰاتِ أَنْ نَجْعَلَھُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ سَوَآئً مَحْیَاھُمْ وَمَمَاتُھُمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ))[الجاثیۃ:۲۱]
’’کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے کہ ان کا مرنا جینا یکساں ہو جائے،برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں۔‘‘
۲۔فرائض کے بعد نوافل کے ساتھ اللہ کا تقرب حاصل کرنا:
حدیث قدسی میں نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب۔۔۔ ۔الخ ))[بخاری]
’’جس شخص نے میرے ولی کے ساتھ دشمنی کی اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے،اور میرا تقرب حاصل کرنے کے لئے ،مجھے سب سے محبوب چیز میرے فرائض ہیں۔اور جب میرا بندہ فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی بھی پابندی کرتا ہے تو میں اس سے محبت کرنا شروع کر دیتا ہوں ،جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تواس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے،اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو اس کو ضرور عطا کرتا ہوں،اور اگر پناہ طلب کرے تو اس کو ضرور پناہ دیتا ہوں۔‘‘
۳۔زبان ،دل اور عمل سے ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا:
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((أنا مع عبدی ما ذکرنی تحرکت بی شفتاہ))[ابن ماجہ]
’’میں اس وقت تک اپنے بندے کیساتھ رہتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا رہتا ہے اور اس کے ہونٹ میری یاد سے تر رہتے ہیں۔‘‘اور ارشاد باری تعالیٰ ہے :
((فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ))[البقرۃ:۱۵۲]
’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔‘‘نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((قد سبق المفردون))
’’تحقیق مفردون سبقت لے گئے۔‘‘صحابہ کرام نے پوچھا:مفردون کون ہیں یا رسول اللہ؟تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((الذاکرون اللّٰہ کثیرا والذاکرات))
’’کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ۔‘‘[مسلم]
۴۔خواہشات کے غلبہ کے وقت اپنی محبت پر اللہ تعالیٰ کی محبت کو ترجیح دینا:
امام ابن قیم ؒ اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ کی رضا کو غیراللہ کی رضا پر ترجیح دینا خواہ اس میں مشقت اٹھانی پڑے اور جسم کمزور ہو جائے۔امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کی رضا کو غیر اللہ کی رضا پر ترجیح دینے کا مطلب ہے کہ آدمی وہی کام کرے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو خواہ ساری مخلوق ناراض ہو جائے اور یہی ایثار کا اعلی ترین درجہ ہے جو سب سے زیادہ رسولوں میں پایا جاتا ہے اور ان میں سے بھی اولوا العزم میں اور زیادہ پایا جاتا ہے اور پھر نبی کریم ﷺ میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے بچاتا رہے ،کیونکہ خواہش کرنے اور شہوت پر کوئی سزا نہیں ہوگی بلکہ خواہشات کے پیچھے پڑنے پر سزا ہوگی ۔اگر کوئی شخص اپنی خواہشات پر کنٹرول کر لیتا ہے تو یہ اللہ کی عبادت اور خالص نیک عمل ہے۔
۵۔اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات اور مشاہدات ومعرفت کا دل سے مطالعہ کرنا:
پس جس نے اللہ تعالیٰ کو اس کے اسماء وصفات اور افعال سے پہچان لیا وہ لازما اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے لگے گا۔امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اسی شخص کو ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کی قدرت اسماء وصفات سے جانتا ہے۔اور پھر اسی کے لئے اپنی تمام عبادات کو معاملات کو خالص کر دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار بنیاد اسلام وایمان کا انہدام ہے۔اور نبی کریم ﷺ سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
((ان للّٰہ تسع وتسعون اسما من أحصاھا دخل الجنۃ))
’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔‘‘
ٍ ۶۔اللہ تعالیٰ کے احسانات اور ظاہری و باطنی نعمتوں کا مشاہدہ کرنا :
اس سے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے،کیونکہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے احسانات کا قیدی ہے۔اور انسان پر اللہ تعالیٰ کے ا تنے احسانات ہیں کہ انسان شمار بھی نہیں کر سکتا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:
((وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْھَا اِنَّ اْلاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ))[ابراھیم:۳۴]
’’اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیںپورے گن بھی نہیں سکتے ۔یقینا انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘
سید قطب ؒ اپنی تفسیر ’’ظلال القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قلوب (دل)ہی ایسی خاصیت انسانی ہے کہ جس کی وجہ سے انسان انسان بنا ہے۔یہی ادراک،تمیز اور معرفت کی قوت ہے جس کی بنیاد پر انسان اتنی بڑی بادشاہت کا خلیفہ بنا۔یہی وہ قوت ہے جس کی وجہ سے انسان نے ایسی امانت دینی کو اپنے ذمہ لے لیاکہ جس کی مسؤلیت سے آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں نے بھی انکار کر دیا تھا۔اور کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ یہ قوت کیا ہے اورجسم کے اندر یا باہر اس کا مرکز کیا ہے ۔یہ انسانی جسم میں اللہ کے اسرار ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
۷۔اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے دل کو نرم کر لینا
ارشاد باری تعالیٰ ہے
((وَخَشَعَتِ اْلأَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلاَ تَسْمَعُ اِلَّا ھَمْساً )) [طہ:۱۰۸]
’’اور اللہ رحمن کے سامنے سب آوازیں پست ہو جائیں گی سوائے کھسر پھسر کے تجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے گا۔‘‘
امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب دل عاجزی کرتا ہے تو اس کے تابع تمام اعضا بھی عاجز وانکسار ہو جاتے ہیں۔امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ تعظیم،محبت یا ذلت سے عاجزی پیدا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار کرنے میں سلف سے عجیب وغریب قسم کے قصے منقول ہیں جو ان کے دلوں کی صفائی پر دلالت کرتے ہیں۔حضرت عبد اللہ بن زبیر خشوع وخضوع کی وجہ سے نماز میں ایسے کھڑے ہوتے تھے جیسے لکڑی کھڑی ہو،اور جب سجدہ کرتے تو چڑیاں ان کی کمر پر آبیٹھتی تھیں جیسے دیوار کا حصہ ہو۔
حضرت علی بن حسین جب وضو کرتے تو ان کا رنگ زرد ہو جاتا،پس ان سے سوال کیا گیا کہ وضو کے وقت آپ کا رنگ کیوں ایسا ہو جاتا ہے؟تو انہوں نے فرمایا:کیا تم جانتے نہیں ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے کاارادہ کر رہا ہوں۔
۸۔نزول الہی کے وقت اللہ سے مناجات کرنے، اس کی کلام کی تلاوت کرنے،اس کے سامنے عبودیت کے آداب بجا لانے اور توبہ واستغفار کرنے کے لئے خلوت اور تنہائی اختیار کر لینا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ))[السجدۃ:۱۶]
’’ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘
بے شک رات کو قیام کرنے والے اہل محبت ہیں بلکہ اعلی ترین اہل محبت ہیں۔اسی وجہ سے حضرت جبرئیل نے نبی کریمﷺ کو فرمایا:
((واعلم أن شرف المؤمن قیامہ باللیل وعزہ واستغناء ہ عن الناس))[السلسلۃ الصحیحۃ]
’’جان لیجئیے! بیشک مومن کا شرف ،عزت اورلوگوں سے لاپرواہی قیام اللیل میں ہے۔‘‘
امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں:کہ رات کی نماز سے سخت میں نے کوئی نماز نہیں دیکھی ۔پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ خوبصورت چہروں والے کون لوگ ہوتے ہیں؟ تو فرمایا:کہ رات کو قیام کرنے والے ،کیونکہ وہ تنہائی میں اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو نور کی چادر پہنا دیتے ہیں۔
۹۔اللہ کے لئے محبت کرنے والوں کی صحبت اختیار کرنا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتے ہیں:میرے لئے محبت کرنے والے،میری وجہ سے بیٹھنے والے اور میرے لئے ملنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہو جاتی ہے۔[صححہ الالبانی]
۱۰۔اللہ تعالیٰ اور دل کے درمیان بعد پیدا کرنے والی چیزوں سے بچنا:
کیونکہ جب دل فاسد ہو جاتا تو انسان کہیں بھی اصلاح کے قابل نہیں رہتا نہ دینی معاملات میں اور نہ ہی دنیوی معاملات میں۔
 
Top