• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن تیمیہ رحم الله اور جنات کی دنیا

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

یہ تحریر یہاں سے لی گئی

لنک

http://www.islamic-belief.net/امام-ابن-تیمیہ-اور-جنات-کی-دنیا/


تحقیق درکار ہے


قرآن کی آیت ہے

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ


وہ لوگ جو سود کھا رہے ہیں وہ (اس حکم کے خلاف) کھڑے نہیں ہونگے لیکن ایسے جیسے کہ وہ شخص جس کو شیطان نے چھو کر حواس باختہ کر دیا ہو. یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں بے شک لین دین (تجارت) ، سود ہے اور ( جبکہ) الله نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ! پس جس کے پاس اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور رک گیا پس جو ہو چکا وہ اس کا ہے (اس پر پچھلے لئے گئے سود پر کوئی باز پرس نہیں) اور اس کا امر ، الله کے لئے ہے اور جو مخالفت کرے وہ اگ والے لوگ ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے


سوره البقرہ کی آیت میں کہا جا رہا ہے کہ اس سود کے خلاف حکم کی مخالفت کرنے والے ایسے ہیں جیسے ان پر شیطان سوار ہو جو ان کو سود کے حق میں تاویلات سکھا رہا ہے کہ سود تجارت کی طرح ہے

قرآن کے الفاظ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ کی تشریح سنن نسائی کی حدیث سے ہو جاتی ہے

أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ صَيْفِيٍّ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي الْيَسَرِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ التَّرَدِّي وَالْهَدْمِ وَالْغَرَقِ وَالْحَرِيقِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا


أَبِي الْيَسَرِ رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھےکہ اے الله میں پناہ مانگتا ہوں انحطاط اور تباہی و برداری سے ، غرق ہونے سے اور آگ سے اور پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے شیطان موت کے وقت یونہی الجھائے اور پناہ مانگتا ہوں کہ اپ کی راہ سے بھاگ جاؤں اور پناہ مانگتا ہوں کہ سانپ کے کاٹنے سے مروں


موت کے وقت شیطان انسان کو گمراہ کر سکتا ہے اور الجھا سکتا ہے لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم نے امت کو یہ الفاظ سکھائے انہی الفاظ کو قرآن سے لیا گیا ہے جس کا مفھوم جن چڑھنا یا بدن میں سرایت کرنا نہیں بلکہ ادبی انداز ہے. جس طرح ہم اردو میں کہتے ہیں کہ اس شخص پر اس بات کا بھوت سوار ہے

سیوطی سنن نسائی کی شرح میں الخطابی کا قول لکھتے ہیں

حَاشِيَةُ السِّيُوطِيِّ : ( وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت ) قَالَ الْخَطَّابِيُّ هُوَ أَنْ يَسْتَوْلِي عَلَيْهِ عِنْد مُفَارَقَة الدُّنْيَا فَيُضِلّهُ وَيَحُول بَيْنه وَبَيْن التَّوْبَة


اور الفاظ وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت پر الْخَطَّابِيُّ کہتے ہیں شیطان کا سوار ہونا دنیا چھوڑنے پر ہے کہ وہ توبہ اور انسان کے درمیان حائل ہو جاتا ہے


گویا الفاظ ادبی ہیں اور ان کا مطلب توبہ کی توفیق نہیں ہونا ہے. الْخَطَّابِيُّ کی اس شرح سے معاملہ بالکل صاف ہو گیا کہ قرآن و حدیث میں جن چڑھنے کی کوئی دلیل نہیں

حدیث کے مطابق ہر شخص کو شیطان اس کی پیدائش پر چھوتا ہے لیکن ظاہر ہے ہر کوئی باولا نہیں ہوتا

افسوس بعض حضرات ان الفاظ کا مفھوم لیتے ہیں کہ جن نہ صرف انسان بلکہ جانور درخت وغیرہ میں سرایت کر جاتے ہیں

ابن تیمیہ سے سوال ہوا کہ کیا جن چڑھ سکتے ہیں؟ اس پر مجموع الفتاوی ج ٢٤ ص ٢٧٦ پر لکھتے ہیں

فَأَجَابَ :الْحَمْدُ لِلَّهِ ، وُجُودُ الْجِنِّ ثَابِتٌ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ وَاتِّفَاقِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَكَذَلِكَ دُخُولُ الْجِنِّيِّ فِي بَدَنِ الْإِنْسَانِ ثَابِتٌ بِاتِّفَاقِ أَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ } وَفِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ } . وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ قُلْت لِأَبِي : إنَّ أَقْوَامًا يَقُولُونَ : إنَّ الْجِنِّيَّ لَا يَدْخُلُ فِي بَدَنِ الْمَصْرُوعِ فَقَالَ : يَا بُنَيَّ يَكْذِبُونَ هَذَا يَتَكَلَّمُ عَلَى لِسَانِهِ ..


پس اس کا جواب الحمدللہ یہ ہے کہ جن کا وجود ثابت ہے کتاب الله اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے اور سلف اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے اور اسی طرح جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا ائمہ اہل سنت و جماعت کے ہاں ثابت ہے الله تعالی کا قول ہے کہ وہ لوگ جو سود کھا رہے ہیں وہ کھڑے نہیں ہونگے لیکن ایسے جیسے کہ وہ جس کو شیطان نے چھو کر حواس باختہ کر دیا ہو اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک شیطان ابن آدم میں دوڑتا ہے جس طرح خون اور عبدللہ بن امام احمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جن مرگی زدہ شخص میں داخل نہیں ہوتا امام احمد نے کہا اے بیٹے جھوٹ بولتے ہیں یہ لوگ … وہ جن ہی ان کی زبان میں کلام کرتا ہے


اس سلسلے میں کچھ روایات بھی پیش کی جاتی ہیں

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد


عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو نماز پڑھنے میں مشکل ہوتی اس کا ذکر نبی صلی الله وسلم سے کیا تو اپ میرے سینے ضرب لگائی اور کہا نکل اے الله کے دشمن ! ایسا تین دفعہ کیا … اس کے بعد نماز میں کوئی مشکل نہ ہوئی

اس کی سند میں محمد بن عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك الأنصاري ہیں جن کو وقال أبو داود تغير تغيرا شديدا ابو داود کہتے ہیں یہ بہت تغیر کا شکار تھے گویا کسی ذہنی بیماری کا شکار تھے
یہی واقعہ صحیح مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں

اس کے علاوہ اور روایات بھی ہیں جن کی اسناد میں مجہولین اور ضعیف راوی ہیں جو مسند احمد، مسند ابو یعلی اور طبرانی میں ہیں

قرآن کی سوره الاسراء ٦٤ کی آیت ہے کہ الله تعالی نے شیطان کو چھوٹ دی کہ

اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (64

اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

اس آیت میں مال میں شراکت سے مراد حرام مال ہے اور اولاد میں شراکت سے مراد زنا ہے

ابن کثیر تفسیر کرتے ہیں


 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


ابن تیمیہ فتاوی الکبری ج ١٩ ص ٤٠ پر لکھتے ہیں

وصرعهم للإنس قد يكون عن شهوة وهوى وعشق كما يتفق للإنس مع الإنس وقد يتناكح الإنس والجن ويولد بينهما ولد وهذا كثير معروف وقد ذكر العلماء ذلك وتكلموا عليه وكره أكثر العلماء مناكحة الجن وقد يكون وهو كثير أو الأكثر عن بغض ومجازاة مثل أن يؤذيهم بعض الإنس أو يظنوا أنهم يتعمدو أذاهم إما ببول على بعضهم وإما بصب ماء حار وإما بقتل بعضهم وإن كان الإنسي لا يعرف ذلك وفى الجن جهل وظلم فيعاقبونه بأكثر مما يستحقه وقد يكون عن عبث منهم وشر بمثل سفهاء الإنس


اور جن کا انسان پر چڑھنا بعض دفعہ شہوت اور خواہش اور عشق کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ انسانوں کو ہوتا ہے اور بے شک جن انسان سے نکاح کرتے ہیں اور ان کی اپس میں اولاد بھی ہوتی ہے اور یہ بہت معروف بات ہے اور علماء نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس پر کلام کیا ہے اور اکثر علماء اس سے کراہت کرتے ہیں کہ جن سے نکاح کیا جائے اور جن کا چڑھنا اکثر اوقات بغض کے لئے ہوتا ہے جیسے مثلا (جنات) سمجھیں کہ انسان نے ان کو ایذا دی ہے لہذا ( بدلہ کے طور سے ) کبھی پیشاب کر دیں یا گرم پانی پھینک دیں یا قتل کر دیں اور ہو سکتا ہے انسان کو پتا بھی نہ ہو (کہ جن انجانے میں یہ سب کر رہے ہیں) اور جنات میں جھل اور ظلم ہوتا ہے لہذا اکثر بدلہ لیتے ہیں جس کا مستحق (وہ انسانوں کو) سمجھتے ہیں اور جن کا چڑھنا عبث بھی ہو سکتا ہے اور ان کی طرف سے شر کے طور پر جسے بعض احمق انسان (ایک دوسرے پر سوار) ہوتے ہیں


ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١٩ ص ١٢ میں لکھتے ہیں

وَلِهَذَا ذَكَرَ الْأَشْعَرِيُّ فِي مَقَالَاتِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ: إنَّ الْجِنِّيَّ يَدْخُلُ فِي بَدَنِ الْمَصْرُوعِ كَمَا قَالَ تَعَالَى: {الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ}


اور اسی وجہ سے الاشعری نے مقالات میں ذکر کیا ہے کہ اہل سنت و جماعت کہتے ہیں کہ جن مرگی زدہ شخص میں داخل ہوتا ہے جیسا کہ الله تعالی نے فرمایا الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ


لیکن امام الاشعری نے ایسا نہیں کہا انہوں نے کتاب میں دونوں رائے لکھی ہیں لیکن نہ ان کو رد کیا ہے نہ قبول اور آیت کا تو ذکر بھی نہیں

امام الاشعری کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں لکھتے ہیں

واختلف الناس في الجن هل يدخلون في الناس على مقالتين:

فقال قائلون: محال أن يدخل الجن في الناس.

وقال قائلون: يجوز أن يدخل الجن في الناس لأن أجسام الجن أجسام رقيقة


اور لوگوں میں اختلاف ہوا کہ کیا جن لوگوں میں داخل ہوتا ہے اس میں دو رائے ہوئے

پس کہا یہ محال ہے کہ جن لوگوں میں داخل ہو

اور (بعض نے) کہا یہ جائز ہے کہ داخل ہو کیونکہ جن کا جسم رقیق ہے


امام الاشعری نے لوگوں کی رائے پیش کی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ان میں سے وہ کس سے متفق ہیں لہذا ان کی بات کو توڑ مروڑ کر ابن تیمیہ اپنا مدعا ثابت کر رہے ہیں

الغرض امام ابن تیمیہ کے جنات کے بارے میں عجیب و غریب عقائد تھے

اول جن و انسان اپس میں عشق کرتے ہیں

دوم جن و انسان اپس میں نکاح کرتے ہیں اور ان کی اولاد ہوتی ہے

سوم جن انسانی بدن میں داخل ہو سکتا ہے


ان عقائد کی قرآن و صحیح حدیث میں کوئی دلیل نہیں. یہ ابن تیمیہ صاحب کے دمشق کے آٹھویں صدیہجری کے دور کے عوام کے خیالات تو ہو سکتے ہیں، قرآن و حدیث ہرگز نہیں

ابن قیم کتاب زاد المعاد یہ بھی بتاتے ہیں کہ شیخ ابن تیمیہ باقاعدہ بد روح نکالتے تھے اور اس میں تشدد بھی کرتے تھے

والثانى‏:‏ من جهة المعالِج، بأن يكون فيه هذان الأمران أيضاً، حتى إنَّ من المعالجينَ مَن يكتفى بقوله‏:‏ ‏(‏اخرُجْ منه‏)‏، أو بقول‏:‏ ‏(‏بِسْمِ الله‏)‏، أو بقول‏:‏ ‏(‏لا حَوْل ولا قُوَّة إلا بالله‏)‏، والنبىُّ صلى الله عليه وسلم كان يقولُ‏:‏ ‏(‏اخْرُجْ عَدُوَّ اللهِ، أنا رَسُولُ اللهِ‏)‏‏.‏


وشاهدتُ شيخنَا يُرسِلُ إلى المصروع مَن يخاطبُ الروحَ التي فيه، ويقول‏:‏ قال لكِ الشيخُ‏:‏ اخرُجى، فإنَّ هذا لا يَحِلُّ لكِ، فيُفِيقُ المصروعُ، وربما خاطبها بنفسه، وربما كانت الروحُ مارِدةً فيُخرجُها بالضرب، فيُفيق المصروعُ ولا يُحِس بألم، وقد شاهدنا نحن وغيرُنا منه ذلك مراراً‏.‏


وكان كثيراً ما يَقرأ في أُذن المصروع‏:{‏أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ‏}‏ ‏[‏المؤمنون ‏:‏ 115‏]‏‏.‏

وحدَّثنى أنه قرأها مرة في أُذن المصروع، فقالت الروح‏:‏ نعمْ، ومد بها صوته‏.‏ قال‏:‏ فأخذتُ له عصا، وضربتُه بها في عروق عنقه حتى كَلَّتْ يدَاىَ من الضرب، ولم يَشُكَّ الحاضرون أنه يموتُ لذلك الضرب‏.‏ ففى أثناء الضرب قالت‏:‏ أَنا أُحِبُّه، فقلتُ لها‏:‏ هو لا يحبك‏.‏ قالتْ‏:‏ أنَا أُريد أنْ أحُجَّ به‏.‏ فقلتُ لها‏:‏ هو لا يُرِيدُ أَنْ يَحُجَّ مَعَكِ، فقالتْ‏:‏ أنا أدَعُه كَرامةً لكَ، قال‏:‏ قلتُ‏:‏ لا ولكنْ طاعةً للهِ ولرسولِه، قالتْ‏:‏ فأنا أخرُجُ منه، قال‏:‏ فقَعَد المصروعُ يَلتفتُ يميناً وشمالاً، وقال‏:‏ ما جاء بى إلى حضرة الشيخ ‏؟‏ قالوا له‏:‏ وهذا الضربُ كُلُّه ‏؟‏ فقال‏:‏ وعلى أى شىء يَضرِبُنى الشيخولم أُذْنِبْ، ولم يَشعُرْ بأنه وقع به الضربُ ألبتة‏.‏

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

اس واقعہ میں ابن تیمیہ (بد) روح نکالتے ہوئے اس قدر مآرتے کہ لوگ سمجھتے کہ شخص ہلاک ہو گیا ہے

بد روح نکالنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں لیکن اس کا باقاعدہ عمل ابن قیم بتاتے ہیں

جو چیز قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس بد روح کو مریض میں سے نکالنے کے الفاظ ہیں جو ایک بد عقیدگی ہے روح، عالم البرزخ سے کسی اور روح والے جسم میں کیسے آ سکتی ہے؟ دوم اس بد روح والے عقیدے کو بہت سے اہل حدیث علماء مانتے ہیں مثلا عبد الرحمان کیلانی صاحب روح عذاب قبر اور سماع موتی میں اس کو بیان کرتے ہیں

ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں روحوں کو کہیں مقید نہیں مانتے تھے ان کے مطابق روح پرندے کی مانند کہیں بھی آ جا سکتیں ہیں لہذا کسی دوسرے جسم اس کا آنا کوئی مسئلہ نہیں

یہ سب نفسیاتی بیماریاں تھیں جن کو جن چڑھنا اور بد روحوں کا کسی دوسرے جسم پر قبضہ کہا جا رہا ہے اور اس طرح کے مرگی کے دورے نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں بھی لوگوں کو پڑتے تھے جیسا کہ حدیث میں ایک عورت کے لئے اتا ہے لیکن کسی حدیث میں نہیں اتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس مرگی زدہ عورت کی بیماری کو جن چڑھنا قرار دیا ہو ابن قیم نے باب کے شروع میں یہی روایت دی لیکن پھر میں کہتا ہوں سے اپنے بدعتی عقیدے کو بیان کرنا شروع کر دیا




یہ روایت صحیح ہے اور اس میں مرگی کو بیماری بتایا ہے نہ کہ بد روح کا فعل

بد روحوں پر عقیدہ گمراہی ہے الله ہم سب کو ہدایت دے اور گمراہی سے بچائے
 

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
بھائی

یہ ملاحظہ کریں

فعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : (ابْنُ أَبِي الْعَاصِ؟) قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : (مَا جَاءَ بِكَ؟) قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي ، قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه" .

http://islamqa.info/ar/132673


اہل علم حضرات بہتر وضاحت کریں گے

تاہم صحیح حدیث کا حوالہ یہ رہا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سنن ابن ماجہ ، باب: گھبراہٹ کے وقت اور نیند اچاٹ ہونے پر کیا دعا پڑھے؟۔
حدیث نمبر: 3548
عن عثمان بن ابي العاص ، قال:‏‏‏‏ لما استعملني رسول الله صلى الله عليه وسلم على الطائف ، جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما ادري ما اصلي ، فلما رايت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏"ابن ابي العاص"، قلت:‏‏‏‏ نعم يا رسول الله ، قال:‏‏‏‏"ما جاء بك"، قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله ، عرض لي شيء في صلواتي حتى ما ادري ما اصلي ، قال:‏‏‏‏"ذاك الشيطان ادنه"، فدنوت منه ، فجلست على صدور قدمي ، قال:‏‏‏‏ فضرب صدري بيده ، وتفل في فمي ، وقال:‏‏‏‏"اخرج عدو الله"، ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال:‏‏‏‏"الحق بعملك"، قال:‏‏‏‏ فقال عثمان:‏‏‏‏ فلعمري ما احسبه خالطني بعد.

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۹۷۶۷، ومصباح الزجاجة : ۱۲۳۸) (صحیح) قال الشيخ الألباني: صحيح
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بھائی

یہ ملاحظہ کریں

فعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : (ابْنُ أَبِي الْعَاصِ؟) قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : (مَا جَاءَ بِكَ؟) قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي ، قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه" .

http://islamqa.info/ar/132673


اہل علم حضرات بہتر وضاحت کریں گے

تاہم صحیح حدیث کا حوالہ یہ رہا

یہ روایت ابن ماجہ کی ہے جس کی سند بھی مظبوط نہیں اور متن بھی

اس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے

اس سلسلے میں کچھ روایات بھی پیش کی جاتی ہیں

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد



اس کی سند میں محمد بن عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك الأنصاري ہیں جن کو وقال أبو داود تغير تغيرا شديدا ابو داود کہتے ہیں یہ بہت تغیر کا شکار تھے-


یہی واقعہ صحیح مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں


یہی روایت مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں ہے اس میں صرف وسوسہ کا ذکر ہے جیسا کہ قرآن میں سوره المومنون میں ہمزات الشیطان کا ذکر ہے
مسلم کی روایت ہے

حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: “أُمَّ قَوْمَكَ” قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي شَيْئًا قَالَ: “ادْنُهْ” فَجَلَّسَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ فِي صَدْرِي بَيْنَ ثَدْيَيَّ. ثُمَّ قَالَ: “تَحَوَّلْ” فَوَضَعَهَا فِي ظَهْرِي بَيْنَ كَتِفَيَّ، ثُمَّ قَالَ: “أُمَّ قَوْمَكَ. فَمَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ، وَإِنَّ فِيهِمْ ذَا الْحَاجَةِ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ وَحْدَهُ، فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ”


عثمان بن ابی العاص روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قول کی امامت کرو! میں نے کہا اے رسول اللہ ،میں اپنے نفس میں کوئی چیز (خوف) پاتا ہوں اپ نے فرمایا یہ شیطان کا وسوسہ ہے پھر اپ میرے سامنے بیٹھے پھر میرے سینے کے بیچ میں ہاتھ رکھا اور کہا بدل جاؤ، پھر میری پیٹھ پر دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور کہا اپنی قوم کی امامت کرو، پس جب امامت کرو تو کمی کرنا کیونکہ ان میں عمر رسیدہ ہوں گے، مریض ہوں گے ، کمزور ہوں گے اور ان میں ضرورت مند ہوں گے لیکن اگر کوئی اکیلا نماز پڑھے تو پھر جیسے چاہے پڑھے



ترجمہ کی غلطی ہو تو بندہ اصلاح کا طلبگار ہے

ابن ماجہ اور مسلم کی روایت الگ الگ ہے ایک میں اخرج کا لفظ ہے اور دوسری میں تحول کا دونوں میں فرق ہے اخرج نکلنا ہے اور تحول بدلنا دونوں کا مفھوم الگ ہے -
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
سنن ابن ماجہ ، باب: گھبراہٹ کے وقت اور نیند اچاٹ ہونے پر کیا دعا پڑھے؟۔
حدیث نمبر: 3548
عن عثمان بن ابي العاص ، قال:‏‏‏‏ لما استعملني رسول الله صلى الله عليه وسلم على الطائف ، جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما ادري ما اصلي ، فلما رايت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏"ابن ابي العاص"، قلت:‏‏‏‏ نعم يا رسول الله ، قال:‏‏‏‏"ما جاء بك"، قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله ، عرض لي شيء في صلواتي حتى ما ادري ما اصلي ، قال:‏‏‏‏"ذاك الشيطان ادنه"، فدنوت منه ، فجلست على صدور قدمي ، قال:‏‏‏‏ فضرب صدري بيده ، وتفل في فمي ، وقال:‏‏‏‏"اخرج عدو الله"، ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال:‏‏‏‏"الحق بعملك"، قال:‏‏‏‏ فقال عثمان:‏‏‏‏ فلعمري ما احسبه خالطني بعد.

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۹۷۶۷، ومصباح الزجاجة : ۱۲۳۸) (صحیح) قال الشيخ الألباني: صحيح
ماشاء اللہ ۔۔۔
کسی برکتیں ہیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن کی
 
Top