lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
یہ تحریر یہاں سے لی گئی
لنک
http://www.islamic-belief.net/امام-ابن-تیمیہ-اور-جنات-کی-دنیا/
تحقیق درکار ہے
قرآن کی آیت ہے
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
وہ لوگ جو سود کھا رہے ہیں وہ (اس حکم کے خلاف) کھڑے نہیں ہونگے لیکن ایسے جیسے کہ وہ شخص جس کو شیطان نے چھو کر حواس باختہ کر دیا ہو. یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں بے شک لین دین (تجارت) ، سود ہے اور ( جبکہ) الله نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ! پس جس کے پاس اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور رک گیا پس جو ہو چکا وہ اس کا ہے (اس پر پچھلے لئے گئے سود پر کوئی باز پرس نہیں) اور اس کا امر ، الله کے لئے ہے اور جو مخالفت کرے وہ اگ والے لوگ ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے
سوره البقرہ کی آیت میں کہا جا رہا ہے کہ اس سود کے خلاف حکم کی مخالفت کرنے والے ایسے ہیں جیسے ان پر شیطان سوار ہو جو ان کو سود کے حق میں تاویلات سکھا رہا ہے کہ سود تجارت کی طرح ہے
قرآن کے الفاظ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ کی تشریح سنن نسائی کی حدیث سے ہو جاتی ہے
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ صَيْفِيٍّ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي الْيَسَرِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ التَّرَدِّي وَالْهَدْمِ وَالْغَرَقِ وَالْحَرِيقِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا
أَبِي الْيَسَرِ رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھےکہ اے الله میں پناہ مانگتا ہوں انحطاط اور تباہی و برداری سے ، غرق ہونے سے اور آگ سے اور پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے شیطان موت کے وقت یونہی الجھائے اور پناہ مانگتا ہوں کہ اپ کی راہ سے بھاگ جاؤں اور پناہ مانگتا ہوں کہ سانپ کے کاٹنے سے مروں
موت کے وقت شیطان انسان کو گمراہ کر سکتا ہے اور الجھا سکتا ہے لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم نے امت کو یہ الفاظ سکھائے انہی الفاظ کو قرآن سے لیا گیا ہے جس کا مفھوم جن چڑھنا یا بدن میں سرایت کرنا نہیں بلکہ ادبی انداز ہے. جس طرح ہم اردو میں کہتے ہیں کہ اس شخص پر اس بات کا بھوت سوار ہے
سیوطی سنن نسائی کی شرح میں الخطابی کا قول لکھتے ہیں
حَاشِيَةُ السِّيُوطِيِّ : ( وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت ) قَالَ الْخَطَّابِيُّ هُوَ أَنْ يَسْتَوْلِي عَلَيْهِ عِنْد مُفَارَقَة الدُّنْيَا فَيُضِلّهُ وَيَحُول بَيْنه وَبَيْن التَّوْبَة
اور الفاظ وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت پر الْخَطَّابِيُّ کہتے ہیں شیطان کا سوار ہونا دنیا چھوڑنے پر ہے کہ وہ توبہ اور انسان کے درمیان حائل ہو جاتا ہے
گویا الفاظ ادبی ہیں اور ان کا مطلب توبہ کی توفیق نہیں ہونا ہے. الْخَطَّابِيُّ کی اس شرح سے معاملہ بالکل صاف ہو گیا کہ قرآن و حدیث میں جن چڑھنے کی کوئی دلیل نہیں
حدیث کے مطابق ہر شخص کو شیطان اس کی پیدائش پر چھوتا ہے لیکن ظاہر ہے ہر کوئی باولا نہیں ہوتا
افسوس بعض حضرات ان الفاظ کا مفھوم لیتے ہیں کہ جن نہ صرف انسان بلکہ جانور درخت وغیرہ میں سرایت کر جاتے ہیں
ابن تیمیہ سے سوال ہوا کہ کیا جن چڑھ سکتے ہیں؟ اس پر مجموع الفتاوی ج ٢٤ ص ٢٧٦ پر لکھتے ہیں
فَأَجَابَ :الْحَمْدُ لِلَّهِ ، وُجُودُ الْجِنِّ ثَابِتٌ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ وَاتِّفَاقِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَكَذَلِكَ دُخُولُ الْجِنِّيِّ فِي بَدَنِ الْإِنْسَانِ ثَابِتٌ بِاتِّفَاقِ أَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ } وَفِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ } . وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ قُلْت لِأَبِي : إنَّ أَقْوَامًا يَقُولُونَ : إنَّ الْجِنِّيَّ لَا يَدْخُلُ فِي بَدَنِ الْمَصْرُوعِ فَقَالَ : يَا بُنَيَّ يَكْذِبُونَ هَذَا يَتَكَلَّمُ عَلَى لِسَانِهِ ..
پس اس کا جواب الحمدللہ یہ ہے کہ جن کا وجود ثابت ہے کتاب الله اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے اور سلف اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے اور اسی طرح جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا ائمہ اہل سنت و جماعت کے ہاں ثابت ہے الله تعالی کا قول ہے کہ وہ لوگ جو سود کھا رہے ہیں وہ کھڑے نہیں ہونگے لیکن ایسے جیسے کہ وہ جس کو شیطان نے چھو کر حواس باختہ کر دیا ہو اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک شیطان ابن آدم میں دوڑتا ہے جس طرح خون اور عبدللہ بن امام احمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جن مرگی زدہ شخص میں داخل نہیں ہوتا امام احمد نے کہا اے بیٹے جھوٹ بولتے ہیں یہ لوگ … وہ جن ہی ان کی زبان میں کلام کرتا ہے
اس سلسلے میں کچھ روایات بھی پیش کی جاتی ہیں
سنن ابن ماجہ کی روایت ہے
حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد
عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو نماز پڑھنے میں مشکل ہوتی اس کا ذکر نبی صلی الله وسلم سے کیا تو اپ میرے سینے ضرب لگائی اور کہا نکل اے الله کے دشمن ! ایسا تین دفعہ کیا … اس کے بعد نماز میں کوئی مشکل نہ ہوئی
اس کی سند میں محمد بن عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك الأنصاري ہیں جن کو وقال أبو داود تغير تغيرا شديدا ابو داود کہتے ہیں یہ بہت تغیر کا شکار تھے گویا کسی ذہنی بیماری کا شکار تھے
یہی واقعہ صحیح مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں
اس کے علاوہ اور روایات بھی ہیں جن کی اسناد میں مجہولین اور ضعیف راوی ہیں جو مسند احمد، مسند ابو یعلی اور طبرانی میں ہیں
قرآن کی سوره الاسراء ٦٤ کی آیت ہے کہ الله تعالی نے شیطان کو چھوٹ دی کہ
اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (64
اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے
اس کے علاوہ اور روایات بھی ہیں جن کی اسناد میں مجہولین اور ضعیف راوی ہیں جو مسند احمد، مسند ابو یعلی اور طبرانی میں ہیں
قرآن کی سوره الاسراء ٦٤ کی آیت ہے کہ الله تعالی نے شیطان کو چھوٹ دی کہ
اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (64
اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے