• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب الزہری

نام و نسب: محمد بن مسلم بن عبيد الله بن عبد الله بن شهاب بن عبد الله بن الحارث بن زهرة القرشى الزهرى ، أبو بكر المدنى
طبقہ: 4 – من التابعین
میلاد: سب سے صحیح روایت کے مطابق آپ رحمہ اللہ 50 ھ کو پیدا ہوئے۔
وفات: 17 رمضان المبارک، 124 ھ شغب نامی جگہ پر وفات پائی۔
ان کے شاگرد امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ الزہری نے 124 ھ کو وفات پائی۔ (دیکھیں التاریخ الکبیر للبخاری: 1/220)۔ ابن سعد، خلیفہ بن خیاط، اور الزبیر وغیرہم کا بھی یہی قول ہے۔
روی لہ: آپ کی روایات تمام کتبِ صحاح، سنن، مسانید، معاجم، مستدرکات، مستخرجات، جوامع، تواریخ اور ہر قسم کی کتب حدیث میں شامل ہیں۔
نوٹ: امام ابن شہاب الزہری حدیث کے ایسے ستونوں میں سے ہیں جن کی احادیث دنیا کی ہر حدیث کی کتاب میں پائی جاتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ایسی حدیث کی کتاب بھی ہو گی جس میں ابن شہاب کی روایت نہ ہو۔
شیوخ و اساتذہ: زہری نے کئی صحابہ کرام سے روایات لی ہیں جن میں: جابر بن عبد اللہ، سہل بن سعد، انس بن مالک، سائب بن یزید، محمود بن الربیع، محمود بن لبید، ابو الطفیل عامر، مالک بن اوس بن الحدثان، وغیرہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اور کئی کبار تابعین مثلا سعید بن المسیب، عروہ بن الزبیر، ابو ادریس الخولانی، سالم بن عبد اللہ، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، طاوس وغیرہ سے آپ نے شرف تلمذ حاصل کیا۔
تلامذہ : میں عطاء بن ابی رباح (جو ان سے عمر میں بڑے تھے)، امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز، عمرو بن دینار، عمرو بن شعیب، قتادہ بن دعامہ، زید بن اسلم، منصور بن المعتمر، ایوب سختیانی، یحیی بن سعید الانصاری، ابو الزناد، صالح بن کیسان، عقیل بن خالد، ابن جریج، عبد العزیز بن الماجشون، معمر بن راشد، ابو عمرو الاوزاعی، شعیب بن ابی حمزہ، مالک بن انس، لیث بن سعد، فلیح بن سلیمان، ابن ابی ذئب، محمد بن اسحاق بن یسار، ہشیم بن بشیر، سفیان بن عیینہ اور خلق کثیر شامل ہیں۔
فائدہ: عموما امام سفیان بن عیینہ اور امام سفیان الثوری کے شیوخ تقریبا ایک ہی ہوتے ہیں کیونکہ دونوں ہم عصر تھے۔ لیکن اس مسئلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امام زہری سے صرف امام سفیان بن عیینہ ہی روایت کرتے ہیں، امام سفیان الثوری کی زہری سے کوئی روایت مروی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام سفیان الثوری کے پاس اتنے اخراجات نہیں تھے کہ وہ زہری کے پاس جا کر ان سے علم حاصل کرتے۔ چنانچہ امام عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی بیان کرتے ہیں کہ الثوری سے پوچھا گیا کہ آپ امام زہری سے روایت کیوں نہیں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: "لم تكن عندي دراهم ولكن قد كفانا معمر الزهري " یعنی کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے لیکن معمر ہمیں زہری کے متبادل کے طور پر کفایت کر گئے۔ (مقدمہ الجرح والتعدیل: 1/76، واسنادہ صحیح)۔

امام زہری رحمہ اللہ زبردست ثقہ امام، حافظ، اور فقیہ تھے۔ آپ کی جلالت اور اتقان پر امت کا اتفاق ہے۔ آپ کے فضائل، مناقب، اور سیرۃ کو ایک مختصر سے مضمون میں بیان کرنا نا ممکن امر ہے، اس لے ہم ذیل میں صرف ائمہ نقاد کے چند اقوال ہی پر اکتفاء کریں گے۔
1- امام ابن شہاب الزہری خود فرماتے ہیں: "ما استعدت حديثًا قط، ولا شككت في حديث إلا حديثًا، احدًا، فسألت صاحبي، فإذا هو كما حفظت" (جب کوئی حدیث ایک بار مجھ پر پڑھی جاتی) میں نے کبھی اس حدیث کے دہرائے جانے کا سوال نہیں کیا، اور نہ ہی مجھے کبھی کسی حدیث کے بارے میں شک ہوا سوائے ایک حدیث کے، تو میں اس کے متعلق اپنے ساتھی سے پوچھا، تو وہ حدیث ویسے ہی نکلی جیسے میں نے اسے یاد کیا تھا۔ (العلل لعبد اللہ بن احمد: 160، و حلیۃ الاولیاء: 3/363، واسنادہ صحیح)۔

حکیم بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب سے کہا کہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب نے یہ یہ کہا ہے۔ تو زہری نے کہا: "أوهم ربيعة أنا كنت أحفظ لحديث سعيد بن المسيب من ربيعة" ربیعہ کو غلطی لگی ہے، میں سعید بن المسیب کی حدیث کا ربیعہ سے زیادہ حافظ ہوں (تاریخ دمشق لابن عساکر: 55/326، واسنادہ حسن)۔

امام ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب الزہری سے ایک حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: "ما بقي أحد فيما بين المشرق والمغرب أعلم بهذا مني" مشرق اور مغرب کے لوگوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں بچا ہے جو اس حدیث کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ (ایضا)

2- امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ (المتوفی 101) فرماتے ہیں: "عليكم بابن شهاب هذا فانكم لاتلقون أحدا أعلم بالسنة الماضية منه" تم پر ضروری ہے کہ تم اس ابن شہاب کو لازمی پکڑو کیونکہ ان سے زیادہ ماضی کی سنت کو جاننے والا تم نے نہیں پایا ہو گا۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 8/72 واسنادہ صحیح)۔

3- امام عمرو بن دینار رحمہ اللہ (المتوفی 126) فرماتے ہیں: "مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَبْصَرَ بِحَدِيثٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ" میں نے زہری سے زیادہ حدیث کی بصیرت رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ (طبقات الکبری لابن سعد: 1/174، اسنادہ صحیح)۔

4- امام سعد بن ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ (المتوفی 125-127) فرماتے ہیں: "ما أرى أحدا بعد رَسُولِ اللهِ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم جَمَعَ ما جَمَعَ ابْن شِهاب" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے ابن شہاب جیسا کچھ جمع کیا۔ (التاریخ الکبیر للبخاری: 1/220، اسنادہ صحیح)۔

5- امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ (المتوفی 131) فرماتے ہیں: "ما رأيت أحدًا أعلم من الزهري، فقال له صخر بن جويرية: ولا الحسن: قال: ما رأيت أحدًا أعلم من الزهري" میں نے کسی کو زہری سے زیادہ اعلم نہیں دیکھا، تو صخر بن جویریہ نے ان سے کہا: حسن البصری بھی نہیں؟ انہوں نے اپنا قول دہراتے ہوئے فرمایا: میں نے کسی کو زہری سے زیادہ اعلم نہیں دیکھا۔ (العلل لعبد اللہ بن احمد: 3/313، اسنادہ صحیح)۔

6- امام دار الہجرہ مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ (المتوفی 179) فرماتے ہیں: "أول من أسند الحديث ابن شهاب الزهري" سب سے پہلے جس نے حدیث کی سند (پر دھیان) دیا وہ ابن شہاب الزہری تھے۔ (مقدمہ الجرح والتعدیل: 1/20، اسنادہ صحیح)۔

7- امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (المتوفی 198) فرماتے ہیں: "مَا أَحَدٌ أَعْلَمُ بِالسُّنَّةِ منه" سنت کو زہری سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں ہے۔ (الکامل لابن عدی: 1/139، اسنادہ حسن)۔

8- قاسم بن ابی سفیان المعمری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ سےپوچھا: "أيما أفقه أو أعلم إبراهيم النخعي أو الزهري قال الزهري" ابراہیم النخعی اور زہری میں سے کون زیادہ بڑا فقیہ اور عالم ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: "زہری زیادہ بڑے ہیں"۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: 55/355، اسنادہ حسن)۔

9- امام محمد بن سعد کاتب الواقدی رحمہ اللہ (المتوفی 230) فرماتے ہیں: "كَانَ الزُّهْرِيُّ ثِقَةً كَثِيرَ الْحَدِيثِ وَالْعِلْمِ وَالرِّوَايَةِ فَقِيهًا جَامِعًا" (طبقات الکبری لابن سعد: 1/185)۔

10- امام احمد بن حنبل الشیبانی رحمہ اللہ (المتوفی 241) فرماتے ہیں: "الزُّهْريّ أَحْسَنُ النَّاسِ حَدِيثًا وَأَجْوَدُ النَّاسِ إِسْنَادًا" زہری لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی حدیث والے، اور اسناد میں سب سے زیادہ اجود تھے۔ (الکامل لابن عدی: 1/139، اسنادہ حسن)۔

11- امام ابو الحسن العجلی رحمہ اللہ (المتوفی 261) فرماتے ہیں: "تَابِعِيّ ثِقَة" (کتاب الثقات للعجلی: 2/253)۔

12- امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی 264) سے پوچھا گیا: "أي الإسناد أصح؟ قال الزهري عن سالم عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم صحيح" کون سی اسناد سب سے زیادہ صحیح ہے؟ انہوں نے فرمایا، زہری عن سالم عن ابیہ عن النبی ﷺ سب سے زیادہ صحیح ہے۔۔۔۔ (اور پھر دو مزید اسانید بیان کیں)۔ (الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم: 2/26)۔

13- امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی275) فرماتے ہیں: "الزهري احب إلى من الاعمش، يحتج بحديثه، واثبت اصحاب انس الزهري" زہری مجھے اعمش سے بھی زیادہ پسند ہیں، ان کی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے، اور انس رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے زہری سب سے زیادہ ثبت (ثقہ) ہیں۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 8/74)۔

14- امام ابو عبد الرحمن النسائی رحمہ اللہ (المتوفی 303) فرماتے ہیں: "أحسن أسانيد تروى عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أربعة منها الزهري عن علي بن الحسين عن حسين بن علي عن علي بن أبي طالب عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) والزهري عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن ابن عباس عن عمر عن النبي (صلى الله عليه وسلم)" سب سے بہترین اسانید جو رسول اللہ ﷺ سے روایت کی جاتی ہیں چار ہیں جن میں: زہری عن علی بن الحسین عن حسین بن علی عن علی بن ابی طالب عن رسول اللہ ﷺ، اور زہری عن عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود عن ابن عباس عن عمر عن النبی ﷺ شامل ہیں۔ (آپ نے مزید دو اسانید بھی بیان کیں)۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: 55/339، اسنادہ حسن)۔

15- امام ابن حبان البستی رحمہ اللہ (المتوفی 354) فرماتے ہیں: "رأى عشرَة من أَصْحَاب رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ من أحفظ أهل زَمَانه وَأَحْسَنهمْ سياقا لمتون الْأَخْبَار وَكَانَ فَقِيها فَاضلا" (الثقات لابن حبان: 5/349)۔

16- امام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی 748) نے سیر اعلام النبلاء میں 24 صفحات پر مشتمل امام زہری کی تفصیلی سیرۃ لکھی، اور فرمایا: "الإِمَامُ، العَلَمُ، حَافِظُ زَمَانِه" (5/326)۔

17- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی 852) فرماتے ہیں: "الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه وثبته" آپ فقیہ اور حافظ تھے، اور آپ کی جلالت، اتقان و ثبت پر امت کا اتفاق ہے۔ (التقریب التہذیب: 6296)۔
امام زہری پر تشیع کا الزام
بعض جاہل منکرین حدیث نے امام زہری پر صرف اس لئے تشیع کا الزام لگایا کیونکہ ان کا ترجمہ محض کسی شیعہ کتب رجال میں موجود ہے۔ حالانکہ کسی شخص کا شیعہ کی کتب رجال میں ذکر ہونا اس بات کا قطعی ثبوت نہیں ہے کہ وہ شخص شیعہ ہے۔ یہ الزام بالکل بے بنیاد اور جھوٹا ہے جبکہ اس کے برعکس امت میں سے کسی عالمِ دین و محدث نے کبھی ایسا نہیں کہا ہے۔ اس الزام کے تفصیلی و تسلی بخش رد کے لئے دیکھیں شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا مضمون۔ (ماہنامہ اشاعۃ الحدیث، اگست 2004 صفحہ 43، 44، 45)۔​
امام زہری اور تدلیس کا الزام
متقدمین میں سے کسی بھی معتبر محدث سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے امام زہری کو مدلس قرار دیا ہو۔ صرف چند متاخرین محدثین نے یہ بات بلا کسی معتبر حوالہ یا سند کے کی ہے جبکہ اس کے برعکس تمام ائمہ و محدثین نے ان کی معنعن روایات کو قبول کیا ہے۔ چنانچہ اسی لئے حافظ صلاح الدین العلائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وقد قبل الأئمة قوله عن" ائمہ نے ان کے عن والے قول کو قبول کیا ہے (جامع التحصیل: 1/109)۔ زہری کی تدلیس کے ثبوت کے لئے جو دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں ان کا ذکر درج ذیل ہے۔​
پہلا حوالہ:
حافظ ابن حجر طبقات المدلسین میں فرماتے ہیں کہ امام شافعی اور امام دارقطنی نے زہری کی طرف تدلیس کو منسوب کیا ہے۔ جبکہ یہ اقوال غیر ثابت ہونے کی وجہ سے غیر قابل قبول ہیں۔ دارقطنی کی کتب سے جو حوالے ملتے ہیں وہ ویسے ہی ہیں جیسے امام ترمذی کے بیان کردہ قول کے ہیں، جو کہ نیچے بیان کیا جائے گا، لیکن ان میں سے کوئی بھی تدلیس پر دلالت نہیں کرتا۔​
دوسرا حوالہ:
امام ابو حاتم الرازی ایک حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "الزهري لم يسمع من عروة هذا الحديث، فلعله دلسه "زہری نے یہ حدیث عروہ سے نہیں سنی، شاید زہری نے تدلیس کی ہے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم 3/407 رقم 968)۔​
شاید تدلیس کی ہے سے تدلیس ثابت نہیں ہوتی۔ امام زہری جیسے بڑے اور جلیل القدر امام کی اتنی تو حیثیت و مقام ہے کہ ان پر اتنا بڑا الزام صرف ایک شاید کی بناء پر نہ لگایا جائے۔ جو لوگ تحقیق کی باتیں کرتے ہیں ان کو تو کم از کم یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے۔​
سب سے بڑھ کر بات جس روایت کی امام ابو حاتم بات کر رہے ہیں کیا اس میں امام زہری نے واقعی میں تدلیس کی بھی ہے یا ایسے ہی بنا کسی قصور کے محض امام ابو حاتم کے شک کی بنیاد پر زبردستی انہیں تدلیس کا تمغہ پہنایا جا رہا ہے!؟​
جس روایت میں امام ابو حاتم نے امام زہری کی تدلیس کے شک کا اظہار کیا ہے وہ حدیث مکمل سیاق و سباق کے ساتھ اس طرح ہے:​
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , وَنُعْمَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " مَا لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْلِمًا مِنْ لَعْنَةٍ تُذْكَرُ ، وَلَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ شَيْئًا يُؤْتَى إِلَيْهِ ، إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ إِلَّا أَنْ يَضْرِبَ بِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَلَا سُئِلَ شَيْئًا قَطُّ فَمَنَعَهُ إِلَّا أَنْ يُسْأَلَ مَأْثَمًا ، فَإِنَّهُ كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ ، وَلَا خُيِّرَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا ، ۔۔۔۔۔ " .
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا، اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الایہ کہ راہ خدا میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بھی گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محار م خداوندی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے، اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں، اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے تھے، الا یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ اگر وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے تھے ۔ (ترجمہ ایزی قرآن و حدیث)​
مسند الامام احمد بن حنبل (24985)​

ایک دوسری جگہ یہی روایت اس سند سے مروی ہے:​
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ خَادِمًا لَهُ قَطُّ، وَلَا امْرَأَةً، وَلَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللهِ " " وَلَا خُيِّرَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ، إِلَّا كَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ أَيْسَرُهُمَا، حَتَّى يَكُونَ إِثْمًا، فَإِذَا كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ الْإِثْمِ، وَلَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ مِنْ شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ، حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَكُونَ هُوَ يَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا ، اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الا یہ کہ راہ خدا میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم خدا وندی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے۔ اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں، اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے تھے ، الا یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے تھے۔​
مسند الامام احمد بن حنبل (25956)​
نیز دیکھیں، مؤطا امام مالک (1605)، سنن الکبری للنسائی (9163)، مصنف عبد الرزاق (17942)، مسند اسحاق بن راہویہ (812)، مسند عبد بن حمید (1481)، سنن ابو داود (4786)، وغیرہ

یہی وہ روایت ہے جس کے متعلق امام ابو حاتم نے یہ شک ظاہر کیا ہے کہ شاید زہری نے اس میں عروہ سے تدلیس کی ہے۔ جبکہ ان کا یہ شک صحیح نہیں ہے کیونکہ امام زہری نے اس روایت میں سماع کی صراحت کر دی ہے، چنانچہ،یہی روایت اختلاف یسیر کے ساتھ اسی مخرج سے صحیح بخاری میں بھی مروی ہے:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا قَالَتْ مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلاَّ أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِنَفْسِهِ فِي شَىْءٍ قَطُّ، إِلاَّ أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمَ بِهَا لِلَّهِ‏.‏
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو امر کے درمیان جب بھی اختیار دیا تو ان میں جو آسان صورت تھی اس کو اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو اگر وہ گناہ ہوتا تو لوگوں میں سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے (یعنی سب سے زیادہ اس سے پرہیز کرتے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کی خاطر کبھی انتقام نہیں لیا مگر جو شخص حرمت الہیہ کی پردہ دری کرتا یعنی احکام الٰہی کے خلاف کرتا تو اللہ کی خاطر اس سے انتقام لیتے۔
صحیح بخاری (6126، 3560، وغیرہ)​
اور صحیح بخاری کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ اس میں روایات سماع پر محمول ہوتی ہیں۔ اگر ابھی بھی یقین نہیں ہوتا تو یہ لیں صراحت کے ساتھ سماع بھی دکھا دیتے ہیں: صحیح بخاری ہی میں یہ روایت ایک دوسری جگہ اختصار کے ساتھ مروی ہے اور اس میں امام زہری نے سماع کی صراحت بیان کر دی ہے:​
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ مَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِنَفْسِهِ فِي شَىْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ حَتَّى تُنْتَهَكَ مِنْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ‏.‏
(صحیح البخاری: 6853)​

مسند احمد میں بھی یہ روایت قدرے تفصیل سے مروی ہے اور اس میں بھی امام زہری کی تحدیث موجود ہے:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَهُ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، قَالَتْ: " مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا، حَتَّى يَكُونَ إِثْمًا، فَإِذَا كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ مِنْ شَيْءٍ انْتُهِكَ مِنْهُ، إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةٌ هِيَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا "
(مسند الامام احمد 24830)

کیا اس واضح تصریحِ سماع کے بعد بھی امام ابو حاتم الرازی کے شک کے غلط ہونے میں کوئی شک باقی رہتا ہے؟ بلکہ جس بنیاد پر امام ابو حاتم نے امام زہری کی تدلیس کا شک ظاہر کیا تھا وہ بنیاد ہی کھوکھلی اور غلط معلوم ہوتی ہے۔ امام ابو حاتم کے مطابق اس روایت میں زہری کی ہشام سے تدلیس کا احتمال ہے جبکہ اگر اس روایت کی تمام اسانید کو اکٹھا کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی نے بھی اس روایت میں تدلیس کی ہے تو وہ زہری نے نہیں بلکہ الٹا ہشام نے زہری سے کی ہے۔ اور محدثین نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ، امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ:

قَالَ أَبِي وَسَمِعْتُ يَحْيَى ، يَقُولُ : كَانَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ ، وَمَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ " . الْحَدِيثِ ، قَالَ يَحْيَى : فَلَمَّا سَأَلْتُهُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ " , لَمْ أَسْمَعْ مِنْ أَبِي إِلا هَذَا ، وَالْبَاقِي لَمْ أَسْمَعْهُ ، إِنَّمَا هُوَ عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الذُّهْلِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ السُّكَّرِيُّ ، قَالَ : ثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَ : قَالَ لَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، فَقِيلَ لَهُ : سَمِعْتَهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ ؟ فَقَالَ : لا ، وَلا مِمَّنْ سَمِعَهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ .
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: 218)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام زہری پر ایک ایسا الزام لگایا جا رہا تھا جس میں ان کا کوئی قصور ہی نہیں تھا بلکہ الٹا انہوں نے تو خود سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ اور زہری نے ہشام سے نہیں بلکہ ہشام نے زہری سے تدلیس کی ہے۔
تیسرا حوالہ:
امام ترمذی ایک حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "هذا حديث لا يصح لأن الزهري لم يسمع هذا الحديث من أبي سلمة" (سنن ترمذی: 1524)۔​
بعض لوگ اس قول سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابو سلمہ امام زہری کے استاد ہیں اور اگر زہری نے یہ حدیث اپنے استاد سے نہیں سنی تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے تدلیس کی ہے۔ جبکہ یہ قول ہرگز تدلیس پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ زہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلا یہ روایت زہری سے اس طریق سے ثابت ہی نہیں، یا اس طریق کو بیان کرنے میں باقیوں نے مخالفت کی ہے وغیرہ، الغرض تدلیس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بناء پر کہا گیا کہ زہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی۔ امام ترمذی کے اس قول میں کہیں صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے زہری کو مدلس کہا ہو۔ اور نہ ہی کسی عالم یا محدث نے کبھی اس قول کو زہری کی تدلیس کے ثبوت کے لیے پیش کیا ہے۔ امام ترمذی کہ یہ کہنے کہ "زہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی" سے حتی الامکان یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ زہری سے یہ روایت بیان کرنے والے نے اس میں شذوز کیا ہے جبکہ یہ روایت اصلا ابو سلمہ سے نہیں بلکہ کسی اور سے مروی ہے۔ چنانچہ، اسی طرف امام ترمذی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ امام ترمذی کا مکمل قول ملاحظہ فرمائیں:​
هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ، لِأَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ سَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْهُمْ: مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، وَابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
"یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ الزہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی۔ میں نے محمد (بن اسماعیل البخاری) کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک سے زائد رواۃ، جن میں موسی بن عقبہ اور ابن ابی عتیق بھی شامل ہیں، نے اس روایت کو زہری سے سلیمان بن ارقم عن یحیی بن ابی کثیر عن ابی سلمہ عن عائشہ عن النبی ﷺ سے روایت کیا ہے۔" (سنن الترمذی: 1524)۔​
اس سیاق کے بعد یہ کہنا بعید نہ ہو گا کہ امام ترمذی کے یہ کہنے کہ "زہری نے یہ روایت ابو سلمہ سے نہیں سنی" کا مطلب یہ ہو گا کہ اس روایت کو امام زہری نے اصلا ہی ابو سلمہ سے نہیں بلکہ سلیمان بن ارقم سے روایت کیا ہے جس کو بیان کرنے میں یونس کو غلطی لگی ہے، نہ یہ کہ زہری نے تدلیس کی ہے!! لہٰذا اس قول کو ہرگز امام زہری کی تدلیس کے لئے پیش نہیں کیا جا سکتا۔​
چوتھا حوالہ:
ابو جعفر الطحاوی فرماتے ہیں: "وهذا الحديث أيضا لم يسمعه الزهري من عروة إنما دلس به"اس حدیث میں بھی زہری نے عروہ سے نہیں سنا، کیونکہ انہوں نے تدلیس کی ہے۔ (شرح معانی الآثار 1/72 رقم 429)​
ابو جعفر الطحاوی اگرچہ صدوق فی الحدیث ہیں لیکن متعصب حنفیوں میں سے ہیں۔ اپنے مذہب کی تائید میں بعید سے بعید تر تاویلات بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ علم حدیث سے ان کا ایسا تعلق نہیں کہ صرف ان کے قول کی بنیاد پر کسی راوی پر فیصلہ کیا جائے۔​
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "وَالطَّحَاوِيُّ لَيْسَتْ عَادَتُهُ نَقْدَ الْحَدِيثِ كَنَقْدِ أَهْلِ الْعِلْمِ ; وَلِهَذَا رَوَى فِي " شَرْحِ مَعَانِي الْآثَارِ " الْأَحَادِيثَ الْمُخْتَلِفَةَ، وَإِنَّمَا يُرَجِّحُ مَا يُرَجِّحُهُ مِنْهَا فِي الْغَالِبِ مِنْ جِهَةِ الْقِيَاسِ الَّذِي رَآهُ حُجَّةً، وَيَكُونُ أَكْثَرُهَا مَجْرُوحًا مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ لَا يَثْبُتُ، وَلَا يَتَعَرَّضُ لِذَلِكَ ; فَإِنَّهُ لَمْ تَكُنْ مَعْرِفَتُهُ بِالْإِسْنَادِ كَمَعْرِفَةِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهِ، وَإِنْ كَانَ كَثِيرَ الْحَدِيثِ، فَقِيهًا عَالِمًا"حدیث کی نقد طحاوی کی عادت نہیں ہے جیسا کہ اہل العلم نقد کرتے ہیں، اسی لیے انہوں نے شرح معانی الآثار میں کئی مختلف احادیث بیان کیں، اور اس میں سے جن کو بھی دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں تو اس میں زیادہ تر قیاس کی وجہ سے ہوتا ہے جسے وہ حجت سمجھتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر مجروح الاسناد غیر ثابت ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ کثیر الحدیث، اور فقیہ عالم تھے لیکن ان کی معرفتِ اسناد اہل العلم کی معرفت جیسی نہیں تھی ۔ (منہاج السنہ النبویہ لابن تیمیہ: 8/195-196)۔​
اس کے علاوہ امام ابو بکر البیہقی معرفۃ السنن وال آثار (1/353) میں طحاوی کا مس الذکر والی حدیث پر کلام نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "أردت أن أُبيّن خطئه في هذا. وسَكَتّ عن كثيرٍ من أمثال ذلك. فبيّنَ في كلامه أن علم الحديث لم يكن من صناعته. وإنما أخذ الكلمة بعد الكلمة من أهله، ثم لم يُحكِمها" (نیز دیکھیں لسان المیزان: 1/277)۔​
ایک دوسری جگہ امام بیہقی نے علامہ طحاوی کی کتاب پر کلام کرتے ہوئے فرمایا: "فيه تضعيف أخبار صحيحة عند أهل العلم بالحديث حين خالفها رأيه، وتصحيح أخبار ضعيفة عندهم حين وافقها رأيه... وتسوية الأخبار على مذهبه، وتضعيف -ما لا حيلة له فيه- بما لا يضعف به، والاحتجاج بما هو ضعيف عند غيره " (المعرفۃ: 1/217)۔​
اور اگر آپ اس حدیث کو کھول کر دیکھیں جس کہ تحت طحاوی نے امام زہری پر یہ الزام لگایا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس حدیث میں بھی طحاوی صاحب حنفیوں کے دفاع میں ہی بے جا لگے ہوئے ہیں اور ثقہ راویوں پر بھی جرح کرنے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا جرح و تعدیل اور علم حدیث امام ابن تیمیہ و امام بیہقی کے بقول طحاوی کا فن نہیں ہے تو کسی غیر ماہر اور متعصب شخص کی بناء پر ایسے الزام کی بنیاد رکھنا محققین کا شیوہ نہیں ہے۔​
مزید یہ کہ امام طحاوی نے امام زہری کی عروہ سے مس الذکر والی حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حدیث کو زہری نے عروہ سے براہ راست نہیں سنا بلکہ انہوں نے تدلیس کی ہے، اور اس تدلیس کو ثابت کرنے کے لیے طحاوی صاحب اگلی روایت زہری عن ابو بکر بن محمد بن عمرو عن عروہ سے روایت کرتے ہیں۔ گویا اگر زہری نے ایک روایت ابو بکر بن محمد عن عروہ اور عن عروہ دونوں طرق سے روایت کی تو امام طحاوی نے سمجھ لیا کہ زہری نے تدلیس کی ہے جبکہ اس میں ان کی کسی نے تائید نہیں کی ہے بلکہ الٹا امام ابن حزم نے المحلی میں اس روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ: "فَإِنْ قِيلَ: إِنَّ هَذَا خَبَرٌ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عُرْوَةَ، قُلْنَا: مَرْحَبًا بِهَذَا، وَعَبْدُ اللَّهِ ثِقَةٌ، وَالزُّهْرِيّ لا خِلافَ فِي أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ عُرْوَةَ وَجَالَسَهُ، فَرَوَاهُ عَنْ عُرْوَةَ وَرَوَاهُ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عُرْوَةَ، فَهَذَا قُوَّةٌ لِلْخَبَرِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" اگر یہ کہا جائے کہ اس خبر کو زہری نے عن عبد اللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم عن عروہ سے روایت کی ہے، تو ہم کہتے ہیں: مرحبا بھذا اور عبد اللہ ثقہ ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زہری نے عروہ سے سنا ہے اور ان کے پاس بیٹھے ہیں، تو انہوں نے اسے عروہ سے بھی روایت کر دیا اور عبد اللہ بن ابی بکر عن عروہ سے بھی روایت کر دیا، لہٰذا یہ خبر کے لیے قوت کا باعث ہے، والحمد للہ رب العالمین۔"​
چنانچہ امام طحاوی کے برعکس امام ابن حزم کے نزدیک اگر امام زہری نے ایک روایت کو عبد اللہ بن ابی بکر عن عروہ سے اور پھر براہ راست عروہ سے بھی روایت کر دیا تو یہ ان کی تدلیس کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ زہری نے یہ روایت دونوں سے لی ہے۔​
اس کے بعد عرض ہے کہ جس روایت میں طحاوی نے امام زہری پر تدلیس کا الزام لگایا ہے اسی روایت کے ایک دوسرے طریق میں امام زہری نے خود امام عروہ بن الزبیر سے سماع کی صراحت کر دی ہے۔ (دیکھیں تاریخ بغداد: 10/451، واسنادہ صحیح؛ ومسند الشامیین للطبرانی: 2875)۔ لہٰذا جس روایت کی بنیاد پر امام زہری پر تدلیس کا الزام لگایا گیا اس میں انہوں نے تدلیس کی ہی نہیں تو الزام کیسا!؟​
لہٰذا، امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ پر تدلیس کا الزام غلط ہے ۔آپ تدلیس سے برئ ہیں اور آپ کی تمام معنعن روایات صحیح ہیں، والحمد للہ۔​
امام زہری کی مراسیل
چونکہ امام زہری کبار تابعین میں سے نہیں تھے اس لئے ان کی مراسیل (وہ روایات جو انہوں نے براہ راست نبی سے روایت کیں) باقیوں کی نسبت زیادہ ضعیف اور متکلم فیہ ہیں۔​
1- احمد بن سنان روایت کرتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید القطان زہری کی مراسیل کو کچھ نہیں سمجھتے تھے اور فرماتے تھے: "هُوَ بِمَنْزِلَةِ الرِّيحِ" یعنی ان کی مراسیل ہوا کی طرح ہیں۔ (المراسیل لابن ابی حاتم: 1/3، واسنادہ صحیح)۔​
2- امام یحیی بن معین فرماتے ہیں: "مَرَاسِيلُ الْزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِشَيْءٍ" زہری کی مراسیل کچھ چیز نہیں ہیں۔ (المراسیل لابن ابی حاتم: 1/3، واسنادہ صحیح)۔​
3- احمد بن ابی شریح بیان کرتے ہیں کہ امام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "يقولون نحابي ولو حابينا لحابينا الزهري وإرسال الزهري ليس بشئ وذاك إنا نجده يروي عن سليمان بن أرقم" لوگ کہتے ہیں کہ ہم طرف داری کرتے ہیں، اگر ہمیں کسی کی طرف داری کرنی ہوتی تو ہم زہری کی طرف داری کرتے، لیکن زہری کا ارسال کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہم انہیں سلیمان بن ارقم (متروک) سے بھی روایت کرتا پاتے ہیں۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: 55/369، واسنادہ صحیح الی احمد بن ابی شریح)۔​
4- امام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قُلْتُ: مَرَاسِيْلُ الزُّهْرِيِّ كَالمُعْضَلِ؛ لأَنَّهُ يَكُوْنُ قَدْ سَقَطَ مِنْهُ اثْنَانِ، وَلاَ يَسُوغُ أَنْ نَظُنَّ بِهِ أَنَّهُ أَسقَطَ الصَّحَابِيَّ فَقَطْ، وَلَوْ كَانَ عِنْدَه عَنْ صَحَابِيٍّ لأَوضَحَهُ، وَلَمَا عَجِزَ عَنْ وَصْلِهِ، وَلَوْ أَنَّهُ يَقُوْلُ: عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَمَنْ عَدَّ مُرْسَلَ الزُّهْرِيِّ كَمُرْسَلِ سَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بنِ الزُّبَيْرِ، وَنَحْوِهِمَا، فَإِنَّهُ لَمْ يَدرِ مَا يَقُوْلُ، نَعَمْ، مُرْسَلُه كَمُرْسَلِ قَتَادَةَ، وَنَحْوِه" میں کہتا ہوں کہ زہری کی مراسیل معضل روایت کی طرح ہیں کیونکہ اس میں انہوں نے دو راویوں کو سقط کیا ہو گا، اور یہ جائز نہیں کہ ہم یہ خیال کریں کہ انہوں نے صرف صحابی کا نام ہی سقط کیا ہو گا۔ اگر زہری نے کوئی روایت براہ راست کسی صحابی سے روایت کی ہوتی تو وہ اسے بیان کر دیتے اور اس روایت کو متصل بنانے سے عاجز نہ ہوتے اگرچہ انہوں نے عن بعض اصحاب النبی ﷺ بھی کہا ہوتا۔ جو بھی زہری کی مرسل کو سعید بن المسیب اور عروہ بن الزبیر جیسے کبار تابعین کی مرسل کے برابر گنتا ہے تو اس کو خود نہیں پتہ کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ہاں البتہ زہری کی مرسل قتادہ جیسے (صغار تابعین) کے جیسی ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: 5/339)۔​
 
Top