محمداشرف یوسف
رکن
- شمولیت
- مارچ 06، 2013
- پیغامات
- 43
- ری ایکشن اسکور
- 54
- پوائنٹ
- 42
یہ دنیا کی قدیم عادت ہے کہ جب بھی کوئی شخصیت ابھرتی ہے تومخالفت کرنے والے اس کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں، سب وشتم، طعن وتشنیع، الزام وافتراء کا بازار گرم کرتے ہیں، ایسا ہرزمانہ میں ہوا ہے، اولیاء کرام، بزرگانِ دین حتی کہ صحابہؓ اور انبیاء کرام علیہم السلام کوبھی بخشا نہیں گیا؛ یہی قصہ امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی رحمۃ اللہ کے ساتھ بھی ہوا، جب آپ علومِ شرعیہ میں درجۂ کمال کوپہونچ گئے، استخراجِ مسائل میں علماء وقت نے آپ کوامام تسلیم کرلیا، چہاردانگِ عالم میں آپ کا ڈنکا بجنے لگا، بڑے بڑے اصحاب علم آپ کے سامنے زانوئے تلمذ اختیار کرنے لگے توحاسدین نے آپ کی طرف ناپاک انگلیاں اٹھائیں، آپ کی شخصیت کوداغ دار بنانے اور مقبولیت کوگھٹانے کی ہرممکن کوششیں کرڈالیں، بعض نے کہا کہ آپ رائے اور قیاس پر عمل کرتے ہیں، حدیث پر نہیں، کسی نے کہا آپ فرقہ مرجیہ سے تعلق رکھتے ہیں، کسی نے کہا کہ آپ کا مشغلہ فضول وبکواس ہے کہ فرضی مسائل کے احکام نکالتے ہیں...... وغیرہ وغیرہ، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
اسی کے ساتھ آپ کے مداحوں کا حلقہ بھی وسیع رہا، حقیقت کا اعتراف اور شخصیت کوتسلیم کرنے والوں کی تعداد بھی کافی رہی، علامہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ بن کثیر رحمہ اللہ جیسے نقاد علماء نے آپ کوبڑے اونچے القاب سے یاد کیا ہے، ان کی تصانیف ان پر شاہد عدل ہیں، یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کے مقربین کوتکلیف پہونچائی، اولیاء اللہ سے دشمنی کی ان کواس دنیا میں بھی خدا نے ذلیل کیا ہے اور آخرت کاانجام تووہ بھگتیں گے ہی، خدا نے ایسے لوگوں سے اعلانِ جنگ کیا ہے:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ"۔
(بخاری، كِتَاب الرِّقَاقِ،بَاب التَّوَاضُعِ،حدیث نمبر:۶۰۲۱، شاملہ، موقع الإسلام)
امام ابوحنیفہؒ کے مخالفین کوبھی اللہ تعالیٰ نے ذلیل ورسوا کیا ہے، مشہور غیرمقلد عالم حافظ محمدعبدالمنان وزیرآبادی کے حالات میں مولانا میرصاحب لکھتے ہیں کہ آپ ائمہ دین کا بہت ادب کرتے تھے؛ چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جوشخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابوحنیفہؒ کی بے ادبی کرتا ہے، اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔
مشہور مؤرخ اسحاق بھٹی صاحب نے مولانا داؤد غزنوی مرحوم کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر تھا کہ جماعت اہلِ حدیث کے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے دردناک لہجے میں فرمایا: مولوی اسحاق! جماعت اہلِ حدیث کوحضرت امام ابوحنیفہؒ کی روحانی بددعاء لےکر بیٹھ گئی ہے، جولوگ اتنے بڑے جلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں، ان میں اتحاد ویکجہتی کیوں کرپیدا ہوسکتی ہے؟۔
(حدیث اور اہلِ حدیث:۲۷)
حضرت مولانا میرسیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ
ایک زمانہ میں حضرت مولانا ابراہیم صاحب میرؒ پر بھی حضرت امام ابوحنیفہؒ کے خلاف کچھ کہنے اور لکھنے کاجنون سوار ہونے لگا تھا؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مولانا مرحوم کے علوم وتقویٰ ار بزرگانِ دین سے حسنِ عقیدت کی برکت سے انھیں اس برائی سے محفوظ رکھا؛ چنانچہ مولانا مرحوم خود لکھتے ہیں کہ:
جبمیں نے اس مسئلہ کے لیےکتبِ متعلقہ الماری سے نکالیں اور حضرت امام صاحبؒکے متعلق تحقیقات شروع کیں تومختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر کچھغبار آگیا، جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دوپہر کے وقت جب سورج پوریطرح روشن تھا یکا یک میرے سامنے خوب اندھیرا چھا گیا؛ گویا "ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ" (النور:۴۰) کا نظارہ ہوگیا، معاً خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہحضرت امام صاحب سے بدظنی کا نتیجہ ہے، اس سے استغفار کر! میں نے کلماتِاستغفار دہرانے شروع کئے وہ اندھیرا فوراً کافور ہوگیا اور ان کے بجائےایسا نورچمکا کہ اس دوپہر کی روشنی کو مات کردیا، اس وقت سے میری حضرت امامصاحبؒ سے حسنِ عقیدت اور زیادہ بڑھ گئی اور میں ان شخصیتوں سے جن کوحضرتامام صاحبؒ سے حسنِ عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں کہ میری اور تمہاری مثال اسآیت کی مثال ہے کہ حق تعالیٰ منکرین معارج قدسیہ آنحضرتﷺ سے خطاب کرکے فرماتا ہے: "أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَايَرَىٰ" (النجم:۱۲) میں نے جوکچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا ہے، اس میں مجھ سے جھگڑنا بے سود ہے"۔"
نعیم ابن حماد بھی امام ابوحنیفہؒ پر بڑی تنقیدیں کیا کرتے تھے، بے سروپا کی باتیں ان کی طرف منسوب کرکے انہیں مزہ آتا تھا، امام صاحبؒ کے متعلق غلط باتیں اکابر محدثین کی طرف منسوب کرکے لوگوں میں پھیلایا کرتے تھے، اللہ نے ان کوبھی دنیا میں خوب رسوا کیا، یہ اہلِ سنت والجماعت کی طرح قرآن کومخلوق کہتے تھے، اس لیے حکومتِ وقت کی بے راہ روی سے وہ بھی اس مسئلے میں گرفتار کرلیے گئے تھے، اسی قیدوحبس کے زمانہ کے بارے میں علامہ خطیبؒ لکھتے ہیں:
"ان کوہتھکڑیوں کے ساتھ صاحب ابن ابی داؤد کے حکم سے کھینچ کرایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، نہ توان کوکفن نصیب ہوا اور نہ جنازہ کی نماز پڑھی گئی"۔
(مقام ابی حنفیہ:۱۴۹)
ابوالوفاء سعد بن محمدشافعی قاضی شہر نساء کہتے ہیں کہ عبد بن عبیداللہ ریاحی امام اعظم کوگالیاں دیتا تھا اور آپ پرلعن طعن اورعیب جوئی، والزامات عائد کرتا تھا، جن سے امام صاحب پاک اور منزہ تھے، اس کا انجام یہ ہوا کہ اس کا گھر جل گیا اور جیسے ہی آگ لگی یہ اُٹھ کر باہر نکلنے کے لیے دروازہ ڈھونڈنے لگا؛ لیکن دروازہ نہ ملا؛ بلاآخرگھر کے ساتھ ہی یہ بھی جل کرخاک ہوگیا۔
حافظ الدین علامہ کردری کہتے ہیں کہ میں نے ایک قابل اعتماد شخص سے سنا کہ علاء الدین سخومی صاحب منارالمصابیح دوران درس جب کتاب الصوم پر پہونچے اور احناف کامذہب بیان کیا کہ اگرصائم کے دانتوں میں ایک چنا کی مقدار کوئی چیز رہ جاے اور وہ اس کونگل جائے توروزہ نہیں ٹوٹتا، توانھوں نے کہا کہ امام صاحب کے دانت ایسے ہی تھے اور امام صاحب کے شبیہ کونہایت غلط انداز میں پیش کیا، اس واقعہ کے چند ہی روز گزرے تھے کہ اس شخص کے سارے دانت گرگئے۔
(مناقب ابی حنیفہؒ:۲/۲۸۱)