• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہؒ پر غیرمقلدین اعتراض کاجواب

شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
۔امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرفستره احادیث یادتھیں ؟
جواب :یہ وسوسہ بہتپرانا ہے جس کو فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نقل درنقل کرتےچلے آرہے ہیں ، اس وسوسہ کااجمالی جواب تو لعنة الله علی الکاذبین ہے اور یہ انهوں نے تاریخ ابن خلدون کتاب سے لیا ہے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی ہے کہ ہمارے اصول صرف قرآن وسنت ہیں؛ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض ہے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سےبهی ملے وه سر آنکهوں پر، اس کے لیے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ،ابن خلدون کی عبارت کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے،تاریخ ابن خلدون میں ہے:
فابوحنیفهرضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها
فرقہ اہل حدیث کےجاہل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیےاس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہالله کو ۱۷ احادیث یادتھیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے، بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ابوحنیفہ ؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کیروایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( ۱۷ ) تک پہنچتی ہیں ،اس قولمیں یہ بات نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره احادیث یادتھیں، تو ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللهنے جواحادیث روایت کیں ہیں ان کی تعداد ستره ( ۱۷ ) ہے ، یہ مطلب نہیں کہ امامابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( ۱۷ ) احادیث پڑهی ہیں ، اور اہل علم جانتے ہیں کہروایت حدیث میں کمی اور قلت کوئی عیب ونقص نہیں ہے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی اللهعنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم ہیں ۔
۲۔تاریخ ابن خلدون ج ۱ ص ۳۷۱پر جوکچھ ابن خلدون رحمہ الله نے لکها ہے ، وه اگربغور پڑھ لیا جائے تواس وسوسےاوراعتراض کا حال بالکل واضح ہوجاتاہے،۳۔ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول یُقال بصیغہ تَمریض ذکرکیا ہے ، اور علماء کرام خوب جانتے ہیں کہ اہل علم جبکوئی بات قیل ، یُقالُ سے ذکرکرتے ہیں تو وه اس کےضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره ہوتا ہے ،اور پھر یہ ابن خلدونرحمہ الله کا اپنا قول نہیں ہے ، بلکہ مجہول صیغہ سے ذکرکیا ہے ، جس کا معنی ہے کہ کہا جاتا ہے اب یہ کہنے والا کون ہے کہاں ہے کس کوکہاہے؟کوئی پتہنہیں ، پھر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا اونَحوِها یعنی ان کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره ہیں یا زیاده۔
۴۔ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام ہیں؛ لیکن ان کو ائمہ کی روایات کاپورا علم نہیں ہے ، مثلاً وه کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات موطامیں تین سو ہیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے ہیں کہ (موطا مالک) میںستره سو بیس ( ۱۷۲۰ ) احادیث موجود ہیں۔
۵۔اور اس وسوسہ کیتردید کے لیے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکھ لینا کافی ہے ، جنمیں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی ہیں،باقی الواسطہ آپ سے روایت کی ہیں،
اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمہما الله کی کتب اورمُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ ہزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہالله سے روایت کی گئی ہیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے کتاب الآثار میں تقریبا نوسو ( ۹۰۰ ) احادیث جمع کیہیں،جس کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا۔
۶۔امام ابوحنیفہرحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا ہے،
عالم اسلامکے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذہبیرحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیاہے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا ہے، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا ہے جس کو کم ازکم ایک لاکھ احادیثمتن وسند کے ساتھ یادہوں اور زیاده کی کوئی حد نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ الله توامام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولودفرقہ اہل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یادتھیں،تذکرهالحُفَّاظ میں امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا تعارف درج ذیل ہے:
أبو حنیفة الامام الاعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمی مولاهم الكوفی مولده سنة ثمانين رأى انس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة رواه ابن سعد عن سيف بن حابر انه سمع ابا حنيفة يقوله وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن ہرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابی جعفر محمد بن علی وقتادة وعمرو بن دينار وابی اسحاق وخلق كثير، تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائیی والقاضى أبو يوسف ومحمد بن الحسن واسد بن عمرو والحسن بن زياد الؤلؤى ونوح الجامع وابو مطيع البلخی وعدة.
وكان قد تفقه بحماد بن ابی سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير.
وكان اماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائیز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد سئیل يزيد بن هارون ايما افقه الثوری أو
أبو حنيفة ؟ فقال: أبو حنيفة افقه وسفيان احفظ للحديث.
وقال ابن المبارك: أبو حنيفة افقه الناس.
وقال الشافعي: الناس فی الفقه عيال على ابی حنيفة.
وقال يزيد ما رأيت احدا اورع ولا اعقل من ابی حنيفة.
وروى احمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم.
ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فابى ان
يكون قاضيا.
قال أبو داود رحمه الله ان ابا حنيفة كان اماما.
وروى بشر بن الوليد عن ابی يوسف قال كنت امشی مع ابی حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عنى بما لم افعل، فكان يحيی الليل صلاة ودعاء وتضرعا.
قلت مناقب هذا الامام قد افردتها فی جزء.
كان موته فی رجب سنة خمسين ومائیة رضى الله عنه.
انبأنا ابن قدامة اخبرنا ابن طبرزذ انا أبو غالب بن البناء انا أبو محمد الجوہری انا أبو بكر القطيعی نا بشر بن موسى انا أبو عبد الرحمن المقرئی عن ابی حنيفة عن عطاء عن جابر انه رآه يصلى فی قميص خفيف ليس عليه ازار ولا رداء قال.
ولا أظنه صلى فيه الا ليرينا انه لا بأس بالصلاة فی الثوب الواحد.
(تذکرۃ الحفاظ،۱/۱۶۸،شاملہ)
۲۔امام ابوحنيفہ رحمہ الله ضعيف راوى تھے محدثین نے ان پرجرح کی ہے ؟
جواب:دنیائے اسلام کی مستند ائمہرجال کی صرف دس کتابوں کا نام ذکر کیا جائے گا ، جو اس وسوسہ کو باطل کرنے کے لیے کافی ہیں:
۱۔امام ذہبی رحمہالله حدیث و رجال کے مستند امام ہیں ، اپنی کتاب تذکرة الحُفاظ میں امام اعظم رحمہ الله کے صرف حالات ومناقب وفضائیللکھے ہیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع ِکتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائللکهنے کے بعد امام ذہبی رحمہ الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمہ الله کے مناقبمیں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی ہے ۔
۲۔حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ الله نے اپنی کتاب تهذیبُ التهذیب میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کےبعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا:
مناقب أبی حنيفة كثيرة جدا فرضی الله عنهوأسكنه الفردوس آمين امام ابوحنيفہ رحمہ الله کے مناقب کثیر ہیں ، ان کے بدلےالله تعالی ان سے راضی ہو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ۔
۳۔حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ الله نے اپنی کتاب تقريب التہذيب میں بهی کوئی جرح نقل نہیںکی۔
۴۔اسمائےرجال کے ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمہ الله نے خلاصة تذہيب تہذيب الكمال میں صرف مناقبوفضائیل لکہے ہیں ، کوئی جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمہ الله کو امام العراقوفقیہ الامة کے لقب سے یاد کیا ۔
۸۔کتاب تہذيب الأسماء واللغات ،میں امام نووی رحمہ الله سات صفحات امام اعظم رحمہ الله کے حالات ومناقب میں لکہےہیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ، ۹۔کتاب مرآةالجنان ،میں امام یافعی شافعی رحمہ الله امام اعظم رحمہ اللهکے حالات ومناقب میں کوئی جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے تاریخ بغدادکےکئی حوالے دیئے ہیں ، جس سے صاف واضح ہے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعیکی نظرمیں ثابت نہیں۔
۱۰۔فقيه إبن العمادألحنبلی رحمہ الله اپنی کتابشذراتالذهبمیں صرف حالات ومناقب هی لکہے ہیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقلنہیں کیا۔
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی ہے کہجن ائمہ کی عدالت وثقاہت وجلالت قدر اہل علم اور اہل نقل کے نزدیک ثابت ہے ، ان کےمقابلے میں کوئی جرح مقبول و مسموع نہیں ہے۔
۳۔امامابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تھے ، ان کو علم حدیث میں کوئی تبحر حاصل نہیں تها ؟
جواب:یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اہل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتےچلے آرہے ہیں ، اہل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور ہے ، اور دندہاڑے چڑتے سورج کا انکار ہے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں ہے، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور ہے ؟ بطور مثالامام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل ہونے والے چند جلیل القدر عظیمالمرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کیے جاتے ہیں ، جن میں ہرایک اپنی ذاتمیں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر ہے:
۱۔امام یحی ابن سعید القطان ، علمالجرح والتعدیل کے بانی اور امام ہیں۔
۲۔امام عبدالرزاق بن همام ، جن کیکتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف ہے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹهایاہے۔
۳۔امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ ہیں۔
۴۔امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کےبارےمیں امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔
۵۔امامعبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین ہیں۔
۶۔امامیحی بن زکریا بن ابی زائیده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کیانتہاء کہا کرتے تھے۔
۷۔قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں نےجب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها۔
۸۔اماممحمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجھکے برابرعلم حاصل کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تهذيب التهذيب ج ۱ ص ۴۴۹میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتےہوئے درج ذیل مشاہیر ائمہ حدیث کا ذکرکیاہے:
تهذيب التهذيب، حرفالنون ،وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمانوحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضی وأبو يحيى الحمانی وعيسى بنيونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلی وحكام بن يعلى بن سلم الرازی وخارجةبن مصعب وعبد المجيد بن أبی رواد وعلی بن مسہر ومحمد بن بشر العبدی وعبد الرزاقومحمد بن الحسن الشيبانی ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبی مريموأبو عبد الرحمن المقری وأبو عاصم وآخرون ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے وآخرون کہے کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوںمیں صرف یہ کبارائمہ ہی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی ہیں،اوران میںاکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه ہیں۔
یہ ایک مختصرسی شہادت ہم نے حدیث ورجال کےمستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی ہے ، تو پھربهیکوئی جاہل امام اعظم کے بارے یہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ، کیا یہجلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورہوا خوری کے لیے جایاکرتے تھے ؟
کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کیتصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اہلحدیث کے وساوس واباطیل کو ؟
۴۔امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تھے ؟
یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نےامام اعظم کے ساتھ بغض وعنادکی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اہل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وکاذب ہے،یاد رکہیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کیملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا ہے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تکبیٹهنا شرط نہیں ہے،حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبہ ) میںفرمایا:هذاہوالمختار، یہی بات صحیح ومختارہے۔
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کاشرف حاصل ہوا ہےاور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سےملاقات کو اور آپ کی تابعی ہونے کو محدثین اور اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیاہے:
۱۔ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں۲۔حافظذهبی نے اپنی کتاب تذکره الحُفاظ میں ،۳۔حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب تهذیب التهذیب میںاور اسی طرح ایک فتوی میں بهی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیاہے ،۴۔حافظ عراقی ،۵۔امامدارقطنی ،۶۔امامابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ،۷۔امام سیوطی۸۔حافظ ابوالحجاج المِزِّی ،۹۔حافظ ابن الجوزی ،۱۰۔حافظ ابن عبدالبر ،۱۱۔حافظ السمعانی ،۱۲۔امام نووی۱۳۔حافظ عبدالغنیالمقدسی ،۱۴۔امام جزری ،۱۵۔امام تُوربِشتی ،۱۶۔امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخالاسلام ہیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ ہیں ،۱۷۔امام یافعی شافعی ،۱۸علامہ ابن حجرمکی شافعی ،۱۹علامہاحمد قسطلانی ،۲۰۔علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمہمالله تعالی اجمعین۔
بطورمثال اہل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام ہم نے ذکرکیےہیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا ہے ، ابان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ ہے یا انگریزی فرقہ اہل حدیث میں شامل جہلاء کا وسوسہاور جهوٹ ؟
۵۔امام ابوحنیفہ رحمہالله نے کوئی کتاب نہیں لکهی اور فقہ حنفی کے مسائل لوگوں نے بعد میں ان کی طرفمنسوب کرلیے ہیں ؟
جواب:اہل علم کےنزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد ہے ، اور تارعنکبوت سے زیاده کمزور ہے ، اور یہ طعنتواعداء اسلام بهی کرتے ہیں، منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخوداپنی زندگی میں احادیث نہیں لکہیں؛ لهذا احادیث کا کوئی اعتبارنہیں ہے ، اسی طرحمنکرین قرآن کہتے ہیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیںلکهوایا لہذا اس قرآن کا کوئی اعتبارنہیں ہے ، فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نے یہ وسوسہمنکرین حدیث اور شیعہ سے چوری کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہےدیا کہ انهوں نے توکوئی کتاب نہیں لکهی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے ،یاد رکہیں کسی بهی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین ہونے کے لیے کتاب کا لکهنا ضرورینہیں ہے ، اسی طرح کسی مجتہد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لیے اس امام کا کتابلکهنا کوئی شرط نہیں ہے ، بلکہ اس امام کا علم واجتہاد محفوظ ہونا ضروری ہے ،اگرکتاب لکهنا ضروری ہے تو خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم نے کون سی کتاب لکهی ہے ؟ اسیطرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث ہیں ، مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلمکے شیوخ ہیں کیا ان کی حدیث و روایت معتبرہونے کے لیے ضروری ہے کہ انهوں نے کوئیکتاب لکهی ہو ؟ اگر ہر امام کی بات معتبر ہونے کے لیے کتاب لکهنا ضروری قرار دیںتو پھر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا،لہذا یہ وسوسہ پهیلانے والوں سے هم کہتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم کےتمام شیوخ کی کتابیں دکهاؤ،ورنہ ان کی احادیث کو چهوڑ دو ؟
اور امام اعظم رحمہ الله نے توکتابیں لکهی بهیہیں الفقه الأكبر امام اعظم رحمہ الله کی کتاب ہےجو عقائد کی کتاب ہے ( الفقه الأكبر)علم کلام وعقائد کے اولین کتب میں سے ہے ،اور بہت سارے علماء ومشائیخ نے اس کی شروحات لکهی ہیں ، اسی طرح کتاب العالموالمتعلم بهی امام اعظم رحمہ الله کی تصنیف ہے ، اسی طرح كتاب الآثار امام محمد اور امام ابویوسف کی روایت کے ساتھ امام اعظم رحمہالله هی کی کتاب ہے ، اسی طرح امام اعظم رحمہ الله کے پندره مسانید ہیں جن کو علامہمحمد بن محمود الخوارزمی نے اپنی کتاب جامع الإمام الأعظم میں جمع کیا ہے اور امام اعظم کی ان مسانید کو کبار محدثین نے جمع کیاہے ، بطور مثال امام اعظم کی چند مسانید کا ذکرکیاتاہے:
۱۔جامع مسانيد الإمام الأعظم أبی حنيفة،تأليف أبی المؤيد محمد بن محمود بنمحمد الخوارزمی،مجلس دائیرة المعارف حیدرآباد دکن سے۱۳۳۲ھ میں طبع ہوئی ہے دو جلدوںمیں ، پھر ، المكتبة الإسلامية ، پاکستان سے۱۳۹۶ھ میں طبع ہوئی ، اور اس طبع میںامام اعظم کے پندره مسانید کو جمع کردیا گیا ہے۔
۲۔مسانيد الإمام أبی حنيفة وعدد مروياته المرفوعات والآثار،مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامی ، نے ۱۳۹۸ھ میں شائیع کی ہے۔
۳۔مسند الإمام أبی حنيفة رضی الله عنه،تقديم وتحقيق صفوة السقا ، مکتبه ربيع ، حلب شام۱۳۸۲ھمیں طبع ہوئی۔
۴۔مسند الإمام أبی حنيفة النعمان،شرح ملا علی القاري، المطبع المجتبائی۔
۵۔شرح مسند أبی حنيفة،ملاعلی القاري،دارالكتب العلمية،بيروت سے۱۴۰۵ھ میں شائع ہوئی۔
۶۔مسند الإمام أبی حنيفة،تأليف الإمام أبی نعيمأحمد بن عبد الله الأصبهاني، مكتبة الكوثر ، رياض سے ۱۴۱۵ھ میں شائع ہوئی۔
۷۔ترتيب مسند الامام ابی حنيفة على الابواب الفقهية،المؤلف: السندي، محمد عابد بن أحمد۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
ایک جاہل کی بڑھک اور ادب سے عاری شخص کی گفتگو!
جس پر غور کریں تو گناہ
نہ کریں تو اسکی حماقت تنگ کرتی ہے۔
عربی سے ناآشنا جاہل
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
یہ بھی تو امام ابو حنیفہ ؒ نے تو نہیں کہا تھا کہ ہر ایرے غیرے کو اس کام پر لگا دینا کہ جو فقہ مدوون کرنے بیٹھ جائے اور بادشاہوں سے چند سکے لیکر جو عورت انکو پسند ہو اس کو جائز قرار دیتے جائیں اور خود ہی طے کر لیں کہ کس جرم پر حد لگے گی اور کس پر تعزیر۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
افسوس کہ اپنی کم علمی عربی سے ناآشنا ئی اور کاپی پیسٹ سند ضغیف کے الفاظ سے ٹلتے ہو
کسی سچ کہا ہے کہ ان کو اہل حدیث نہیں اہل خبیث کہنا چاہے

اہل خبیث کون ہے ؟​
بانی دارالعلوم دیوبند​
مولانا محمد یعقوب نانوتوی کا واقعہ​
"ایک بار حضرت مولانا محمد ہعقوب صاحب نے بسبیل گفتگو فرمایا کہہ یہ شیخ زادہ کی قوم بڑی خبیث ہے .ایک شخٖص نے اسی مجلس میں کہا کہ حضرت آپ بھی تو شیخ زادہ ہیں بیساختہ فرمایا کہ میں بھی خبیث ہوں​
" ملوفاظات حکیم الامت جلد ۲ صفہ نمبر ۳۰۰​

 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بیچارے محمد اشرف یوسف صاحب نے ابوحنیفہ کو اہل علم، محدث اور امام ثابت کرنے کے لئے جو اتنی محنت کی ہے اس پر صرف ایک ناقابل تردید حقیقت سے پانی پھر جاتا ہے اور وہ حنفیوں کا منہ چڑاتی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی محدث نے ابوحنیفہ کی روایت قبول نہیں کی کیونکہ روایت ثقہ کی قبول کی جاتی ہے ابوحنیفہ جیسے غیرثقہ اور سخت متنازعہ شخص کی نہیں۔ اشرف صاحب بجائے اتنی فضول کی محنت کرنے کے آپ ابوحنیفہ کی روایت کردہ صرف اور صرف ایک حدیث پیش کریں جسے کبار محدیثین نے صحیح قرار دیا ہو۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437

اہل خبیث کون ہے ؟​
بانی دارالعلوم دیوبند​
مولانا محمد یعقوب نانوتوی کا واقعہ​
"ایک بار حضرت مولانا محمد ہعقوب صاحب نے بسبیل گفتگو فرمایا کہہ یہ شیخ زادہ کی قوم بڑی خبیث ہے .ایک شخٖص نے اسی مجلس میں کہا کہ حضرت آپ بھی تو شیخ زادہ ہیں بیساختہ فرمایا کہ میں بھی خبیث ہوں​
" ملوفاظات حکیم الامت جلد ۲ صفہ نمبر ۳۰۰​
سبحان اللہ! کیا زبردست حوالہ دیا ہے۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
السلام علیکم ورحمۃ اللہ :
شاہد نذیر : اس عبارت سے بعینہ ان کے معانی ہی مراد ہے ؟ یا یہ کسر نفسی کی طرف اشارہ ہے ،کیا اس جیسے الفاظ دیگر علماء سے منقول نہیں ہے ؟
2 ) دیوبندی کی تعریف اہل حدیث کے ہاں کیا ہے ؟
۳) کیا آپ لوگ ہدایہ کی وہ عبارت نقل کرسکتے ہیں جس میں ماں بہن وغیرہ سے نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے ؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ :
شاہد نذیر : اس عبارت سے بعینہ ان کے معانی ہی مراد ہے ؟ یا یہ کسر نفسی کی طرف اشارہ ہے ،کیا اس جیسے الفاظ دیگر علماء سے منقول نہیں ہے ؟
کس عبارت کی بات کررہے ہیں؟

2 ) دیوبندی کی تعریف اہل حدیث کے ہاں کیا ہے ؟
عجیب بات ہے یہ کیسا سوال ہے؟ ہم دیوبندی سے مراد دیوبندی مذہب کا پیروکار لیتے ہیں۔

۳) کیا آپ لوگ ہدایہ کی وہ عبارت نقل کرسکتے ہیں جس میں ماں بہن وغیرہ سے نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے ؟
ذرا نوائے دل بھائی کی عبارت پر نظر ثانی فرمائیں انہوں نے محرمات سے نکاح جائز ہونے کی بات نہیں بلکہ محرمات سے نکاح کے قائل ہونے کی بات کی ہے۔
 
شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
اھلِ حدیث" دواصطلاحوں میں منقسم
اہلِ حدیث کا عنوان دواصطلاحوں میں مختلف معانی کا حامل ہے:
(۱)اہلحدیث باصطلاح قدیم
(۲)اہلحدیث باصطلاحِ جدید۔
اصطلاحِ قدیم میں اس سے مراد وہ لوگ تھے جوحدیث روایت کرنے، پڑھانے، اس کے راویوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس کی شرح میں مشتغل رہتے تھے، انہیں محدثین بھی کہا جاتا تھا اور وہ واقعی اس فن کے اہل سمجھے جاتے تھے؛ سواہلِ علم کی اصطلاح قدیم میں اہلِ حدیث سے مراد حدیث کے اہل لوگ تھے، اہلِ ادب، اہلِ حدیث، اہلِ تفسیر سب اسی طرح کی اصطلاحیں ہیںـــــ حافظ محمدابراہیم الوزیر لکھتے ہیں:
"من المعلوم أنّ أهل الحديث اسم لمن عني به, وانقطع في طلبه...... فهؤلاء هم من أهل الحديث من أي مذهب كانوا"۔
(الروض الباسم لابن الوزیر:۱/۱۲۲)
ترجمہ:یہ بات معلوم ہے کہ اہلِ حدیث اس طبقے کا نام ہے جو اس فن کے درپے ہو اس کی طلب میں منہمک رہے...... ایسے سب لوگ اہلِ حدیث ہیں؛ خواہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ محدثین خواہ وہ کسی بھی فقہی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اس فن کے اعتبار سے اہلحدیث کہلاتے تھے، مولانا محمدابراہیم صاحب میر بھی لکھتے ہیں:
"بعض جگہ توان کا ذکرلفظِ اہل حدیث سے ہوا ہے اور بعض جگہ اصحاب حدیث سے، بعض جگہ اہل اثر کے نام سے اور بعض جگہ محدثین کے نام سے، مرجع ہرلقب کا یہی ہے"۔
(تاریخ اہلحدیث:۱۲۸)
اصطلاح جدید میں اہلِ حدیث سے مراد اہلِ علم کا کوئی طبقہ نہیں؛ بلکہ ایک خاص فقہی مسلک ہے، جو ائمہ اربعہ میں سے کسی کی پیروی کا قائل نہیں، اہلِ حدیث کی یہ اصطلاح بہت بعد کی ہے، قرونِ وسطیٰ میں یہ کسی فقہی مسلک کا نام نہ تھا، اصطلاحِ جدید میں اس سے مراد جماعتِ اہلحدیث ہے، اس میں پڑھے ہوئے اور اَن پڑھ دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں، آج کے عنوان میں "اہل حدیث" کا لفظ اسی جدید اصطلاح میں ہے اور اس سے مراد جماعتِ اہلحدیث ہے، انہیں غیرمقلدین بھی کہتے ہیں، یہ حضرات براہِ راست حدیث سے انتساب کے مدعی ہیں؛ سویہاں اہلحدیث سے مراد حدیث کے ماننے والے نہیں؛ جیسا کہ اس کی لفظی دلالت ہے؛ کیونکہ حدیث کوتوسب مسلمان اپنے لیئے حجت مانتے ہیں اور سب فرقے اس سے تمسک کے مدعی ہیں، جوحدیث کونہیں مانتا وہ تومسلمان ہی نہیں ہے؛ سویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کا صرف ایک فرقہ اہلحدیث بمعنی حدیث کوماننے والا ہو اور باقی مسلمانوں کے بارے میں یہ سمجھاجائے کہ وہ حدیث کونہیں مانتے اور ہیں وہ بھی مسلمان "اِنَّاللہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" یہ خود ایک بڑی غلطی ہوگی ؎
ع بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبیست
حجیت حدیث کی بحث میں ہم کہہ آئے ہیں کہ جوشخص حدیث ماننے کا قائل نہ ہو، وہ مسلمان نہیں ہے، پس یہ تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ یہاں "حدیث" "سے مراد "حدیث کے ماننے والے" نہیں لیئے جاسکتے؛ بلکہ وہ ایک خاص فرقہ ہے جوفقہی مسائل میں کسی امام کی پیروی کا قائل نہیں اور فروعات میں براہِ راست حدیث سے انتساب کا مدعی ہے، عوامی سطح پر اگراہلحدیث کے معنی "حدیث کے ماننے والے" کیئے جائیں تو اس سے منکرین حدیث کوبہت قوت ملے گی اور وہ برملا کہیں گے کہ مسلمانوں کا صرف ایک فرقہ جوبرصغیر پاک وہند میں پانچ فیصد سے زیادہ نہیں، حدیث ماننے کا قائل ہے، باقی سب مسلمان خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ان کے ہاں حدیث حجت نہیں اور اُسے ماننا ضروری نہیں، حدیث اگرسب مسلمانوں کے ہاں حجت سمجھی جاتی اور اس کا ماننا سب مسلمانوں کے نزدیک ضروری ہوتا توایک فرقے کا نام اہلحدیث کیوں ہوتا؟ جوابا گذارش ہے کہ مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کو "اہلحدیث" موسوم کرنا پہلے دور سے بہت بعد کی اور ایک جدید اصطلاح ہے، قرونِ وسطیٰ میں اس نام سے کوئی فقہی مسلک یافرقہ معروف نہ تھا۔
اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اس معنی کے لحاظ سے اپنے آپ کواہلحدیث کہنا اسی طرح صحیح نہیں جس طرح منکرین حدیث کا اپنے آپ کواہلِ قرآن کہنا صحیح نہیں؛ کیونکہ قرآن کریم کوتو سبھی مسلمان مانتے ہیں، اس میں کسی ایک فرقے کی کیا تخصیص؟ اور حدیث کواصولاً تسلیم کیئے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتاـــــ ہاں! جب اس عنوان سے ایک مسلک اپنی جگہ معروف ہوچکا توضروری ہے کہ حدیث کے طلبہ اس سے بھی کچھ نہ کچھ تعارف ضرور رکھتے ہوں؛ لیکن ضروری ہے کہ وہ ہردواصطلاحوں کوپیشِ نظر بھی رکھیں۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
عبارت : کہ میں بھی خبیث ہوں ۔
دیوبندی مذہب کی وہ متنازع امور جن کی بناء پر وہ اہل حدیث سے الگ ہوں بتائیں ، کیونکہ بریلوی ان کو وہابی کہتے ہیں ۔
وہ ہدایہ کی عبارت کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔
 
Top