• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
عبداللہ بن ابی حبیبہ
امام ابویوسف اورامام محمد سے مروی کتاب الاثار میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے۔
ابوحنیفہ قال حدثنا عبداللہ بن حبیبہ قال سمعت اباالدرداء یقول بینااناردیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: یااباالدرداء من شھد ان لاالہ الاللہ وانی رسول اللہ وجبت لہ الجنۃ ،قال قلت وان زنی وان سرق فسکت عنی ثم سار ساعۃ ،ثم قال من شھد ان لاالہ الااللہ وانی رسول اللہ وجبت لہ الجنۃ ،قلت وان زنی وان سرق قال وان زنی وان سرق وان رغم انف ابی الدرداء ،قال فکانی انظرالی اصبع ابی الدرداء السبابۃ ،یومی بھاالی ارنبتہ (کتاب الآثار بروایۃ ابی یوسف ۔ص197)
یہ عبداللہ بن ابی حبیبہ کون ہیں۔ اس بارے میں شہاب الدین احمد بن علی منینی (م 1172)جوبڑے پائے کے محدث ہیں اور شیخ عبدالباقی حنبلی، مشہور محدث ابن عقیلہ حنفی (م 1150)وغیرہ نے کہاہے کہ یہ عبداللہ بن ابی حبیبہ الانصاری ہیں۔ ان کے والد کانام اورع ابن الاذرع ہے اور یہ صحابی ہیں۔ انہوں نے صلح حدیبیہ میں شرکت کی تھی۔ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن عابدین اپنے ثبت "عقوداللآلی فی اسانید العوالی"مین اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔

اس پر ایک اعتراض یہ ہوتاہے کہ خود حافظ ابن حجرؒ نے کتاب الاثار کے روات پر جوکتاب لکھی ہے جس کا نام "الایثارلمعرفۃ رواۃ الاثار "ہے ۔ اس میں عبداللہ بن ابی حبیبہ کے بارے مین حسب ذیل بات لکھی ہے۔
عبداللہ بن ابی حبیبہ الطائی عن ابی الدرداء وعنہ ابوحنیفہ ،روی عنہ ابواسحاق حدیثااخر فی افراد الدارقطنی وقال ابن ابی حاتم عبداللہ بن ابی حبیبہ عن ابی امامۃ بن سہل وعنہ بکیر بن عبداللہ بن الاشج ولم یذکر فیہ جرحاً
حافظ ابن حجر کے اس بیان سے بعض لوگوں کو شبہ ہوگیاکیونکہ جب عبداللہ بن ابی حبیبہ انصاری نہیں بلکہ تابعی ہیں توپھر ان سے روایت کرنے میں تابعیت کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتاہے۔
لیکن یہاں پر ایسالگتاہے کہ حافظ سے تسامح ہوگیاہے کیونکہ انہوں نے ثبوت مین ابن ابی حاتم کاجوقول پیش کیاہے ۔اورعبداللہ بن ابی حبیبہ الطائی ابوالدرداء سے نہیں بلکہ حضرت ابوامامہ سے روایت کرتے ہیں اورلگتاہے کہ صحیح بات وہی ہے جو دیگر محدثین نے بیان کی ہے کہ یہ عبداللہ بن ابی حبیبہ الطائی نہیں بلکہ الانصاری ہیں اوران کی صحبت ثابت ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میاں جمشید! اس کا جواب آپ کو پہلے ہی دے دیا گیا ہے ، اور ایک پھر رقم کیئے دیتا ہوں!
کسی بھی کتاب میں کسی کی جمع کردہ بھی ، وہ تمام روایات جو آپ کے امام اعظم کسی صحابی سے روایت کریں، وہ آپ کے امام کے بعد کی سند سے قطع نظر آپ کے امام سے "ایک ضعیف راوی کی منقطع روایات ہیں
اور مزید یہ کہ آپ کے "امام ابویوسف اورامام محمد بن حسن الشیبانی" دونوں ضعیف راوی ہیں ، ان کی روایات کا کوئی اعتبار نہیں!! فتدبر!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی
حافظ جعابی متوفی ۳۵۵ہجری اپنی کتاب الانتصار لمذہب ابی حنیفہ میں فرماتے ہیں۔

حدثنی ابوعلی عبیداللہ بن جعفر الرازی من کتاب فیہ حدیث ابی حنیفہ ،حدثنا ابی عن محمد بن سماعہ عنا بی یوسف قال سمعت اباحنیفۃ یقول ،حججت مع ابی سنتہ ستہ وتسعین ولی ست عشرۃ سنۃ فاذا انابشیخ قد اجتماع علیہ الناس فقلت لابی من ھذاالشیخ ،قال ھذا رجل قد صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقال لہ عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی فقلت ،لابی ای شیء عندہ ،قال احادیث سمعھا من النبی صلی اللہ علیہ وسلم قلت قدمنی الیہ حتی اسمع منہ ، فتقدم بین یدی فجعل یفرج عنی الناس حتی دنوت منہ ،فسمعت منہ یقول ،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لایحتسب۔
ترجمہ : مجھ سے ابوعلی عبیداللہ بن جعفرالرازی نے اس کتاب میں جس میں امام ابوحنیفہ کی حدثیں درج تھیں بیان کیاکہ ہم سے ہمارے والد نے محمد بن سماعہ کے حوالہ سے امام ابویوسف سے بیان کیاکہ میں نے امام ابوحنیفہ کو یہ کہتے سناکہ میں نے 96میں جب کہ میری عمر 16سال تھی اپنے والد کے ساتھ حج کیاتوکیادیکھتاہوں کہ ایک بزرگ کے گردلوگوں کا مجمع ہے۔ میں نے اپنے والد سے پچھاکہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیاکہ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔ ان کا نام عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی ہے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھاکہ ان کے پاس کیاچیز ہے(جومجمع لگاہے) انہوں نے جواب دیااحادیث ہیں جن کوانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے۔ میں نے کہا۔مجھے ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں ان سے حدیثیں سنوں۔چنانچہ وہ میرے آگے ہولئے اورمیرے لئے راستہ صاف کرنے لگے یہاں کہ میں ان کے قریب ہوگیا ۔میں نے ان کویہ کہتے ہوئے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے جس نے اللہ کے دین میں تفقہ حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اس کیلئے کافی ہوگا اوراس کو وہاں سے رزق دے گا۔جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔
سندکے رواۃ پر ایک نگاہ:
(1)
ابوعلی عبیداللہ بن جعفر رازی:
یہ ابن الرازی کے نام سے مشہو رہیں۔ ابوبکر ابن ابی الثلج کے پڑوسی تھے حدیث کا سماع عباس بن محمد الدوری ، ابراہیم بن نصرکندی،حسن بن علی بن عفان عامری، حسین بن فہم اوردیگر محدثین سے کیاہے۔ تلامذہ میں مندرجہ ذیل حضرات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ حافظ ابوبکر بن جعابی، حافظ ابن المقری، حافظ ابوجعفرعقیلی،سعد بن محمد صیرفی ابوالعباس بن مکرم۔
ان کاانتقال 321ہجر ی میں ہوا۔ حافظ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ان کا مفصل تذکرہ کیاہے اوران کو ثقہ کہاہے۔

(2) جعر بن محمد ابوالفضل العبدی الرازی :
یہ عبیداللہ بن جعفر رازی مذکورکے والد اورمشہور محدث عبدالرحمن بن ابی حاتم متوفی 327 صاحب کتاب الجرح والتعدیل کے شیوخ حدیث میں ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنے وطن رے میں ان سے حدیث کا سماع کیاتھا۔ جعفر نے محمد بن سماعہ کے علاوہ عبدالرحمن دشتکی اوریحیی بن المغیرہ سے بھی حدیثیں روایتیں کی ہیں۔ ابن ابی حاتم ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ سمعت منہ بالری وھوصدوق (کتاب الجرح والتعدیل )
(3)محمد بن سماعہ:
مشہور ائمہ ثقات میں ہیں۔ حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں لکھتے ہیں۔محمد بن سماعہ بن عبیداللہ بن ہلال تمیمی کوفی حنفی قاضی صدوق ہیں۔ دسویں طبقہ میں ہیں۔ 233میں ان کاانتقال ہوا۔ ان کی عمر 100سال سے زائد تھی۔حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں رقم طراز ہیں۔قاضی ابوعبداللہ حسین بن علی صیمری کہتے ہیں امام ابویوسف اورامام محمد دونوں کے اصحاب میں محمد بن سماعہ بھی ہیں اوران کا شمار ثقہ حفاظ میں ہے۔

(4)امام ابویوسف:
امام ابویوسف کی جلالت شان محتاج تعارف نہیں ہے۔ حافظ ذہبی ان کے بارے میں سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں۔ (8\535): «هو الإمام المجتهد العلامة المحدث قاضي القضاة أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم». وقال إبراهيم بن أبي داود البرلسي: سمعت ابن معين يقول: «ما رأيت في أصحاب الرأي أثبت في الحديث ولا أحفظ ولا أصح رواية من أبي يوسف».
تذكرة الحفاظ (1\293): میں رقم طراز ہیں۔ أن يحيى بن معين قال: «ليس في أصحاب الرأي أكثر حديثاً ولا أثبت من أبي يوسف». وقال علي بن الجعد سمعت أبا يوسف يقول: «من قال "إيماني كإيمان جبريل" فهو صاحب بدعة». وقال المزني (صاحب الشافعي): «أبو يوسف أتبَعُ القوم للحديث». وقال الذهبي في سير أعلام النبلاء (8\537): قال أحمد (بن حنبل): «كان أبو يوسف مُنصِفاً في الحديث».
ابن حبان کا احناف سے عموم ااورامام ابوحنیفہ سے خصوصا جو طرز عمل اورتعصب شدید ہے وہ کسی سے کتب جرح وتعدیل سے واقفیت رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے کتاب الثقات میں امام ابوحنیفہ کی توثیق کی ہے۔مزید براں ابن عدی ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ لاباس بہ اور امام نسائی نے نے بھی ان کو ثقہ قراردیاہے۔
اب ایک راوی بچ گئے ہیں۔ حافظ ابوبکر جعابی۔ ان کے بارے میں توپہلے ہی کچھ باتیں لکھ چکاہوں کہ الزامات محض ظن وتخمین کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں۔ اورمحدثین کرام کے ان سے برگشتگی کے اسباب بھی بیان کئے ہیں۔
قاضی بننا: بعض محدثین کرام ان لوگوں سے جوحکومت اورسلطنت سے واسطہ رکھتے تھے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک امام ابویوسف کے قاضی بننے پر اپنی کسی مجلس میں ان کا تذکرہ سننے کے بھی روادار نہیں تھے۔اوران لوگوں کی امداد بند کردیاکرتے تھے جو حکومت وسلطنت سے کسی قسم کا واسطہ رکھتے تھے۔ حتی کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے پوچھاکہ میں سلطنت کے عمال اورامراء کے کپڑے سیتاہوں توکیامیرابھی شماران کے اعوان وانصار میں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اعوان ونصار میں تو وہ شخص شمار ہوگا جو کپڑوں کے دھاگے بناتاہے تمہاراشمار توظالموں میں ہوگا۔ (بحوالہ الامام المجاہد عبداللہ بن المبارک )

علم کلام کواختیار کرنا ، ۔متکلمین اورمحدثین کرام میں جو شدید اختلاف تھا وہ محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ علم کلام سے اشتغال رکھنے والوں کو زندیق تک کہاکرتے تھے اوران کو دین میں متہم تک سمجھتے تھے۔
ان پر جرح میں نمایاں طورپر سب سے آگے نام حافظ دارقطنی کاہے۔ حافظ دارقطنی کا تعصب مکشوف امر ہے اوریہ بات صرف احناف ہی نہیں کہتے بلکہ خود ایک بڑے حنبلی محدث اور فقیہہ جمال الدین یوسف بن حسن بن عبدالہادی الحنبلی تنویر الصحیفہ میں لکھتے ہیں۔
ومن المتعصبین علی ابی حنیفۃ الدارقطنی(بحوالہ الرفع والتکمیل)
حنفیہ اورشافعیہ کے درمیان تصادم: تاریخی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب علامہ ابوحامد اسفرائنی کو خلافت عباسی میں استقرار حاصل ہواتوانہوں نے اس وقت کے بغداد کے قاضی ابومحمد الاکفانی کاجانشیں ابوالعباس احمد بن محمد البارزی اکفانی کی رضامعلوم کئے بغیر بنادیا۔اورابوحامد نے سلطان محمود بن سبگتگین اوراہل خراسان کو لکھاکہ خلیفہ نے قضاکو حنفیہ سے شافعہ کی جانب منتقل کردیاہے۔ یہ بات خراسان میں بہت مشہور ہوگئی اوراسکی وجہ سے بغداد والے دوگروپ مین بٹ گئے ۔
اسی درمیان نیشاپور کے قاضی اوررئیس الحنفیہ قاضی ابوالعلاء صاعد بن محمد بغداد آئے ۔ابوحامد اسفرائنی اوراحناف کے درمیان یہ اختلاف کسی طرح رفع نہ ہواتوتو خلیفہ قادر نے اعیان سلطنت اورقضاۃ کو جمع کیااورانہیں اپنافرمان سنایاکہ ابوحامد الاسفرائنی نے خلیفہ کو اپنی امانت اورنصیحت کایقین دلایاتھا لیکن اس کے برخلاف کرتے ہوئےاس نے غلط بیانی سے کام لیاکہ خلیفہ نے قضاء کو حنفیہ سے شافعیہ کی جانب منتقل کردیاہے۔خلیفہ اپنے آباء واجداد کی طرح حنیفہ کو ترجیح دینے کے اصول پر گامزن ہے اوربازری کو اکفانی کے جانشیں سے معزول کیاجاتاہے اورابوحامد کے سلسلے مین حکم دیاجاتاہے کہ نہ کوئی ان سے ملاقات کرے اورنہ ان کے سلام کاجواب دے۔ (الخطط للمقریزی الشافعی 4/145)
یہ ابوحامد الاسفرائنی بذات خود بڑے محدث ہیں اورامام دارقطنی کے شاگرد ہیں ۔گویاجس زمانے میں بغداد حنفیہ اورشافعیہ کے طورپر بٹاہواتھا اوران کے درمیان سخت کشیدگی تھی یہ اس کے عینی شاہد تھے۔ پھرخود ان کے عزیز شاگرد کے ساتھ جومعاملہ ہوا۔ اس سے ان کا متاثر ہونا فطری ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ ہم ان میں اوربعد کے شافعیہ مثلاخطیب ،حاکم اوردوسرے متاخرین محدثین میں تعصب زیادہ پاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم امام دارقطنی کے علم وفضل سے انکار کررہے ہیں لیکن تعصب جو ایک حقیقت ہے اس کااثبات کررہے ہیں۔

یہ حدیث حافظ جعابی کی سند سے ہی حافظ ابونعیم اصبہانی نے مسند ابوحنیفہ میں نقل کی ہے۔ وہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
ھذا لایعرف لہ مخرج ،الامن ھذا الوجہ ،عن عبداللہ بن الحارث بن جزء وھو مماتفرد بہ محمد بن سماعہ ،عن ابی یوسف عنا بی حنیفۃ (مسند الامام ابی حنیفۃ ص25)
حافظ ابونعیم اصبہانی کا اس حدیث پر صرف یہ اعتراض ہے کہ یہ حدیث منفرد ہے اوراس میں محمد بن سماعہ امام ابویوسف اورامام ابوحنیفہ کا تفرد ہے۔اگرحافظ جعابی ان کے نزدیک متہم ہوتے تووہ اس کو ضرور بیان کرتے ۔جیساکہ انہوں نے اسی کتاب میں دوسری سندوں پر کلام کرتے ہوئے کیاہے۔
بطور مثال حافظ ابونعیم ص34میں کہتے ہیں۔
وھذا خطا فان ھذا لااصل لہ من حدیث سعید بن المسیب والواھم فیہ المصری فیمااری ۔
ص40 میں ہے۔ تفرد بہ الصباح ،عن ابی حنیفۃ واخطاء فیہ ۔
ص57: ایک راوی پر کلام کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ھوعندی محمد بن القاسم،ابوجعفرالطالقانی ،لیس بشیء متروک۔
رہ گئی یہ بات یہ کہ حدیث منفرد ہے تویہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
یہی روایت اسی سند سے حافظ ابن مقری نے بھی اپنی مسند امام ابوحنیفہ میں ذکر کی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!

(4)امام ابویوسف:
امام ابویوسف کی جلالت شان محتاج تعارف نہیں ہے۔ حافظ ذہبی ان کے بارے میں سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں۔ (8\535): «هو الإمام المجتهد العلامة المحدث قاضي القضاة أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم». وقال إبراهيم بن أبي داود البرلسي: سمعت ابن معين يقول: «ما رأيت في أصحاب الرأي أثبت في الحديث ولا أحفظ ولا أصح رواية من أبي يوسف».
تذكرة الحفاظ (1\293): میں رقم طراز ہیں۔ أن يحيى بن معين قال: «ليس في أصحاب الرأي أكثر حديثاً ولا أثبت من أبي يوسف». وقال علي بن الجعد سمعت أبا يوسف يقول: «من قال "إيماني كإيمان جبريل" فهو صاحب بدعة». وقال المزني (صاحب الشافعي): «أبو يوسف أتبَعُ القوم للحديث». وقال الذهبي في سير أعلام النبلاء (8\537): قال أحمد (بن حنبل): «كان أبو يوسف مُنصِفاً في الحديث».
ابن حبان کا احناف سے عموم ااورامام ابوحنیفہ سے خصوصا جو طرز عمل اورتعصب شدید ہے وہ کسی سے کتب جرح وتعدیل سے واقفیت رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے کتاب الثقات میں امام ابوحنیفہ کی توثیق کی ہے۔مزید براں ابن عدی ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ لاباس بہ اور امام نسائی نے نے بھی ان کو ثقہ قراردیاہے۔
اب ایک راوی بچ گئے ہیں۔ حافظ ابوبکر جعابی۔ ان کے بارے میں توپہلے ہی کچھ باتیں لکھ چکاہوں کہ الزامات محض ظن وتخمین کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں۔ اورمحدثین کرام کے ان سے برگشتگی کے اسباب بھی بیان کئے ہیں۔
قاضی بننا: بعض محدثین کرام ان لوگوں سے جوحکومت اورسلطنت سے واسطہ رکھتے تھے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک امام ابویوسف کے قاضی بننے پر اپنی کسی مجلس میں ان کا تذکرہ سننے کے بھی روادار نہیں تھے۔اوران لوگوں کی امداد بند کردیاکرتے تھے جو حکومت وسلطنت سے کسی قسم کا واسطہ رکھتے تھے۔ حتی کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے پوچھاکہ میں سلطنت کے عمال اورامراء کے کپڑے سیتاہوں توکیامیرابھی شماران کے اعوان وانصار میں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اعوان ونصار میں تو وہ شخص شمار ہوگا جو کپڑوں کے دھاگے بناتاہے تمہاراشمار توظالموں میں ہوگا۔ (بحوالہ الامام المجاہد عبداللہ بن المبارک )

علم کلام کواختیار کرنا ، ۔متکلمین اورمحدثین کرام میں جو شدید اختلاف تھا وہ محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ علم کلام سے اشتغال رکھنے والوں کو زندیق تک کہاکرتے تھے اوران کو دین میں متہم تک سمجھتے تھے۔
ان پر جرح میں نمایاں طورپر سب سے آگے نام حافظ دارقطنی کاہے۔ حافظ دارقطنی کا تعصب مکشوف امر ہے اوریہ بات صرف احناف ہی نہیں کہتے بلکہ خود ایک بڑے حنبلی محدث اور فقیہہ جمال الدین یوسف بن حسن بن عبدالہادی الحنبلی تنویر الصحیفہ میں لکھتے ہیں۔
ومن المتعصبین علی ابی حنیفۃ الدارقطنی(بحوالہ الرفع والتکمیل)
حنفیہ اورشافعیہ کے درمیان تصادم: تاریخی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب علامہ ابوحامد اسفرائنی کو خلافت عباسی میں استقرار حاصل ہواتوانہوں نے اس وقت کے بغداد کے قاضی ابومحمد الاکفانی کاجانشیں ابوالعباس احمد بن محمد البارزی اکفانی کی رضامعلوم کئے بغیر بنادیا۔اورابوحامد نے سلطان محمود بن سبگتگین اوراہل خراسان کو لکھاکہ خلیفہ نے قضاکو حنفیہ سے شافعہ کی جانب منتقل کردیاہے۔ یہ بات خراسان میں بہت مشہور ہوگئی اوراسکی وجہ سے بغداد والے دوگروپ مین بٹ گئے ۔
اسی درمیان نیشاپور کے قاضی اوررئیس الحنفیہ قاضی ابوالعلاء صاعد بن محمد بغداد آئے ۔ابوحامد اسفرائنی اوراحناف کے درمیان یہ اختلاف کسی طرح رفع نہ ہواتوتو خلیفہ قادر نے اعیان سلطنت اورقضاۃ کو جمع کیااورانہیں اپنافرمان سنایاکہ ابوحامد الاسفرائنی نے خلیفہ کو اپنی امانت اورنصیحت کایقین دلایاتھا لیکن اس کے برخلاف کرتے ہوئےاس نے غلط بیانی سے کام لیاکہ خلیفہ نے قضاء کو حنفیہ سے شافعیہ کی جانب منتقل کردیاہے۔خلیفہ اپنے آباء واجداد کی طرح حنیفہ کو ترجیح دینے کے اصول پر گامزن ہے اوربازری کو اکفانی کے جانشیں سے معزول کیاجاتاہے اورابوحامد کے سلسلے مین حکم دیاجاتاہے کہ نہ کوئی ان سے ملاقات کرے اورنہ ان کے سلام کاجواب دے۔ (الخطط للمقریزی الشافعی 4/145)
یہ ابوحامد الاسفرائنی بذات خود بڑے محدث ہیں اورامام دارقطنی کے شاگرد ہیں ۔گویاجس زمانے میں بغداد حنفیہ اورشافعیہ کے طورپر بٹاہواتھا اوران کے درمیان سخت کشیدگی تھی یہ اس کے عینی شاہد تھے۔ پھرخود ان کے عزیز شاگرد کے ساتھ جومعاملہ ہوا۔ اس سے ان کا متاثر ہونا فطری ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ ہم ان میں اوربعد کے شافعیہ مثلاخطیب ،حاکم اوردوسرے متاخرین محدثین میں تعصب زیادہ پاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم امام دارقطنی کے علم وفضل سے انکار کررہے ہیں لیکن تعصب جو ایک حقیقت ہے اس کااثبات کررہے ہیں۔

یہ حدیث حافظ جعابی کی سند سے ہی حافظ ابونعیم اصبہانی نے مسند ابوحنیفہ میں نقل کی ہے۔ وہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
ھذا لایعرف لہ مخرج ،الامن ھذا الوجہ ،عن عبداللہ بن الحارث بن جزء وھو مماتفرد بہ محمد بن سماعہ ،عن ابی یوسف عنا بی حنیفۃ (مسند الامام ابی حنیفۃ ص25)
حافظ ابونعیم اصبہانی کا اس حدیث پر صرف یہ اعتراض ہے کہ یہ حدیث منفرد ہے اوراس میں محمد بن سماعہ امام ابویوسف اورامام ابوحنیفہ کا تفرد ہے۔اگرحافظ جعابی ان کے نزدیک متہم ہوتے تووہ اس کو ضرور بیان کرتے ۔جیساکہ انہوں نے اسی کتاب میں دوسری سندوں پر کلام کرتے ہوئے کیاہے۔
بطور مثال حافظ ابونعیم ص34میں کہتے ہیں۔
وھذا خطا فان ھذا لااصل لہ من حدیث سعید بن المسیب والواھم فیہ المصری فیمااری ۔
ص40 میں ہے۔ تفرد بہ الصباح ،عن ابی حنیفۃ واخطاء فیہ ۔
ص57: ایک راوی پر کلام کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ھوعندی محمد بن القاسم،ابوجعفرالطالقانی ،لیس بشیء متروک۔
رہ گئی یہ بات یہ کہ حدیث منفرد ہے تویہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
یہی روایت اسی سند سے حافظ ابن مقری نے بھی اپنی مسند امام ابوحنیفہ میں ذکر کی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاء اللہ ! جمشید میاں امام الذھبي ، اور ابن عدی کے اقوال کو قبول کرتے ہیں! جن سے وہ اپنے ایک امام قاضی ابو یوسف کی توثیق ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ قاضی ابو یوسف پر تو بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے جس سے سن کر یہ واقعہ قاضی ابو یوسف بیان کر رہے ہیں، یعنی کہ حنفیوں کے امام اعظم، تو ذرا اس بات کا ہی ذرا جائزہ لے لیا جائے کہ آیا وہ بھی کوئی قابل اعتبار ہستی ہیں یا نہیں۔ میں زیادہ نہیں بس ، ان دو اماموں کے حوالے ہی نقل کرتا ہوں، یعنی امام الذھبي اور امام ابن عدی رحمۃاللہ علیہما کے:
وإسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة ليس له من الروايات شيء ليس هو، ولاَ أبوه حماد، ولاَ جده أبو حنيفة من أهل الروايات، وثلاثتهم قد ذكرتهم في كتابي هذا في جملة الضعفاء.
جلد 01 صفحہ 510
الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفي.
عن أبيه.
عن جده.قال ابن عدي: ثلاثتهم ضعفاء.
جلد 01 صفحہ 226
الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
النعمان بن ثابت [ت، س] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.
إمام أهل الرأى.
ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدي، وآخرون.

جلد 01 صفحہ 265
الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
جمشید میاں! اب بتلایئے! امام ابن عدی، امام نسائی، امام الذھبی اور بھی دیگر ائمہ آپ کے امام اعظم کو ضعیف بتلا رہے ہیں ، آپ کو ان کی یہ جرح تسلیم ہے ؟ ویسے جب آپ کو اپنے امام قاضی ابو یوسف کے معاملے میں قبول ہے تو یقینا اپنے امام اعظم کے معاملے میں بھی قبول ہوگی!! اگر نہیں تو پھر میں کہہ دوں!!
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!!

باقی آپ محدثین کو متعصب قرار دے کر اپنے اماموں کو ثقہ ثابت نہیں کر سکتے، اہل الحدیث سے اہل الرائے کا بغض و عداوت کوئی نئی بات نہیں ہے، ہمیشہ دلائل کی دنیا میں ناکامی کی خفت مٹانے کے لئے اہل الرائے نے ایسی بدگوئی ہی کی ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں نا میاں!
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
يعقوب بن إبراهيم أبو يوسف القاضي أنصاري.
حدثنا أحمد بن حفص، حدثنا عبد الله بن سعيد الأشج، حدثنا الحسن بن الربيع قال قيل لابن مبارك أبو يوسف أعلم أم محمد؟ قال: لا تقل أيهما أعلم ولكن قل أيهما اكذب.
حدثنا علان، حدثنا ابن أبي مريم سألت يحيى بن معين، عن أبي يوسف؟ فقال: لا يكتب حديثه.
وذكر حمزة بن إسماعيل الطبري عن محمد بن أبي منصور، عن أبي دحيم سمعت أبا حنيفة يقول أبو يوسف يكذب علي.
حدثنا الجنيدي، حدثنا البخاري، حدثني عيسى بن الجنيد سمعت أبا نعيم يقول: سمعت النعمان يقول ألا تعجبون من يعقوب يقول علي ما لا أقول.

الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ)
جمشیدمیاں! ابن عدی کی کتاب سے جو عبارت پیش کی ہے، مہربانی فرما کر اس کا ترجمہ کر دیجئے، پھر برصغیر کی عوام کو بھی کچھ اندازہ تو ہو ہی جائے گا کہ یہ قاضی ابو یوسف آخر کون سی ہستی تھی۔ کبھی فرست ملی تو تاریخ الخلفاء کا اردو ترجمہ بھی شایع ہوچکا ہے، اس کے اسکین صفحات بھی لگا دوں گا۔ مگر فی الوقت آپ اس عبارت کا ترجمہ کر دیں! ہم آپ کو دعائیں دیں گے!!


ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس روایت پر کچھ اعتراضات بھی کئے گئے ہیں۔ ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں احمد بن ابی الصلت کے تذکرہ میں اس حدیث کو نقل کیاہے اوراس کے بعد کہاہے۔
قلت ھذاکذب فان ابن جزء مات بمصر ولابی حنیفہ ست سنین والافۃ من احمد بن ابی الصلت کذاب (میزان الاعتدال 1/285)
لیکن اس کے بارے میں ہم نے جوسند پیش کی ہے وہ ابن الصلت سے ماخوذ نہیں ہے لہذا اس بارے میں ابن الصلت کو متہم نہیں کیاجاسکتا۔
حافظ ذہبی نے دوسرااعتراض یہ کیاہے کہ حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء کا انتقال سنہ 86ہجری میں ہوا اوراس وقت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی عمر6سال تھی۔
لیکن حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء کے تاریخ وفات کو صرف سنہ 86ہجری تک محدود کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے سنہ وفات میں محدثین کے درمیان اختلاف رہاہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حافظ عراقی نے تخریج احادیث الاحیاء میں عبداللہ بن الحارث بن جزء کی تاریخ وفات کے سلسلہ میں یہاں تک کہہ دیا
وقد توفی عبداللہ بن الحارث قبل سنۃ تسعین بلاخلاف ۔
حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ محدث علی بن محمد بن عراق کنانی المتوفی 963ہجری نے اپنی کتاب تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الموضوعہ میں ان کے تاریخ وفات کے بارے میں لکھتے ہیں۔
ونقل شمس الائمۃ الکردری فی مناقب الحدیث ونقل ماتقب بہ کنحو ماھنا ثم نقل عن الحافظ ابی بکر الجعابی وبرہان الاسلام الغزنوی انھما حکیا ان عبداللہ بن الحارث مات سنۃ تسع وتسعین ،قال الکردری وعلی ھذا فتمکن الروایۃ المذکورۃ (قلت ) وھذا یعکر علی قول الحافظ العراقی انہ مات قبل سنۃ تسعین بلاخلاف ۔واللہ اعلم (1/272)
(واضح رہے کہ یہاں علامہ کنانی سے تھوڑی چوک ہوئی ہے کیونکہ مناقب ابی حنیفہ کے مصنف شمس الائمہ محمد بن عبدالستار کردری نہیں بلکہ امام محمد بن محمد بن شہاب بن یوسف کردری بزازی صاحب فتاوی بزاریہ ہیں اوان کا لقب شمس الائمہ نہیں ہے۔)
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی کی تاریخ وفات میں مورخین سے مختلف اقوال منقول ہیں ۔متاخرین نے اس بارے میں زیادہ تر مورخ مصر حافظ ابوسعید عبدالرحمن بن احمد بن یونس المتوفی 347کے بیان پرزیادہ اعتماد کیاہے کیونکہ ان کی تاریخ مصر متاخرین میں زیادہ متداول رہی ہے۔حافظ ابن یونس نے حضرت ابن جزء کی تاریخ وفات سنہ 86ہجری ہی بتائی ہے اوراسی قول کوبعد مین زیادہ شہرت مل گئی۔ ورنہ ان کے سنہ وفات کے بارے میں 85/86/87/88/89کے اقوال خود حافظ عراقی نے بھی نقل کئے ہیں۔ اورامام کردری نے جیساکہ ابھی گزرا برہان الاسلام غزنوی اورحافظ ابوبکر جعابی سے ان کی تاریخ وفات 99نقل کی ہے یہ صحیح ہے کہ حافظ ابن یونس مصری ہیں اورحضرت ابن جزء کی وفات بھی مصر میں ہوئی لیکن اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ حافظ جعابی جلالت شان علومکان اوراسماء الرجال تاریخ موالید ووفیات کے علم میں ان سے بدرجہاآگے ہیں۔ چنانچہ خود حافظ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں ابن الجعابی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔
وکان امامافی معرفۃ العلل وثقات الرجال وتواریخھم ومایطعن علی الواحد منھم ،لم یبق فی زمانہ من یتقدمہ۔(تذکرۃ الحفاظ 3/226)اس کے علاوہ مشہور محدث ابوعلی النیشاپوری کہتے ہیں۔
ما رأيت في المشايخ أحفظ من عبدان ، ولا رأيت في أصحابنا أحفظ من أبي بكر بن الجعابي ، وذاك أني حسبته من البغداديين الذين يحفظون شيخا واحدا ، أو ترجمة واحدة ، أو بابا واحدا ، فقال لي أبو إسحاق بن حمزة يوما : يا أبا علي ، لا تغلط ، ابن الجعابي يحفظ حديثا كثيرا . قال : فخرجنا يوما من عند ابن صاعد ، فقلت : يا أبا بكر ، أيش أسند سفيان عن منصور ؟ فمر في الترجمة فما زلت أجره من حديث مصر إلى حديث الشام إلى العراق إلى أفراد الخراسانيين ، وهو يجيب ، إلى أن قلت : فأيش روى الأعمش ، عن أبي صالح عن أبي هريرة ، وأبي سعيد بالشركة ؟ فذكر بضعة عشر حديثا ، فحيرني حفظه .(سیر اعلام النبلاء)
اس کے علاوہ حافظ جعابی نے مختلف ممالک وامصار کا سفر کیاتھا اوروہاں سے علم حدیث حاصل کیاتھا جب کہ اس کے بالمقابل حافظ ابن یونس مصر سے باہر نہیں نکلے ۔چنانچہ ان کے ترجمہ میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
لم یرحل ولایسمع بغیر مصر
لہذا اس بارے میں حافظ جعابی کی بیان کردہ تاریخ پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بالخصوص جب کہ حافظ جعابی اسماء الرجال کے علم مین حافظ ابن یونس سے متقدم ہیں۔ اوراسی کے ساتھ یہ بھی مد نظررہے کہ حافظ ابن یونس نے جوتاریخ بیان کی ہے سنہ 86ہجری کی اس کے بالقمابل حافظ جعابی کی بیان کردہ تاریخ میں زیادتی علم بھی ہے اور دوسری روایت سے اس کی تائید بھی ہورہی ہے۔
پھرجس حدیث پر بحث ہورہی ہے اس کا مخرج عراق ہے اس کی رواحت مین حسب تصریح حافظ ابونعیم اصفہانی ،امام محمد بن سماعہ منفرد ہیں۔ بعد میں اس خاص حدیث کا مخرج ری بن گیاچنانچہ ابن سماعہ سے اس کوجعفررازی نے اورجعفر سے ان کے بیٹے عبیداللہ نے نقل کیاہے اس لئے غالب گمان یہ ہے کہ اس روایت کا حافظ ابن یونس کوعلم نہ ہوسکا ۔
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ حضرات صحابہ کرام کے تاریخ وفات میں کثیر اختلاف واقع ہواہے ۔وجہ یہ ہے کہ اس دور میں طبقات کاعلم مدون نہں ہواتھا۔اس لئے بہت سارے صحابہ کرام کے تاریخ وفات میں شدید اختلاف رونماہواہے۔سید القراء حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔ ان کے تاریخ وفات کے سلسلے میں اختلاف کی کیفیت یہ ہے کہ علامہ محمد بن یوسف شامی شافعی اپنی کتاب سبیل الرشاد فی ہدی خیرالعباد المعروف السیرۃ الشامیہ میں لکھتے ہیں۔
"حضرت ابی بی کعب کا انتقال سنہ 19میں ہواہے۔ بعض نے ان کا سنہ وفات 20اوربعض نے 22بھی بیان کیاہے۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلاف میں سنہ 30ہجری میں انتقال ہواہے۔ ابونعیم اصبہانی نے کہاہے کہ یہی صحیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن عبدالبر نے جہاں اس روایت کو جامع بیان العلم وفضلہ مین ذکر کیاہے وہیں ابن سعد کا بھی حوالہ دے دیاہے ۔ کہ ابن سعد کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک اورحضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء کو دیکھاہے۔ خود طبقات ابن سعد مین جہاں حضرت عبداللہ بن الحارث کے ترجمہ مین ان کا سنہ وفات مذکور نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی صاف ہوجاتاہے کہ ابن سعد کے نزدیک بھی کم ازکم ان کی سنہ وفات وہ نہیں ہے جو حافظ ذہبی بتارہے ہیں ۔ اسی طرح حافظ ابن عبدالبر نے بھی ابن سعد کے حوالہ سے اس کو برضاورغبت نقل کیاہے۔ چنانچہ حافظ عبدالقادر القرشی الجواہرالمضیۃ میں حافظ ابن عبدالبر کے طبقات ابن سعد کے بیان کونقل کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
ھکذا ذکرہ وسکت عنہ
ابن عبدالبر نے اس کونقل کرکے سکوت کیاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے متفق ہیں۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ حافظ عامری نے اپنی تالیف الریاض المستطابہ میں اوراسی طرح صالح بن صلاح العلائی جنہوں نے الریاض المستطابہ کی تلخیص کی ہے اس میں لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء الصحابی کو دیکھاہے اوران سے حضور کی مندرجہ ذیل حدیث سنی ہے ۔ من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لایحتسب (شذرات الذہب فی اخبارمن ذہب)
(الریاض المستطابۃ فی جملۃ من روی فی الصحیحین من الصحابہ مطبع شاہجہانی بھوپال سے 1303میں طبع ہوکر شائع ہوچکی ہے ۔مصنف کا پورانام حافظ یحیی بن ابوبکرعامری یمنی ہے۔ سنہ وفات 893ہے۔ اس کتاب میں یہ عبارت صفحہ 54پر موجود ہے۔)

اس سے یہ بھی معلوم ہوگیاہے کہ یہ دونوں حفاظ حدیث بھی حافظ ذہبی کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء کا انتقال سنہ86میں ہوگیاتھا اس لئے ان سے ملاقات کی بات غلط ہے۔
حافظ ذہبی کو شاید حافظ جعابی اوردوسرے طریق سے یہ حدیث نہ مل سکی ملی توصرف احمد بن الصلت والے طریق سے جس پر محدثین نے سخت جرحیں کی ہیں۔ لہذا انہوں نے ملاقات کی نفی کی۔ اگرانہیں حافظ جعابی والے طریق سے اورحافظ ابن عبدالبر والے طریق سے (جو آگے مذکور ہوگا)روایت مل جاتی تو وہ انشاء اللہ اپنی رائے بدل دیتے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اس روایت پر کچھ اعتراضات بھی کئے گئے ہیں۔ ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
جمشید میاں ! جو ایک اعتراض ہم نے پیش کیا ہے اس کا جواب تو کجا اس کا ترجمہ ہی پیش کر دیں!!
بقیہ دوسرے اعتراض تک کی نوبت ہی نہیں آئی گی ان شاءاللہ!!
يعقوب بن إبراهيم أبو يوسف القاضي أنصاري.
حدثنا أحمد بن حفص، حدثنا عبد الله بن سعيد الأشج، حدثنا الحسن بن الربيع قال قيل لابن مبارك أبو يوسف أعلم أم محمد؟ قال: لا تقل أيهما أعلم ولكن قل أيهما اكذب.
حدثنا علان، حدثنا ابن أبي مريم سألت يحيى بن معين، عن أبي يوسف؟ فقال: لا يكتب حديثه.
وذكر حمزة بن إسماعيل الطبري عن محمد بن أبي منصور، عن أبي دحيم سمعت أبا حنيفة يقول أبو يوسف يكذب علي.
حدثنا الجنيدي، حدثنا البخاري، حدثني عيسى بن الجنيد سمعت أبا نعيم يقول: سمعت النعمان يقول ألا تعجبون من يعقوب يقول علي ما لا أقول.

الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ)

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں یہ حدیث اپنی سند بایں طورپر نقل کی ہے۔
واخبرت عن ابی یعقوب یوسف بن احمد الصیدلانی المکی ،حدثنا ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسی العقیلی،حدثنا ابوعلی عبداللہ بن جعفرالرازی حدثنامحمد بن سماعہ ،عن ابی یوسف قال:سمعت اباحنیفۃ رحمہ اللہ یقول: ثم ذکر الحدیث الی ٓخرہ(جامع بیان العلم وفضلہ ص206)
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں۔

ذکر محمد بن سعد کاتب الواقدی ان اباحنیفۃ رای انس بن مالک وعبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی

اس حدیث کی سند اوراس کے روات کو ہم بیان کرتے چلیں ۔
2حافظ ابن عبدالبرالنمری والقرطبی
علم حدیث اورفقہ میں ان کارسوخ اوردقت نظرمسلم ہے اورعلماء نے ان کی توثیق وتعریف کی ہے۔ یہاں پرنقولات کی حاجت نہیں ہے جس کو تفصیل چاہئے وہ کتب تراجم کی جانب رجوع کرے۔
2ابویوسف المکی ۔
ان کاترجمہ تقی الدین الفاسی نے العقد الثمین فی تاریخ البلدالامین میں لکھاہے
یوسف ابن احمد بن یوسف ابن الدخیل الصیدلانی ،ابویعقوب المکی، روی عن ابی جعفر کتابہ فی الضعفاء ورواہ عنہ ۔۔۔۔وروی عنہ ابوعبداللہ محمد بن احمد القزوینی ،توفی بمکۃ سنہ ثمان وثمانین وثلاث مئہ۔انتھی۔
حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ 3/1020 میں ان کو مسند مکہ کے گراں قدرلقب سے اورسیر اعلام النبلاء 17/27میں محدث مکہ کے وقیع لفظ سے یاد کیاہے اورتاریخ اسلام سنہ 388میں وفات پانے والوں میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کی سیرت پر کتاب لکھی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ صراحتا ان کے بارے میں توثیق کا کوئی جملہ منقول نہیں ہے لیکن جرح کا بھی کوئی لفظ منقول نہیں ہے۔ بلکہ حافظ ذہبی کے صنیع سے پتہ چلتاہے کہ وہ ان کو ایک گونہ ثقہ مانتے ہیں۔ اسی طرح حافظ ابن عبدالبر نے جس طرح ان کی سندسے الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثہ میں روایتیں لیں ہیں ان سے پتہ چلتاہے کہ وہ ان کے نزدیک قابل استدلال اورحجت ہیں۔
ایک اعتراض اس سند پر یہ ہے کہ اس میں حافظ ابن عبدالبر اورحافظ ابن الدخیل کے درمیان کا راوی نامعلوم ہے۔ اوراس کی وجہ سے سند میں مجہول راوی موجود ہے جس کی وجہ سے استدلال نہیں کیاجاسکتا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راوی مجہول نہیں بلکہ معلوم ہے اوریہ راوی ہیں۔
3:حکم بن سعید بن المنذر ابوالعاص
حکم بن سعید بن المنذر نے مشرق کاسفر کیاتھا۔ ان کی ملاقات مکہ میں ابن الدخیل سے ہوئی اوروہیں انہوں نے ان سے ان کی تالیف کردہ کتاب "سیرۃ ابی حنیفۃ" کا ان سے سماع کیااورحکم بن المنذر سے ابن عبدالبر نے اس کتاب کی سماعت کی چنانچہ وہ حکم بن المنذر بن سعید کے واسطہ سے ہی الانتقاء میں ابن الدخیل کی روایات ذکر کرتے ہیں۔
حکم بن المنذر کا ترجمہ کتاب الصلۃ لابن بشکوال1/148 میں موجود ہے ۔

حکم بن منذر بن سعید بن عبداللہ من اھل قرطبۃ ۔یکنی اباالعاصی،ولد قاضی الجماعۃ منذر بن سعید، روی عن ابیہ ،وعن ابی علی البغدادی،ای ابی علی القالی۔ وغیرھما ورحل الی المشرق واخذ بمکۃ عن ابی یعقوب ابن الدخیل وغیرہ، روی عنہ ابوعمر بن عبدالبر، وابوعمر بن سمیق،والبشکلاوی وغھرھم ،کان من اھل المعرفۃ والذکاء ،متقدالذہن، طود علم فی الادب، لایجاری ، سکن طیطۃ مدۃ توفی بمدینۃ سالم فی نحو سنۃ عشرین واربع مئۃ

٤:ابوجعفر العقیلی کتاب الضعفاء کے مولف اورمشہور محدث ہیں محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ ان کی کتاب کتاب الضعفاء مشہور ہیں لیکن اس میں انہوں نے ثقات محدثین کوبھی معمولی وجوہات کی بناء پر ضعفاء میں ذکر کردیاہے جس کی بناء پر حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں متعدد مواقع پر ان کے اس طرز کی نکتہ چینی اوران پر تنقید کی ہے اورایک مقام پر تویہاں تک کہہ گئے۔ افمالک عقل یاعقیلی

اس سے آگے کی سند پہلے ہی بیان کرچکاہوں۔
اس حدیث پر وارد ہونے والے اعتراضات
حافظ قاسم بن قطلوبغا اس سند پر شک ظاہر کیاہے کہ اس میں جعفر اورمحمد بن سماعہ کے درمیان احمد بن الصلت کاواسطہ ہے جو نقل ہونے سے رہ گیاہے ۔انہوں نے دلیل کے طورپر تاریخ خطیب کا حوالہ دیا ہے کہ ا س میں جو سند مذکورہ ہے وہ احمد بن الصلت کے واسطے سے ہے۔
یہ اعتراض غلط فہمی پرمبنی ہے۔ خطیب نے جوسند نقل کی ہے وہ حفاظ ثلاثہ ابن المقری ،ابن الجعابی، اورابوجعفر عقیلی کی بیان کردہ سند سے بالکل مختلف ہے۔ ان حضرات کی سند میں ابوعلی عبیداللہ بن جعفر الرازی اپنے والد جعفر بن محمد رازی سے روایت کرتے ہیں جب کہ خطیب کی بیان کردہ سند میں عبیداللہ بن جعفر کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے ۔ جعفر کا ذکر ضرور ہے لیکن وہ جعفر بن محمد نہیں بلکہ جعفر بن علی نہیں۔ اسی طرح اول الذکر ری کے رہنے والے ہیں جب کہ دوسرے صاحب بغدادی ہیں۔ خطیب کی سند نقل کردی جاتی ہے کہ تاکہ اہل علم خود غورکرلیں کہ دونوں سندوں میں کیافرق وامتیاز ہے۔

اخبرناالقاضی ابوالعلاء الواسطی، ثنا ابوالقاسم علی بن الحسین الددی المقری بالکوفہ، ثنا ابوالعیاس محمد بن عمر بن الحسین الخطاب البغدادی،ثنا جعفر بن علی القاضی البغدادی،ثنا احمد بن محمد الحمانی،قال ثنا محمد بن سماعہ القاضی،ثنا ابویوسف عن ابی حنیفۃ (تاریخ بغداد)

اس سند کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیاجاسکتاہے کہ ہم نے جو سند حافظ جعابی اورحافظ ابن عبدالبر کے واسطہ سے ذکر کی ہے اس میں اورتاریخ بغداد والی سند میں زمین آسمان کا فرق ہے لہذا تاریخ بغداد والی روایت کو کسی بھی طور جعابی اورحافظ ابن عبدالبر کی سند میں شک کو واسطہ نہیں بنایاجاسکتا۔


خلاصہ بحث​



محدث حرم شیخ الشیوخ ابراہیم بن حسن کورانی متوفی 1101ہجری کے الفاظ میں حسب ذیل ہیں۔

امام ابوحنیفہ کا صحابہ کی ایک جماعتکو پانا اوران میں سے بعض کی زیارت کرنا صحیح اورثابت ہے۔ رہی یہ بات کہ جن حضرات کی زیارت کی ان سے روایت بھی کی تو بعض محدثین اس روایت کی تصحیح کرتے ہیں اوربعض تضعیف ۔ بہرصورت وہ تابعین میں سے ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنہم اجمعین ۔
(نوٹ: محدث کورانی نے اپنی تصنیف مسالک الابرار میں امام اعظم کی تابعیت پر بڑی تفصیل سے کلام کیاہے جس کا حاصل محدث منینی نے اپنے ثبت میں ان الفاظ میں تحریر کردیاہے جو ہم نے نقل کئے۔ بحوالہ التعلیق القویم ص65)
اس امرکا ذکر ضروری ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے اثبات میں جوکچھ بھی لکھاگیاہے وہ ٩٠ فیصد مولانا عبدالشہید نعمانی کی "امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورصحابہ سے ان کی روایت" سے ماخوذ ہے۔ جزاہ اللہ خیرا

اس تحریر پر جواعتراض قابل توجہ ہیں اورکئے گئے ہیں آئندہ ان کا جواب دیاجائے گا اورجوتحریریں فقط مناظرہ بازی اور محض مصرعہ پر مصرعہ لگانے کی خاطر لکھی گئی ہیں۔ ان کے جواب سے راقم الحروف معذور ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس امرکا ذکر ضروری ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے اثبات میں جوکچھ بھی لکھاگیاہے وہ ٩٠ فیصد مولانا عبدالشہید نعمانی کی "امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورصحابہ سے ان کی روایت" سے ماخوذ ہے۔ جزاہ اللہ خیرا
محدث کورانی نے اپنی تصنیف مسالک الابرار میں امام اعظم کی تابعیت پر بڑی تفصیل سے کلام کیاہے جس کا حاصل محدث منینی نے اپنے ثبت میں ان الفاظ میں تحریر کردیاہے جو ہم نے نقل کئے۔ بحوالہ التعلیق القویم ص65)
جمشید بھائی جزاک اللہ ۔۔
یہ کتب کہیں سے مل سکتی ہے ؟
 
Top