حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی
حافظ جعابی متوفی ۳۵۵ہجری اپنی کتاب الانتصار لمذہب ابی حنیفہ میں فرماتے ہیں۔
حدثنی ابوعلی عبیداللہ بن جعفر الرازی من کتاب فیہ حدیث ابی حنیفہ ،حدثنا ابی عن محمد بن سماعہ عنا بی یوسف قال سمعت اباحنیفۃ یقول ،حججت مع ابی سنتہ ستہ وتسعین ولی ست عشرۃ سنۃ فاذا انابشیخ قد اجتماع علیہ الناس فقلت لابی من ھذاالشیخ ،قال ھذا رجل قد صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقال لہ عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی فقلت ،لابی ای شیء عندہ ،قال احادیث سمعھا من النبی صلی اللہ علیہ وسلم قلت قدمنی الیہ حتی اسمع منہ ، فتقدم بین یدی فجعل یفرج عنی الناس حتی دنوت منہ ،فسمعت منہ یقول ،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لایحتسب۔
ترجمہ : مجھ سے ابوعلی عبیداللہ بن جعفرالرازی نے اس کتاب میں جس میں امام ابوحنیفہ کی حدثیں درج تھیں بیان کیاکہ ہم سے ہمارے والد نے محمد بن سماعہ کے حوالہ سے امام ابویوسف سے بیان کیاکہ میں نے امام ابوحنیفہ کو یہ کہتے سناکہ میں نے 96میں جب کہ میری عمر 16سال تھی اپنے والد کے ساتھ حج کیاتوکیادیکھتاہوں کہ ایک بزرگ کے گردلوگوں کا مجمع ہے۔ میں نے اپنے والد سے پچھاکہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیاکہ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔ ان کا نام عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی ہے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھاکہ ان کے پاس کیاچیز ہے(جومجمع لگاہے) انہوں نے جواب دیااحادیث ہیں جن کوانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے۔ میں نے کہا۔مجھے ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں ان سے حدیثیں سنوں۔چنانچہ وہ میرے آگے ہولئے اورمیرے لئے راستہ صاف کرنے لگے یہاں کہ میں ان کے قریب ہوگیا ۔میں نے ان کویہ کہتے ہوئے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے جس نے اللہ کے دین میں تفقہ حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اس کیلئے کافی ہوگا اوراس کو وہاں سے رزق دے گا۔جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔
سندکے رواۃ پر ایک نگاہ:
(1)
ابوعلی عبیداللہ بن جعفر رازی:
یہ ابن الرازی کے نام سے مشہو رہیں۔ ابوبکر ابن ابی الثلج کے پڑوسی تھے حدیث کا سماع عباس بن محمد الدوری ، ابراہیم بن نصرکندی،حسن بن علی بن عفان عامری، حسین بن فہم اوردیگر محدثین سے کیاہے۔ تلامذہ میں مندرجہ ذیل حضرات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ حافظ ابوبکر بن جعابی، حافظ ابن المقری، حافظ ابوجعفرعقیلی،سعد بن محمد صیرفی ابوالعباس بن مکرم۔
ان کاانتقال 321ہجر ی میں ہوا۔ حافظ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ان کا مفصل تذکرہ کیاہے اوران کو
ثقہ کہاہے۔
(2) جعر بن محمد ابوالفضل العبدی الرازی :
یہ عبیداللہ بن جعفر رازی مذکورکے والد اورمشہور محدث عبدالرحمن بن ابی حاتم متوفی 327 صاحب کتاب الجرح والتعدیل کے شیوخ حدیث میں ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنے وطن رے میں ان سے حدیث کا سماع کیاتھا۔ جعفر نے محمد بن سماعہ کے علاوہ عبدالرحمن دشتکی اوریحیی بن المغیرہ سے بھی حدیثیں روایتیں کی ہیں۔ ابن ابی حاتم ان کے بارے میں کہتے ہیں۔
سمعت منہ بالری وھوصدوق (کتاب الجرح والتعدیل )
(3)محمد بن سماعہ:
مشہور ائمہ ثقات میں ہیں۔ حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں لکھتے
ہیں۔محمد بن سماعہ بن عبیداللہ بن ہلال تمیمی کوفی حنفی قاضی صدوق ہیں۔ دسویں طبقہ میں ہیں۔ 233میں ان کاانتقال ہوا۔ ان کی عمر 100سال سے زائد تھی۔حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں رقم طراز ہیں۔قاضی ابوعبداللہ حسین بن علی صیمری کہتے ہیں امام ابویوسف اورامام محمد دونوں کے اصحاب میں محمد بن سماعہ بھی ہیں اوران کا شمار
ثقہ حفاظ میں ہے۔
(4)امام ابویوسف:
امام ابویوسف کی جلالت شان محتاج تعارف نہیں ہے۔ حافظ ذہبی ان کے بارے میں سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں۔ (8\535):
«هو الإمام المجتهد العلامة المحدث قاضي القضاة أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم». وقال إبراهيم بن أبي داود البرلسي: سمعت ابن معين يقول: «ما رأيت في أصحاب الرأي أثبت في الحديث ولا أحفظ ولا أصح رواية من أبي يوسف».
تذكرة الحفاظ (1\293): میں رقم طراز ہیں۔ أن يحيى بن معين قال: «ليس في أصحاب الرأي أكثر حديثاً ولا أثبت من أبي يوسف». وقال علي بن الجعد سمعت أبا يوسف يقول: «من قال "إيماني كإيمان جبريل" فهو صاحب بدعة». وقال المزني (صاحب الشافعي): «أبو يوسف أتبَعُ القوم للحديث». وقال الذهبي في سير أعلام النبلاء (8\537): قال أحمد (بن حنبل): «كان أبو يوسف مُنصِفاً في الحديث».
ابن حبان کا احناف سے عموم ااورامام ابوحنیفہ سے خصوصا جو طرز عمل اورتعصب شدید ہے وہ کسی سے کتب جرح وتعدیل سے واقفیت رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے کتاب الثقات میں امام ابوحنیفہ کی
توثیق کی ہے۔مزید براں ابن عدی ان کے بارے میں کہتے ہیں۔
لاباس بہ اور امام نسائی نے نے بھی ان کو
ثقہ قراردیاہے۔
اب ایک راوی بچ گئے ہیں۔ حافظ ابوبکر جعابی۔ ان کے بارے میں توپہلے ہی کچھ باتیں لکھ چکاہوں کہ الزامات محض ظن وتخمین کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں۔ اورمحدثین کرام کے ان سے برگشتگی کے اسباب بھی بیان کئے ہیں۔
قاضی بننا: بعض محدثین کرام ان لوگوں سے جوحکومت اورسلطنت سے واسطہ رکھتے تھے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک امام ابویوسف کے قاضی بننے پر اپنی کسی مجلس میں ان کا تذکرہ سننے کے بھی روادار نہیں تھے۔اوران لوگوں کی امداد بند کردیاکرتے تھے جو حکومت وسلطنت سے کسی قسم کا واسطہ رکھتے تھے۔ حتی کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے پوچھاکہ میں سلطنت کے عمال اورامراء کے کپڑے سیتاہوں توکیامیرابھی شماران کے اعوان وانصار میں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اعوان ونصار میں تو وہ شخص شمار ہوگا جو کپڑوں کے دھاگے بناتاہے تمہاراشمار توظالموں میں ہوگا۔ (بحوالہ الامام المجاہد عبداللہ بن المبارک )
علم کلام کواختیار کرنا ، ۔متکلمین اورمحدثین کرام میں جو شدید اختلاف تھا وہ محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ علم کلام سے اشتغال رکھنے والوں کو زندیق تک کہاکرتے تھے اوران کو دین میں متہم تک سمجھتے تھے۔
ان پر جرح میں نمایاں طورپر سب سے آگے نام حافظ دارقطنی کاہے۔ حافظ دارقطنی کا تعصب مکشوف امر ہے اوریہ بات صرف احناف ہی نہیں کہتے بلکہ خود ایک بڑے حنبلی محدث اور فقیہہ جمال الدین یوسف بن حسن بن عبدالہادی الحنبلی تنویر الصحیفہ میں لکھتے ہیں۔
ومن المتعصبین علی ابی حنیفۃ الدارقطنی(بحوالہ الرفع والتکمیل)
حنفیہ اورشافعیہ کے درمیان تصادم: تاریخی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب علامہ ابوحامد اسفرائنی کو خلافت عباسی میں استقرار حاصل ہواتوانہوں نے اس وقت کے بغداد کے قاضی ابومحمد الاکفانی کاجانشیں ابوالعباس احمد بن محمد البارزی اکفانی کی رضامعلوم کئے بغیر بنادیا۔اورابوحامد نے سلطان محمود بن سبگتگین اوراہل خراسان کو لکھاکہ خلیفہ نے قضاکو حنفیہ سے شافعہ کی جانب منتقل کردیاہے۔ یہ بات خراسان میں بہت مشہور ہوگئی اوراسکی وجہ سے بغداد والے دوگروپ مین بٹ گئے ۔
اسی درمیان نیشاپور کے قاضی اوررئیس الحنفیہ قاضی ابوالعلاء صاعد بن محمد بغداد آئے ۔ابوحامد اسفرائنی اوراحناف کے درمیان یہ اختلاف کسی طرح رفع نہ ہواتوتو خلیفہ قادر نے اعیان سلطنت اورقضاۃ کو جمع کیااورانہیں اپنافرمان سنایاکہ ابوحامد الاسفرائنی نے خلیفہ کو اپنی امانت اورنصیحت کایقین دلایاتھا لیکن اس کے برخلاف کرتے ہوئےاس نے غلط بیانی سے کام لیاکہ خلیفہ نے قضاء کو حنفیہ سے شافعیہ کی جانب منتقل کردیاہے۔خلیفہ اپنے آباء واجداد کی طرح حنیفہ کو ترجیح دینے کے اصول پر گامزن ہے اوربازری کو اکفانی کے جانشیں سے معزول کیاجاتاہے اورابوحامد کے سلسلے مین حکم دیاجاتاہے کہ نہ کوئی ان سے ملاقات کرے اورنہ ان کے سلام کاجواب دے۔ (الخطط للمقریزی الشافعی 4/145)
یہ ابوحامد الاسفرائنی بذات خود بڑے محدث ہیں اورامام دارقطنی کے شاگرد ہیں ۔گویاجس زمانے میں بغداد حنفیہ اورشافعیہ کے طورپر بٹاہواتھا اوران کے درمیان سخت کشیدگی تھی یہ اس کے عینی شاہد تھے۔ پھرخود ان کے عزیز شاگرد کے ساتھ جومعاملہ ہوا۔ اس سے ان کا متاثر ہونا فطری ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ ہم ان میں اوربعد کے شافعیہ مثلاخطیب ،حاکم اوردوسرے متاخرین محدثین میں تعصب زیادہ پاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم امام دارقطنی کے علم وفضل سے انکار کررہے ہیں لیکن تعصب جو ایک حقیقت ہے اس کااثبات کررہے ہیں۔
یہ حدیث حافظ جعابی کی سند سے ہی
حافظ ابونعیم اصبہانی نے مسند ابوحنیفہ میں نقل کی ہے۔ وہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
ھذا لایعرف لہ مخرج ،الامن ھذا الوجہ ،عن عبداللہ بن الحارث بن جزء وھو مماتفرد بہ محمد بن سماعہ ،عن ابی یوسف عنا بی حنیفۃ (مسند الامام ابی حنیفۃ ص25)
حافظ ابونعیم اصبہانی کا اس حدیث پر صرف یہ اعتراض ہے کہ یہ حدیث منفرد ہے اوراس میں محمد بن سماعہ امام ابویوسف اورامام ابوحنیفہ کا تفرد ہے۔اگرحافظ جعابی ان کے نزدیک متہم ہوتے تووہ اس کو ضرور بیان کرتے ۔جیساکہ انہوں نے اسی کتاب میں دوسری سندوں پر کلام کرتے ہوئے کیاہے۔
بطور مثال حافظ ابونعیم ص34میں کہتے ہیں۔
وھذا خطا فان ھذا لااصل لہ من حدیث سعید بن المسیب والواھم فیہ المصری فیمااری ۔
ص40 میں ہے۔
تفرد بہ الصباح ،عن ابی حنیفۃ واخطاء فیہ ۔
ص57: ایک راوی پر کلام کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ھوعندی محمد بن القاسم،ابوجعفرالطالقانی ،لیس بشیء متروک۔
رہ گئی یہ بات یہ کہ حدیث منفرد ہے تویہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
یہی روایت اسی سند سے حافظ ابن مقری نے بھی اپنی مسند امام ابوحنیفہ میں ذکر کی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔