السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیاہے کہ حافظ ابن حجراورحافظ ذہبی کے فیصلہ پر حدیث کی تصحیح کی گئی اوردوسری جگہ ان کی ہی مخالفت کی گئی۔
جمشید میاں! پڑیں پتھر عقل ایسی پہ کہ تم سمجھو تو کیا سمجھو!
اعتراض یہ نہیں کہ ابن حجر اور حافظ ذہبی کے ایک فیصلہ پر آپ نے تصحیح کی ہے اور دوسری جگہ ان کے فیصلہ کی مخالفت! بلکہ اعتراض یہ ہے کہ آپ اپنی خواہش و ھوا کی بیناد پر ان کے کسی فیصلہ کو قبول کرتے ہو اور خواہش و ھوا کی بنیاد پر دوسرے فیصلہ کو رد!
میاں جی اعتراض آپ کی خواہش و ھوا پر پر ہے!!!
جہاں تک بات رہی اہل السنۃ و الجماعۃ کی تو وہ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد!! فتدبر!!
مولانا روم نے مثنوی میں ایک قصہ لکھاہے۔ ایک حبشی نہایت بدصورت کالاکلوٹا کسی جنگل میں چلاجارہاتھا۔راستے میں اسے شیشے پڑاہوملا۔اس نے اٹھاکر دیکھاتواپنی ہی صورت نظرآئی ۔ کہنے لگا توواقعی بڑابد صورت ہے اسی لئے تیرے مالکوں نے تجھے یہاں پھینک دیاہے۔
جمشید میاں! یہ مولانا رومی کی مثنوی کے اس قصہ کا اطلاق بھی فقہا احناف و امام اعظم احناف پرہی ہوتا ہے، کہ جب جرح و تعدیل کے آئینہ میں وہ بھی اپنی صورت دیکھیں تو ان کی صورت بہت بد صورت نظر آئے گی!! ہاں حنفیہ نے کام یہ کیا کہ اپنے ان "بد صورت" اماموں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے اصول الحدیث اور جرح و تعدیل سے ہی چھٹکارا حاصل کرنا چاہا ہے!
جو اعتراض اصل میں "لمحات" کے رئیس ندوی پر تھا کہ جب بات صحابہ سے روایت کی آتی ہے توحافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی کا حوالہ پیش کرتے ہیں صحابہ سے ان کی روایت کا ثبوت نہیں ہے۔ اورجب بات حضرت انس بن مالک کی زیارت کی آتی ہے اورحافظ ذہبی اورحافظ ابن حجر کی جانب سے اس حدیث کی تقویت وتصحیح ہوتی ہے تو پھر ان دونوں حضرات پراعتراضات اوران کی غلطیاں شمار کرنے شروع کردیتے ہیں۔
اللہ فقہ حنفیہ اور فقہا احناف کے فریب کا پردہ چاک کرنے والے رئیس ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو انبیاء کا ساتھ عطا کرے! آمین!
جمشید میاں! رئیس ندوی ہوں یا کوئی اور اہل السنۃ والجماعۃ کا عالم، وہ کسی کے قول کو جب قبول کرتا ہے تو اصول الحدیث کی بنیاد پراور جب رد کرتا ہے تو اصول الحدیث کی بنیاد پر!
جبکہ مقلدین حنفیہ ، جس میں آپ بھی شامل ہیں، کسی قول کو قبول کرتے ہو اپنی خواہش کی بنیاد پر،خواہ وہ اصول الحدیث کی رو سے ثابت نہ ہو! اور کسی قول کو رد کرتے ہو خوا وہ اصول الحدیث کی رو سے ثابت اور صحیح ہو!
مقلدین حنفیہ کے نزدیک کسی کے قول کی کیا بات ہے، مقلدین حنفیہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث خواہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی کیوں نہ ہو اپنی خواہش و ہوا کی بنیا پر رد کرتے ہیں۔ دیکھئے اصول فقہ حنفیہ کہ ہر وہ حدیث جو کسی بقول حنفیہ کے "غیر فقہ صحابی ، جیسے ابو ھریرہ اور انس بن مالک سے مروی ہو، اگر فقہا احناف کی عقل کے اٹکل پچھو کے خلاف آئے گی تو اسے رد کردیا جائے گا! اللہ ایسے کفر یہ اصول کو گڑھنے والوں کو غارت کرے! ایسے کفریہ اصول کو قبول کرنے والوں کو غارت کرے! آمین!
کچھ لوگوں نے میری بات کواس تناظر میں (جس میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے) سمجھنے کے بجائے حبشی کی طرح آئینہ میں اپنی شکل وصورت دیکھنی شروع کردی اوراعتراضات گنانے لگے۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی اعتراض کیاہے کہ ایک امام جرح وتعدیل کا جب قول قبول کیاہے تواس کے دوسرے اقوال بھی قبول کیجئے۔ اس کے جواب میں ہم صرف ایک سوال کرتے ہیں اوراس کے جواب میں ہی ہماراجواب بھی پوشیدہ ہوگا۔
جمشید میاں! یہ اعتراض کسی نے نہیں کیا اعتراض وہ ہی کیا ہے جو اوپر بیان کیا ہے!
ابوحاتم اورابوزرعہ نے امام بخاری پر جرح کی ہے تو کیاابوحاتم اورابوزرعہ کے تمام اقوال کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے یاپھر قبول کیاجائے تواس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
جمشید میاں ہم آپ کو ایک بار پھر بتلا دیتے ہیں، اسے اپنے پلے باندھ لیں!
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
آپ دوسرے تھریڈ میں امام بخاری پر جرح کریں، ان شاء اللہ ! امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کا دفاع ہم کریں گے!
امام نسائی نے احمد بن صالح مصری پر کلام کیاہے تو کیاامام نسائی کی تمام جروحات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے یاپھر قبول کرنے کی صورت میں اس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
امام مالک نے ابن اسحاق صاحب المغازی پر سخت جرح کی ہے توکیا ان کی جرح وتعدیل کی آرائ کو نذرآتش کردیاجائے یاپھر قبول کیاجائے تواس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
امام ابن معین نے امام شافعی پر جرح کی ہے توکیاابن معین کی تمام اقوال جرح وتعدیل کوسپرد خاک کردیاجائے یاپھر قبول کرنے کی صورت میں اس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
ابونعیم اورابن مندہ نے ایک دوسرے پر سخت کلام کیاہے توکیاقبول کی صورت میں دونوں کی ایک دوسرے کی جرح قبول کیاجائے اوردوسری صورت میں ان کے تمام جرح وتعدیل کے اقوال کوہباءا منثورا قراردیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
وہلم جرآ: مثالیں تواوربھی ہیں۔ لیکن اسی پر ہم اکتفاء کرتے ہیں اورجب معترض ان کے تفصیلی جوابات دے دے گا توپھر ہمیں انشاء اللہ اس کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ ا سکے جواب میں ہمارابھی جواب چھپاہوگا۔ والسلام
آپ اعتراض کریں تو صحیح ! امام بخاری سے ہی شروع کریں! اور اعتراض خیالی نہیں کیجئے گا۔ خیالی باتوں میں علم الکلام کی جھک مارنا تو فقہا احناف کا پسندیدہ مشغلہ ہے، مگر یہ ہمارا طریق نہیں! آپ امام بخاری پر اعتراض وہ پیش کریں جس کے آپ قائل ہوں، بنائیں ایک تھریڈ،" امام بخاری پر ثابت شدہ جرح" کے عنوان سے۔ اور پھر دیکھئے گا !!!!
آپ اعتراضات کا جواب دیں!
اور میں وہ اعتراضات جس کا میں قائل بھی ہوں پیش کر رہا ہوں، ایک بار پھر پیش کرتا ہوں جواب دیں اس کا!
وإسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة ليس له من الروايات شيء ليس هو، ولاَ أبوه حماد، ولاَ جده أبو حنيفة من أهل الروايات، وثلاثتهم قد ذكرتهم في كتابي هذا في جملة الضعفاء.
جلد 01 صفحہ 510
الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفي.
عن أبيه.
عن جده.قال ابن عدي: ثلاثتهم ضعفاء.
جلد 01 صفحہ 226
الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
النعمان بن ثابت [ت، س] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.
إمام أهل الرأى.
ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدي، وآخرون.
جلد 01 صفحہ 265
الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
يعقوب بن إبراهيم أبو يوسف القاضي أنصاري.
حدثنا أحمد بن حفص، حدثنا عبد الله بن سعيد الأشج، حدثنا الحسن بن الربيع قال قيل لابن مبارك أبو يوسف أعلم أم محمد؟ قال: لا تقل أيهما أعلم ولكن قل أيهما اكذب.
حدثنا علان، حدثنا ابن أبي مريم سألت يحيى بن معين، عن أبي يوسف؟ فقال: لا يكتب حديثه.
وذكر حمزة بن إسماعيل الطبري عن محمد بن أبي منصور، عن أبي دحيم سمعت أبا حنيفة يقول أبو يوسف يكذب علي.
حدثنا الجنيدي، حدثنا البخاري، حدثني عيسى بن الجنيد سمعت أبا نعيم يقول: سمعت النعمان يقول ألا تعجبون من يعقوب يقول علي ما لا أقول.
الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ)
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔