• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کس کتاب کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟۔ مولانا عبدالشہید نعمانی کی کتاب یاپھر محدث کورانی کی کتاب
میرے خیال میں ندوی صاحب کو کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے، سوال جمشید صاحب سے ہوا تھا اور جواب انہوں نے دے دیا۔ سوال یہ تھا۔
جمشید بھائی جزاک اللہ ۔۔
یہ کتب کہیں سے مل سکتی ہے ؟
جمشید بھائی ان کتابوں کے اگر کوئی آن لائن نسخے پی۔ڈی۔ایف وغیرہ میں موجود ہوں تو ان کی نشاندہی فرمائیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
غلط فہمی کا کوئی سوال نہیں ہے ۔ انٹرنیٹ پر سرچ کے دوران مجھے یہ کتاب ملی اس لئے میں نے بتادیا۔ میرے خیال سے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے۔ اب اگر خضرحیات صاحب جمشید صاحب سے ہی اپنے سوال کا جواب چاہتے ہوں تو دوسری بات ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیاہے کہ حافظ ابن حجراورحافظ ذہبی کے فیصلہ پر حدیث کی تصحیح کی گئی اوردوسری جگہ ان کی ہی مخالفت کی گئی۔
مولانا روم نے مثنوی میں ایک قصہ لکھاہے۔ ایک حبشی نہایت بدصورت کالاکلوٹا کسی جنگل میں چلاجارہاتھا۔راستے میں اسے شیشے پڑاہوملا۔اس نے اٹھاکر دیکھاتواپنی ہی صورت نظرآئی ۔ کہنے لگا توواقعی بڑابد صورت ہے اسی لئے تیرے مالکوں نے تجھے یہاں پھینک دیاہے۔
جو اعتراض اصل میں "لمحات" کے رئیس ندوی پر تھا کہ جب بات صحابہ سے روایت کی آتی ہے توحافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی کا حوالہ پیش کرتے ہیں صحابہ سے ان کی روایت کا ثبوت نہیں ہے۔ اورجب بات حضرت انس بن مالک کی زیارت کی آتی ہے اورحافظ ذہبی اورحافظ ابن حجر کی جانب سے اس حدیث کی تقویت وتصحیح ہوتی ہے تو پھر ان دونوں حضرات پراعتراضات اوران کی غلطیاں شمار کرنے شروع کردیتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے میری بات کواس تناظر میں (جس میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے) سمجھنے کے بجائے حبشی کی طرح آئینہ میں اپنی شکل وصورت دیکھنی شروع کردی اوراعتراضات گنانے لگے۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی اعتراض کیاہے کہ ایک امام جرح وتعدیل کا جب قول قبول کیاہے تواس کے دوسرے اقوال بھی قبول کیجئے۔ اس کے جواب میں ہم صرف ایک سوال کرتے ہیں اوراس کے جواب میں ہی ہماراجواب بھی پوشیدہ ہوگا۔
ابوحاتم اورابوزرعہ نے امام بخاری پر جرح کی ہے تو کیاابوحاتم اورابوزرعہ کے تمام اقوال کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے یاپھر قبول کیاجائے تواس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
امام نسائی نے احمد بن صالح مصری پر کلام کیاہے تو کیاامام نسائی کی تمام جروحات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے یاپھر قبول کرنے کی صورت میں اس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
امام مالک نے ابن اسحاق صاحب المغازی پر سخت جرح کی ہے توکیا ان کی جرح وتعدیل کی آرائ کو نذرآتش کردیاجائے یاپھر قبول کیاجائے تواس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
امام ابن معین نے امام شافعی پر جرح کی ہے توکیاابن معین کی تمام اقوال جرح وتعدیل کوسپرد خاک کردیاجائے یاپھر قبول کرنے کی صورت میں اس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
ابونعیم اورابن مندہ نے ایک دوسرے پر سخت کلام کیاہے توکیاقبول کی صورت میں دونوں کی ایک دوسرے کی جرح قبول کیاجائے اوردوسری صورت میں ان کے تمام جرح وتعدیل کے اقوال کوہباءا منثورا قراردیاجائے۔
وہلم جرآ: مثالیں تواوربھی ہیں۔ لیکن اسی پر ہم اکتفاء کرتے ہیں اورجب معترض ان کے تفصیلی جوابات دے دے گا توپھر ہمیں انشاء اللہ اس کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ ا سکے جواب میں ہمارابھی جواب چھپاہوگا۔ والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیاہے کہ حافظ ابن حجراورحافظ ذہبی کے فیصلہ پر حدیث کی تصحیح کی گئی اوردوسری جگہ ان کی ہی مخالفت کی گئی۔
جمشید میاں! پڑیں پتھر عقل ایسی پہ کہ تم سمجھو تو کیا سمجھو!
اعتراض یہ نہیں کہ ابن حجر اور حافظ ذہبی کے ایک فیصلہ پر آپ نے تصحیح کی ہے اور دوسری جگہ ان کے فیصلہ کی مخالفت! بلکہ اعتراض یہ ہے کہ آپ اپنی خواہش و ھوا کی بیناد پر ان کے کسی فیصلہ کو قبول کرتے ہو اور خواہش و ھوا کی بنیاد پر دوسرے فیصلہ کو رد!
میاں جی اعتراض آپ کی خواہش و ھوا پر پر ہے!!!
جہاں تک بات رہی اہل السنۃ و الجماعۃ کی تو وہ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد!! فتدبر!!
مولانا روم نے مثنوی میں ایک قصہ لکھاہے۔ ایک حبشی نہایت بدصورت کالاکلوٹا کسی جنگل میں چلاجارہاتھا۔راستے میں اسے شیشے پڑاہوملا۔اس نے اٹھاکر دیکھاتواپنی ہی صورت نظرآئی ۔ کہنے لگا توواقعی بڑابد صورت ہے اسی لئے تیرے مالکوں نے تجھے یہاں پھینک دیاہے۔
جمشید میاں! یہ مولانا رومی کی مثنوی کے اس قصہ کا اطلاق بھی فقہا احناف و امام اعظم احناف پرہی ہوتا ہے، کہ جب جرح و تعدیل کے آئینہ میں وہ بھی اپنی صورت دیکھیں تو ان کی صورت بہت بد صورت نظر آئے گی!! ہاں حنفیہ نے کام یہ کیا کہ اپنے ان "بد صورت" اماموں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے اصول الحدیث اور جرح و تعدیل سے ہی چھٹکارا حاصل کرنا چاہا ہے!
جو اعتراض اصل میں "لمحات" کے رئیس ندوی پر تھا کہ جب بات صحابہ سے روایت کی آتی ہے توحافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی کا حوالہ پیش کرتے ہیں صحابہ سے ان کی روایت کا ثبوت نہیں ہے۔ اورجب بات حضرت انس بن مالک کی زیارت کی آتی ہے اورحافظ ذہبی اورحافظ ابن حجر کی جانب سے اس حدیث کی تقویت وتصحیح ہوتی ہے تو پھر ان دونوں حضرات پراعتراضات اوران کی غلطیاں شمار کرنے شروع کردیتے ہیں۔
اللہ فقہ حنفیہ اور فقہا احناف کے فریب کا پردہ چاک کرنے والے رئیس ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو انبیاء کا ساتھ عطا کرے! آمین!
جمشید میاں! رئیس ندوی ہوں یا کوئی اور اہل السنۃ والجماعۃ کا عالم، وہ کسی کے قول کو جب قبول کرتا ہے تو اصول الحدیث کی بنیاد پراور جب رد کرتا ہے تو اصول الحدیث کی بنیاد پر!
جبکہ مقلدین حنفیہ ، جس میں آپ بھی شامل ہیں، کسی قول کو قبول کرتے ہو اپنی خواہش کی بنیاد پر،خواہ وہ اصول الحدیث کی رو سے ثابت نہ ہو! اور کسی قول کو رد کرتے ہو خوا وہ اصول الحدیث کی رو سے ثابت اور صحیح ہو!
مقلدین حنفیہ کے نزدیک کسی کے قول کی کیا بات ہے، مقلدین حنفیہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث خواہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی کیوں نہ ہو اپنی خواہش و ہوا کی بنیا پر رد کرتے ہیں۔ دیکھئے اصول فقہ حنفیہ کہ ہر وہ حدیث جو کسی بقول حنفیہ کے "غیر فقہ صحابی ، جیسے ابو ھریرہ اور انس بن مالک سے مروی ہو، اگر فقہا احناف کی عقل کے اٹکل پچھو کے خلاف آئے گی تو اسے رد کردیا جائے گا! اللہ ایسے کفر یہ اصول کو گڑھنے والوں کو غارت کرے! ایسے کفریہ اصول کو قبول کرنے والوں کو غارت کرے! آمین!

کچھ لوگوں نے میری بات کواس تناظر میں (جس میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے) سمجھنے کے بجائے حبشی کی طرح آئینہ میں اپنی شکل وصورت دیکھنی شروع کردی اوراعتراضات گنانے لگے۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی اعتراض کیاہے کہ ایک امام جرح وتعدیل کا جب قول قبول کیاہے تواس کے دوسرے اقوال بھی قبول کیجئے۔ اس کے جواب میں ہم صرف ایک سوال کرتے ہیں اوراس کے جواب میں ہی ہماراجواب بھی پوشیدہ ہوگا۔
جمشید میاں! یہ اعتراض کسی نے نہیں کیا اعتراض وہ ہی کیا ہے جو اوپر بیان کیا ہے!
ابوحاتم اورابوزرعہ نے امام بخاری پر جرح کی ہے تو کیاابوحاتم اورابوزرعہ کے تمام اقوال کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے یاپھر قبول کیاجائے تواس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
جمشید میاں ہم آپ کو ایک بار پھر بتلا دیتے ہیں، اسے اپنے پلے باندھ لیں!
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
آپ دوسرے تھریڈ میں امام بخاری پر جرح کریں، ان شاء اللہ ! امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کا دفاع ہم کریں گے!
امام نسائی نے احمد بن صالح مصری پر کلام کیاہے تو کیاامام نسائی کی تمام جروحات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے یاپھر قبول کرنے کی صورت میں اس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
امام مالک نے ابن اسحاق صاحب المغازی پر سخت جرح کی ہے توکیا ان کی جرح وتعدیل کی آرائ کو نذرآتش کردیاجائے یاپھر قبول کیاجائے تواس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
امام ابن معین نے امام شافعی پر جرح کی ہے توکیاابن معین کی تمام اقوال جرح وتعدیل کوسپرد خاک کردیاجائے یاپھر قبول کرنے کی صورت میں اس جرح کوبھی قبول کیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
ابونعیم اورابن مندہ نے ایک دوسرے پر سخت کلام کیاہے توکیاقبول کی صورت میں دونوں کی ایک دوسرے کی جرح قبول کیاجائے اوردوسری صورت میں ان کے تمام جرح وتعدیل کے اقوال کوہباءا منثورا قراردیاجائے۔
"اہل السنۃ و الجماعۃ کسی کا قول بھی اصول الحدیث کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور اصول حدیث کی ہی بنیاد پر رد"
وہلم جرآ: مثالیں تواوربھی ہیں۔ لیکن اسی پر ہم اکتفاء کرتے ہیں اورجب معترض ان کے تفصیلی جوابات دے دے گا توپھر ہمیں انشاء اللہ اس کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ ا سکے جواب میں ہمارابھی جواب چھپاہوگا۔ والسلام
آپ اعتراض کریں تو صحیح ! امام بخاری سے ہی شروع کریں! اور اعتراض خیالی نہیں کیجئے گا۔ خیالی باتوں میں علم الکلام کی جھک مارنا تو فقہا احناف کا پسندیدہ مشغلہ ہے، مگر یہ ہمارا طریق نہیں! آپ امام بخاری پر اعتراض وہ پیش کریں جس کے آپ قائل ہوں، بنائیں ایک تھریڈ،" امام بخاری پر ثابت شدہ جرح" کے عنوان سے۔ اور پھر دیکھئے گا !!!!
آپ اعتراضات کا جواب دیں!
اور میں وہ اعتراضات جس کا میں قائل بھی ہوں پیش کر رہا ہوں، ایک بار پھر پیش کرتا ہوں جواب دیں اس کا!
وإسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة ليس له من الروايات شيء ليس هو، ولاَ أبوه حماد، ولاَ جده أبو حنيفة من أهل الروايات، وثلاثتهم قد ذكرتهم في كتابي هذا في جملة الضعفاء.
جلد 01 صفحہ 510
الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفي.
عن أبيه.
عن جده.قال ابن عدي: ثلاثتهم ضعفاء.
جلد 01 صفحہ 226
الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
النعمان بن ثابت [ت، س] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.
إمام أهل الرأى.
ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدي، وآخرون.

جلد 01 صفحہ 265
الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
يعقوب بن إبراهيم أبو يوسف القاضي أنصاري.
حدثنا أحمد بن حفص، حدثنا عبد الله بن سعيد الأشج، حدثنا الحسن بن الربيع قال قيل لابن مبارك أبو يوسف أعلم أم محمد؟ قال: لا تقل أيهما أعلم ولكن قل أيهما اكذب.
حدثنا علان، حدثنا ابن أبي مريم سألت يحيى بن معين، عن أبي يوسف؟ فقال: لا يكتب حديثه.
وذكر حمزة بن إسماعيل الطبري عن محمد بن أبي منصور، عن أبي دحيم سمعت أبا حنيفة يقول أبو يوسف يكذب علي.
حدثنا الجنيدي، حدثنا البخاري، حدثني عيسى بن الجنيد سمعت أبا نعيم يقول: سمعت النعمان يقول ألا تعجبون من يعقوب يقول علي ما لا أقول.

الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ)
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
جمشید میاں! اعتراض مندرجہ ذیل ہے، اس کا جواب دیں!

ابو حنیفہ نعمان بن ثابت سے بسند صحیح یہ قول ثابت ہے کہ :
میں نے عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل آدمی نہیں دیکھا ۔
امام ترمذی نے علل صغیر میں اسے بأیں طور نقل فرمایا ہے :حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ قَال سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ وَلَا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ

اور یہ بات متفق علیہ ہے کہ عطاء بن ابی رباح تابعی تھے
اور بھی متفق علیہ ہے کہ ابو حنیفہ کے نزدیک صحابی تابعی سے زیادہ افضل ہوتا ہے ۔
اور بسند صحیح موصوف کا قول ہے کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے افضل شخص کو نہیں دیکھا ۔ اگر انہوں نے کسی صحابی کو دیکھا ہوتا تو وہ اسکا نام لیتے
میرا سوال یہ ہے کہ یاتو موصوف کا قول درست ہے یا آپکا ۔
آپ دنوں میں سے ایک بالضرور جھوٹا ہے ۔
اسکا تعین کرنا ہے
کہ وہ کون ہے
آپ یا آپکے امام ؟؟؟؟
ہاں اگر سرخ رنگ کے الفاظ سے آپ اختلاف کرتے ہیں تو اور بات ہے ! عقلمد را اشارہ کافی!
اب مالہ اور ما علیہ کا خیال رکھتے ہوئے جواب تحریر کریں!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
رفیق طاہر صاحب کا ایک قدیم اعتراض یہ ہے کہ
امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہاہے "مارایت افضل من عطاء بن ابی رباح"

اوریہ متفقہ ہے کہ
صحابہ کرام سے افضل کوئی نہیں ہے۔
اگرامام ابوحنیفہ نے صحابہ کرام کی زیارت کی ہوتی تویہ بات نہیں کہتے
جب یہ بات کہی ہے توثابت ہواہے کہ انہوں نے صحابہ کرام کی زیارت نہیں کی ہے۔
یہ استدلال بالکل ویساہی ہے جیساکہ ایک شاعر نے کہاہے
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانوں کا ہوگا​

اگروہ اس کے بجائے کوئی ایسی بات پیش کرتے جو براہ راست دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی تو پھر اس پر غورکیاجاسکتاتھا۔

سابق میں ہم نے رفیق طاہر صاحب کے اس کلام پر جورد کیاتھا وہ یہ ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ سابق میں کسی نے اس قول سے یہ سمجھاہو کہ امام ابوحنیفہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعی نہیں ہیں۔ حافظ دارقطنی ہوں یادیگر منکرین تابعیت ۔کسی نے بھی امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ نہیں سمجھاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا۔ہرایک کے انکار کی بنیاد یہ رہی ہے کہ ان کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ مطلب نکالنا صرف دور جدید کے کچھ "مخصوص ذہنوں"کاکام ہے۔

حافظ ذہبی اورابن حجر نے اوردیگر جنہوں نے امام صاحب کی تابعیت کااعتراف کیاہے۔ وہ بھی مذکورہ قول سے پوری واقفیت کے بعد یہ نہیں سمجھتے کہ اس میں کہیں بھی امام صاحب نے اپنی تابعیت کاانکار کیاہے۔ یہ مخصوص مفہوم اس قول کا نکالنا صرف رفیق طاہر صاحب جیسوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ ویسے ہمیں تعجب نہیں کہ اگرامام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکارمیں وہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بلکہ اضحوکہ دلیل پیش کریں اوراس پر مدہوش ہوکر کہنے لگیں ۔
آپ یا آپ کے امام
بات یہ ہے کہ کچھ لوگ بعض حالات میں شاید ضد اورانکارمیں ثنائی طرز فکر کے مالک ہوجاتے ہیں یاتو یہ ہوگا یاوہ ہوگا جب کہ وہاں پرتیسراطرزفکر موجود ہوتاہے۔ابن حزم کو دیکھئے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جب اختلاف رحمت ہے تواس کا صاف مطلب ہے کہ اتفاق زحمت ہے ۔جس پر امام خطابی نے تنقید کرتے ہوئے فرمایاکہ ایساضروری نہیں کیونکہ اللہ پاک نے رات کورحمت کہااس کا کوئی یہ مطلب مراد نہیں لیتا کہ دن زحمت ہے۔اسی طرح ہم بارش کورحمت کہتے ہیں لیکن جب بارش نہ ہورہی ہوتواس کوزحمت اورعذاب سمجھتے ہیں۔

رفیق طاہراورانہیں کی قماش کے لوگ اگرتھوڑاغوروفکر کرتے تویہ سمجھنے میں انہیں قطعادقت نہیں ہوتی کہ ایک شخص ایک بات مطلق کہتاہے لیکن اس میں قید چھپی ہوتی ہے ۔اوریہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے عقدالجید میں ائمہ اربعہ کی تقلید کوہی واجب قراردیاہے کیونکہ دوسرے مذاہب کی کتابیں ناپید ہیں اوران کے عام ومطلق اورتقید وتخصیص میں فرق کرنے والاکوئی نہیں رہا۔(دیکھئے عقدالجید)
امام صاحب کے عطاء ابن ابی رباح کو سب سے افضل قراردینے کے یہ احتمالات بھی ممکن ہیں۔

1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
2: جن سے علم حاصل کیاان میں اس سے افضل نہیں دیکھا
3: مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا


ان تمام احتمالات کے ہوتے ہوئے اس کو نص قطعی کی طرح پیش کرنا کہ یہ امام صاحب کے انکار تابعیت کی سب سے پختہ دلیل ہے۔ کس درجہ جہل اورحماقت ہے،قارئین پرواضح ہوگیاہوگا۔اورشاید یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی معتمد محدث نے اس کو امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار کی دلیل نہیں بنایا۔
ہمارے اس معروضہ کا رفیق طاہر صاحب نے کوءی مناسب جواب نہیں دیا اوراب ان کی جگہ ابن داؤد صاحب رفیق طاہر صاحب کا راگ الاپ رہے ہیں۔
معلوم نہیں ہے کہ ان کی جہالت ہے یاتجاہل عارفانہ ہے۔
صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے اس میں کسی کو مجال شک وانکار نہیں ہے لیکن
سوال یہ ہے کہ
تابعی کا صحابی سے افضل ہونا من حیث الکل ومن حیث شرف الصحبۃ ہے
یاہرہرامر میں صحابی تابعی سے افضل ہوتے ہیں۔

اگر وہ پہلی شق مانتے ہیں تو ہم بھی اس کے قائل ہیں اورکہتے ہیں کہ من حیث الجملہ صحابہ صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہوسکتی ہیں جس میں تابعی صحابی سے افضل ہو ۔
اگر وہ دوسری شق لیتے ہیں کہ نہیں ہرہرچیز میں تابعی صحابی سے افضل ہوتاہے توہم اس کے قائل نہیں اورنہ ہی علماء کرام اس کے قائل ہیں۔ اورنہ خودصحابہ کرام اس کے قائل ہیں۔
البانی صاحب نے التوسل انواعہ واحکامہ میں ابن عساکر سے ایک روایت نقل کی ہے اوراس کو "سند صحیح"کاخطاب دیاہے۔
اس روایت میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط سالی ہوئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اوراہل دمشق نماز بارش کی دعاکیلئے شہر سے باہر نکلے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پربیٹھے اورفرمایا "یزید بن الاسود الجرشی کہاں ہیں لوگوں نے ان کو آواز دی وہ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اورحضرت معاویہ کے امر سے منبر پر بیٹھ گئے اورحضرت معاویہ ان کے قدموں کے پاس بیٹھ گئے اوربارش کی دعاکی جس کے الفاظ ہیں۔
اللھم انانستشفع الیک الیوم بخیرنا وافضلنا ،اللھم انانستشفع الیک الیوم بیزید بن الاسود الجرشی
(التوسل انواعہ واحکامہ ص41)

غورکرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت معاویہ خود صحابی ہیں اوران کے دور میں دمشق میں دیگر صحابہ کرام بھی تھے اورمکہ ومدینہ اوردوسرے شہروں میں توبہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے ۔ اس کے باوجود وہ ایک تابعی کو خیرنا وافضلنا کی سند سے نواز رہے ہیں۔

مارایت افضل من عطاء ابن ابی رباح سے استدلال کرنے والوں کو چاہئے کہ اس دلیل کے تارعنکبوت ثابت ہونے کے بعد دیگر دلیل تلاش کریں ورنہ اسی استدلال کی بناء پر کسی نے کہناشروع کردیاکہ حضرت معاویہ کے دور میں شام ودمشق میں کوئی صحابی نہیں تھا اوراس پر متفرع کرکے دیگر اقوال کی تخریج شروع کردی توجواب بن نہیں پڑے گا ۔
میراذاتی رجحان یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ بنی امیہ کے ظلم وستم کی وجہ سے انہیں کچھ عرصہ مکہ میں گزارنا پڑا۔ اسی دوران انہوں نے حضرت عطاء ابن ابی رباح سے شرف تلمذ حاصل کیااوران کا یہ قول اگرچہ مطلق ہے لیکن تمام حالات پر نظرڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میں نے مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا کیونکہ ان کے دیگر مشائخ میں بڑے بڑے اعاظم رجال ہیں جن کی تفصیل مناقب الائمہ الاربعہ لابن عبدالہادی اورتہذیب الکمال للمزی دیکھی جاسکتی ہے اوروہ کسی طورپر عطاء ابن ابی رباح سے شرف وفضیلت میں کم نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
نوٹ: ابن داؤد صاحب نے ہمارے سوال نما جواب کے جواب میں جو مراسلہ لکھاہے اس کو بغیر کسی تبصرہ کے نذر قارئین کردیاجاتاہے۔امید ہے کہ قارئین خود بھی اپنے عقل وفہم سے کام لیں گے ضرورت نہیں کہ ہرجگہ وضاحت کے ساتھ تردید کی جائے۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/فقہاء-126/امام-ابوحنیفہ-کی-تابعیت-اورمولانا-رئیس-ندوی-کا-انکار-2941/index10.html#post22715
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
تفصیلی جواب تو بعد میں تحریر کیا جائے گا، ابھی صرف اتنا ہی بتلا دوں:
میراذاتی رجحان یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ بنی امیہ کے ظلم وستم کی وجہ سے انہیں کچھ عرصہ مکہ میں گزارنا پڑا۔ اسی دوران انہوں نے حضرت عطاء ابن ابی رباح سے شرف تلمذ حاصل کیااور ان کا یہ قول اگرچہ مطلق ہے لیکن تمام حالات پر نظرڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میں نے مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا
جمشید میاں آپ جب یہ کہہ رہے ہو کہ آپ کے امام اعظم کا یہ قول مطلق ہے تو پھر اسی جملہ میں آگے اسے مقید کیوں کر رہے ہو میاں؟ اسی کو کہتے ہیں علم الکلام میں جھک مارنا!!

ہاں اس کی ایک تاویل ممکن ہے، وہ میں آپ کو بتلا دیتا ہوں:
کہ آپ کے امام اعظم کو عربی لغت کی معرفت نہیں تھی لہذا انہوں نے یہ مطلقا کہہ دیا جبکہ ممکن ہے ان کی مراد مطلقا نہ ہو!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

معین

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
145
پوائنٹ
49
امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہاہے "مارایت افضل من عطاء بن ابی رباح"

اوریہ متفقہ ہے کہ
صحابہ کرام سے افضل کوئی نہیں ہے۔
أبا يحيى الحماني قال سمعت أبا حنيفة يقول ( 4 ) ما رأيت فيمن لقيت أفضل من عطاء- تاريخ دمشق و كذالك في السير



أيوب بن أبي تميمة كيسان السختياني (1) أبو بكر البصري.
مولى عنزة ويقال مولى جهينة.
رأى أنس بن مالك
تهذيب 1-348

عَنْ أَيُّوْبَ - وَذَكَرَ القَاسِمَ - فَقَالَ:
مَا رَأَيْتُ رَجُلاً أَفْضَلَ مِنْهُ، وَلَقَدْ تَرَكَ مائَةَ أَلْفٍ وَهِيَ لَهُ حَلاَلٌ
سير 5-55

رَوَى: ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُهْرِيِّ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ قُرَشِياً أَفَضْلَ مِنْ عَلِيِّ بنِ الحُسَيْنِ
زهري اور ايوب السختياني تابعين مے سے تھے-
 
Top