- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اور جمشید میاں! رفیق طاہر نے جو استدلال پیش کیا ہے، وہ "ہوگا" کی قبیل سے نہیں ہے، بلکہ یہ قول آپ کے امام اعظم صدیوں قبل صادر فرما چکے ہیں!! یہ واقعہ وقوع پذیر ہو چکا ہے، کہ آپ کے امام اعظم نے فرمایا:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ وَلَا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ
مگر اس کا تعین کرتے چلتے ہیں کہ احتمال آخر کہتے کس کو ہیں!! کیونکہ آپ کا مقلدین حنفیہ کا یہ وطیرہ ہے کہ کہ خرد کا نام جنوں رکھنے کو بھی شرح سے تعبیر کرتے ہیں!!!
کسی عبارت میں احتمال کا وجود اس وقت ہوتا ہے جب اس عبارت کے الفاظ میں خارج سے الفاظ شامل کیئے بغیر ایک سے زیادہ معنی و مفہوم ممکن ہو!! اس صورت کو احتمال سےتعبیر کیا جاتا ہے!! اس عبارت کے معنی میں یہ احتمالات پائے جاتے ہیں!! مگر یاد رکھئے گا خارج سے الفاظ داخل کئے بغیر!!
اور اگر ایک عبارت اپنے حالات و واقعات کےتناظر سے متعلقہ ہو تو وہ حالات و واقعات اس عبارت کےمعنی مقصود تک پہنچنے کا قرینہ ہوتا ہے، اور اس معنی مقصود کے علاوہ دیگر معنی جن کا احتمال ہو سکتا تھا باطل قرار پاتے ہیں!!
خلاصہ یہ ہے کہ جو بھی احتمال یعنی ممکن معنی و مفہوم اصل متن سے ممکن ہو، نہ کہ اس کے منافی!!!
ویسے یہ بھی بتلایئے گا کہ آپ نے اپنے امام اعظم کا تابعی ثابت کرنے کے لئے یہ جو مختلف روایات جو تمام ضعیف ہیں صرف کھپ ڈالنے کے لئے لکھیں ہیں!!! اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ کسی بات پر قائم رہتے ہو، اس احتمال پر یہ اپنی پیش کردہ روایات پر؟؟ ویسے ہیں تو دونو ہی باطل، لیکن ایک کو تو آپ نے یہیں چھوڑنا ہوگا!!
اب یہ آپ کے امام اعظم نے بات صحیح ہے یا آپ کا احتمال ہے؟؟
دونوں میں سے کسی ایک کا اتنخاب کریں؟ ویسے ہیں تو دونوں ہی باطل، مگر ان میں سے ایک آپ کو یہیں چھوڑنا پڑے گا!!
جب آپ اس کا جواب دے دیں گے تو پھر اس پر پھر بات کرتے ہیں!!
تابعی کا صحابی سے افضل ہونا من حیث الکل ومن حیث شرف الصحبۃ ہے
سوال کا جواب دے دیا گیا ہے!!
اور میاں جمشید! جواب تو ابھی آپ سے بن رہا!! اور ہماری فکر نہ کریں میاں جی! جو اعتراض ہو حدیث پر ہو صحابی پر ہو محدثین پر ہو، کھل کر کریں!!! ان شاء اللہ آپ کو جواب دیں گے!!!
اور میاں جمشید! ایسا بے وقوفانہ اعتراض کوئی حنفی مقلد ہی کر سکتا ہے کہ:
جمشید میاں! جس کو فقہ کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی اسے براہ راست استدلال بھی سمجھ نہیں آتے۔ اب آپ کے ساتھ مسئلہ ہی یہ ہے، کہ عقل کے اٹکل پچھو تو بہت لڑاتے ہو مگر سیدھا سا استدلال آپ کو سمجھ نہیں آرہا!آخر آپ مقلد جو ٹھرے!!یہ استدلال بالکل ویساہی ہے جیساکہ ایک شاعر نے کہاہے
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانوں کا ہوگا
اگروہ اس کے بجائے کوئی ایسی بات پیش کرتے جو براہ راست دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی تو پھر اس پر غورکیاجاسکتاتھا۔
اور جمشید میاں! رفیق طاہر نے جو استدلال پیش کیا ہے، وہ "ہوگا" کی قبیل سے نہیں ہے، بلکہ یہ قول آپ کے امام اعظم صدیوں قبل صادر فرما چکے ہیں!! یہ واقعہ وقوع پذیر ہو چکا ہے، کہ آپ کے امام اعظم نے فرمایا:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ وَلَا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ
میاں جی اگر آپ کو نہیں معلوم تو یہ آپ کا مسئلہ!سابق میں ہم نے رفیق طاہر صاحب کے اس کلام پر جورد کیاتھا وہ یہ ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ سابق میں کسی نے اس قول سے یہ سمجھاہو کہ امام ابوحنیفہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعی نہیں ہیں۔ حافظ دارقطنی ہوں یادیگر منکرین تابعیت ۔کسی نے بھی امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ نہیں سمجھاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا۔ہرایک کے انکار کی بنیاد یہ رہی ہے کہ ان کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ مطلب نکالنا صرف دور جدید کے کچھ "مخصوص ذہنوں"کاکام ہے۔
چلیں جناب ! اب آپ کے پیش کردا احتمالات کو دیکھ لیتے ہیں:امام صاحب کے عطاء ابن ابی رباح کو سب سے افضل قراردینے کے یہ احتمالات بھی ممکن ہیں۔
مگر اس کا تعین کرتے چلتے ہیں کہ احتمال آخر کہتے کس کو ہیں!! کیونکہ آپ کا مقلدین حنفیہ کا یہ وطیرہ ہے کہ کہ خرد کا نام جنوں رکھنے کو بھی شرح سے تعبیر کرتے ہیں!!!
کسی عبارت میں احتمال کا وجود اس وقت ہوتا ہے جب اس عبارت کے الفاظ میں خارج سے الفاظ شامل کیئے بغیر ایک سے زیادہ معنی و مفہوم ممکن ہو!! اس صورت کو احتمال سےتعبیر کیا جاتا ہے!! اس عبارت کے معنی میں یہ احتمالات پائے جاتے ہیں!! مگر یاد رکھئے گا خارج سے الفاظ داخل کئے بغیر!!
اور اگر ایک عبارت اپنے حالات و واقعات کےتناظر سے متعلقہ ہو تو وہ حالات و واقعات اس عبارت کےمعنی مقصود تک پہنچنے کا قرینہ ہوتا ہے، اور اس معنی مقصود کے علاوہ دیگر معنی جن کا احتمال ہو سکتا تھا باطل قرار پاتے ہیں!!
خلاصہ یہ ہے کہ جو بھی احتمال یعنی ممکن معنی و مفہوم اصل متن سے ممکن ہو، نہ کہ اس کے منافی!!!
جمشید میاں! یہ احتمال باطل ہے ! کیونکہ مذکورہ عبارت میں اس بات کے لئے کوئی الفاظ نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی قرینہ ہے جو اس عبارت کو تابعین تک مقید کر سکے!! ویسے تحریر کے آخر میں اس کے بطلان کی ایک دلیل آرہی ہے!!1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
جمشید میاں ! پہلے آپ یہ باتسلیم کر لیں کہ آپ کے امام اعظم نے کسی صحابی سے کوئی حدیث نہیں سنی! اور نہ ہی کسی صحابی سے کچھ سنا! تو پھر اس احتمال پر آگے مزید گفتگو کرتے ہیں!!!!!2: جن سے علم حاصل کیاان میں اس سے افضل نہیں دیکھا
ویسے یہ بھی بتلایئے گا کہ آپ نے اپنے امام اعظم کا تابعی ثابت کرنے کے لئے یہ جو مختلف روایات جو تمام ضعیف ہیں صرف کھپ ڈالنے کے لئے لکھیں ہیں!!! اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ کسی بات پر قائم رہتے ہو، اس احتمال پر یہ اپنی پیش کردہ روایات پر؟؟ ویسے ہیں تو دونو ہی باطل، لیکن ایک کو تو آپ نے یہیں چھوڑنا ہوگا!!
میاں جی یہ جو آپ نے آخری روایت پیش کی تھی وہ ہی دیکھ لیں:3: مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا
جمشید میاں! اب ذرا یہ بتلایئے گا کہ آپ کے امام اعظم حج کرنے مکہ ہی جاتے تھے نا!!ترجمہ : مجھ سے ابوعلی عبیداللہ بن جعفرالرازی نے اس کتاب میں جس میں امام ابوحنیفہ کی حدثیں درج تھیں بیان کیاکہ ہم سے ہمارے والد نے محمد بن سماعہ کے حوالہ سے امام ابویوسف سے بیان کیاکہ میں نے امام ابوحنیفہ کو یہ کہتے سناکہ میں نے 96میں جب کہ میری عمر 16سال تھی اپنے والد کے ساتھ حج کیاتوکیادیکھتاہوں کہ ایک بزرگ کے گردلوگوں کا مجمع ہے۔ میں نے اپنے والد سے پچھاکہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیاکہ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔ ان کا نام عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی ہے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھاکہ ان کے پاس کیاچیز ہے(جومجمع لگاہے) انہوں نے جواب دیااحادیث ہیں جن کوانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے۔ میں نے کہا۔مجھے ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں ان سے حدیثیں سنوں۔چنانچہ وہ میرے آگے ہولئے اورمیرے لئے راستہ صاف کرنے لگے یہاں کہ میں ان کے قریب ہوگیا ۔میں نے ان کویہ کہتے ہوئے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے جس نے اللہ کے دین میں تفقہ حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اس کیلئے کافی ہوگا اوراس کو وہاں سے رزق دے گا۔جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔
اب یہ آپ کے امام اعظم نے بات صحیح ہے یا آپ کا احتمال ہے؟؟
دونوں میں سے کسی ایک کا اتنخاب کریں؟ ویسے ہیں تو دونوں ہی باطل، مگر ان میں سے ایک آپ کو یہیں چھوڑنا پڑے گا!!
جب آپ اس کا جواب دے دیں گے تو پھر اس پر پھر بات کرتے ہیں!!
ارے میاں جمشید صاحب! آپ کے احتمالات تو ہوا میں اڑنے کو ہیں!!! ذرا ان کو زمیں پر لانے کی کوشش کیجئے گا!!ان تمام احتمالات کے ہوتے ہوئے
یہ دلیل پختہ نہیں یہ تو آپ اس وقت کہئے گا جب اس دلیل کا بطلان ثابت کریں!!اس کو نص قطعی کی طرح پیش کرنا کہ یہ امام صاحب کے انکارتابعیت کی سب سے پختہ دلیل ہے۔
ارے میاں جمشید! ان شاء اللہ ! قارئین جان لیں گے کہ مقلدین حنفیہ کس قدر جاہل اور احمق ہیں!! اس کی آپ فکر نہ کریں!!کس درجہ جہل اورحماقت ہے،قارئین پرواضح ہوگیاہوگا۔
جمشید میاں! اب آپ کا تو عقائد بھی اس "شاید " پر قائم ہیں !! اب اس بحث میں جانا مناسب نہیں کہ جن محدثین نے اسے آپ کے امام اعظم کے تبع تابعین ہونے کے لئے اس قول کو بیان نہیں کیا تو اس کی کیا وجہ ہے!! خیر اتنا کافی ہے کہ کسی کا ایک دلیل کو بیان نہ کرنا اس دلیل کے وجود کی نفی نہیں ہوا کرتی!! فتدبر!!اورشاید یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی معتمد محدث نے اس کو امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار کی دلیل نہیں بنایا۔
ارے میاں جمشید صاحب! آپ نے یہ معروضات پیش کہاں کیے تھے کہ کوئی جواب دیتا!! ابھی آپ نے پیش کیئے ہیں تو دیکھئے آپ کے احتمالات کو ہوا میں اڑا دیا ہے!! اللہ کی توفیق سے، الحمدللہ!!ہمارے اس معروضہ کا رفیق طاہر صاحب نے کوءی مناسب جواب نہیں دیا اوراب ان کی جگہ ابن داؤد صاحب رفیق طاہر صاحب کا راگ الاپ رہے ہیں۔
یہ مقلدین حنفیہ کی جہالت ہے اور فقہا حنفیہ کا تجاہل عارفانہ!!معلوم نہیں ہے کہ ان کی جہالت ہے یاتجاہل عارفانہ ہے۔
لیکن آپ کے امام اعظم کو ایک بار جوش تو آیا تھا کہ وہ تابعی کو صحابی سے افضل قراردے دیں!! عقلمد را اشارہ کافی!! اور اگر آپ کو یاد نہ آئے تو اس کے حوالے کا مطالبہ کر لیجئے گا!!!صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے اس میں کسی کو مجال شک وانکار نہیں ہے لیکن
اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث اسی بات کے قائل ہیں کہ :سوال یہ ہے کہ
تابعی کا صحابی سے افضل ہونا من حیث الکل ومن حیث شرف الصحبۃ ہے
یاہرہرامر میں صحابی تابعی سے افضل ہوتے ہیں۔
اگر وہ پہلی شق مانتے ہیں تو ہم بھی اس کے قائل ہیں اورکہتے ہیں کہ من حیث الجملہ صحابہ صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہوسکتی ہیں جس میں تابعی صحابی سے افضل ہو ۔
اگر وہ دوسری شق لیتے ہیں کہ نہیں ہرہرچیز میں تابعی صحابی سے افضل ہوتاہے توہم اس کے قائل نہیں اورنہ ہی علماء کرام اس کے قائل ہیں۔ اورنہ خودصحابہ کرام اس کے قائل ہیں۔
تابعی کا صحابی سے افضل ہونا من حیث الکل ومن حیث شرف الصحبۃ ہے
سوال کا جواب دے دیا گیا ہے!!
ارے میاں اس کا جواب آپ نے خود لکھ دیا ہے کہ سیدنا معاویہ خود صحابی ہیں! اور ان کا خود صحابی ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ یزید بن الاسود الجرشی کو کسی صحابی سے من حیث کل افضل نہیں جانتے!!البانی صاحب نے التوسل انواعہ واحکامہ میں ابن عساکر سے ایک روایت نقل کی ہے اوراس کو "سند صحیح"کاخطاب دیاہے۔
اس روایت میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط سالی ہوئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اوراہل دمشق نماز بارش کی دعاکیلئے شہر سے باہر نکلے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پربیٹھے اورفرمایا "یزید بن الاسود الجرشی کہاں ہیں لوگوں نے ان کو آواز دی وہ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اورحضرت معاویہ کے امر سے منبر پر بیٹھ گئے اورحضرت معاویہ ان کے قدموں کے پاس بیٹھ گئے اوربارش کی دعاکی جس کے الفاظ ہیں۔
اللھم انانستشفع الیک الیوم بخیرنا وافضلنا ،اللھم انانستشفع الیک الیوم بیزید بن الاسود الجرشی
(التوسل انواعہ واحکامہ ص41)
غورکرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت معاویہ خود صحابی ہیں اوران کے دور میں دمشق میں دیگر صحابہ کرام بھی تھے اورمکہ ومدینہ اوردوسرے شہروں میں توبہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے ۔ اس کے باوجود وہ ایک تابعی کو خیرنا وافضلنا کی سند سے نواز رہے ہیں۔
آپ کہہ دیں نا میاں جمشید!! کریں سیدنا معاویہ پر اعتراض!! جواب ہم دیں گے! ہم تو اپنی زندگی ان شاء اللہ قرآن و حدیث اور ان کے پاسبان جن میں صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ، اور محدثین کے دفاع کے لئے وقف کر دی ہیں!! آپ نے اور کیا کرنا ہے، صحابہ پر اعتراض!!مارایت افضل من عطاء ابن ابی رباح سے استدلال کرنے والوں کو چاہئے کہ اس دلیل کے تارعنکبوت ثابت ہونے کے بعد دیگر دلیل تلاش کریں ورنہ اسی استدلال کی بناء پر کسی نے کہناشروع کردیاکہ حضرت معاویہ کے دور میں شام ودمشق میں کوئی صحابی نہیں تھا اوراس پر متفرع کرکے دیگر اقوال کی تخریج شروع کردی توجواب بن نہیں پڑے گا ۔
اور میاں جمشید! جواب تو ابھی آپ سے بن رہا!! اور ہماری فکر نہ کریں میاں جی! جو اعتراض ہو حدیث پر ہو صحابی پر ہو محدثین پر ہو، کھل کر کریں!!! ان شاء اللہ آپ کو جواب دیں گے!!!
اور میاں جمشید! ایسا بے وقوفانہ اعتراض کوئی حنفی مقلد ہی کر سکتا ہے کہ:
اب اس حنفی مقلد کو کون بتلائے کہ میاں مقلد! سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خود صحابی ہیں، پھر یہ کہنا کہ ان کے دور میں شام و دمشق میں کوئی صحابی نہ تھا، نری جہالت ہے اور کچھ نہیں!!حضرت معاویہ کے دور میں شام ودمشق میں کوئی صحابی نہیں تھا اوراس پر متفرع کرکے دیگر اقوال کی تخریج شروع کردی توجواب بن نہیں پڑے گا ۔
ماشاء اللہ جمشید میاں! اب تو آپ بھی چھوٹے موٹے مجتہد تو بن ہی گئے ہیں!! کہ ایک مقلد ہوتے ہوئے بھی اپنے ذاتی رجحان کو پیش کر رہے ہیں!! ویسے اتنا بتلائے میں اس کو صحیح یا غلط کا پیمانہ نہیں بنا رہا، مگر جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا یہ ذاتی رجحان امام ابو حنیفہ کی موت کے صدیوں بعد آپ کے ہی کے ذہن کی پیداور ہے یا آپ سے قبل کسی اور حنفی مقلد کے ذہن میں بھی یہ رجحان پیدا ہوا تھا!! ذرا ان کا نام اور تاریخ وفات بتلا دیجئے گا!!!میراذاتی رجحان یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ بنی امیہ کے ظلم وستم کی وجہ سے انہیں کچھ عرصہ مکہ میں گزارنا پڑا۔ اسی دوران انہوں نے حضرت عطاء ابن ابی رباح سے شرف تلمذ حاصل کیا
یعنی کہ آپ نے جو پہلا احتمال پیش کیا تھا کہ آپ وہ بھی ہوا ہوا!!اوران کا یہ قول اگرچہ مطلق ہے لیکن تمام حالات پر نظرڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میں نے مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا کیونکہ ان کے دیگر مشائخ میں بڑے بڑے اعاظم رجال ہیں جن کی تفصیل مناقب الائمہ الاربعہ لابن عبدالہادی اورتہذیب الکمال للمزی دیکھی جاسکتی ہے اوروہ کسی طورپر عطاء ابن ابی رباح سے شرف وفضیلت میں کم نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
اب اسی تحریر کے آخر میں آپ نے خود اپنے اس "احتمال" کی نفی کر دی جو آپ نے سب سے پہلے بیان کیا تھا۔ اسی ک وکہتے ہیں علم الکلام میں جھک مارنا!!!1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
ارے میاں جمشید ! جواب تو آپ اپنے امام اور ان کے جہمی مرجئی ، ضعیف اور کذاب شاگردوں پر جرح کا دے ہی نہیں سکتے!! بس ان کا ترجمہ کر دیں ، ہم آپ کو دعائیں گے!!!نوٹ: ابن داؤد صاحب نے ہمارے سوال نما جواب کے جواب میں جو مراسلہ لکھاہے اس کو بغیر کسی تبصرہ کے نذر قارئین کردیاجاتاہے۔امید ہے کہ قارئین خود بھی اپنے عقل وفہم سے کام لیں گے ضرورت نہیں کہ ہرجگہ وضاحت کے ساتھ تردید کی جائے۔
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔