السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی آپ تو ناحق ناراض ہورہے ہیں۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ میری بات سمجھ چکے ہیں لیکن آپ کی یہ پوسٹ بتارہی ہے کہ آپ نے میری پچھلی پوسٹس پر کچھ بھی غور نہیں فرمایا یا آپ بھول گئے ہیں۔ محترم میں نے آغاز بحث ہی میں وضاحت کردی تھی کہ آپ سے ابن قدامہ رحمہ اللہ کی رائے اور موقف کی دلیل اس لئے مانگی جارہی ہے کہ آپ نے ابن قدامہ رحمہ اللہ کی رائے بطور رضامندی نقل کی اور کوئی تردید نہیں کی جس کا سیدھا سادھا مطلب یہی ہے کہ آپ ابن قدامہ کی رائے سے سوفیصد متفق ہیں اور آپ کا اپنا موقف بھی یہی ہے کہ ابوحنیفہ نے عقیقہ کو جاہلانہ رسم اس لئے قرار دیا کہ ان کے پاس متعلقہ حدیث کا علم نہیں تھا۔ پس آپ اپنے اس موقف پر کوئی دلیل پیش فرمادیں یا پھر یہ کہہ دیں کہ آپ ابن قدامہ کی اس رائے سے متفق نہیں کیونکہ یہ رائے بلادلیل ہے۔
دوسری جانب آپ کوئی دلیل بھی نہ پیش کرسکیں اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کی بلا دلیل رائے بطور رضامندی بھی نقل کرتے رہیں تو یہ انصاف پسندی نہیں ہے۔:
________________________________________
میری انصاف پسندی تو میری پہلی پوسٹ سے عیاں ہے ۔جہاں میں نے دونوں فریقوں کا بیان ان کی اصل کتب کے سکین لگا کر پیش کیا ۔
اور آپ کی انصاف فہمی آپ کی دس پوسٹوں سے واضح ہے ۔ جن میں آپ نے اصل موضوع (حنفی فقہ کے حدیث مخالف اقوال ) پر نہ خود توجہ دی ،اور نہ دوسروں کو اس موضوع پر بات سننے ،کرنے کاموقع دیا ۔
جہاں تک علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کی ابوحنیفہ کے بارے رائے کا معاملہ ہے تو پہلے بھی کہہ چکا ہوں ،کہ اگر آپ کو پسند نہیں
تو کس نے آپ پر جبر کیا ہے ،کہ آپ ضرور ہی مانو ؟؟
آپ پوری طرح آزاد ہو ۔۔جو رائے آپ رکھو آپ کی مرضی !
البتہ میں رجال کے متعلق فیصلوں میں محدثین ہی کے تابع ہوں ۔اپنی زبان و قلم آزاد نہیں ،کیونکہ (كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا )
لیکن خیر یہ موضوع آپ کاپسندیدہ نہیں ، نہ آپ یہ بات سمجھ سکتے ہیں ۔لہذا اس پر مزید لکھنےکی بھی ضرورت نہیں ۔
البتہ ابن قدامہ ؒ کے قول
:[ وجعلها أبو حنيفة من أمر الجاهلية وذلك لقلة علمه ومعرفته بالأخبار ]
کی بنیاد اصل میں ابوحنیفہ کے شاگرد محمد کا یہ بیان ہے کہ :
قال محمد: أما العقيقة فبلغنا أنها كانت في الجاهلية، وقد فعلت في أول الإسلام ثم نسخ الأضحى كل ذبح كان قبله،
یعنی ہم تک بات پہنچی ہے کہ عقیقہ دور جاہلیت میں کیا جاتا تھا ،اسلام کے ابتدائی عرصہ میں بھی اس عمل تھا لیکن ازاں بعد منسوخ ہوگیا ۔
محمد کے اس قول سے واضح ہے کہ انہیں کچھ روایات کے ذریعہ یہ علم تو ہوا کہ جاہلی دور میں مشرکین کا معمول تھا ۔
لیکن تکمیل دین تک اہل اسلام اس پر عمل پیرا رہے ،انہیں یہ احادیث معلوم نہ ہو سکیں ۔ اس لئے وہ عقیقہ منسوخ سمجھتے ہیں ۔
اور دور جاہلیت میں عقیقہ کے وجود پر صحیح روایات موجود ہیں ۔ایک پیش خدمت ہے ؛
كانت العقيقة معروفة عند العرب في الجاهلية، قال الماوردي: [فأما العقيقة فهي شاة تذبح عند الولادة كانت العرب عليها قبل الإسلام] (1).
وقال ولي الله الدهلوي: [واعلم أن العرب كانوا يعقون عن أولادهم وكانت العقيقة أمراً لازماً وسنةً مؤكدةً، وكان فيها مصالح كثيرة راجعة إلى المصلحة الملية والمدنية والنفسانية، فأبقاها النبي - صلى الله عليه وسلم - وعمل بها ورغب الناس فيها] (2).
ويدل على ذلك ما ورد في الحديث عن عبد الله بن بريدة عن أبيه قال: سمعت أبي - بريدة - رضي الله عنه - يقول: كنا في الجاهلية إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاة ولطخ رأسه بدمها فلما جاء الله بالإسلام كنا نذبح شاة ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران]. رواه أبو داود والنسائي وأحمد والبيهقي وقال الحافظ في التلخيص: وسنده صحيح. وقال الشيخ الألباني: حسن صحيح. وصححه الحاكم وقال: على شرط الشيخين. ووافقه الذهبي. وقال الشيخ الألباني: إنما هو على شرط مسلم (3)
(1) الحاوي الكبير 15/ 126
(2) حجة الله البالغة 2/ 260 - 261
(3) سنن أبي داود مع شرحه عون المعبود 8/ 33، صحيح سنن أبي داود 2/ 548، التلخيص الحبير 4/ 147، سنن البيهقي 6/ 101، المستدرك 4/ 238، إرواء الغليل 4/ 389
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال: حدثنا يوسف عن أبيه عن أبي حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم، أنه قال: «كانت العقيقة في الجاهلية، فلما جاء الإسلام رفضت»
قال: حدثنا يوسف عن أبيه عن أبي حنيفة، عن رجل، عن محمد بن الحنفية، «أن العقيقة كانت في الجاهلية، فلما جاء الأضحى رفضت»
الآثار لابي يوسف
---------------------
قال ابو بکر ابن ابی شيبة - حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن هشام، وابن سيرين، قالا: «يجزئ عنه الأضحية من العقيقة»