عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس تحریر کو رومن انگلش میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں
https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2016/05/05/imam-bukhari-rh-ek-faqeeh-the-ulama-ki-gawahi/
بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ امام بخاری رح کی فقاہت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے ـ آئیے اس بات کا ازالہ ہم جلیل القدر ائمہ ، فقہاء و محدثین اور دیگر علماء سے کرتے ہیں کہ امام بخاری رح ایک فقیہ تھے
۱- امام بخاری رح کے استاد ابو مصعب احمد بن ابوبکر الزھری (متوفی ۲۴۲ ھ) امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
قَالَ لي أبو مصعب أحمد بن أبي بكر المديني: محمد بن إسماعيل افقه عندنا وأبصر من ابن حنبل.
فقال رجل من جلسائه: جاوزت الحد.
فقال أبو مصعب: لو أدركت مالكا ونظرت إلى وجهه ووجه محمد بن إسماعيل لقلت: كلاهما واحدا في الفقه والحديث.
کہ امام بخاری ہمارے خیال میں امام احمد بن حنبل سے فقاہت میں زیادہ کمال اور بصیرت رکھتے تھے.ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ابو مصعب! آپ نے تو انہیں خود سے بھی بڑھا دیا.ابو مصعب بولے،اگر تم امام مالک سے ملے ہوتے اور امام بخاری اور امام مالک دونوں کے چہروں پر غور کیا ہوتا تو تم بول اٹھتے کہ دونوں فقاہت اور بصارت بالحدیث میں برابر ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳۹،تاریخ دمشق ج ۱۵ ص ۵۰،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۵۵،تاریخ اسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۰،تحفة الاخبازي ص ۲۰۱،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۱،مقدمة الفتح ص ۴۸۲)
۲- امام بخاری رح کے شیوخ امام یعقوب بن ابراھیم دورقی (متوفی ۲۵۲ ھ) اور نعیم بن حماد خزاعی دونوں امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
محمد بن إسماعيل فقيه هذه الأمة
کہ محمد بن اسماعیل اس امت کے فقیہ ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۴،۳۴۲،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۵۹،۴۵۷،تاریخ الاسلام ص ۲۵۷،۲۵۵،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۴،۴۱۹،تحفة اخباري ص ۲۰۰ (قول الدورقی)، تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۴،طبقات السبکی ج ۲ ص ۲۲۳،مقدمة الفتح ص ۴۸۳)
۳- امام خطیب بغدادی رح لکھتے ہیں:
حاشد بن إسماعيل، يقول: كنت بالبصرة فسمعت قدوم محمد بن إسماعيل، فلما قدم، قَالَ: محمد بن بشار: دخل اليوم سيد الفقهاء
کہ حامد بن اسماعیل کہتے ہیں،میں بصرہ میں موجود تھا کہ محمد بن اسماعیل کی آمد کی خبر پہنچی.محمد بن بشار (امام بخاری کے استاد نے) سن کر فرمایا آج سید الفقہاء آئے ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳۶،تھذیب اسماء واللغات ج ۱،۱ ص ۶۸،ما تمس اليه الحاجة الفاري ص ۲۶،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۴۹،تاریخ الاسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۲،مقدمة الفتح ص ۴۸۳)
۴- خطیب بغدادی رح لکھتے ہیں:
محمد بن أبي حاتم، قَالَ: سمعت علي بن حجر، يقول: أخرجت خراسان ثلاثة: أبا زرعة الرازي بالري، ومحمد بن إسماعيل البخاري ببخارى، وعبد الله بن عبد الرحمن بسمرقند، ومحمد بن إسماعيل عندي أبصرهم، وأعلمهم، وأفقههم.
کہ امام محمد بن ابی حاتم رح نے کہا کہ میں نے علی بن حجر رح (امام بخاری رح کے استاد) (متوفی ۲۴۴ ھ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ خراسان نے تین شخصوں کو پیدا کیا.ابو زرعہ،محمد بن اسماعیل البخاری اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن.اول ان میں امام بخاری رح ہیں اور امام بخاری رح سب میں زیادہ فقیہ اور علم میں سب سے زیادہ ہیں،ان جیسا میرے علم میں کوئی نہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۹،تھذیب اسماء واللغات ج ۱،۱ ص ۲۹،تاریخ الاسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۱،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)
۵- امام بخاری رح کے استاد احمد بن اسحاق سرماری فرماتے ہیں:
وقال أحمد بن إسحاق السرماري من أراد أن ينظر إلى فقيه بحقه وصدقه فلينظر إلى محمد بن إسماعيل
کہ جو شخص چاہے کہ سچے اور واقعی فقیہ کو دیکھے تو وہ محمد بن اسماعیل کو دیکھے. (مقدمة الفتح ص ۴۸۴،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،اور مزید دیکھئیے سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۱۷ اور اس میں کچھ اضافے بھی ہیں)
لنک مقدمة الفتح ص 484>> http://islamport.com/d/1/srh/1/57/2509.html
۶- امام حاشد بن عبداللہ بن عبدالواحد رح امام بخاری رح کے دو شیوخ کے متعلق فرماتے ہیں:
حاشد بن عبد الله بن عبد الواحد، يقول: رأيت عمرو بن زرارة، ومحمد بن رافع عند محمد بن إسماعيل وهما يسألان عن علل الحديث، فلما قاما قالا لمن حضر المجلس: لا تخدعوا عن أبي عبد الله فإنه افقه منا واعلم وأبصر.
کہ میں ایک روز امام بخاری صاحب کی خدمت میں حاضر تھا.آپ کے پاس عمرو بن زرارة اور محمد بن رافع (امام بخاری رح کے شیوخ) موجود تھے اور امام المحدثین پر علل حدیث کے سوالات پیش کر رہے تھے.وقت رخصت ان دونوں نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا،امام بخاری رح کی شان میں گستاخی نہ کرنا.جس پایہ کے وہ فقیہ ہیں،ان کی قدر شناسی کرو،ان پر ہمارا رتبہ نہ بڑھاؤ.وہ ہم سے فقاہت اور بصیرت میں اور علم میں بڑھے ہوئے ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۸,سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۹،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)
۷- امام بخاری رح کے استاد عبداللہ بن محمد بن سعید بن جعفر رح فرماتے ہیں:
قَالَ مُحَمَّدُ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بنَ سَعِيْدِ بنِ جَعْفَرٍ يَقُوْلُ: لَمَّا مَاتَ أَحْمَدُ بنُ حَرْبٍ النَّيْسَابُوْرِيُّ ركبَ مُحَمَّدٌ وَإِسْحَاقُ يُشَيِّعَانِ جِنَازَتَهُ.
فكُنْتُ أَسْمَعُ أَهْلَ المَعْرِفَةِ بِنَيْسَابُوْرَ يَنْظُرُونَ، وَيَقُوْلُوْنَ: مُحَمَّدٌ أَفْقَهُ مِنْ إِسْحَاقَ.
کہ جب احمد بن حرب نیشاپوری رح کا انتقال ہو گیا تو امام اسحٰق بن راہویہ اور امام بخاری جنازہ کے ساتھ جا رہے تھے.میں نے اہل علم اور اہل بصیرت کو کہتے سنا کہ امام بخاری رح،اسحٰق بن راہویہ رح سے زیادہ فقیہ ہیں. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۱۸،تاریخ الاسلام ص ۲۵۵،طبقات السبکی ج ۲ ص ۲۲۳،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۹،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)
۸- امام بخاری رح کے استاد امام حافظ رجاء بن المرجّا رح (متوفی ۲۴۹ ھ) فرمایا کرتے تھے:
رجاء بن المرجى، يقول: فضل محمد بن إسماعيل على العلماء كفضل الرجال على النساء،
کہ امام بخاری رح کی فضیلت سارے علماء (فقہاء محدثین) پر ایسی ہے جیسے مردوں کی عورتوں پر. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۷،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۶،مقدمة الفتح ص ۴۸۴،۴۸۳)
۹- امام عبداللہ بن عبدالرحمٰن االدارمی امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
عَبْدَ اللهِ بنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمَرْقَنْديًّ عَنْ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدُ بنُ إِسْمَاعِيْلَ
أَعْلَمُنَا وَأَفْقَهُنَا وَأَغْوَصُنَا، وَأَكْثَرُنَا طلباً.
کہ امام بخاری رح ہم سے کہیں بڑھ کر عالم فقیہ دقیق علم والے اور علم حدیث کے طالب تھے. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۷،۴۲۶،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۱۰،مقدمة فتح الباری ص ۴۸۵)
۱۰- امام سُلیم بن مجاھد رح کہتے ہیں:
سليماً يَقُوْلُ: مَا رَأَيْتُ بعينِي مُنْذُ سِتِّيْنَ سَنَةً أَفْقَهَ، وَلاَ أَوْرَعَ، وَلاَ أَزْهَدَ فِي الدُّنْيَا، مِنْ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ
کہ ساٹھ برس گزر گئے کہ میں نے کسی کو امام بخاری رح سے زیادہ فقیہ اور پرہیزگار نہیں دیکھا. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۴۹،تاریخ الاسلام ص ۲۶۳،طبقات الشافعیہ للسبکی ج ۲ ص ۲۲۷،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۱۲،مقدمة الفتح ص ۴۸۵)
۱۱- امام بخاری رح کے بارے میں محدثین کا یہ مسلمہ جملہ ہے جس کو امام قسطلانی رح نے نقل کیا ہے:
فقه البخاري في تزاجمة
کہ بخاری رح کی فقہ ان کے تراجم میں ہے. (مقدمة ارشاد الساري ج ۱ ص ۲۴)
۱۲- امام ابن رُشید البستی الفھری رح امام بخاری رح کے تراجم ابواب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کہ جو امام بخاری رح کے کلام میں فقہ و استنباط اور عربیت و لغت کے غور کرے گا وہ دیکھے گا کہ ایک سمندر میں کئی سمندر سموئے ہوئے ہیں.ان کی نیت کو اچھا قرار دینا چاہئے، اس کتاب کے تراجم قائم کرنے میں ان کا خوبصورت کارنامہ ہے۔ . (ترجمان التراجم علی اابواب البخاری)
۱۳- اس میدان میں اسماعیلی رح نے اپنی کتاب المدخل میں صحیح بخاری کی تعریف کرنے کے بعد کہا ہے وہ بہت عمدہ ہے.انھوں نے ان لوگوں کا تذکرہ بھی کیا ہے جنھوں نے ان کی صحیح بخاری کی پیروی کی ہے فرماتے ہیں:
ﺃﺣﺪﺍ ﻣِﻨْﻬُﻢ ﻟﻢ ﻳﺒﻠﻎ ﻣﻦ ﺍﻟﺘﺸﺪﺩ ﻣﺒﻠﻎ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻭَﻟَﺎ ﺗﺴﺒﺐ ﺇِﻟَﻰ ﺍﺳﺘﻨﺒﺎﻁ ﺍﻟْﻤﻌَﺎﻧِﻲ ﻭﺍﺳﺘﺨﺮﺍﺝ ﻟﻄﺎﺋﻒ ﻓﻘﻪ ﺍﻟﺤَﺪِﻳﺚ ﻭﺗﺮﺍﺟﻢ ﺍﻟْﺄَﺑْﻮَﺍﺏ ﺍﻟﺪَّﺍﻟَّﺔ ﻋﻠﻰ ﻣَﺎ ﻟَﻪُ ﻭﺻﻠَﺔ ﺑِﺎﻟْﺤَﺪِﻳﺚِ ﺍﻟْﻤَﺮْﻭِﻱّ ﻓِﻴﻪِ ﺗﺴﺒﺒﻪ ﻭَﻟﻠَّﻪ ﺍﻟْﻔﻀﻞ ﻳﺨْﺘَﺺ ﺑِﻪِ ﻣﻦ ﻳَﺸَﺎﺀ
کہ ان میں سے جو ابو عبداللہ (امام بخاری رح) کے مقام تک نہیں پہنچ پایا اور استنباط معانی،فقہ الحدیث کی باریکیوں کے استخراج اور مروی حدیث سے تعلق پر دلالت کرنے والے تراجم ابواب کو نہ سمجھ سکا اس نے اعتراض کیا ہے. اللہ جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۳)
امام ابن حجر رح امام اسماعیلی رح کا مزید قول نقل کرتے ہیں:
وقال الإسماعيلي في المدخل له أما بعد فإني نظرت في كتاب الجامع الذي ألفه أبو عبد الله البخاري فرأيته جامعا كما سمي لكثير من السنن الصحيحة ودالا على جمل من المعاني الحسنة المستنبطة التي لا يكمل لمثلها الا من جمع إلى معرفة الحديث نقلته والعلم بالروايات وعللها علما بالفقه واللغة وتمكنا منها كلها وتبحرا فيها
کہ علامہ اسماعیلی اپنی کتاب ''المدخل إلی المستخرج'' میں لکھتے ہیں:
''امام بخاری کی الجامع واقعی ''سنن صحیحہ'' کی جامع ہے اور مسائل مستنبط پر حاوی ہے اور ایسی کتاب وہی لکھ سکتا ہے جو علم حدیث کا ماہر اور رواة حدیث کے تراجم پر پورا عبور رکھتا ہوں اور جسے علل الحدیث، فقہ اور لغت پر رسوخ حاصل ہو. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۳)
۱۴- امام ناصر الدین الدمشقی رح فرماتے ہیں:
کہ امام بخاری کے اس کتاب کے تراجم ابواب کے مقاصد اور ان کو اس انداز میں ترتیب دینے میں عجیب و غریب اسرار ورموز اور امور پائے جاتے ہیں. ان میں سوچ و بچار کرنے والے دنگ رہ جاتے ہیں. (التنقیح فی حدیث التسبیح ص ۱۴۱)
۱۵- امام ابن حجر عسقلانی رح امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
امام الدنيا في فقه الحديث
کہ امام بخاری رح حدیث کی فقہ میں دنیا کے امام تھے۔
(تقریب التھذیب ص ۴۶۸ رقم ۵۷۲۷)
مزید فرماتے ہیں:
ثم رأى أن لا يخليه من الفوائد الفقهية والنكت الحكمية فاستخرج بفهمه من المتون معاني كثيرة فرقها في أبواب الكتاب بحسب تناسبها واعتنى فيه بآيات الأحكام فانتزع منها الدلالات البديعة وسلك في الإشارة إلى تفسيرها السبل الوسيعة
کہ امام بخاری رح نے اپنی صحیح میں بہت زیادہ فقہی فوائد اور حکیمانہ نکات بیان کئے ہیں۔ اانھوں نے اپنے فہم سے احادیث و آثار کے متون سے کثیر تعداد میں معنی و مفاہیم کا استخراج کیا ہے جنھیں انھوں نے اپنی کتاب کی ابواب بندی میں مناسب مقامات پر بیان کیا ہے اسی طرح انھوں نے اپنی صحیح میں قرآنی آیات کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ان سے مترشخ ہونے والی بدیعی دلالت کا نہ صرف تذکرہ کیا ہے بلکہ ان کی تفسیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دلائل کا وسیع و عریض ذخیرہ بھی بیان کیا ہے. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۰)
۱۶- امام ابن حجر عسقلانی رح امام محيي الدين النووی رح کا قول امام بخاری رح کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
قال الشيخ محيي الدين نفع الله به ليس مقصود البخاري الاقتصار على الأحاديث فقط بل مراده الاستنباط منها والاستدلال لأبواب ارادها ولهذا المعنى اخلى كثيرا من الأبواب عن إسناد الحديث واقتصر فيه على قوله فيه فلان عن النبي صلى الله عليه وسلم أو نحو ذلك وقد يذكر المتن بغير إسناد وقد يورده معلقا وإنما يفعل هذا لأنه أراد الاحتجاج للمسئلة التي ترجم لها وأشار إلى الحديث لكونه معلوما
کہ امام بخاری رح نے فقط احادیث کو نقل کرنے کا اہتمام ہی نہیں کیا بلکہ ان احادیث سے استنباط اور ان پر قائم کردہ ابواب سے استدلال کا بھی مکمل اہتمام کیا ہے اسی وجہ سے اکثر ابواب سند حدیث سے خالی نظر آتے ہیں اور امام صاحب "فلان النبی صلی اللہ علیہ وسلم" یا اس طرح کے قول پر ہی انحصار کرتے ہیں بسااوقات امام صاحب متن کو معلق یعنی بغیر سند کے نقل کر دیتے ہیں ۔ امام بخاری رح اس طرح کا اسلوب اس لئے اپناتے ہیں تاکہ وہ اس مسئلہ پر دلیل حاصل کر سکیں جن کے لئے ترجمہ الباب قائم کیا جاتا ہے ، بعد ازاں اس مسئلے کے اثبات کے لئے حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۰)
امام بخاری رح استنباط فقہ اس خوبی سے کیا ہے کہ ایک ہی حدیث سے مختلف مسائل کا استخراج کرتے چلے گئے اس طرح بعض احادیث متعدد ابواب کے تحت مکرر آگئی ہیں لیکن فقہ اسلامی میں توسیع کا دروازہ کھولا ہے اور یہ ایسا کارنامہ ہے کہ
۱۷- شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح اس سے متاثر ہوکر برملا اعتراف کرتے ہیں:
وأراد أیضا أن یفرغ جھدہ في الاستنباط من حدیث رسول اللہ و یستنبط من کل حدیث مسائل کثیرة
کہ اس طرح آپ نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مسائل کے استنباط میں اپنی پوری کوشش صرف کر دیں اور ہر حدیث سے بہت زیادہ مسائل استنباط کریں. (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۱۹)
شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح امام بخاری رح کی اس کوشش کی داد دیتے ہوئے اگے فرماتے ہیں:
وکثیرا ما یستخرج الآداب المفھومة بالعقل من الکتاب والسنة بنحومن الاستدلال والعادات الکالنة في زمانه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومن ذلك لا یدرك حسنه إلا من مارس کتاب الآداب و إجمال عقله في میدان آداب قومه ثم طلب لھا من السنة أصلاً
کہ اورعموماً ایسے تراجم ابواب ذکر کرتے ہیں جو کتاب و سنت میں انتہائی غور کے بعد حاصل ہوتے ہیں جس طرح نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہونے والی عادات سے استدلال اور اس میں وہ بھی چیزیں ہہیں جن کے حسن کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو صاحب فن ہے اور جس نے آداب کی کتاب پر مشق اور ہمیشگی کی اور اپنی عقل کو اپنی قوم کے آداب کے میدان میں سرگرداں رکھا۔پھر اس کے لیے سنت سے دلیل تلاش کی. (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۲۲)
امام بخاری رح ایک فقیہ تھے علماء کی گواہی
اس تحریر کو رومن انگلش میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں
https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2016/05/05/imam-bukhari-rh-ek-faqeeh-the-ulama-ki-gawahi/
بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ امام بخاری رح کی فقاہت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے ـ آئیے اس بات کا ازالہ ہم جلیل القدر ائمہ ، فقہاء و محدثین اور دیگر علماء سے کرتے ہیں کہ امام بخاری رح ایک فقیہ تھے
۱- امام بخاری رح کے استاد ابو مصعب احمد بن ابوبکر الزھری (متوفی ۲۴۲ ھ) امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
قَالَ لي أبو مصعب أحمد بن أبي بكر المديني: محمد بن إسماعيل افقه عندنا وأبصر من ابن حنبل.
فقال رجل من جلسائه: جاوزت الحد.
فقال أبو مصعب: لو أدركت مالكا ونظرت إلى وجهه ووجه محمد بن إسماعيل لقلت: كلاهما واحدا في الفقه والحديث.
کہ امام بخاری ہمارے خیال میں امام احمد بن حنبل سے فقاہت میں زیادہ کمال اور بصیرت رکھتے تھے.ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ابو مصعب! آپ نے تو انہیں خود سے بھی بڑھا دیا.ابو مصعب بولے،اگر تم امام مالک سے ملے ہوتے اور امام بخاری اور امام مالک دونوں کے چہروں پر غور کیا ہوتا تو تم بول اٹھتے کہ دونوں فقاہت اور بصارت بالحدیث میں برابر ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳۹،تاریخ دمشق ج ۱۵ ص ۵۰،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۵۵،تاریخ اسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۰،تحفة الاخبازي ص ۲۰۱،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۱،مقدمة الفتح ص ۴۸۲)
۲- امام بخاری رح کے شیوخ امام یعقوب بن ابراھیم دورقی (متوفی ۲۵۲ ھ) اور نعیم بن حماد خزاعی دونوں امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
محمد بن إسماعيل فقيه هذه الأمة
کہ محمد بن اسماعیل اس امت کے فقیہ ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۴،۳۴۲،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۵۹،۴۵۷،تاریخ الاسلام ص ۲۵۷،۲۵۵،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۴،۴۱۹،تحفة اخباري ص ۲۰۰ (قول الدورقی)، تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۴،طبقات السبکی ج ۲ ص ۲۲۳،مقدمة الفتح ص ۴۸۳)
۳- امام خطیب بغدادی رح لکھتے ہیں:
حاشد بن إسماعيل، يقول: كنت بالبصرة فسمعت قدوم محمد بن إسماعيل، فلما قدم، قَالَ: محمد بن بشار: دخل اليوم سيد الفقهاء
کہ حامد بن اسماعیل کہتے ہیں،میں بصرہ میں موجود تھا کہ محمد بن اسماعیل کی آمد کی خبر پہنچی.محمد بن بشار (امام بخاری کے استاد نے) سن کر فرمایا آج سید الفقہاء آئے ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳۶،تھذیب اسماء واللغات ج ۱،۱ ص ۶۸،ما تمس اليه الحاجة الفاري ص ۲۶،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۴۹،تاریخ الاسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۲،مقدمة الفتح ص ۴۸۳)
۴- خطیب بغدادی رح لکھتے ہیں:
محمد بن أبي حاتم، قَالَ: سمعت علي بن حجر، يقول: أخرجت خراسان ثلاثة: أبا زرعة الرازي بالري، ومحمد بن إسماعيل البخاري ببخارى، وعبد الله بن عبد الرحمن بسمرقند، ومحمد بن إسماعيل عندي أبصرهم، وأعلمهم، وأفقههم.
کہ امام محمد بن ابی حاتم رح نے کہا کہ میں نے علی بن حجر رح (امام بخاری رح کے استاد) (متوفی ۲۴۴ ھ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ خراسان نے تین شخصوں کو پیدا کیا.ابو زرعہ،محمد بن اسماعیل البخاری اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن.اول ان میں امام بخاری رح ہیں اور امام بخاری رح سب میں زیادہ فقیہ اور علم میں سب سے زیادہ ہیں،ان جیسا میرے علم میں کوئی نہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۹،تھذیب اسماء واللغات ج ۱،۱ ص ۲۹،تاریخ الاسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۱،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)
۵- امام بخاری رح کے استاد احمد بن اسحاق سرماری فرماتے ہیں:
وقال أحمد بن إسحاق السرماري من أراد أن ينظر إلى فقيه بحقه وصدقه فلينظر إلى محمد بن إسماعيل
کہ جو شخص چاہے کہ سچے اور واقعی فقیہ کو دیکھے تو وہ محمد بن اسماعیل کو دیکھے. (مقدمة الفتح ص ۴۸۴،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،اور مزید دیکھئیے سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۱۷ اور اس میں کچھ اضافے بھی ہیں)
لنک مقدمة الفتح ص 484>> http://islamport.com/d/1/srh/1/57/2509.html
۶- امام حاشد بن عبداللہ بن عبدالواحد رح امام بخاری رح کے دو شیوخ کے متعلق فرماتے ہیں:
حاشد بن عبد الله بن عبد الواحد، يقول: رأيت عمرو بن زرارة، ومحمد بن رافع عند محمد بن إسماعيل وهما يسألان عن علل الحديث، فلما قاما قالا لمن حضر المجلس: لا تخدعوا عن أبي عبد الله فإنه افقه منا واعلم وأبصر.
کہ میں ایک روز امام بخاری صاحب کی خدمت میں حاضر تھا.آپ کے پاس عمرو بن زرارة اور محمد بن رافع (امام بخاری رح کے شیوخ) موجود تھے اور امام المحدثین پر علل حدیث کے سوالات پیش کر رہے تھے.وقت رخصت ان دونوں نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا،امام بخاری رح کی شان میں گستاخی نہ کرنا.جس پایہ کے وہ فقیہ ہیں،ان کی قدر شناسی کرو،ان پر ہمارا رتبہ نہ بڑھاؤ.وہ ہم سے فقاہت اور بصیرت میں اور علم میں بڑھے ہوئے ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۸,سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۹،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)
۷- امام بخاری رح کے استاد عبداللہ بن محمد بن سعید بن جعفر رح فرماتے ہیں:
قَالَ مُحَمَّدُ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بنَ سَعِيْدِ بنِ جَعْفَرٍ يَقُوْلُ: لَمَّا مَاتَ أَحْمَدُ بنُ حَرْبٍ النَّيْسَابُوْرِيُّ ركبَ مُحَمَّدٌ وَإِسْحَاقُ يُشَيِّعَانِ جِنَازَتَهُ.
فكُنْتُ أَسْمَعُ أَهْلَ المَعْرِفَةِ بِنَيْسَابُوْرَ يَنْظُرُونَ، وَيَقُوْلُوْنَ: مُحَمَّدٌ أَفْقَهُ مِنْ إِسْحَاقَ.
کہ جب احمد بن حرب نیشاپوری رح کا انتقال ہو گیا تو امام اسحٰق بن راہویہ اور امام بخاری جنازہ کے ساتھ جا رہے تھے.میں نے اہل علم اور اہل بصیرت کو کہتے سنا کہ امام بخاری رح،اسحٰق بن راہویہ رح سے زیادہ فقیہ ہیں. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۱۸،تاریخ الاسلام ص ۲۵۵،طبقات السبکی ج ۲ ص ۲۲۳،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۹،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)
۸- امام بخاری رح کے استاد امام حافظ رجاء بن المرجّا رح (متوفی ۲۴۹ ھ) فرمایا کرتے تھے:
رجاء بن المرجى، يقول: فضل محمد بن إسماعيل على العلماء كفضل الرجال على النساء،
کہ امام بخاری رح کی فضیلت سارے علماء (فقہاء محدثین) پر ایسی ہے جیسے مردوں کی عورتوں پر. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۷،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۶،مقدمة الفتح ص ۴۸۴،۴۸۳)
۹- امام عبداللہ بن عبدالرحمٰن االدارمی امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
عَبْدَ اللهِ بنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمَرْقَنْديًّ عَنْ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدُ بنُ إِسْمَاعِيْلَ
أَعْلَمُنَا وَأَفْقَهُنَا وَأَغْوَصُنَا، وَأَكْثَرُنَا طلباً.
کہ امام بخاری رح ہم سے کہیں بڑھ کر عالم فقیہ دقیق علم والے اور علم حدیث کے طالب تھے. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۷،۴۲۶،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۱۰،مقدمة فتح الباری ص ۴۸۵)
۱۰- امام سُلیم بن مجاھد رح کہتے ہیں:
سليماً يَقُوْلُ: مَا رَأَيْتُ بعينِي مُنْذُ سِتِّيْنَ سَنَةً أَفْقَهَ، وَلاَ أَوْرَعَ، وَلاَ أَزْهَدَ فِي الدُّنْيَا، مِنْ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ
کہ ساٹھ برس گزر گئے کہ میں نے کسی کو امام بخاری رح سے زیادہ فقیہ اور پرہیزگار نہیں دیکھا. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۴۹،تاریخ الاسلام ص ۲۶۳،طبقات الشافعیہ للسبکی ج ۲ ص ۲۲۷،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۱۲،مقدمة الفتح ص ۴۸۵)
۱۱- امام بخاری رح کے بارے میں محدثین کا یہ مسلمہ جملہ ہے جس کو امام قسطلانی رح نے نقل کیا ہے:
فقه البخاري في تزاجمة
کہ بخاری رح کی فقہ ان کے تراجم میں ہے. (مقدمة ارشاد الساري ج ۱ ص ۲۴)
۱۲- امام ابن رُشید البستی الفھری رح امام بخاری رح کے تراجم ابواب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کہ جو امام بخاری رح کے کلام میں فقہ و استنباط اور عربیت و لغت کے غور کرے گا وہ دیکھے گا کہ ایک سمندر میں کئی سمندر سموئے ہوئے ہیں.ان کی نیت کو اچھا قرار دینا چاہئے، اس کتاب کے تراجم قائم کرنے میں ان کا خوبصورت کارنامہ ہے۔ . (ترجمان التراجم علی اابواب البخاری)
۱۳- اس میدان میں اسماعیلی رح نے اپنی کتاب المدخل میں صحیح بخاری کی تعریف کرنے کے بعد کہا ہے وہ بہت عمدہ ہے.انھوں نے ان لوگوں کا تذکرہ بھی کیا ہے جنھوں نے ان کی صحیح بخاری کی پیروی کی ہے فرماتے ہیں:
ﺃﺣﺪﺍ ﻣِﻨْﻬُﻢ ﻟﻢ ﻳﺒﻠﻎ ﻣﻦ ﺍﻟﺘﺸﺪﺩ ﻣﺒﻠﻎ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻭَﻟَﺎ ﺗﺴﺒﺐ ﺇِﻟَﻰ ﺍﺳﺘﻨﺒﺎﻁ ﺍﻟْﻤﻌَﺎﻧِﻲ ﻭﺍﺳﺘﺨﺮﺍﺝ ﻟﻄﺎﺋﻒ ﻓﻘﻪ ﺍﻟﺤَﺪِﻳﺚ ﻭﺗﺮﺍﺟﻢ ﺍﻟْﺄَﺑْﻮَﺍﺏ ﺍﻟﺪَّﺍﻟَّﺔ ﻋﻠﻰ ﻣَﺎ ﻟَﻪُ ﻭﺻﻠَﺔ ﺑِﺎﻟْﺤَﺪِﻳﺚِ ﺍﻟْﻤَﺮْﻭِﻱّ ﻓِﻴﻪِ ﺗﺴﺒﺒﻪ ﻭَﻟﻠَّﻪ ﺍﻟْﻔﻀﻞ ﻳﺨْﺘَﺺ ﺑِﻪِ ﻣﻦ ﻳَﺸَﺎﺀ
کہ ان میں سے جو ابو عبداللہ (امام بخاری رح) کے مقام تک نہیں پہنچ پایا اور استنباط معانی،فقہ الحدیث کی باریکیوں کے استخراج اور مروی حدیث سے تعلق پر دلالت کرنے والے تراجم ابواب کو نہ سمجھ سکا اس نے اعتراض کیا ہے. اللہ جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۳)
امام ابن حجر رح امام اسماعیلی رح کا مزید قول نقل کرتے ہیں:
وقال الإسماعيلي في المدخل له أما بعد فإني نظرت في كتاب الجامع الذي ألفه أبو عبد الله البخاري فرأيته جامعا كما سمي لكثير من السنن الصحيحة ودالا على جمل من المعاني الحسنة المستنبطة التي لا يكمل لمثلها الا من جمع إلى معرفة الحديث نقلته والعلم بالروايات وعللها علما بالفقه واللغة وتمكنا منها كلها وتبحرا فيها
کہ علامہ اسماعیلی اپنی کتاب ''المدخل إلی المستخرج'' میں لکھتے ہیں:
''امام بخاری کی الجامع واقعی ''سنن صحیحہ'' کی جامع ہے اور مسائل مستنبط پر حاوی ہے اور ایسی کتاب وہی لکھ سکتا ہے جو علم حدیث کا ماہر اور رواة حدیث کے تراجم پر پورا عبور رکھتا ہوں اور جسے علل الحدیث، فقہ اور لغت پر رسوخ حاصل ہو. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۳)
۱۴- امام ناصر الدین الدمشقی رح فرماتے ہیں:
کہ امام بخاری کے اس کتاب کے تراجم ابواب کے مقاصد اور ان کو اس انداز میں ترتیب دینے میں عجیب و غریب اسرار ورموز اور امور پائے جاتے ہیں. ان میں سوچ و بچار کرنے والے دنگ رہ جاتے ہیں. (التنقیح فی حدیث التسبیح ص ۱۴۱)
۱۵- امام ابن حجر عسقلانی رح امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
امام الدنيا في فقه الحديث
کہ امام بخاری رح حدیث کی فقہ میں دنیا کے امام تھے۔
(تقریب التھذیب ص ۴۶۸ رقم ۵۷۲۷)
مزید فرماتے ہیں:
ثم رأى أن لا يخليه من الفوائد الفقهية والنكت الحكمية فاستخرج بفهمه من المتون معاني كثيرة فرقها في أبواب الكتاب بحسب تناسبها واعتنى فيه بآيات الأحكام فانتزع منها الدلالات البديعة وسلك في الإشارة إلى تفسيرها السبل الوسيعة
کہ امام بخاری رح نے اپنی صحیح میں بہت زیادہ فقہی فوائد اور حکیمانہ نکات بیان کئے ہیں۔ اانھوں نے اپنے فہم سے احادیث و آثار کے متون سے کثیر تعداد میں معنی و مفاہیم کا استخراج کیا ہے جنھیں انھوں نے اپنی کتاب کی ابواب بندی میں مناسب مقامات پر بیان کیا ہے اسی طرح انھوں نے اپنی صحیح میں قرآنی آیات کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ان سے مترشخ ہونے والی بدیعی دلالت کا نہ صرف تذکرہ کیا ہے بلکہ ان کی تفسیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دلائل کا وسیع و عریض ذخیرہ بھی بیان کیا ہے. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۰)
۱۶- امام ابن حجر عسقلانی رح امام محيي الدين النووی رح کا قول امام بخاری رح کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
قال الشيخ محيي الدين نفع الله به ليس مقصود البخاري الاقتصار على الأحاديث فقط بل مراده الاستنباط منها والاستدلال لأبواب ارادها ولهذا المعنى اخلى كثيرا من الأبواب عن إسناد الحديث واقتصر فيه على قوله فيه فلان عن النبي صلى الله عليه وسلم أو نحو ذلك وقد يذكر المتن بغير إسناد وقد يورده معلقا وإنما يفعل هذا لأنه أراد الاحتجاج للمسئلة التي ترجم لها وأشار إلى الحديث لكونه معلوما
کہ امام بخاری رح نے فقط احادیث کو نقل کرنے کا اہتمام ہی نہیں کیا بلکہ ان احادیث سے استنباط اور ان پر قائم کردہ ابواب سے استدلال کا بھی مکمل اہتمام کیا ہے اسی وجہ سے اکثر ابواب سند حدیث سے خالی نظر آتے ہیں اور امام صاحب "فلان النبی صلی اللہ علیہ وسلم" یا اس طرح کے قول پر ہی انحصار کرتے ہیں بسااوقات امام صاحب متن کو معلق یعنی بغیر سند کے نقل کر دیتے ہیں ۔ امام بخاری رح اس طرح کا اسلوب اس لئے اپناتے ہیں تاکہ وہ اس مسئلہ پر دلیل حاصل کر سکیں جن کے لئے ترجمہ الباب قائم کیا جاتا ہے ، بعد ازاں اس مسئلے کے اثبات کے لئے حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۰)
امام بخاری رح استنباط فقہ اس خوبی سے کیا ہے کہ ایک ہی حدیث سے مختلف مسائل کا استخراج کرتے چلے گئے اس طرح بعض احادیث متعدد ابواب کے تحت مکرر آگئی ہیں لیکن فقہ اسلامی میں توسیع کا دروازہ کھولا ہے اور یہ ایسا کارنامہ ہے کہ
۱۷- شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح اس سے متاثر ہوکر برملا اعتراف کرتے ہیں:
وأراد أیضا أن یفرغ جھدہ في الاستنباط من حدیث رسول اللہ و یستنبط من کل حدیث مسائل کثیرة
کہ اس طرح آپ نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مسائل کے استنباط میں اپنی پوری کوشش صرف کر دیں اور ہر حدیث سے بہت زیادہ مسائل استنباط کریں. (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۱۹)
شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح امام بخاری رح کی اس کوشش کی داد دیتے ہوئے اگے فرماتے ہیں:
وکثیرا ما یستخرج الآداب المفھومة بالعقل من الکتاب والسنة بنحومن الاستدلال والعادات الکالنة في زمانه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومن ذلك لا یدرك حسنه إلا من مارس کتاب الآداب و إجمال عقله في میدان آداب قومه ثم طلب لھا من السنة أصلاً
کہ اورعموماً ایسے تراجم ابواب ذکر کرتے ہیں جو کتاب و سنت میں انتہائی غور کے بعد حاصل ہوتے ہیں جس طرح نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہونے والی عادات سے استدلال اور اس میں وہ بھی چیزیں ہہیں جن کے حسن کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو صاحب فن ہے اور جس نے آداب کی کتاب پر مشق اور ہمیشگی کی اور اپنی عقل کو اپنی قوم کے آداب کے میدان میں سرگرداں رکھا۔پھر اس کے لیے سنت سے دلیل تلاش کی. (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۲۲)
Last edited: