• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری رحمہ اللہ ایک فقیہ تھے علماء کی گواہی

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

امام بخاری رح ایک فقیہ تھے علماء کی گواہی


اس تحریر کو رومن انگلش میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں

https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2016/05/05/imam-bukhari-rh-ek-faqeeh-the-ulama-ki-gawahi/

بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ امام بخاری رح کی فقاہت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے ـ آئیے اس بات کا ازالہ ہم جلیل القدر ائمہ ، فقہاء و محدثین اور دیگر علماء سے کرتے ہیں کہ امام بخاری رح ایک فقیہ تھے

۱- امام بخاری رح کے استاد ابو مصعب احمد بن ابوبکر الزھری (متوفی ۲۴۲ ھ) امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
قَالَ لي أبو مصعب أحمد بن أبي بكر المديني: محمد بن إسماعيل افقه عندنا وأبصر من ابن حنبل.
فقال رجل من جلسائه: جاوزت الحد.
فقال أبو مصعب: لو أدركت مالكا ونظرت إلى وجهه ووجه محمد بن إسماعيل لقلت: كلاهما واحدا في الفقه والحديث.

کہ امام بخاری ہمارے خیال میں امام احمد بن حنبل سے فقاہت میں زیادہ کمال اور بصیرت رکھتے تھے.ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ابو مصعب! آپ نے تو انہیں خود سے بھی بڑھا دیا.ابو مصعب بولے،اگر تم امام مالک سے ملے ہوتے اور امام بخاری اور امام مالک دونوں کے چہروں پر غور کیا ہوتا تو تم بول اٹھتے کہ دونوں فقاہت اور بصارت بالحدیث میں برابر ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳۹،تاریخ دمشق ج ۱۵ ص ۵۰،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۵۵،تاریخ اسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۰،تحفة الاخبازي ص ۲۰۱،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۱،مقدمة الفتح ص ۴۸۲)

۲- امام بخاری رح کے شیوخ امام یعقوب بن ابراھیم دورقی (متوفی ۲۵۲ ھ) اور نعیم بن حماد خزاعی دونوں امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:

محمد بن إسماعيل فقيه هذه الأمة
کہ محمد بن اسماعیل اس امت کے فقیہ ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۴،۳۴۲،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۵۹،۴۵۷،تاریخ الاسلام ص ۲۵۷،۲۵۵،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۴،۴۱۹،تحفة اخباري ص ۲۰۰ (قول الدورقی)، تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۴،طبقات السبکی ج ۲ ص ۲۲۳،مقدمة الفتح ص ۴۸۳)

۳- امام خطیب بغدادی رح لکھتے ہیں:

حاشد بن إسماعيل، يقول: كنت بالبصرة فسمعت قدوم محمد بن إسماعيل، فلما قدم، قَالَ: محمد بن بشار: دخل اليوم سيد الفقهاء
کہ حامد بن اسماعیل کہتے ہیں،میں بصرہ میں موجود تھا کہ محمد بن اسماعیل کی آمد کی خبر پہنچی.محمد بن بشار (امام بخاری کے استاد نے) سن کر فرمایا آج سید الفقہاء آئے ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳۶،تھذیب اسماء واللغات ج ۱،۱ ص ۶۸،ما تمس اليه الحاجة الفاري ص ۲۶،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۴۹،تاریخ الاسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۲،مقدمة الفتح ص ۴۸۳)

۴- خطیب بغدادی رح لکھتے ہیں:

محمد بن أبي حاتم، قَالَ: سمعت علي بن حجر، يقول: أخرجت خراسان ثلاثة: أبا زرعة الرازي بالري، ومحمد بن إسماعيل البخاري ببخارى، وعبد الله بن عبد الرحمن بسمرقند، ومحمد بن إسماعيل عندي أبصرهم، وأعلمهم، وأفقههم.
کہ امام محمد بن ابی حاتم رح نے کہا کہ میں نے علی بن حجر رح (امام بخاری رح کے استاد) (متوفی ۲۴۴ ھ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ خراسان نے تین شخصوں کو پیدا کیا.ابو زرعہ،محمد بن اسماعیل البخاری اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن.اول ان میں امام بخاری رح ہیں اور امام بخاری رح سب میں زیادہ فقیہ اور علم میں سب سے زیادہ ہیں،ان جیسا میرے علم میں کوئی نہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۹،تھذیب اسماء واللغات ج ۱،۱ ص ۲۹،تاریخ الاسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۱،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)

۵- امام بخاری رح کے استاد احمد بن اسحاق سرماری فرماتے ہیں:

وقال أحمد بن إسحاق السرماري من أراد أن ينظر إلى فقيه بحقه وصدقه فلينظر إلى محمد بن إسماعيل
کہ جو شخص چاہے کہ سچے اور واقعی فقیہ کو دیکھے تو وہ محمد بن اسماعیل کو دیکھے. (مقدمة الفتح ص ۴۸۴،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،اور مزید دیکھئیے سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۱۷ اور اس میں کچھ اضافے بھی ہیں)

لنک مقدمة الفتح ص 484>> http://islamport.com/d/1/srh/1/57/2509.html

۶- امام حاشد بن عبداللہ بن عبدالواحد رح امام بخاری رح کے دو شیوخ کے متعلق فرماتے ہیں:

حاشد بن عبد الله بن عبد الواحد، يقول: رأيت عمرو بن زرارة، ومحمد بن رافع عند محمد بن إسماعيل وهما يسألان عن علل الحديث، فلما قاما قالا لمن حضر المجلس: لا تخدعوا عن أبي عبد الله فإنه افقه منا واعلم وأبصر.
کہ میں ایک روز امام بخاری صاحب کی خدمت میں حاضر تھا.آپ کے پاس عمرو بن زرارة اور محمد بن رافع (امام بخاری رح کے شیوخ) موجود تھے اور امام المحدثین پر علل حدیث کے سوالات پیش کر رہے تھے.وقت رخصت ان دونوں نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا،امام بخاری رح کی شان میں گستاخی نہ کرنا.جس پایہ کے وہ فقیہ ہیں،ان کی قدر شناسی کرو،ان پر ہمارا رتبہ نہ بڑھاؤ.وہ ہم سے فقاہت اور بصیرت میں اور علم میں بڑھے ہوئے ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۸,سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۹،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۸،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)

۷- امام بخاری رح کے استاد عبداللہ بن محمد بن سعید بن جعفر رح فرماتے ہیں:

قَالَ مُحَمَّدُ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بنَ سَعِيْدِ بنِ جَعْفَرٍ يَقُوْلُ: لَمَّا مَاتَ أَحْمَدُ بنُ حَرْبٍ النَّيْسَابُوْرِيُّ ركبَ مُحَمَّدٌ وَإِسْحَاقُ يُشَيِّعَانِ جِنَازَتَهُ.
فكُنْتُ أَسْمَعُ أَهْلَ المَعْرِفَةِ بِنَيْسَابُوْرَ يَنْظُرُونَ، وَيَقُوْلُوْنَ: مُحَمَّدٌ أَفْقَهُ مِنْ إِسْحَاقَ.

کہ جب احمد بن حرب نیشاپوری رح کا انتقال ہو گیا تو امام اسحٰق بن راہویہ اور امام بخاری جنازہ کے ساتھ جا رہے تھے.میں نے اہل علم اور اہل بصیرت کو کہتے سنا کہ امام بخاری رح،اسحٰق بن راہویہ رح سے زیادہ فقیہ ہیں. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۱۸،تاریخ الاسلام ص ۲۵۵،طبقات السبکی ج ۲ ص ۲۲۳،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۹،مقدمة الفتح ص ۴۸۴)

۸- امام بخاری رح کے استاد امام حافظ رجاء بن المرجّا رح (متوفی ۲۴۹ ھ) فرمایا کرتے تھے:

رجاء بن المرجى، يقول: فضل محمد بن إسماعيل على العلماء كفضل الرجال على النساء،
کہ امام بخاری رح کی فضیلت سارے علماء (فقہاء محدثین) پر ایسی ہے جیسے مردوں کی عورتوں پر. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۴۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۷،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۶،مقدمة الفتح ص ۴۸۴،۴۸۳)

۹- امام عبداللہ بن عبدالرحمٰن االدارمی امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:

عَبْدَ اللهِ بنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمَرْقَنْديًّ عَنْ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدُ بنُ إِسْمَاعِيْلَ
أَعْلَمُنَا وَأَفْقَهُنَا وَأَغْوَصُنَا، وَأَكْثَرُنَا طلباً.

کہ امام بخاری رح ہم سے کہیں بڑھ کر عالم فقیہ دقیق علم والے اور علم حدیث کے طالب تھے. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۷،۴۲۶،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۱۰،مقدمة فتح الباری ص ۴۸۵)

۱۰- امام سُلیم بن مجاھد رح کہتے ہیں:

سليماً يَقُوْلُ: مَا رَأَيْتُ بعينِي مُنْذُ سِتِّيْنَ سَنَةً أَفْقَهَ، وَلاَ أَوْرَعَ، وَلاَ أَزْهَدَ فِي الدُّنْيَا، مِنْ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ
کہ ساٹھ برس گزر گئے کہ میں نے کسی کو امام بخاری رح سے زیادہ فقیہ اور پرہیزگار نہیں دیکھا. (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۴۹،تاریخ الاسلام ص ۲۶۳،طبقات الشافعیہ للسبکی ج ۲ ص ۲۲۷،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۱۲،مقدمة الفتح ص ۴۸۵)

۱۱- امام بخاری رح کے بارے میں محدثین کا یہ مسلمہ جملہ ہے جس کو امام قسطلانی رح نے نقل کیا ہے:

فقه البخاري في تزاجمة
کہ بخاری رح کی فقہ ان کے تراجم میں ہے. (مقدمة ارشاد الساري ج ۱ ص ۲۴)

۱۲- امام ابن رُشید البستی الفھری رح امام بخاری رح کے تراجم ابواب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

کہ جو امام بخاری رح کے کلام میں فقہ و استنباط اور عربیت و لغت کے غور کرے گا وہ دیکھے گا کہ ایک سمندر میں کئی سمندر سموئے ہوئے ہیں.ان کی نیت کو اچھا قرار دینا چاہئے، اس کتاب کے تراجم قائم کرنے میں ان کا خوبصورت کارنامہ ہے۔ . (ترجمان التراجم علی اابواب البخاری)

۱۳- اس میدان میں اسماعیلی رح نے اپنی کتاب المدخل میں صحیح بخاری کی تعریف کرنے کے بعد کہا ہے وہ بہت عمدہ ہے.انھوں نے ان لوگوں کا تذکرہ بھی کیا ہے جنھوں نے ان کی صحیح بخاری کی پیروی کی ہے فرماتے ہیں:

ﺃﺣﺪﺍ ﻣِﻨْﻬُﻢ ﻟﻢ ﻳﺒﻠﻎ ﻣﻦ ﺍﻟﺘﺸﺪﺩ ﻣﺒﻠﻎ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻭَﻟَﺎ ﺗﺴﺒﺐ ﺇِﻟَﻰ ﺍﺳﺘﻨﺒﺎﻁ ﺍﻟْﻤﻌَﺎﻧِﻲ ﻭﺍﺳﺘﺨﺮﺍﺝ ﻟﻄﺎﺋﻒ ﻓﻘﻪ ﺍﻟﺤَﺪِﻳﺚ ﻭﺗﺮﺍﺟﻢ ﺍﻟْﺄَﺑْﻮَﺍﺏ ﺍﻟﺪَّﺍﻟَّﺔ ﻋﻠﻰ ﻣَﺎ ﻟَﻪُ ﻭﺻﻠَﺔ ﺑِﺎﻟْﺤَﺪِﻳﺚِ ﺍﻟْﻤَﺮْﻭِﻱّ ﻓِﻴﻪِ ﺗﺴﺒﺒﻪ ﻭَﻟﻠَّﻪ ﺍﻟْﻔﻀﻞ ﻳﺨْﺘَﺺ ﺑِﻪِ ﻣﻦ ﻳَﺸَﺎﺀ
کہ ان میں سے جو ابو عبداللہ (امام بخاری رح) کے مقام تک نہیں پہنچ پایا اور استنباط معانی،فقہ الحدیث کی باریکیوں کے استخراج اور مروی حدیث سے تعلق پر دلالت کرنے والے تراجم ابواب کو نہ سمجھ سکا اس نے اعتراض کیا ہے. اللہ جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۳)

امام ابن حجر رح امام اسماعیلی رح کا مزید قول نقل کرتے ہیں:

وقال الإسماعيلي في المدخل له أما بعد فإني نظرت في كتاب الجامع الذي ألفه أبو عبد الله البخاري فرأيته جامعا كما سمي لكثير من السنن الصحيحة ودالا على جمل من المعاني الحسنة المستنبطة التي لا يكمل لمثلها الا من جمع إلى معرفة الحديث نقلته والعلم بالروايات وعللها علما بالفقه واللغة وتمكنا منها كلها وتبحرا فيها
کہ علامہ اسماعیلی اپنی کتاب ''المدخل إلی المستخرج'' میں لکھتے ہیں:
''امام بخاری کی الجامع واقعی ''سنن صحیحہ'' کی جامع ہے اور مسائل مستنبط پر حاوی ہے اور ایسی کتاب وہی لکھ سکتا ہے جو علم حدیث کا ماہر اور رواة حدیث کے تراجم پر پورا عبور رکھتا ہوں اور جسے علل الحدیث، فقہ اور لغت پر رسوخ حاصل ہو. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۳)

۱۴- امام ناصر الدین الدمشقی رح فرماتے ہیں:

کہ امام بخاری کے اس کتاب کے تراجم ابواب کے مقاصد اور ان کو اس انداز میں ترتیب دینے میں عجیب و غریب اسرار ورموز اور امور پائے جاتے ہیں. ان میں سوچ و بچار کرنے والے دنگ رہ جاتے ہیں. (التنقیح فی حدیث التسبیح ص ۱۴۱)

۱۵- امام ابن حجر عسقلانی رح امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:

امام الدنيا في فقه الحديث
کہ امام بخاری رح حدیث کی فقہ میں دنیا کے امام تھے۔
(تقریب التھذیب ص ۴۶۸ رقم ۵۷۲۷)

مزید فرماتے ہیں:

ثم رأى أن لا يخليه من الفوائد الفقهية والنكت الحكمية فاستخرج بفهمه من المتون معاني كثيرة فرقها في أبواب الكتاب بحسب تناسبها واعتنى فيه بآيات الأحكام فانتزع منها الدلالات البديعة وسلك في الإشارة إلى تفسيرها السبل الوسيعة
کہ امام بخاری رح نے اپنی صحیح میں بہت زیادہ فقہی فوائد اور حکیمانہ نکات بیان کئے ہیں۔ اانھوں نے اپنے فہم سے احادیث و آثار کے متون سے کثیر تعداد میں معنی و مفاہیم کا استخراج کیا ہے جنھیں انھوں نے اپنی کتاب کی ابواب بندی میں مناسب مقامات پر بیان کیا ہے اسی طرح انھوں نے اپنی صحیح میں قرآنی آیات کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ان سے مترشخ ہونے والی بدیعی دلالت کا نہ صرف تذکرہ کیا ہے بلکہ ان کی تفسیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دلائل کا وسیع و عریض ذخیرہ بھی بیان کیا ہے. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۰)

۱۶- امام ابن حجر عسقلانی رح امام محيي الدين النووی رح کا قول امام بخاری رح کے بارے میں نقل کرتے ہیں:

قال الشيخ محيي الدين نفع الله به ليس مقصود البخاري الاقتصار على الأحاديث فقط بل مراده الاستنباط منها والاستدلال لأبواب ارادها ولهذا المعنى اخلى كثيرا من الأبواب عن إسناد الحديث واقتصر فيه على قوله فيه فلان عن النبي صلى الله عليه وسلم أو نحو ذلك وقد يذكر المتن بغير إسناد وقد يورده معلقا وإنما يفعل هذا لأنه أراد الاحتجاج للمسئلة التي ترجم لها وأشار إلى الحديث لكونه معلوما
کہ امام بخاری رح نے فقط احادیث کو نقل کرنے کا اہتمام ہی نہیں کیا بلکہ ان احادیث سے استنباط اور ان پر قائم کردہ ابواب سے استدلال کا بھی مکمل اہتمام کیا ہے اسی وجہ سے اکثر ابواب سند حدیث سے خالی نظر آتے ہیں اور امام صاحب "فلان النبی صلی اللہ علیہ وسلم" یا اس طرح کے قول پر ہی انحصار کرتے ہیں بسااوقات امام صاحب متن کو معلق یعنی بغیر سند کے نقل کر دیتے ہیں ۔ امام بخاری رح اس طرح کا اسلوب اس لئے اپناتے ہیں تاکہ وہ اس مسئلہ پر دلیل حاصل کر سکیں جن کے لئے ترجمہ الباب قائم کیا جاتا ہے ، بعد ازاں اس مسئلے کے اثبات کے لئے حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں. (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص ۱۰)

امام بخاری رح استنباط فقہ اس خوبی سے کیا ہے کہ ایک ہی حدیث سے مختلف مسائل کا استخراج کرتے چلے گئے اس طرح بعض احادیث متعدد ابواب کے تحت مکرر آگئی ہیں لیکن فقہ اسلامی میں توسیع کا دروازہ کھولا ہے اور یہ ایسا کارنامہ ہے کہ

۱۷- شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح اس سے متاثر ہوکر برملا اعتراف کرتے ہیں:
وأراد أیضا أن یفرغ جھدہ في الاستنباط من حدیث رسول اللہ و یستنبط من کل حدیث مسائل کثیرة
کہ اس طرح آپ نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مسائل کے استنباط میں اپنی پوری کوشش صرف کر دیں اور ہر حدیث سے بہت زیادہ مسائل استنباط کریں. (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۱۹)

شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح امام بخاری رح کی اس کوشش کی داد دیتے ہوئے اگے فرماتے ہیں:

وکثیرا ما یستخرج الآداب المفھومة بالعقل من الکتاب والسنة بنحومن الاستدلال والعادات الکالنة في زمانه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومن ذلك لا یدرك حسنه إلا من مارس کتاب الآداب و إجمال عقله في میدان آداب قومه ثم طلب لھا من السنة أصلاً
کہ اورعموماً ایسے تراجم ابواب ذکر کرتے ہیں جو کتاب و سنت میں انتہائی غور کے بعد حاصل ہوتے ہیں جس طرح نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہونے والی عادات سے استدلال اور اس میں وہ بھی چیزیں ہہیں جن کے حسن کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو صاحب فن ہے اور جس نے آداب کی کتاب پر مشق اور ہمیشگی کی اور اپنی عقل کو اپنی قوم کے آداب کے میدان میں سرگرداں رکھا۔پھر اس کے لیے سنت سے دلیل تلاش کی. (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۲۲)
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
۱۸- مولانا انور شاہ کشمیری رح امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
إن المصنف سباق غایات و صاحب آیات في وضع المتراجم لم یسبق به أحد من المتقدمین ولم یستطیع أحد أن یحاکبه أحد من المتأخرین فھو الفاتح لذالك الباب و صار الخاتم، وضع في تراجمه آیات تناسبها مما یتعلق من ھذا الباب ونبه علی مسائل مظان الفقه في القرآن بل أقامھا منه ودل علی طرق التأسیس من القرآن و به یتضح ربط الفقه والحدیث بالقرآن بعضه مع بعض وھذا من رفعة اجتهادہ و ذقته في الاجتهادیات و بسطھا في المتراجم قيل: إن فقه البخاري في تراجمه۔ فکان في تراجم المصنف علوم متفرقة في الفقه و أصوله والکلام أومأ إلیها باختصار و إیجاز
کہ بے شک مصنف مقاصد میں آگے بڑھنے والے ہیں اور متحیر العقول تراجم ذکر کرتے ہیں متقدمین میں سے اس کام پر کسی نے پہل نہیں کی اور نہ ہی متاخرین میں سے کسی نے آپ کے مقابلے کی اہمت کی ہے۔ پس آپ ہی اس دروازے کو کھولنے والے ہیں اور آپ اس فن میں آخری ثابت ہوئے۔ آپ نے اپنے تراجم میں باب سے متعلق مناسب آیات بھی ذکر کی ہیں اور قرآن میں مذکورہ فقہی مسائل کی نشاندہی کی ہے بلکہ قرآن سے ان کو ثابت کیا ہے اور قرآن سے احکام اخذ کرنے کے طریقے بتائے ہیں۔ اسی وجہ سے فقہ اور حدیث کا قرآن سے اور قرآن کے بعض حصے کا بعض سے ربط واضح ہوتا ہے اور یہ آپ کے اجتہاد کی رفعت اور اجتہادیات میں صاحب ذوق ہونے کی علامت ہے آپ نے ان چیزوں کو تراجم میں بسط کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مصنف کے تراجم میں فقہ، اصول اور علم کلام کے متعلق مختلف علوم موجود ہیں۔ جس کی طرف بڑے اختصار و ایجاز کے ساتھ اشارہ کیا ہے. (فیض الباری ج ۱ ص ۳۵)

۱۹- احمد رضا بجنوری حنفی لکھتے ہیں:

کہ جامع صحیح بخاری مجموعی حیثیت سے اپنے بعد کی تمام کتابوں پر فوقیت و امتیاز رکھتی ہے ، اسکے تراجم و ابواب کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی ذکاوت و دقت نظر کے باعث خصوصی فضیلت و برتری حاصل ہے ، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ خود درجہ اجتہاد رکھتے تھے ، اس لیے انہوں نے جمع احادیث کا کام اپنے نقطہ نظر سے قائم کئے ہوئے تراجم و ابواب کے مطابق کیا. (انوار الباری ج ۲ ص ۲۳۶)

ملا علی قاری حنفی کے مثل بلکہ انہیں کی عبارت کا ترجمہ شیخ عبدالحق دہلوی حنفی رح اور ان کے صاحبزادہ شیخ نور الحق حنفی رح بیک الفاظ میں یوں کرتے ہیں

۲۰- عبدالحق دہلوی حنفی رح امام بخاری رح کے بارے میں لکھتے ہیں:

وے درزمان خود در حفظ احادیث واتقان آں وفہم معانی کتاب و سنت و حدّت ذہن وجودت قریحت ووفور فقہ وکمال زہد و غایت ورع و کثرت اطلاع برطرق حدیث وعلل آں ووقت نظر و قوت اجتہاد و استنباط فروع از اصول نظیرے نداشت
کہ وہ اپنے زمانہ میں حدیث کے حفظ و اتقان،معانی کتاب و سنت کے فہم،ذہن کی تیزی،حافظہ کی عمدگی،وفور فقہ،کمال زہد،غایت ورع،اسانید و عللِ حدیث پر کثرت اطلاع،وقت نظر،قوت اجتہاد اور اصول سے فروع استنباط کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے. (اشعت اللمعات ج ۱ ص ۵)

۲۱- نور الحق حنفی رح امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:

وے درزمان خود در حفظ احادیث واتقان آں وفہم معانی کتاب و سنت و حدّت ذہن وجودت قریحت ووفور فقہ وکمال زہد و غایت ورع و کثرت اطلاع برطرق حدیث وعلل آں ووقت نظر و قوت اجتہاد و استنباط فروع از اصول نظیرے نداشت
کہ وہ اپنے زمانہ میں حدیث کے حفظ و اتقان،معانی کتاب و سنت کے فہم،ذہن کی تیزی،حافظہ کی عمدگی،وفور فقہ،کمال زہد،غایت ورع،اسانید و عللِ حدیث پر کثرت اطلاع،وقت نظر،قوت اجتہاد اور اصول سے فروع استنباط کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے. (تیسیر القاری ج ۱ ص ۳)

۲۲- قاری محمد طیب حنفی لکھتے ہیں:

کہ امام بخاری رح محدث بھی ہیں اور فقیہ بھی ہیں نیز اجتہاد کے رتبے کو پہنچے ہوئے ہیں۔ (خطبات حکیم الاسلام ج ۵ ص ۲۳۱)

۲۳- ملا علی قاری حنفی محدث سید جمال الدین رح کا قول نقل کرتے ہیں:

وَمِنْ حَيْثِيَّةِ حِدَّةِ ذِهْنِهِ، وَرِقَّةِ نَظَرِهِ، وَوُفُورِ فِقْهِهِ، وَكَمَالِ زُهْدِهِ، وَغَايَةِ وَرَعِهِ، وَكَثْرَةِ اطِّلَاعِهِ عَلَى طُرُقِ الْحَدِيثِ، وَعِلَلِهِ، وَقُوَّةِ اجْتِهَادِهِ، وَاسْتِنْبَاطِهِ
کہ اور بحیثیت بہت زبردست ذہن اور باریک نظر رکھنے والے تھے اور فقہ میں اور کمال ذھد میں اور پرہیزگاری میں بہت بہت بلند تھے اور حدیث کی طروق یعنی اسانید اور حدیث کی علتوں پر بہت معلومات رکھتے تھے اور زبردست مجتہد تھے اور مسئلہ کے اخذ کرنے میں بہت زبردست تھے ـ (مرقاة المفاتيح ج ۱ ص ۵۷)

الحمد اللہ علماء کی گواہی سے یہ ثابت ہوا کہ امام بخاری رح زبردست فقیہ تھے ـ

اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے آمین

جزاک اللہ خیراً
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
۱- امام بخاری رح کے استاد ابو مصعب احمد بن ابوبکر الزھری (متوفی ۲۴۲ ھ) امام بخاری رح کے بارے میں فرماتے ہیں:
قَالَ لي أبو مصعب أحمد بن أبي بكر المديني: محمد بن إسماعيل افقه عندنا وأبصر من ابن حنبل.
فقال رجل من جلسائه: جاوزت الحد.
فقال أبو مصعب: لو أدركت مالكا ونظرت إلى وجهه ووجه محمد بن إسماعيل لقلت: كلاهما واحدا في الفقه والحديث.

کہ امام بخاری ہمارے خیال میں امام احمد بن حنبل سے فقاہت میں زیادہ کمال اور بصیرت رکھتے تھے.ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ابو مصعب! آپ نے تو انہیں خود سے بھی بڑھا دیا.ابو مصعب بولے،اگر تم امام مالک سے ملے ہوتے اور امام بخاری اور امام مالک دونوں کے چہروں پر غور کیا ہوتا تو تم بول اٹھتے کہ دونوں فقاہت اور بصارت بالحدیث میں برابر ہیں. (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳۹،تاریخ دمشق ج ۱۵ ص ۵۰،تھذیب الکمال ج ۲۴ ص ۴۵۵،تاریخ اسلام ص ۲۵۶،سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۴۲۰،تحفة الاخبازي ص ۲۰۱،تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۴۰۱،مقدمة الفتح ص ۴۸۲)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
کیا اس قول کی سند صحیح ہے ؟ شاملہ میں تاریخ بغداد ج دو صفحہ ۱۹ پر یہ قول ہے ۔۔ جزاکم اللہ خیرا یا شیخ محترم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
کیا اس قول کی سند صحیح ہے ؟ شاملہ میں تاریخ بغداد ج دو صفحہ ۱۹ پر یہ قول ہے ۔۔ جزاکم اللہ خیرا یا شیخ محترم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس قول کی اسناد کی تحقیق کیلئے فی الحال وقت نہیں ،
البتہ آپ یہ تھریڈ توجہ سے پڑھیں ،کیونکہ :
ومناقبٌ شهد العدو بفضلها
والفضل ما شهدت به الأعداء

یعنی شان اور فضیلت تو وہی ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرے ۔


امام بخاری مجتہد تھے ، احناف کی زبانی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام بخاری اپنے اساتذہ کی نظر میں


امام بخاری کے شیخ حضرت سلیمان بن حرب نے امام بخاری کو دیکھ کر فرمایا تھا:
’ہذا یکون لہ صیت۔
‘‘ کہ اس شخص کو شہرت حاصل ہوگی۔
سلیمان بن حرب کی یہ پیش گوئی سچی نکلی، امام بخاریؒ کو چار دانگ عالم شہرت حاصل ہوئی۔ امام بخاری کے استاد احمد بن حفص نے سلیمان بن حرب سے ملتی جلتی پیش گوئی فرمائی۔
وراق بخاری ابوجعفر محمد بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے سنا، آپ بیان کررہے تھے کہ جب میں اپنے شیخ حضرت اسماعیل بن ابی اویس کی احادیث سے کچھ احادیث لیتا تو میرے استاد میری منتخب شدہ احادیث کو اپنے لیے لکھوا لیتے اور فرماتے :
’’ہذہ الاحادیث قد انتخبہا محمد بن اسماعیل من حدیثی۔‘‘
کہ یہ وہ احادیث ہیں جن کو محمد بن اسماعیل نے میری حدیثوں سے انتخاب کیا ہے۔
تو امام بخاری کے استاد نے امام بخاری کے انتخاب کو پسند کیا ہے، جس سے امام بخاری کی علم حدیث پر دسترس اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔ امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ ایک روز کچھ اصحاب الحدیث جمع ہوئے اور کہا کہ اسماعیل بن ابی اویس سے درخواست کرو کہ کچھ زیادہ حدیثیں سنائیں، تو میں ان کی یہ درخواست لے کر استاد صاحب کے پاس گیا کہ طلبہ چاہتے ہیں کہ آپ زیادہ حدیثیں سنائیں۔ تو اسماعیل نے اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ جاؤ دیناروں کی ایک تھیلی لاؤ۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ لونڈی گئی اور دیناروں کی تھیلی لائی، وہ تھیلی اسماعیل بن ابی اویس نے مجھے دے دی اور فرمایا کہ یہ دینا ر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرد۔ تو امام بخاری نے فرمایا کہ طلبہ زیادہ حدیثیں سننا چاہتے ہیں۔ تو استاد نے جواب دیا کہ زیادہ حدیثیں سناؤں گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مال بھی تقسیم کردیں۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری اپنے شیخ کی نظروں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔
اسماعیل بن ابی اویس نے اپنے شاگرد امام بخاری سے فرمایا:
’’انظر فی کتبی وجمیع ما املک لک وانا شاکر لک ابدا ما دمت حیا۔‘‘
کہ آپ میری احادیث پر نظر کردیں تو میرا یہ تمام مال آپ کےلیے ہے اور جب تک میں زندہ رہوں گا، آپ کا شکر گزار رہوں گا۔
تو اسماعیل بن ابی اویس کی اس درخواست سے امام بخاری کا علم حدیث پر وسیع النظر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

حاشد بن اسماعیل کا بیان ہے کہ امام بخاری کے شیخ ابومصعب احمد بن ابی بکر الزہری نے ایک فرمایا کہ امام بخاری ہمارے نزدیک علم حدیث میں امام احمد بن حنبل سے بھی زیادہ بصیرت رکھتے ہیں ، اور فقاہت میں بھی ایسی ہی بصیرت ہے ۔ تو جلساء مجلس میں سے کسی نے اعتراض کیا: ’’جاوزت الحد۔‘‘ کہ آپ نے یہ کہہ کر حد سے تجاوز کیا ہے۔ تو اس کے جواب میں ابومصعب زہری فرمانے لگے: ’’لو ادرکت مالکا ونظرت الی وجہہ وجہ محمد بن اسماعیل لقلت کلاہما واحد فی الحدیث والفقہ۔‘‘
کہ حدیث اور فقہ میں امام احمد بن حنبل سے امام مالک کے مرتبہ کا بڑھا ہوا ہونا مسلم ہے۔ اگر آپ امام مالک کے چہرے اور محمد بن اسماعیل کے چہرے کو دیکھتے تو کہتے کہ حدیث اور فقہ میں دونوں ایک ہیں۔
تو ابومصعب احمد بن ابی بکر زہری کے اس بیان سے امام بخاری کی حدیث دانی اور فقہ دانی پر روشنی پڑتی ہے کہ امام بخاری کس قدر بلند مقام رکھتے ہیں۔
امام بخاری کے استاد عبدان بن عثمان مروزی فرماتے ہیں: ’’ما رایت بعینی شابا ابصر من ہذا واشار الی محمد بن اسماعیل ۔‘‘ کہ میں نے اس نوجوان سے زیادہ بصیرت والا شخص نہیں دیکھا۔ نوجوان سے مراد واضح کرنے کےلیے امام بخاری محمد بن اسماعیل کی طرف اشارہ کیا۔
امام بخاری کے مشہور استاد قتیبہ بن سعید جو امام مسلم ، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ کے بھی استاد ہیں، اپنے دور کے بہت بڑے محدث ہیں، یہ امام بخاری کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
قول اول:
ان کا پہلا قول یہ ہے: ’’جالست الْفُقَهَاء والزهاد والعباد فَمَا رَأَيْت مُنْذُ عقلت مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل وَهُوَ فِي زَمَانه كعمر فِي الصَّحَابَة ‘‘
میں نے فقہاء، زاہدوں اور عبادت گزاروں کی مجلس کی، تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، میں نے امام بخاری جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ مزید فرماتے ہیں کہ امام بخاری اپنے دور میں ایسے ہیں جیسے صحابہ کرام کے دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
قول ثانی:
حضرت قتبیہ بن سعید کا دوسرا قول یہ ہے: ’’لَو كَانَ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فِي الصَّحَابَة لَكَانَ آيَة ‘‘ کہ امام بخاری اگر صحابہ کرام کے دور میں ہوتے تو ایک نشانی ہوتے۔
قول ثالث:
محمد بن یوسف ہمدانی کا بیان ہے کہ ہم ایک مرتبہ قتیبہ بن سعید کی مجلس میں موجو د تھے، تو وہاں ابویعقوب نامی شخص حضرت قتیبہ بن سعید سے امام بخاری کے متعلق پوچھنے لگا، تو قتبہ بن سعید نے فرمایا: ’’يَا هَؤُلَاءِ نظرت فِي الحَدِيث وَنظرت فِي الرَّأْي وجالست الْفُقَهَاء والزهاد والعباد فَمَا رَأَيْت مُنْذُ عقلت مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل ‘‘کہ میں نے فقہاء، زاہدوں اور عبادت گزاروں کی مجلس کی ہے، تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
ابوعمرو کرمانی فرماتے ہیں کہ میں نے بصرہ کے اندر قتیبہ بن سعید کا قول: ’’ لقد رَحل إِلَيّ من شَرق الأَرْض وَمن غربها فَمَا رَحل إِلَيّ مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل ‘‘ میری طرف زمین کے مشرق ومغرب کے لوگوں نے سفر کیا ہے، لیکن محمد بن اسماعیل جیسا آدمی میری طرف کوئی نہیں آیا۔
حضرت مہیار کے سامنے پیش کیاکہ قتیبہ بن سعید نے امام بخاری کی یہ تعریف کی ہے ، تو حضرت مہیار نے فرمایا: ’’ صدق قُتَيْبَة أَنا رَأَيْته مَعَ يحيى بن معِين وهما جَمِيعًا يَخْتَلِفَانِ إِلَى مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فَرَأَيْت يحيى منقادا لَهُ فِي الْمعرفَة ‘‘ کہ میں نے قتیبہ بن سعید اور یحییٰ بن معین دونوں کو امام بخاری کے پاس آتے جاتے دیکھا ہے اور میں نے دیکھا کہ یحییٰ بن معین علم حدیث میں امام بخاری کی بات تسلیم کرتے ہیں۔
تو مشائخ کا امام بخاری کے پاس آنا جانا اور معرفت حدیث میں ان پر اعتماد کرنا امام بخاری کی علم حدیث میں بالغ نظری پر ایک زبردست دلیل ہے۔
محمد بن یوسف ہمدانی فرماتے ہیں کہ: ’’ سُئِلَ قُتَيْبَة عَن طَلَاق السَّكْرَان فَدخل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فَقَالَ قُتَيْبَة للسَّائِل هَذَا أَحْمد بن حَنْبَل وَإِسْحَاق بن رَاهَوَيْه وَعلي بن الْمَدِينِيّ قد ساقهم الله إِلَيْك وَأَشَارَ إِلَى البُخَارِيّ ‘‘ کہ قتیبہ بن سعید سے طلاق سکران کے بارے میں پوچھا گیا کہ نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اتنے میں امام بخاری محمد بن اسماعیل آگئے تو امام بخاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور علی بن مدینی سب کو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے لے آیا ہے۔
تو امام بخاری کو ان ائمہ دین اور محدثین کے نام سے تشبیہ دینا ان کی فن حدیث وفقہ میں زبردست مہارت کے سلسلہ میں بہت بڑی شہادت ہے۔
ابراہیم بن محمد بن سلام کا کہنا ہے: ’ كَانَ الرتوت من أَصْحَاب الحَدِيث مثل سعيد بن أبي مَرْيَم وحجاج بن منهال وَإِسْمَاعِيل بن أبي أويس والْحميدِي ونعيم بن حَمَّاد والعدني يَعْنِي مُحَمَّد بن يحيى بن أبي عمر والخلال يَعْنِي الْحُسَيْن بن عَليّ الْحلْوانِي وَمُحَمّد بن مَيْمُون هُوَ الْخياط وَإِبْرَاهِيم بن الْمُنْذر وَأبي كريب مُحَمَّد بن الْعَلَاء وَأبي سعيد عبد الله بن سعيد الْأَشَج وَإِبْرَاهِيم بن مُوسَى هُوَ الْفراء وأمثالهم يقضون لمُحَمد بن إِسْمَاعِيل على أنفسهم فِي النّظر والمعرفة ... الرتوت: الرؤساء‘‘ کہ مذکورہ بالا رئیس اصحاب الحدیث اور ان جیسے دیگر مشائخ نظر ومعرفت میں اپنے خلاف امام بخاری کے حق میں فیصلہ دیا کرتے تھے۔
رتوت کا معنیٰ: بڑے بڑے محدثین ، وہ بھی اپنے اختلاف کے وقت اپنی بات چھوڑ کر امام بخاری کی بات تسلیم کیا کرتے تھے۔
محمد بن قتیبہ بخاری کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن ابوعاصم نبیل کے پاس ایک لڑکا دیکھا تو میں نے پوچھا: ’’من أَيْن قَالَ من بُخَارى قلت بن من قَالَ بن إِسْمَاعِيل فَقلت أَنْت من قَرَابَتي‘‘ کہ آپ کس علاقے سے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: بخاریٰ سے۔ میں نے پوچھا: کس کے بیٹے ہو؟ اس نے کہا: اسماعیل کا۔ تو محمد بن قتیبہ نے کہا کہ آپ میرے رشتہ داروں سے ہیں۔
ابوعاصم کی موجودگی میں کسی نے کہا کہ یہ لڑکا اپنے بڑوں اور اساتذہ کا ہم پلہ ہے ۔

امام احمد بن حنبل کے لڑکے عبداللہ نے اپنے باپ امام احمد بن حنبل سے حفاظ کی بابت دریافت کیا، تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’شبان من خراسان فعدہ فیہم فبدأ بہ‘‘ کہ خراسان کے حفاظ جوانوں کو شمار کرتے ہوئے امام بخاری کو ان میں شمار کیا، بلکہ سب سے پہلے امام بخاری کا نام لیا۔
ابوبکر خطیب بغدادی نے بسند صحیح امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے: ’’ما اخرجت خراسان مثل محمد بن اسماعیل‘‘ کہ خراسان میں محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں پیدا ہوا۔
امام بخاری کے شیخ باوقار امام بندار محمد بن بشار رحمہا اللہ العزیز الغفار فرماتے ہیں: ’’ہو افقہ خلق اللہ فی زماننا۔‘‘ کہ امام بخاری موجودہ دور میں اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔

فربری فرماتے ہیں : میں نے محمد بن ابی حاتم سے سنا ، وہ کہتے ہیں: میں نے حاشد بن اسماعیل سے سنا، حاشد بن اسماعیل فرماتے ہیں: ’’کنت فی البصرۃ فسمعت بقدوم محمد بن اسماعیل فلما قدم، قال محمد بن بشار: قدم الیوم سید الفقہاء‘‘ کہ میں بصرہ میں تھا۔ میں نے سنا کہ امام بخاری بصرہ میں تشریف لا رہے ہیں۔ جب امام بخاری تشریف لائے تو ان کی آمد پر محمد بن بشار نے فرمایا: آج فقہاء کے سردار تشریف لائے ہیں۔
محمد بن ابراہیم البوشبخی کا بیان ہے کہ میں نے بندار سے 228ھ میں سنا، وہ فرما رہے تھے: ’’ما قدم علینا مثل محمد بن اسماعیل ۔ وقال بندار: انا افتخر بہ منذ سنین۔‘‘ کہ کافی آدمی میرے پاس آئے لیکن محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں آیا۔ او ربندار نے مزید فرمایا کہ میں کئی سالوں سے امام بخاری پر فخر و ناز کررہا ہوں۔
تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلاف کے اندر اپنے لائق شاگردوں پر کس قدر خوشی ہوتی تھی۔ وہ ان کو رقیب نہیں سمجھتے تھے۔
امام بخاری کے استاد عبداللہ بن یوسف تنیسی نے امام بخاری سے فرمایا: میری کتابوں پر نظر کرو اور جو غلطی نظر آئے، اس کی مجھے اطلاع دو۔ امام بخاری نے جواب دیا کہ جی ہاں ، میں یہ کام کردوں گا۔ اس واقعہ سے امام بخاری کی وسعت علمی ظاہر ہوتی ہے کہ استاد کی کتب کی تصحیح کرتے ہیں۔
امام بخاری کے استاد محمد بن سلام بیکندی نے بھی اپنی کتابیں امام بخاری پر پیش کیں اور کہا کہ جو بات غلط نظر آئے ، اس پر نشان لگا دو۔ محمد بن سلام ہی فرماتے ہیں کہ جب بھی امام بخاری محمد بن اسماعیل مجھ پر داخل ہوتے ہیں تو حیران رہا جاتا ہوں اور ڈرتا ہوں، یعنی کہیں ان کی موجودگی میں خطا کرجاؤں۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے جس سال پہلا حج کیا تو میری عمر اٹھارہ برس تھی۔ وہاں میں امام حمیدی کے پاس گیا۔ تو امام حمیدی کا کسی دوسرے محدث سے کسی حدیث کے بارے میں جھگڑا تھا۔ تو امام حمیدی نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’جاء من یفصل بیننا فعرضا علی الخصومۃ فقضیت للحمیدی وکان الحق معہ‘‘ کہ اب وہ شخص آگیا ہے جو ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے مجھ پر جھگڑا پیش کیا تو میں نے امام حمیدی کے حق میں فیصلہ دے دیا کیونکہ امام حمیدی کی بات درست تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد نزاعی معاملات میں امام بخاری سے فیصلہ کروایا کرتے تھے۔
حاشد بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری کے استاد اسحاق بن راہویہ ایک مرتبہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ امام بخاری بھی وہاں موجود تھے۔ اسحاق بن راہویہ نے ایک حدیث بیان کی جس پر امام بخاری نے لقمہ دیا، تو اسحاق بن راہویہ نے امام بخاری کی بات کو تسلیم کیا اور حاضرین مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’ يَا معشر أَصْحَاب الحَدِيث انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّاب واكتبوا عَنهُ فَإِنَّهُ لَو كَانَ فِي زمن الْحسن بن أبي الْحسن الْبَصْرِيّ لاحتاج إِلَيْهِ لمعرفته بِالْحَدِيثِ وفقهه ‘‘ کہ اصحاب الحدیث کی جماعت! تم اس جوان کو دیکھو اور اس سے حدیثیں لکھو، اگر یہ حسن بصری کے زمانہ میں ہوتے تو وہ بھی ان کی معرفت حدیث اور فقاہت کی وجہ سے ان کے محتاج ہوتے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد اسحاق بن راہویہ نے امام بخاری کے لقمہ سے حدیث کی تصحیح کی اور لوگوں کو آپ سے حدیثیں لکھنے کا حکم دیا۔
امام بخاری کا بیان ہے کہ اسحاق بن راہویہ ایک مرتبہ میری تصنیف کردہ تاریخ لےکر امیر عبداللہ بن طاہر کے پاس پہنچے تو کہا: ’’ایہا الامیر! الا اریک سحرا؟‘‘ کہ اے امیر عبداللہ بن طاہر! کیا میں آپ کو جادو نہ دکھاؤں؟
امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ اسحاق بن راہویہ سے حالت نسیان میں دی گئی طلاق کے بارے میں مسئلہ پوچھا گیا تو اسحاق بن راہویہ کچھ متامل سے ہوگئے۔ جواب کوئی نہ دیا تو امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ’’[font="al_mushaf"]قال النبیﷺ: ان اللہ تجاوز عن امتی ما حدثت بہ انفسہا ما لم تعمل او تکلم۔[/font]‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل سے پیدا ہونے والی اشیاء کو معاف کردیا ہے، جب تک وہ دل میں آئی ہوئی چیز کے متعلق بات نہ کرلیں یا عمل نہ کرلیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل اور کلام کے اندر قلبی ارادہ موجود ہو، تو وہ عمل نافذ ہوگا۔ اگر کلام اور عمل میں ارادہ موجود نہ ہو تو وہ نافذ نہ ہوگا۔ جس نے طلاق دی اور طلاق کا ارادہ نہیں کیا تو طلاق نہیں ہوگی۔ تو اسحاق بن راہویہ نے سن کر فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]قویتنی قواک اللہ وافتیٰ بہ[/font]‘‘ تو نے میری ہمت باندھی ، اللہ تجھے قوت دے اور اسی قول پر فتویٰ دیا۔
اس واقعہ سے امام بخاری کی فقاہت کے ساتھ ساتھ ان کا اپنے اساتذہ کی نظر میں مقام اور مرتبہ بھی ظاہر ہورہا ہے۔
امام بخاری فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]ما استصغرت نفسی عند احد الا عند علی بن المدینی وربما کنت اغرب علیہ[/font]‘‘ کہ میں نے اپنے آپ کو علی بن مدینی کے بغیر کسی کے پاس چھوٹا نہیں سمجھا اور بسا اوقات میں ان پر بھی غریب حدیثیں پیش کرتا تھا۔
حامد بن احمد کا بیان ہے کہ جب یہ بات علی بن مدینی کے سامنے پیش کی گئی تو علی بن مدینی نے فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]دع قولہ ہو ما رأی مثل نفسہ۔[/font]‘‘ کہ اس کی بات کو چھوڑ دو، اس نے اپنے جیسا نہیں دیکھا۔
تو امام بخاری نے علی بن مدینی کی بات کی تصدیق کردی۔
تو اما م بخاری کے ان اساتذہ کے اقوال سے تین چیزیں ظاہر ہوتی ہیں:
1: علم حدیث میں معرفت اور پختگی
2: اساتذہ کی نظر میں امام بخاری کی فقاہت وبصارت
3: امام بخاری کی مہارت اور دسترس
امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ استاد علی بن مدینی مجھ سے خراسان کے مشائخ کے متعلق پوچھا کرتے تھے تو میں ان کو بتا دیتا تھا کہ فلاں شیخ اس قسم کا ہے۔ اس ضمن میں میں نے محمد بن سلام کا تذکرہ کیا تو وہ ان کی معرفت میں نہ آسکے۔ آخر مجھے ایک دن فرمایا:
’’[font="al_mushaf"] یا اباعبداللہ! کل من اثنیت علیہ فہو عندنا الرضی۔[/font]‘‘
کہ آپ ہمارے پاس جس کی تعریف کریں وہ ہمارے ہاں بھی پسندیدہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اساتذہ امام بخاری پر کس قدر اعتماد کرتے تھے۔
امام بخاری کا بیان ہے کہ ایک روز ابوحفص عمرو بن علی الفلاس کے اصحاب نےایک حدیث کے متعلق مجھ سے مذاکرہ کیا تو امام بخاری فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]فقلت : لا اعرفہ۔[/font]‘‘ کہ میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا۔
’’[font="al_mushaf"] فسروا بذلك وصاروا إِلَى عَمْرو بن عَليّ فَقَالُوا لَهُ ذاكرنا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل بِحَدِيث فَلم يعرفهُ فَقَالَ عَمْرو بن عَليّ حَدِيث لَا يعرفهُ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل لَيْسَ بِحَدِيث [/font]‘‘تو وہ اس بات پر خوش ہوئے۔ اسی عالم میں عمروبن علی الفلاس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ ہم نے محمد بن اسماعیل سے ایک حدیث کا مذکراہ کیا تو وہ پہچان نہیں سکے۔
ان کا خیال یہ تھا کہ استاد صاحب کے پاس حدیث پیش کرنے سے حدیث کا اصل نکل آئے گا اور امام بخاری کی لاعلمی ظاہر ہوجائے گی۔
تو عمرو بن علی الفلاس نے جواب دیا کہ جس حدیث کو محمد بن اسماعیل نہ پہچانیں، وہ حدیث ہی نہیں۔
امام فلاس کے اس بیان سے امام بخاری کی وسعت معرفت حدیث اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔
امام بخاری کے استاد رجاء بن رجاء فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]فضل محمد بن اسماعیل علی العلماء کفضل الرجال علی النساء[/font]‘‘ کہ علماء پر امام بخاری کی فضیلت اس طرح ہے جس طرح عورتوں پرمردوں کو فضیلت حاصل ہے۔
مزید فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]ہو آیۃ من آیات اللہ تمشی علی ظہر الارض[/font]‘‘ کہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو روئے زمین پر چل پھر رہی ہے۔
امام بخاری کے استاد حسین بن حریث فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]لا اعلم انی رأیت مثل محمد بن اسماعیل کانہ لم یخلق الا للحدیث[/font]‘‘ کہ میرے علم میں نہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل جیسا دیکھا ہو۔ گویا ان کو صرف حدیث کےلیے پیدا کیا گیا ہے۔
ابوبکر بن ابی شیبہ اور محمد بن عبداللہ بن نمیر دونوں امام بخاری کے استاد ہیں۔ دونوں فرماتے ہیں: ’’ہم نے محمد بن اسماعیل کی نظیر نہیں دیکھی۔‘‘
اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے آپ کا نام بازل رکھا ہوا تھا۔ بازل سے مراد کامل ہے۔ یہ ان کے کمال کی بہت بڑی نشانی ہے۔ ابوعیسیٰ ترمذی کا بیان ہے کہ امام بخاری اپنے شیخ عبداللہ بن نمیر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ جب امام بخاری کھڑے ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’ [font="al_mushaf"]یا اباعبد اللہ جعلک اللہ زین ہذہ الامۃ۔[/font]‘‘
استاد صاحب نے امام بخاری کےلیے دعا کی: اے ابوعبداللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس امت کی زینت بنائے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے عبداللہ بن نمیر کی دعا قبول کرلی۔
ابوعبداللہ فربری فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]رایت عبداللہ بن نمیر یکتب عن البخاری وسمعتہ یقول: انا من تلامذتہ۔[/font]‘‘
کہ میں نے عبداللہ بن نمیر کو دیکھا کہ وہ امام بخاری سے حدیثیں لکھا کرتے تھے۔ اور میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ میں امام بخاری کے شاگردوں سے ہوں۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن نمیر امام بخاری کے شیوخ سے ہیں۔ امام بخاری نے جامع صحیح میں ان سے حدیث بیان کی ہے اور عبداللہ بن نمیر کی وفات احمد بن حنبل کی وفات والے سال ہے۔ تو امام بخاری کے استاد کا اپنے آپ کو امام بخاری کے شاگردوں میں شمار کرنا امام بخاری کے شرف وفضل کےلیے شاہد عدل ہے۔
حاشد کا بیان ہے کہ امام بخاری کے استاد عمرو بن زرارہ اور محمد بن رافع دونوں امام بخاری سے علل حدیث کے متعلق سوال کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ امام بخاری علمی بصیرت میں ہم سے زیادہ ہیں۔ اور حاشد ہی کا بیا ہے کہ ہم ایک دن عمرو بن زرارہ اور اسحاق بن راہویہ کی مجلس میں تھے ۔ اسحاق بن راہویہ امام بخاری کے ذریعے محدثین کو حدیثیں لکھوا رہے تھے اور محدثین ان سے حدیثیں لکھ رہے تھے۔
’’[font="al_mushaf"]واسحاق یقول: ہو ابصر منی[/font]۔‘‘ اور اسحاق بن راہویہ ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ امام بخاری مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔
امام بخاری اس وقت نوجوان تھے۔
امام بخاری کے استاد یحییٰ بن جعفر بیکندی فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"] لَو قدرت أَن أَزِيد من عمري فِي عمر مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل لفَعَلت فَإِن موتِي يكون موت رجل وَاحِد وَمَوْت مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فِيهِ ذهَاب الْعلم[/font]‘‘ اگر میرے اختیار میں ہو کہ اپنی عمر سے امام بخاری کی عمر میں اضافہ کروں تو میں یہ ضرور کروں کیونکہ میری موت ایک آدمی کی موت ہوگی، اور امام بخاری کی وفات سے علم چلا جائے گا۔
یہی استاد مزید فرماتے ہیں کہ اگر بخاریٰ کے اندر امام بخاری نہ ہوں تو میں بخاریٰ کے اندر رہنا ہی پسند نہ کروں۔
عبداللہ بن محمد مسندی فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]محمد بن اسماعیل امام فمن لم یجعلہ اماما فاتہمہ[/font]‘‘ کہ امام بخاری واقعی امام ہیں، جو کوئی ان کو امام نہ سمجھے ، اس کو متہم سمجھو۔
اور انہوں نے مزید فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]حافظ زماننا ثلاثۃ، فبدأ بالبخاری۔[/font]‘‘ کہ ہمارے زمانے میں حفاظ حدیث تین ہیں۔ ان میں سرفہرست امام بخاری کو رکھا۔
امام بخاری کے استاد علی بن حجر فرماتے ہیں: ’’ [font="al_mushaf"]أخرجت خُرَاسَان ثَلَاثَة البُخَارِيّ فَبَدَأَ بِهِ قَالَ وَهُوَ أبصرهم وأعلمهم بِالْحَدِيثِ وأفقههم قَالَ وَلَا أعلم أحدا مثله[/font]‘‘ کہ خراسان نے تین نامور ہستیاں پیدا کیں۔ ان میں پہلے نمبر پر امام بخاری کو رکھا اور فرمایا کہ امام بخاری ان میں سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والے ، زیادہ علم حدیث کو جاننے ولاے اور سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔ مزید فرمایا: میرے علم میں ان جیسا کوئی نہیں۔
ایک دفعہ امام بخاری کے استاد ابن اشکاب ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو وہاں حفاظ حدیث میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: ’’مالنا بمحمد بن اسماعیل طاقۃ۔‘‘ تو ابن اشکاب یہ بات سن کر غضب اور غصہ میں آگئے۔ مجلس چھوڑ دی کہ اس نے امام بخاری کے بارے میں شان سے گرے ہوئے کلمات استعمال کیے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کے استاد امام بخاری کے بارے میں ان کی شان سے گرے ہوئے کلمات سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔
عبداللہ بن محمد بن سعید بن جعفر کا بیان ہے کہ احمد بن حرب نیساپوری جب فوت ہوئے ، ہم لوگ ان کے جنازے میں جارہے تھے۔ جنازہ کے ساتھ ساتھ امام بخاری اور اسحاق بن راہویہ بھی تھے۔ اور دیگر علماء کی ایک جماعت بھی جنازہ میں شریک تھی۔ ’’وکنت اسمع اہل المعرفۃ ینظرون ویقولون محمد افقہ من اسحاق۔‘ تو وہاں میں اہل بصیرت سے سن رہا تھا ، وہ دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ امام بخاری محمد بن اسماعیل فقہ میں اسحاق بن راہویہ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔
امام بخاری کے متعلق ان کے اساتذہ کرام کے چند ایک کلمات تھے، جن سے امام بخاری کا مقام اور مرتبہ اپنے اساتذہ کی نظر میں ظاہر ہورہا ہے۔

مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ
ص: 191 تا 206
کمپوزنگ: آزاد
 
Last edited:
Top