- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب جھوٹ
تحریر: جناب علامہ غلام مصطفی ظہیر
لیکن حدیث کے دشمنوں کو آپ کی شخصیت ایک نظر نہیں بھاتی۔دنیا میں ایسے عاقبت نااندیش اور حاسدین بھی گزرے ہیں،جنہوں نے جھوٹ بول کر یہ باور کرانے کی ناکام اور مذموم کوشش کی کہ آپ مجتہدانہ صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :
علامہ سرخسی حنفی(مـ:483ھ) نے لکھا ہے:
وَلَوْ أَنَّ صَبِیَّیْنِ شَرِبَا مِنْ لَّبَنِ شَاۃٍ أَوْ بَقَرَۃٍ؛ لَمْ تَثْبُتْ بِہٖ حُرْمَۃُ الرَّضَاعِ؛ لِأَنَّ الرَّضَاعَ مُعْتَبَرٌ بِالنَّسَبِ، وَکَمَا لَا یَتَحَقَّقُ النَّسَبُ بَیْنَ آدَمِيٍّ وَّبَیْنَ الْبَہَائِمِ؛ فَکَذٰلِکَ لَا تَثْبُتُ حُرْمَۃُ الرَّضَاعِ بِشُرْبِ لَبَنِ الْبَہَائِمِ، وَکَانَ مُحَمَّدُ ابْنُ إسْمَاعِیلَ الْبُخَارِيُّ، صَاحِبُ التَّارِیخِ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ : تَثْبُتُ الْحُرْمَۃُ، وَہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃُ کَانَتْ سَبَبَ إِخْرَاجِہٖ مِنْ بُخَارٰی، فَإِنَّہٗ قَدِمَ بُخَارٰی فِي زَمَنِ أَبِي حَفْصٍ الْکَبِیرِ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَجَعَلَ یُفْتِي، فَنَہَاہُ أَبُو حَفْصٍ رَّحِمَہُ اللّٰہُ، وَقَالَ لَسْتَ بِأَہْلٍ لَّہٗ، فَلَمْ یَنْتَہِ حَتّٰی سُئِلَ عَنْ ہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃِ، فَأَفْتٰی بِالْحُرْمَۃِ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ وَأَخْرَجُوہُ ۔
’’اگر دو بچے کسی ایک بکری یا گائے کا دودھ پئیں تو اس سے حرمت ِرضاعت ثابت نہیں ہو گی،کیونکہ رضاعت کا اعتبار نسب میں ہوتا ہے اور جس طرح آدمی اور مویشیوں کے درمیان نسب قائم نہیں ہو سکتا،اسی طرح مویشیوں کا دودھ پینے سے حرمت ِرضاعت ثابت نہیں ہوتی۔لیکن صاحب ِ تاریخ، امام محمد بن اسماعیل بخاری کہتے تھے کہ اس طرح حرمت ثابت ہو جاتی ہے اور یہی مسئلہ ان کے بخاریٰ سے نکالے جانے کا سبب بنا۔ وہ بخاریٰ میں ابو حفص کبیر کے دَور میں آئے اور فتویٰ دینا شروع کر دیا۔ابو حفص نے انہیں منع کیا اور کہا کہ آپ افتاء کے اہل نہیں۔ اس کے باوجود امام صاحب فتویٰ دینے سے نہیں رُکے،حتی کہ آپ سے یہی مسئلہ دریافت کیا گیا تو آپ نے حرمت ثابت ہونے کا فتویٰ دیا۔ اس پر لوگ جمع ہو گئے اور آپ کو بخاریٰ سے نکال دیا۔‘‘
(المبسوط :297/30، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق للزیلعي الحنفي : 186/2، البحرالرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم الحنفي : 246/3)
یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے،جسے سرخسی حنفی نے وضع کیا ہے۔ دراصل یہ حضرات محدثین کے خلاف ایسی نامراد اور توہین آمیز کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ہمیشہ سے ان کا پروپیگنڈا رہا ہے کہ عوام الناس کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائے کہ محدثین مجتہدانہ شان نہیں رکھتے تھے اور فقہ اسلامی سے کورے تھے، دین سمجھانے کا ٹھیکہ تو ہم نے لے رکھا ہے۔حالانکہ یہ کم علم وعمل‘ حدیثیں انہی محدثین کرام سے لیتے ہیں۔
مکھی پر مکھی مارتے ہوئے شارحِ ہدایہ ،ابن ہمام حنفی(861-790ھ) نے تو حد ہی کر دی،لکھتے ہیں:
وَمَنْ لَّمْ یَدِقَّ نَظَرُہٗ فِي مُنَاطَاتِ الْـأَحْکَامِ وَحِکَمِہَا، کَثُرَ خَطَؤُہٗ ۔ ’’جو شخص احکام کی علتوں اور حکمتوں میں دقت ِنظری سے کام نہیں لیتا، وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔‘‘ (فتح القدیر : 457/3)
علامہ عبدالحی لکھنوی حنفیa(م: 1304ھ) اپنے اصحاب کی جہالت و کم فہمی پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
وَہِيَ حِکَایَۃٌ مَّشْہُورَۃٌ فِي کُتُبِ أَصْحَابِنَا، ذَکَرَہا أَیْضًا صَاحِبُ الْعِنَایِۃِ وَغَیْرُہٗ مِنْ شُرَّاحِ الْہِدَایَۃِ، لٰکِنِّي أَسْتَبْعِدُ وُقُوعَہَا بِالنِّسْبَۃِ إِلٰی جَلَالَۃِ قَدَرِ الْبُخَارِيِّ وَدِقَّۃِ فَہْمٍ وَّسِعَۃِ نَظْرِہٖ وَغَوْرِ فِکْرِہٖ، مِمَّا لَا یَخْفٰی عَلٰی مَنِ انْتَفَعَ بِصَحِیحِہٖ ۔
’’ہمارے اصحاب کی کتابوں میں یہ حکایت مشہور ہے۔صاحب ِعنایہ اور دیگر شارحین ہدایہ نے اسے ذکر کیا ہے۔لیکن میرے نزدیک امام بخاری کی جلالت ِقدر،دقت ِفہمی،وسعت ِنظری اور نکتہ شناسی کی موجودگی میں اس بات کا وقوع محال ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو صحیح بخاری سے استفادہ کرنے والے شخص سے مخفی نہیں۔‘‘ (الفوائد البہیّۃ في تراجم الحنفیّۃ، ص : 18)
معلوم ہوا کہ ان حاسدوں نے امام بخاری کی صحیح کو پڑھا اور سمجھا ہی نہیں، ورنہ امام صاحب کی فقاہت اور ان کے اجتہاد کے حوالے سے اس طرح کی جھوٹی حکایات نہ گھڑتے۔محدثین کرام اس طرح کی باتوں سے مبرا ہیں۔
مضمون کا لنک