• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
کسی آیت قرآن کے بطور قرآن ثبوت کے لیے جو معیار مقرر ہے وہ اور ہے اور کسی حدیث کے بطور حدیث ثبوت کے لیے جو معیار مقرر ہے وہ اور ہے۔ اسی طرح ائمہ کی طرف منسوب اقوال کو بھی اصول حدیث کے کامل معیار پر پرکھا جائے گا تو یہ میرے خیال میں سلف صالحین یا محدثین عظام سے ثابت نہیں ہے۔ ورنہ تو تاریخ میں کچح باقی ہی نہ رہے گا بلکہ اسلامی تاریخ کی کتابوں کو دریا برد کر دینا چاہیے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہر گز نہیں ہے تاریخ کے نام پر ہر رطب ویابس کو جمع کر لیا جائے۔ میرے خیال میں تاریخ،سیرت اور حدیث الگ الگ فن اور میدان ہیں اور ان کی تحقیق کے اصول اور معیارات بھی الگ الگ ہیں۔ ایک فن کے معیار تحقیق کی روشنی میں دوسرے فن کی روایات کو ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
تاریخ میں ائمہ کی تعریفات میں بھی مبالغہ ہوا ہے۔
١۔ کسی امام کے مناقب میں منقول اقوال کی اگر سند ہی موجود نہ ہو تواس صورت میں تو اس قول کی نسبت مشکوک ہے۔
٢۔ یا اگر کسی امام کی طرف منسوب قول میں کوئی کذاب راوی ہو تو ایسی صورت میں اس قول کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔
٣۔ یا اگر سند موجود ہے اور درمیان میں انقطاع ہے تو پھر بھی روایت میں دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ اور کثرت اسناد سے یہ روایت قوی ہو جاتی ہے۔
٤۔ لیکن اگر سند موجود ہے اور ایک راوی کے حالات آپ کو معلوم نہیں ہیں تو صرف حالات نامعلوم ہونے کی وجہ سے میرے خیال میں اس روایت کو ضعیف قرار صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ دین کا مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں محدثین عظام جیسا سخت معیار مقرر کیا جائے بلکہ یہ تاریخ کا مسئلہ ہے اور تاریخ ایسے ہی نقل ہوتی ہے۔ یعنی دین کے منتقل ہونے میں اس کے ماننے والے جس اہتمام کا لحاظ کرتے ہیں وہ تاریخ کے منتقل ہونے میں اس اہتمام کا لحاظ نہیں کرتے ہیں لہذا اس تاریخ میں اس اہتمام کو تلاش کرنا اس فن ہی کو پھینک دینے کے مترادف ہو جاتا ہے۔
٥۔ اس میں اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ کسی مصنف نے وہ واقعہ بیان کیا ہے اور اس کا اس امام سے زمانہ کس قدر قریب ہے کیونکہ قریبی زمانہ میں عموما زیادہ جھوٹ پھیلنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
٦۔ اس طرح ان روایات کو متن کے اعتبار سے بھی پرکھا جائے مثلا اس میں کوئی مافوق الفطرت مبالغہ آرائی نہ ہو یا اس میں کوئی ایسی مدح نہ ہو جس کا امکان اس امام سے مشکل ہو یا وہ مدح وذم عقل عام کے خلاف ہو وغیرہ ذلک۔
میں یہ سوچتا ہوں کی فن سیرت اور فن تاریخ کی تحقیق کے اصول وضوابط پر مفصل روشنی ڈالی جائے اور انہیں اصول حدیث کی طرح مرتب کیا جائے جیسا کہ قراء نے قرآن کے ثبوت کے اصول مقرر کیے اور وضع کیے اور مرتب کیے اور اصول حدیث سے مختلف ہیں۔ اور اگر قرآن کے ثبوت کے اصول وضوابط پر احادیث کو پرکھا جائے گا تو شاید احادیث کے ذخیرہ میں چند احادیث ہی اس معیار پر پورا اتریں گی۔
جس شے کی دین کی جتنی اہمیت ہو، اس کی تحقیق کا معیار اتنا ہی بلند ہوگا، قرآن وسنت شریعت کی بنیاد ہیں، لہٰذا ان کی تحقیق کا معیار اتنا ہی بلند ہے، اگرچہ دونوں کے ثبوت کیلئے معیار فرق ہے۔

اسی طرح صحابہ کرام﷢ کے اقوال (ذاتی اجتہاد یا اسرائیلیات کے علاوہ) مرفوع حکمی کا درجہ رکھتے ہیں ان کے ثبوت کا معیار بھی حدیث والا ہی ہے۔

جہاں تک صحابہ کرام﷢ کے اجتہادات اور اسرائیلیات سے ماخوذ اقوال وغیرہ کا تعلق ہے تو اگرچہ ان کی حیثیت حدیث مرفوع کی نہیں ہے لیکن پھر بھی دین میں ان کی اہمیت مسلمہ ہے، لہٰذا ان کے ثبوت کا معیار بہت کافی سخت ہوگا، البتہ حدیث کے معیار تحقیق سے کچھ فروتر ہی ہوگا۔

یہی معاملہ بعد کے سلف صالحین﷭ کے اقوال کا ہے۔

جہاں تک امام بخاری﷫ کے واقعے کا تعلق ہے تو اس سے نہ تو دین میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ کمی، البتہ امام بخاری﷫ کے قوتِ حافظہ کا علم ہوتا ہے، جو دیگر بکثرت دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس واقعے کے ثبوت کیلئے حدیث کے ثبوت والے معیارات مقرر کر لینا مناسب نہیں۔ اس طرح تو کوئی واقعہ ثابت ہی نہ ہو پائے گا۔

اگر ان واقعات کیلئے حدیث والے معیار ہی رکھنے ہیں تب پھر آج دُنیا میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کی تحقیق کا معیار بھی وہی ہونا چاہئے جو آج کسی صورت پورا ہو ہی نہیں سکتا، آج ہمیں کہاں ائمہ ابو زرعہ، دارمی، بخاری اور مسلم ﷭ جیسے ثقہ اور حفاظِ دُنیا ملیں گے؟؟!!

واللہ تعالیٰ اعلم!
جو باتیں ابو الحسن علوی بھائی اور انس نضر بھائی نے ذکر کی ہیں ،اس حوالہ سےابو الاسجد محمد صدیق رضا صاحب نے اپنی اس کتاب میں معروضات مترجم کے عنوان کے تحت کچھ دلائل ذکر کئے ہیں۔
طرفین کا مؤقف سمجھنے میں کافی مفید ثابت ہوں گے ان شاءاللہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جو باتیں ابو الحسن علوی بھائی اور انس نضر بھائی نے ذکر کی ہیں ،اس حوالہ سےابو الاسجد محمد صدیق رضا صاحب نے اپنی اس کتاب میں معروضات مترجم کے عنوان کے تحت کچھ دلائل ذکر کئے ہیں۔
طرفین کا مؤقف سمجھنے میں کافی مفید ثابت ہوں گے ان شاءاللہ۔
وقاص بھائی میرے خیال سے زیر بحث واقعہ کے متعلق صدیق رضا صاحب کوئی خرابی نہیں نکال سکے ۔
جیساکہ دیگر کئی واقعات کے متعلق انہوں نے لکھا ہے ۔
کفایت اللہ بھائی نے کسی جگہ خوب توجہ دلائی ہے کہ حدیث حدثوا عن بنی إسرائیل و لاحرج سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے معاملات جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو اور حقائق بھی اس سے متاثر نہ ہوتے ہوں تو ان کو بیان کرنے میں سند کا ہونا ضروری نہیں ۔
اب امام بخاری رحمہ للہ کے حوالے سے مذکورہ واقعہ اسی نوعیت کا ہے ۔
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس واقعےمیں جو نکتہ ضعف بتلایا جاتاہے وہ ہے امام ابن عدی کا کہنا عدۃ مشایخ یعنی سند میں عدۃ مشایخ کا لفظ جہالت راوی پر دلالت کرتا ہے اور جہالت راوی بلاشبہ جرح ہے ۔
لیکن دیکھیں جہالت کی بہت ساری صورتیں مثلا حدثنی الثقۃ ، حدثنی من لا اتہمہ حدثنی رجل ، عن رجل من بنی فلاں ، جہالت کی یہ مختلف صورتیں ضعف میں برابر درجہ کی نہیں ہیں ۔ اسی طرح سمعت عدۃ مشایخ کا لفظ اس کو دو قرینے تقویت دیتے ہیں :
١۔ تعدد ۔۔ یعنی کسی ایک نے یہ واقعہ بیان نہیں کیا بلکہ بہت سارے لوگوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے ۔
٢۔ مشایخ ۔۔۔ جمع ہے شیخ کی اور لفظ ’’ شیخ ‘‘ صیغ جرح میں سے نہیں ہے بلکہ صیغ تعدیل میں سے ہے (وإن کان فی اقل درجات التوثیق )
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام ابن عدی کے نزدیک یہ مشایخ مجہول نہ ہوں بلکہ وہ ان سب مشایخ کو جانتے ہوں لیکن وہ تعداد میں اتنے زیادہ ہوں کہ انہوں نے سب کے فردا فردا نام لینے کی بجائے ایسا لفظ بولا جس میں سب شریک ہو گئے ۔
تو ان سب قرائن کے وجود کے پیش نظر اگر کوئی ایسا واقعہ بیان کرے تو اس کو لاعلمی اور بے اصولی کے طعنے دینا درست نہیں ہوگا ۔ واللہ أعلم
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
وقاص بھائی میرے خیال سے زیر بحث واقعہ کے متعلق صدیق رضا صاحب کوئی خرابی نہیں نکال سکے ۔
جیساکہ دیگر کئی واقعات کے متعلق انہوں نے لکھا ہے ۔
کفایت اللہ بھائی نے کسی جگہ خوب توجہ دلائی ہے کہ حدیث حدثوا عن بنی إسرائیل و لاحرج سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے معاملات جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو اور حقائق بھی اس سے متاثر نہ ہوتے ہوں تو ان کو بیان کرنے میں سند کا ہونا ضروری نہیں ۔
اب امام بخاری رحمہ للہ کے حوالے سے مذکورہ واقعہ اسی نوعیت کا ہے ۔
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس واقعےمیں جو نکتہ ضعف بتلایا جاتاہے وہ ہے امام ابن عدی کا کہنا عدۃ مشایخ یعنی سند میں عدۃ مشایخ کا لفظ جہالت راوی پر دلالت کرتا ہے اور جہالت راوی بلاشبہ جرح ہے ۔
لیکن دیکھیں جہالت کی بہت ساری صورتیں مثلا حدثنی الثقۃ ، حدثنی من لا اتہمہ حدثنی رجل ، عن رجل من بنی فلاں ، جہالت کی یہ مختلف صورتیں ضعف میں برابر درجہ کی نہیں ہیں ۔ اسی طرح سمعت عدۃ مشایخ کا لفظ اس کو دو قرینے تقویت دیتے ہیں :
١۔ تعدد ۔۔ یعنی کسی ایک نے یہ واقعہ بیان نہیں کیا بلکہ بہت سارے لوگوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے ۔
٢۔ مشایخ ۔۔۔ جمع ہے شیخ کی اور لفظ ’’ شیخ ‘‘ صیغ جرح میں سے نہیں ہے بلکہ صیغ تعدیل میں سے ہے (وإن کان فی اقل درجات التوثیق )
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام ابن عدی کے نزدیک یہ مشایخ مجہول نہ ہوں بلکہ وہ ان سب مشایخ کو جانتے ہوں لیکن وہ تعداد میں اتنے زیادہ ہوں کہ انہوں نے سب کے فردا فردا نام لینے کی بجائے ایسا لفظ بولا جس میں سب شریک ہو گئے ۔
تو ان سب قرائن کے وجود کے پیش نظر اگر کوئی ایسا واقعہ بیان کرے تو اس کو لاعلمی اور بے اصولی کے طعنے دینا درست نہیں ہوگا ۔ واللہ أعلم
خضر بھائی !
میرا مقصد ہی یہ تھا کہ دونوں طرف کے دلائل تمام بھائی پڑھ سکیں۔ ۔۔ جہاں دل مطمن ہو دلائل دیکھ کر قبول کر لیں۔۔۔جیسا کہ مسئلہ تدلیس ،حسن لغیرہ وغیرہ ہیں۔۔۔دونوں طرف کے موقف پر مواد موجود ہے۔بس اخلاص نیت چاہئے اور پھر جہاں دل مطمئن ہو اس کو قبول کر لیا جائے۔اسی نیت سے پیش کیا تاکہ جب قاری کسی تھریڈ میں آئے تو دونوں جانب کی گفتگو دیکھ کر بہتر فیصلہ کر سکے۔
جہاں تک صدیق صاحب کی خرابی نکالنے والی بات ہے تو ۔۔۔یہاں اصلاح کرتا چلوں سند کی خرابی شیخ ابو عبدالرحمٰن الفوزی نے نکالی ہے صدیق صاحب نے نیچے کچھ وضاحتیں کی ہیں یا ان کے بتائے گئے ضعف کو قوسین میں واضح کیا ہے۔
اور جہالت راوی والی بات ہے کےبارے میں میرا موقف مختصرا یہی ہے کہ جہالت کی بنا پر روایت ضعیف ہی ہوگی۔اگر ایسا ہی حسن ظن تمام ان روایات کے بارے میں محدثین سے رکھ لیا جائے تو پھر بہت ساری ایسی روایات صحیح ہو جائیں گی جو ہمیں قبول نہیں ہوں گی ۔۔۔۔ بہر حال ایسا ہی ایک سوال شیخ کفایت اللہ سے میں نے غالبا ایک سال قبل پوچھا تھا۔۔۔ضعف اس میں بھی بہت ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ یہی مشائخ ہی تھے اور اس واقعے سے دین کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔یہاں دیکھ لیجئے گا
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AA-290/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%B9%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%82%D8%B5%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82-%D8%AF%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%DB%81%DB%92%DB%94%DB%94-5192/
ث حدثوا عن بنی إسرائیل و لاحرج س
اس پر ہماری پہلے گفتگو ہو چکی ہے فیس بک پر۔۔۔۔اور میں نے اس موقف سے رضامندی ظاہر کرنے سے اسی دن معذرت کر لی تھی بوجوہ قائل نہ ہونے کے۔اس موضوع پر صدیق رضا صاحب کے دئے گئے دلائل سے میں متفق ہوں جو انہوں نے اسی کتاب کے معروضات مترجم میں دئے ہیں ،جن کی طرف میں نے پچھلی پوسٹ میں اشارہ بھی کیا تھا۔

تو ان سب قرائن کے وجود کے پیش نظر اگر کوئی ایسا واقعہ بیان کرے تو اس کو لاعلمی اور بے اصولی کے طعنے دینا درست نہیں ہوگا ۔
ہاں یہاں ذرا ہاتھ نرم رکھنا چاہئے کیونکہ یہاں مسئلہ ہی اجتہادی ہے کچھ لوگ ان واقعات کو بغیر تحقیق لینے کے قائل ہیں کچھ نہیں ۔۔دلائل دونوں اپنی تجوریوں میں رکھتے ہیں!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
خضر بھائی !
میرا مقصد ہی یہ تھا کہ دونوں طرف کے دلائل تمام بھائی پڑھ سکیں۔ ۔۔ جہاں دل مطمن ہو دلائل دیکھ کر قبول کر لیں۔۔۔جیسا کہ مسئلہ تدلیس ،حسن لغیرہ وغیرہ ہیں۔۔۔دونوں طرف کے موقف پر مواد موجود ہے۔بس اخلاص نیت چاہئے اور پھر جہاں دل مطمئن ہو اس کو قبول کر لیا جائے۔اسی نیت سے پیش کیا تاکہ جب قاری کسی تھریڈ میں آئے تو دونوں جانب کی گفتگو دیکھ کر بہتر فیصلہ کر سکے۔(١)
جہاں تک صدیق صاحب کی خرابی نکالنے والی بات ہے تو ۔۔۔یہاں اصلاح کرتا چلوں سند کی خرابی شیخ ابو عبدالرحمٰن الفوزی نے نکالی ہے(٢) صدیق صاحب نے نیچے کچھ وضاحتیں کی ہیں یا ان کے بتائے گئے ضعف کو قوسین میں واضح کیا ہے۔
اور جہالت راوی والی بات ہے کےبارے میں میرا موقف مختصرا یہی ہے کہ جہالت کی بنا پر روایت ضعیف ہی ہوگی۔(٣)اگر ایسا ہی حسن ظن تمام ان روایات کے بارے میں محدثین سے رکھ لیا جائے تو پھر بہت ساری ایسی روایات صحیح ہو جائیں گی جو ہمیں قبول نہیں ہوں گی(٤) ۔۔۔۔ بہر حال ایسا ہی ایک سوال شیخ کفایت اللہ سے میں نے غالبا ایک سال قبل پوچھا تھا۔۔۔ضعف اس میں بھی بہت ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ یہی مشائخ ہی تھے اور اس واقعے سے دین کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔یہاں دیکھ لیجئے گا(٥)
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AA-290/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%B9%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%82%D8%B5%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82-%D8%AF%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%DB%81%DB%92%DB%94%DB%94-5192/

اس پر ہماری پہلے گفتگو ہو چکی ہے فیس بک پر۔۔۔۔اور میں نے اس موقف سے رضامندی ظاہر کرنے سے اسی دن معذرت کر لی تھی بوجوہ قائل نہ ہونے کے۔اس موضوع پر صدیق رضا صاحب کے دئے گئے دلائل سے میں متفق ہوں جو انہوں نے اسی کتاب کے معروضات مترجم میں دئے ہیں ،جن کی طرف میں نے پچھلی پوسٹ میں اشارہ بھی کیا تھا۔(٦)


ہاں یہاں ذرا ہاتھ نرم رکھنا چاہئے کیونکہ یہاں مسئلہ ہی اجتہادی ہے کچھ لوگ ان واقعات کو بغیر تحقیق لینے کے قائل ہیں (٧) کچھ نہیں ۔۔دلائل دونوں اپنی تجوریوں میں رکھتے ہیں!
(١) وقاص بھائی !آپ کی بات سے متفق تھا بھی اور ہوں بھی ۔
(٢) میری مراد یہ نہیں تھی ۔ شفقت کرنے کا شکریہ ۔۔۔ ویسے میرے علم میں پہلے بھی تھا کہ کتاب کا مترجم کون ہے ؟ اور مؤلف کون ہے ؟ اور بھی کچھ کچھ یاد ہے کہ فوزی صاحب نے صرف واقعات پر استنادی حیثیت سے گفتگو کی ہے جبکہ صدیق رضا صاحب نے ساتھ ساتھ اس کی مزید قباحتیں بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ جزاہما اللہ خیرا ۔
خرابی نکالنے سے میری مراد یہی آخری بات تھی کہ صدیق رضا صاحب اکثر واقعات کے بعد ’’ عرض مترجم ‘‘ کا ایک عنوان قائم کرتے ہیں اور پھر اس واقعے کے بعد اس کی خرابیاں بیان کرتے ہیں کہ اس سے یہ لازم آتا ہے وہ لازم آتا ہے وغیرہ ۔ جیساکہ حضرت عمر والے قصے میں بھی کیا ہے ۔
البتہ اس امام بخاری والے واقعہ میں وہ ایسی کوئی خرابی کا یا قباحت نہیں نکال سکے یا تاریخی اعتبار سے اس کو غلط ثابت نہیں کیا انہوں نے ۔
(٣) ہم نے آپ کی بات سے اختلاف نہیں کیا ۔۔۔۔۔ کیا کسی جگہ لکھا گیا ہے کہ یہ واقعہ سندا ثابت ہے اور جہالت بالکل مضر نہیں ؟
(٤ ) بھائی حدیثی روایات اور تاریخی روایات میں بہت فرق ہے ۔
(٥) امام ربیعہ اور امام بخاری والے واقعہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔ امام ذہبی نے چار وجوہ بیان کی ہیں جن سے اُس واقعے کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام بخاری والے واقعہ میں کسی نے کوئی بھی قرینہ بیان نہیں کیا ( فیما اعلم )جس سے اس کا غلط ہونا ثابت ہوتا ہو بلکہ اس کے برعکس قرائن ملتے ہیں ۔
دونوں واقعات میں باعتبار سند ایک ہی خرابی ہے اور وہ ہے جہالت راوی ۔۔۔۔۔۔۔ اور کسی راوی کے مجہول ہونے کا سادہ مطلب یہ ہے کہ آپ نہ تو یہ جانتے ہیں کہ وہ مقبول الروایۃ ہے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ یہ غیر مقبول الروایۃ ہے ۔
اب ایک جگہ دیگر قرائن سے پتہ چلا کہ یہ واقعہ جھوٹا ہے تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ یہ کام کسی ایسے مجہول شخص کا ہے جو غیر مقبول الروایۃ ہے ۔
دوسری جگہ دیگر قرائن سے محسوس ہوتا ہے کہ مضمون واقعہ کا وقوع محال نہیں بلکہ قوی امکان ہیں تو کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعہ کسی مقبول الروایۃ مجہول کا بیان کردہ ہے ۔ (یا ہو سکتا ہے کہ وہ غیر مقبول الروایۃ ہی ہو لیکن یہ واقعہ تو حقائق کے قریب تر ہے ۔ )
(٦)۔ صدیق رضا صاحب نے جو دلائل دیے ہیں ان پر بات بعد میں کریں گے ۔۔۔۔ آپ یہ بتائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث حدثوا عن بنی إسرائیل و لاحرج میں حضور نے بنی اسرائیل سے روایت کرنے کی اجازت دی ہے ۔ کیا اسرائیلیات اصول حدیث کے تقاضوں پر اترتی ہیں ؟
حضور کی اجازت اور اسرائیلیات کی استنادی حیثیت کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں ؟
(٧) لمبی ذمہ داری میں نہیں اٹھاتا بس یہ عرض کر سکتا ہوں کہ ان سب تفصیلات کے باوجود کم ازکم میں امام بخاری والے اس واقعہ پر ’’ہذا حدیث صحیح ‘‘ کا حکم نہیں لگانا چاہتا ۔ لیکن اس کو موضوعات شریف (ابتسامہ ) میں سے بھی نہیں سمجھتا ۔ بل الأقرب إلی الصحۃ منہ إلی الضعف ۔
اور اس واقعہ کو بیان کرنے پر زور بھی نہیں دیتا اور اگر کوئی بیان کرے تو اس کو مغرض ، جاہل اور لا علم بھی قرار نہیں دیتا ۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105

مستجاب الدعوات:
امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ مستجاب الدعوات تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے قاری کیلئے بھی دعا کی ہے اور صدہا مشائخ نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ ختم بخاری ہر نیک مطلب اور مقصد کیلئے مفید ہے۔

کیا بات ہے یعنی ختم بخاری میں شرکت سے نیک دلی مرادیں پوری ہوجاتی ہیں اس لحاظ سے تو بخاری قڑان مجید سے بھی آگے نکل گئی کیونکہ ختم قرآن میں شرکت بدعت ہے اور ختم بخاری میں شرکت ہر نیک مطلب اور مقصد کیلئے مفید ہے (نعوذبا للہ )
 
Top