السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
امام بخاری علیہ الرحمہ ایک محدث کی حیثیت سے متعارف ھیں. وہ فقیہ تو ھیں لیکن انکی فقہ مدون نہیں ھے. اسلۓ ھو سکتا ھے کہ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے ان کی فقہ کو نہ لکھا ھو.
اور مزید کہوں گا کہ محترم شیخ
@خضر حیات صاحب کی آخری بات بھی درست معلوم ھوتی ھے.
آج ایک بات مزید ذہن میں آئی :
ترمذی کا بخاری کی فقہی آراء کا تذکرہ نہ کرنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی فقہی آراء ان سے متقدم دیگر فقہاء سے مختلف نہ ہوں ، مثلا کسی مسئلہ میں ان کی رائے عبد اللہ بن المبارک جیسی ہو ، کسی میں ان کی رائے وکیع جیسی ہو ، کہیں وہ اسحاق بن راہویہ اور احمدبن حنبل سے متفق ہوں ، امام ترمذی نے انہیں کے اقوال ذکر کرنے پر اکتفا کیا اور امام بخاری کے ذکر کی ضرورت نہ سمجھی ہو ۔ واللہ اعلم
اب آپ کہیں گے کہ نہیں یہ درست نہیں معلوم ھوتا کیونکہ:
یہ قول بھی اس بناء پر قابل قبول نہیں ہے کہ متعدد مواقع پر امام ترمذی نے مختلف دور کے فقہاء کا ایک ہی مسلک کے سلسلہ میں ذکر کیاہے میں بطوربطورنمونہ صرف ایک مقام کا ذکر کرتاہوں۔
وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، وأحمد، وإسحاق
اوراس طرح پوری کتاب میں بہت سارے مواقع پر امام ترمذی نے ایک قول کے قائلین کا زمانی تقدم وتاخر کے باوجود ذکر کیاہے۔اسی مثال میں دیکھیں،سفیان ثوری استاد ہیں،ابن مبارک کے،اورابن مبارک معاصر ہے اسحاق کے،اورامام شافعی واحمد سفیان ثوری اورابن مبارک سے متاخرہیں۔لہذا اس رائے کےقبول کرنے میں مجھے بہت تامل ہے۔اگرامام ترمذی ایک قول کے ذکرمیں سفیان ثوری ،ابن مبارک،امام شافعی واحمد واسحاق کا زمانی تقدم وتاخر کے باوجود ذکر کرسکتے ہیں توامام بخاری کا کیوں نہیں؟
تو جناب میرے چھوٹے سے دماغ میں یہ بات آتی ھیکہ سفیان ثوری, ابن مبارک وغیرہ کا قول اسلۓ ذکر کیا کہ کیونکہ انکی فقہ مدون تھی.
واللہ اعلم بالصواب