جناب معذرت کے ساتھ ۔ مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو حقائق کو حقیقت کی نظر سے ہی دیکھنے کے عادی ہیں ۔
حقائق کے نام سے اپنے جذبات کی تسکین کا سامان اکٹھا کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ۔
جن لوگوں نے امام صاحب کی تعریف کی ہے آپ کے نزدیک وہ محدث و مفسر و مورخ سب کچھ ہیں ۔
اور جنہوں نے امام صاحب پر جرح کی یا نقل کی ہے وہ آپ کے نزدیک کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے چاہے حقیقت میں وہ کتنے بڑے ہی امام کیوں نہ ہوں ۔
یہ ساری تقسیمات و تقریرات آپ کے دل کی تسلی کے لیے کافی ہوسکتی ہیں لیکن علمی دنیا میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
ہم تمام آئمہ کا احترام و اکرام کرنا باعث شرف و افتخار سمجھتے ہیں ہیں لیکن کسی ایک کے جنون میں مبتلا ہو کر دوسروں پر تبرا بازی سے سخت نفرت کرتے ہیں ۔
یہ کام آپ نیا نہیں کر رہے بلکہ اس سے پہلے آپ کے بعض اسلاف بھی یہی کچھ کر گئے ہیں ۔
چنانچہ علامہ کوثری باوجود اس کے کہ علم و فضل کے اعلی مقام پر فائز تھے لیکن اس جنون کی وجہ سے انہوں نے معظم علمائے اسلام پر طعن وتشنیع کے نشتر چلائے ہیں ۔
’’ تأنیب الخطیب ‘‘ کوئی علمی کاوش نہیں بلکہ نمونہ عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ذوق و شوق کی خاطر علم و فن سے کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں ۔
جو موضوع آپ نے شروع کیا ہے اس کے حوالے سے دو لفظوں میں میری رائے لینا چاہیں تو پیش ہے کہ ’’ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ شروع سے ہی ایک متنازع شخصیت رہے ہیں ‘‘
ان کے مادحین کی فہرست طویل ہے تو جارحین بھی کم نہیں ۔ فی زمانہ اس موضوع پر بحث کرنے کا سوائے وقت کے ضیاع کے کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ نہ اس بات کا علم سے تعلق ہے نہ عمل سے تعلق اور نہ ہی عقیدہ سے ۔
لیکن پھر بھی آپ اگر بحث بر بضد ہیں تو خانہ ساز شروط و قیود کی بجائے تراجم کے مطالعہ کی علمی و تاریخی شروط کے مطابق بحث شروع کرلیں ۔
خود امام صاحب کی اپنے بارے میں کیا رائے تھی ؟
ان کے معاصرین کی ان کے بارےمیں کیا رائے تھی ؟
بعد میں متقدمین محدثین و مؤرخین کی ان کے بارےمیں کیا رائے تھی ؟
اس پر اگر آپ بات کرنا چاہتے ہیں تو شروع کرلیتے ہیں ۔