• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام خطیب بغدادی اور نشہ ؟؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ پوسٹ آپ نے خود بنائی ہے؟ اس میں کچھ عمدہ فاؤل کھیلے گئے ہیں:
1۔ "غیر مرضی" محمد بن طاہر المقدسی کی صفت نہیں بلکہ "تصوف" کی صفت ہے۔ یعنی ناپسندیدہ تصوف کی جانب چلا گیا تھا۔
2۔ ابن عساکر کا قول ان کی اطراف ستہ کے جمع کرنے کے بارے میں جو کتاب ہے اس کے بارے میں ہے، مطلقاً نہیں ہے۔
3۔ ذہبی کا قول آدھا نقل کیا گیا ہے۔ آگے جو تعریف ہے وہ صاحب پوسٹ شیر مادر بنا گئے۔ اس میں ہے: "وہ اپنی ذات میں سچے ہیں، ان پر تہمت نہیں لگائی جاتی۔ ان میں حافظہ تھا اور طویل سفر کیا تھا۔"
4۔ ذہبیؒ نے دوسری جگہ سیر میں ان کا دفاع کیا ہے:

وقد ذكره الدقاق في (رسالته) ، فحط عليه، فقال: كان صوفيا ملامتيا، سكن الري، ثم همذان، له كتاب (صفوة التصوف) ، وله أدنى معرفة بالحديث في باب شيوخ البخاري ومسلم وغيرهما.


قلت: يا ذا الرجل، أقصر، فابن طاهر أحفظ منك بكثير.

ثم قال: وذكر لي عنه الإباحة.

قلت: ما تعني بالإباحة؟ إن أردت بها الإباحة المطلقة، فحاشا ابن طاهر، هو - والله - مسلم أثري، معظم لحرمات الدين، وإن أخطأ أو شذ، وإن عنيت إباحة خاصة، كإباحة السماع، وإباحة النظر إلى المرد، فهذه معصية، وقول للظاهرية بإباحتها مرجوح .

قال ابن ناصر: محمد بن طاهر لا يحتج به، صنف في جواز النظر إلى المرد، وكان يذهب مذهب الإباحة .

قال أبو سعد السمعاني: سألت إسماعيل بن محمد الحافظ عن ابن طاهر، فتوقف، ثم أساء الثناء عليه، وسمعت أبا القاسم بن عساكر يقول: جمع ابن طاهر أطراف (الصحيحين) وأبي داود، وأبي عيسى، والنسائي، وابن ماجه، فأخطأ في مواضع خطأ فاحشا.

وقال ابن ناصر: كان لحنة ويصحف، قرأ مرة: وإن جبينه ليتفصد عرقا - بالقاف - فقلت: بالفاء، فكابرني .

وقال السلفي: كان فاضلا يعرف، لكنه لحنة، قال لي المؤتمن الساجي: كان يقرأ، ويلحن عند شيخ الإسلام بهراة، فكان الشيخ يحرك رأسه، ويقول: لا حول ولا قوة إلا بالله.

وقال شيرويه بن شهردار في (تاريخ همذان) :ابن طاهر سكن همذان، وبنى بها دارا، دخل الشام، والحجاز، ومصر، والعراق، وخراسان، وكتب عن عامة مشايخ الوقت، وروى عنهم، وكان ثقة صدوقا، حافظا، عالما بالصحيح والسقيم، حسن المعرفة بالرجال والمتون، كثير التصانيف، جيد الخط، لازما للأثر، بعيدا من الفضول والتعصب، خفيف الروح، قوي السير في السفر، كثير الحج والعمرة، مات ببغداد منصرفا من الحج.

قال ابن النجار: قرأت بخط شجاع الذهلي: أخبرني أحمد بن محمد بن أحمد البزاز، حدثنا محمد بن طاهر بن علي المقدسي، أخبرنا عثمان بن محمد المحمي بنيسابور ... ، فذكر حديثا.

أنبؤونا عن شهاب الحاتمي، أخبرنا أبو سعد السمعاني، سمعت من أثق به يقول:

قال عبد الله بن محمد الأنصاري الهروي: ينبغي لصاحب الحديث أن يكون سريع القراءة، سريع النسخ، سريع المشي، وقد جمع الله هذه الخصال في هذا الشاب، وأشار إلى ابن طاهر، وكان بين يديه.

وبه، قال السمعاني: وسمعت أبا جعفر الساوي يقول:
كنت بالمدينة مع ابن طاهر، فقال: لا أعرف أحدا أعلم بنسب هذا السيد - صلى الله عليه وسلم - مني، وآثاره وأحواله.

(یہ حوالہ میں نے کئی برس پہلے نکالا تھا۔ اصل کتاب کی طرف اس وقت مراجعت نہیں کی۔ تحقیق کر لی جائے۔)
کمال یہ ہے کہ اگلی پوسٹ "سیر" سے بنائی گئی ہے لیکن اس کے لیے "سیر" کو دیکھا ہی نہیں گیا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
باقی خطیب بغدادیؒ نہ تو ضعیف تھے اور نہ ہی نشے وغیرہ کے حوالے سے ان کے بارے میں روایات درست ہیں۔ یہ فن حدیث کے ایک اہم ستون ہیں اور جو شخص ايسے مرتبے پر ہو اس کے بارے میں اکا دکا روایات سے جرح کرنا عجیب طرز ہے۔ جس کی امامت پر امت متفق ہو اس کے بارے میں منفرد اقوال شاذ سمجھے جانے چاہئیں۔
البتہ مسئلہ یہاں تھا:

وكان في الخطيب شيئان أحدهما: الجري على عادة عوام المحدثين في الجرح والتعديل، فإنهم يجرحون بما ليس يجرح، وذلك لقلة فهمهم، والثاني: التعصب على مذهب أحمد وأصحابه، وقد ذكر في كتاب «الجهر» أحاديث نعلم أنها لا تصح، وفي كتاب «القنوت» أيضا، وذكر في مسألة صوم يوم الغيم حديثا يدرى أنه موضوع فاحتج به، ولم يذكر عليه شيئا، وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ رَوَى حَدِيثًا يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الكاذبين » .
وقد كشفت عن جميع ذلك في كتاب «التحقيق في أحاديث التعليق» وتعصبه على ابن المذهب ولأهل البدع مألوف منه، وقد بان لمن قبلنا.
المنتظم ۱۶۔۱۳۳ دار الکتب العلمیۃ

ابن جوزیؒ چونکہ خود متشدد ہیں اس لیے ہم صرف ان کی رائے کو نہ دیکھتے لیکن یہی رائے علامہ ذہبیؒ نے بھی نقل کی ہے:

قلت: قال السمعاني: حدثنا عَنْهُ غير واحد، وهو القائل لابن طاهر المقدسي: ثلاثة لا أحبّهم لتعصّبهم: الحاكم، وأبو نعيم، والخطيب، وذكره السلفي فيمن أجاز له، وأنه مشهور بالمعرفة التامة بالحديث.
تاریخ الاسلام 10۔788 ط دار الغرب الاسلامی
أحمد بن علي بن ثابت الحافظ ابو بكر الخطيب تكلم فيه بعضهم وهو وأبو نعيم وكثير من علماء المتأخرين لا أعلم لهم ذنبا أكبر من روايتهم الأحاديث الموضوعة في تأليفهم غير محذرين منها وهذا إثم وجناية على السنن فالله يعفو عنا وعنهم.
الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردهم للذھبی 1۔51 ط دار البشائر

مسلکی تعصب میں انسان بہت سارے کام کر جاتا ہے چنانچہ خطیبؒ سے بھی کئی جگہ چوک ہوئی ہے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
FB_IMG_1518985185952.jpg
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته۔۔۔۔۔۔
بھائی یہ بطور الزام پیش کیا گیا تھا۔ جسطرح ابن طاھر المقدسی نے علامہ خطیب کے بارے حافظے کی جرح کی۔ (جسمیں ابن طاھر منفرد بھی ھیں)۔
تو اسی طرح بلکل یہی جرح بلکہ اسے تھوڑی اوپر کی کرح ابن طاجر المقدسی پر بھی ہوئی وہ ھے۔
۔
٧٧١٠ - محمد بن طاهر المقدسي الحافظ.
ليس بالقوى، فإنه له أوهام كثيرة في تواليفه.
وقال ابن ناصر: كان لحنة، وكان يصحف.
وقال ابن عساكر: جمع أطراف الكتب الستة، فرأيته بخطه، وقد أخطأ فيه في مواضع خطأ فاحشا.
قلت: وله انحراف عن السنة إلى تصوف غير مرضى، وهو في نفسه صدوق لم يتهم
[میزان الاعتدال۔۔۔۔۔۔]

اب جس شخص پر خود ہی ایسی جروحات ھوں۔ تو ایسے شخص کی بات کیونکر قبول ھو۔ جبکہ وہ اپنی بات میں منفرد بھی ھو۔
رہے علامہ خطیب بغدادی، تو اہل سنت کہلوانے دعویدار۔ تمام گروہ، علامہ خطیب کی تقاھت پر جمع ھیں۔ سوائے کوثری پارٹی کے، اور پاک انڈیا کے حنفیہ میں سے کچھ سرپھروں کے،۔
تو انہی سرپھروں کو بطور الزام ابن طاھر مقدسی پر جرح دکھائی تھی۔ اور جرح یہ قسم انہی سرپھروں کے نزدیک جرح مفسر بھی ہے۔ اور ایسے راوی کی رعایت سے احتجاج بھی درست نہیں (انہی سرپھروں کے اصول کے مطابق)۔
۔۔۔۔۔۔۔
آپ بھی محمد بن طاھر المقدسی کی تعدیل پیش کر رھے ھیں۔ تو عرض ھے کہ وہ تو وہیں لکھا ھوا ھے کہ وہ فی نفسہ صدوق ہی ہیں۔ اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ ہم نے انکار کیا ہی کب؟
یہ سب تو بطور الزام پیش ھے۔ اور چونکہ آپ کو اصل بحث کا علم نہیں۔ (جو کسی دوسرے فورم پر جاری ھے) اسی لیئے آپ اس طرح کی بات کر گئے۔۔
 
Top