امام ابو حنیفہ کی تعلیمات میں کیا اس بات پر زور نہیں دیا جاتا کہ
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ کا اس طرح سے حیران ہونا میری سمجھ میں نہیں آتا کیوں کسی اور تھریڈ میں آپ ہی کی جانب سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ
بقلم اسحاق سلفی صاحب
ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا چاہے اس زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ابوذر کے «على رغم» ( «وإن رغم أنف أبي ذر.») ضرور بیان کرتے۔
اب اگر امام ابو حنیفہ اپنے مقلدوں جو کہ کلمہ طیبہ پڑھنے والے ہیں جنت کی بشارت دیں تو اس میں حیرانی والی کیا بات ہے حیرانی تو اس وقت ہونی چاہئے جب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پر یقین نہ کرےجیسا کہ صحیح مسلم میں بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ھریرہ سے ارشاد فرمایا کہ "جو کلمہ طیبہ کی گواہی دلی یقین سے دے اس کو جنت کی بشارت دے دو " اور یہ ارشاد سن کر حضرت ابو ھریرہ وہاں سے چلے اور جو شخص سب سے پہلے ملا اس کو یہ بشارت سنائی اب ہونا تو یہ چاہئے تھا یہ بشارت سن کر ایسے دلی یقین کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھ کر اس بشارت کو قبول کرلینا تھا لیکن ہوا اس کے بر عکس کہ جنت کی اس بشارت کو سن کر وہ غصہ ہوگئے اور ایک زور دار ضرب حضرت ابو ھریرہ کے لگائی
امید ہے اب مجھے بھی اپنے سوال کا جواب مل جائے گا ان شاء اللہ