وضاحت :ميری جس پوسٹ پر آپ نے اعتراض کیا ہے ، اس میں میں نے حدیث کے متعلق جرح مفسر و غیر مفسر کی تعبیر استعمال کی ہے ، یہ گرچہ تحریر میری ہے ، لیکن پھر بھی جرح کا مفسر و غیر مفسر ہونا ، اس کا استعمال راویوں کے لیے زیادہ مناسب ہے ۔
میں نے کہنا یہ چاہا تھا کہ جنہوں نے تضعیف کی ہے ، انہوں نے متعین طور پر اس حدیث کی تضعیف کی ہے ، اس کی خطا بیان کی ہے ، جبکہ جن کی طرف سے تصحیح بیان کی جاتی ہے ، انہوں نے غیر متعین اور مبہم انداز میں اس کی تصحیح کی ہے ، اس پر ہونے والی جرح یا جس وجہ سے اس کی تضعیف کی گئی ہے ، اس کا جواب نہیں دیا ۔
پہلی بات تو یہ کہ اس میں خطا کس سے ہوئی ابو حاتم رح نے یہ نہیں بتلایا آپ تو جانتے ہی ہیں سند میں سے ہی کسی ایک سے غلطی ہوئی ہوگی نا تو امام ابو حاتم رح نے یہ تو نہیں بتلایا تو یہ جرح مفسر کیسے ہوئی؟؟ اسے مبہم ہی کہیں گے ہوسکتا ہے آپ کہیں کے اس کے آگے لکھا تو ہے کہ کہا جاتا ہے سفیان کو اس میں وہم ہوا یعنی "کہا جاتا ہے" کس نے کہا معلوم نہیں اگر خضر حیات صاحب اگر آپ کو معلوم ہوگا تو بتلادیں تاکہ معلوم تو ہو امیر المومنین فی الحدیث پر وہم کی جرح کرنے والا کون بندہ یے؟
شاید اسی نور العینین میں جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں زبیر علی زائ، محمد بن اسماعیل رح پر ابن ابی حاتم کی جرح تکلموا فیہ کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں یہ جرح غیر مفسر ہے اور اس کا جارح نامعلوم ہے ـ کیا احناف کے لیے یہ اصول باقی نہیں رہتے یا صرف احناف کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ہی یہ اصول ہیں کچھ تو انصاف سے کام کیجیے صاحب!
ابو حاتم رح نے ایک جماعت کا ذکر کیا جو تطبیق والی حدیث نقل کرتے ہیں لیکن جب کتب احادیث میں تلاش کیا گیا تو عاصم بن کلیب سے یہ روایت کرنے والے صرف ابن ادریس ہی ملے پتہ نہیں ابو حاتم رح نے کونسی جماعت کا تذکرہ کیا تو خضر حیات صاحب آپ بتا دیں وہ کونسی جماعت ہے ورنہ ایسی اندھی تقلید کی تو آپ زبردست مخالف ہے یہاں آپ کیوں تقلید کرنے لگ جاتے اللہ اعلم
آپ جیسے حضرات سے مجھے امید نہیں تھی کہ اس قول کو پیش کرتے ـ
اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی روایت کا کیا؟؟
جسے یحی بن معین رح شعبہ رح ابو عاصم رح وغیرہ نے امیر المومنین فی الحدیث جیسے لقب سے نوازا ان کا مقابلہ ابن ادریس رح سے کیا جاسکتا ہے؟؟
زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے حافظ ابن حجر رح کے اقوال ملاحضہ کرلیں
سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري أبو عبد الله الكوفي ثقة حافظ فقيه عابد إمام حجة( تقریب التہذیب )
اور عبداللہ بن ادریس کے بارے میں لکھتے ہیں
عبد الله بن إدريس بن يزيد بن عبد الرحمن الأودي بسكون الواو أبو محمد الكوفي ثقة فقيه عابد( تقریب التہذیب)
آپ کے شیخ نذیر حسین دہلوی رح اپنے فتاوی ص 450 میں کہتے ہیں اگر کوئی سفیان کی مخالفت کرے گا تو سفیان کا ہی قول معتبر ہوگاـ
اب خود فیصلہ کرلیں کس کے قول کا اعتبار کیا جائیگا اور کس کی بیان کردہ حدیث معتبر ہوگی ـ
اس حوالے سے ایک دو نکات عرض کرتا ہوں :
1۔ امام ابو حاتم ماہر علل حدیث ہیں ، انہوں نے بلا کسی تردد ، اس روایت کو ’ خطا ‘ یعنی ’ غلطی ‘ قرار دیا ہے ۔ لہذا اگر غلطی کے بیان میں ان کی بات میں تصریح نہیں ، تو ان کے خالی حکم کو رد کرنے کے لیے قوی دلیل کی ضرورت ہے ، یا پھر انہیں کے ہم عصر یا انہیں جیسے امام کی ضرورت ہے ، جو صراحتا اس روایت کو درست کہے ، یا پھر ابو حاتم کی تردید کرے ۔
2۔ وہم ہر کسی سے ہوسکتا ہے ، امام سفیان ثوری کی کسی روایت میں وہم کا ذکر ہے ، تو علل حدیث میں یہ باتیں عام ہیں ، اس میں راوی کی ثقاہت پر فرق نہیں آتا ، بلکہ علت کی بحثیں عموما آتی ہی وہاں ہیں ، جہاں ثقہ راوی ہوں اور سند بظاہر صحیح نظر آرہی ہو ۔
3۔ زبیر علی زئی صاحب نے ’ تکلموا فیہ ‘ والی جرح پر جو اعتراض کیا ہے ، اسے دیکھنے کی ضرورت ہے ، ممکن ہو ، ان کا اعتراض درست ہو اور ممکن ہے غلط ہو ۔ لیکن اس بات کو اس حدیث کے ساتھ جوڑنا غلط ، یا قیاس مع الفارق کہا جاسکتا ہے ۔
4۔ آپ نے جس بات کو امام ابو حاتم کی تقلید کہا ہے ، میں عرض کروں گا کہ یہ تقلید ہے ہی نہیں ، بہر صورت اگر آپ کے نزدیک یہ تقلید ہے ، تو آپ مجھے اس معنی میں اندھا مقلد کہہ سکتے ہیں ، مجھے اعتراض نہیں ہوگا ، کیونکہ روایت ، جرح و تعدیل اور ہر وہ چیز جس کا تعلق ’ خبر و اخبار ‘ سے ہے ، اس میں ایک انسان کے لیے سوائے دوسرے پر اعتماد کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ۔
5۔ ابن ادریس کی روایت کو اس لیے ترجیح دی گئی ہے ، کیونکہ وہ کتاب پر اعتماد کرتا تھا ، جب حفظ اور کتاب آپس میں ٹکرائے تو ائمہ علل نے کتاب والی روایت کو ترجیح دی ہے ، اگر آپ نے اس روایت کے مالہ و ماعلیہ پر پڑھا ہے ، تو یقینا یہ بات آپ کے علم میں ہو گی ۔