• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام سفیان الثوری اور ترك رفع الیدین كا جواب مطلوب ہے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ اپنے تحفظات کی کچھ تفصیل بتانا پسند فرمائیں گے؟
سند صحیح ہو ، تو متن ضعیف نہیں ہوسکتا ۔
یہ اصولی اور منطقی بات ہے ، جو بھی تعبیر اس اصول سے ٹکراتی ہے ، وہ درست نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اگرچہ وہ متن معلول ہو؟ یا وہ قرآن و سنت متواترہ سے ٹکراتا ہو؟ یا وہ شاذ ہو؟
حدیث صحیح کی شروط میں علت و شذوذ کا جو ذکر ہے ، اس کو مد نظر رکھا جائے تو واقعتا منکر یا معلول حدیث صحیح نہیں ہوتی ، البتہ اس سے ہٹ کر ٹکراؤ ، مخالفت ، درایت اور نکارت وغیرہ جتنی باتیں ہیں سب غیر علمی ہیں ۔
خبر کی تحقیق کا تعلق اور خبر کے فہم کا معاملہ دو الگ الگ چیزیں ہیں ، بہت سارے لوگ تحقیق خبر میں اپنے دماغ کا بے جا استعمال کرتے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
حدیث صحیح کی شروط میں علت و شذوذ کا جو ذکر ہے ، اس کو مد نظر رکھا جائے تو واقعتا منکر یا معلول حدیث صحیح نہیں ہوتی ، البتہ اس سے ہٹ کر ٹکراؤ ، مخالفت ، درایت اور نکارت وغیرہ جتنی باتیں ہیں سب غیر علمی ہیں ۔
خبر کی تحقیق کا تعلق اور خبر کے فہم کا معاملہ دو الگ الگ چیزیں ہیں ، بہت سارے لوگ تحقیق خبر میں اپنے دماغ کا بے جا استعمال کرتے ہیں ۔
تو "سند صحیح" کے بجائے "حدیث صحیح" کہنا چاہیے غالباً۔
کیا ایسی کوئی مثال نہیں ہے جہاں کوئی روایت اصول کے مطابق صحیح ہو لیکن احادیث متواترہ کے خلاف ہو؟ اگرچہ حقیقتاً نہیں لیکن ظاہراً خلاف ہو؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
تو "سند صحیح" کے بجائے "حدیث صحیح" کہنا چاہیے غالباً۔
حدیث صحیح زیادہ جامع تعبیر ہے ۔ لیکن اس دور میں جس انداز سے احادیث کو غیر صحیح کرنے کی مہم چل رہی ہے، اس کے لیے ’ سند صحیح ‘ والی تعبیر زیادہ بہتر سمجھتا ہوں ۔
کیا ایسی کوئی مثال نہیں ہے جہاں کوئی روایت اصول کے مطابق صحیح ہو لیکن احادیث متواترہ کے خلاف ہو؟ اگرچہ حقیقتاً نہیں لیکن ظاہراً خلاف ہو؟
مختلف الحدیث ایک مستقل فن ہے ، اس میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مختلف الحدیث ایک مستقل فن ہے ، اس میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں ۔
کیا جو احادیث روایۃ صحیح ہوں وہ بھی ایسی ہوسکتی ہیں؟
ان میں سے کس کو ترجیح ہوگی؟
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ
1۔ امام ابو حاتم ماہر علل حدیث ہیں ، انہوں نے بلا کسی تردد ، اس روایت کو ’ خطا ‘ یعنی ’ غلطی ‘ قرار دیا ہے ۔ لہذا اگر غلطی کے بیان میں ان کی بات میں تصریح نہیں ، تو ان کے خالی حکم کو رد کرنے کے لیے قوی دلیل کی ضرورت ہے ، ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یقال کا صیغہ، تمریض کا صیغہ ہے
اگرچہ مان لیں کہ امام ابو حاتم نے کہا کہ یہاں غلطی ہوئی کس نے کی انہیں بھی معلوم نہ ہوسکا ـ یقال سے وہ کہنا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ سفیان سے غلطی ہوئی لیکن کون کہے یہ بھی تو معلوم ہو کہ سفیان ثوری سے غلطی ہوئی کہنے والا کون ہے کیا وہ علل حدیث کا ماہر ہے بھی یا نہیں ـ
یا پھر انہیں کے ہم عصر یا انہیں جیسے امام کی ضرورت ہے ، جو صراحتا اس روایت کو درست کہے ، یا پھر ابو حاتم کی تردید کرے
جی بالکل ان کے اس قول کو محدثین نے رد بھی کیا ہے جو ہم آگے ان شاء اللہ پیش کریں گے ـ

2۔ وہم ہر کسی سے ہوسکتا ہے ، امام سفیان ثوری کی کسی روایت میں وہم کا ذکر ہے ، تو علل حدیث میں یہ باتیں عام ہیں ، اس میں راوی کی ثقاہت پر فرق نہیں آتا ، بلکہ علت کی بحثیں عموما آتی ہی وہاں ہیں ، جہاں ثقہ راوی ہوں اور سند بظاہر صحیح نظر آرہی ہو ۔
جی وہم ہوسکتا ہے لیکن اس کی صراحت بھی کی جاتی ہے کس سے اُس حدیث میں وہم ہوا ہے اب اِسی حدیث میں دیکھا جائے تو کسی نے کہا سفیان سے خطا ہوئی اور کسی نے کہا وکیع سے خطا ہوئی لیکن محدثین نے ان دونوں باتوں کا رد بھی کیا ہے ـ
3۔ زبیر علی زئی صاحب نے ’ تکلموا فیہ ‘ والی جرح پر جو اعتراض کیا ہے ، اسے دیکھنے کی ضرورت ہے ، ممکن ہو ، ان کا اعتراض درست ہو اور ممکن ہے غلط ہو ۔ لیکن اس بات کو اس حدیث کے ساتھ جوڑنا غلط ، یا قیاس مع الفارق کہا جاسکتا ہے ۔
ہاں دیکھ لییجیے یہ اصولِ جرح وتعديل ہے تو کیا حدیث کے اعتبار سے دیکھا جائے گا؟؟؟ کہ حدیث کونسی یے؟؟ اچھا احناف کے خلاف ہے کیا؟؟ تو چلو یہ اصول یہاں چلے گا اور نہیں ہے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصول اُس حدیث کے لیے ہے اِس حدیث کے ساتھ جوڑنا قیاس مع الفارق ہے ـ

حافظ ابن حجر نے بھی تقریب میں کہا کہ محمد بن اسماعیل پر ابن ابی حاتم کا قول غیر واضح ہے اور بھی کئی مثالیں ہیں اگر آپ یہ پروسیجر فالو کریں گے تو مل جائیں گے ـ جو @رحمانی صاحب نے بتایا تھاـ

اگرآپ شاملہ استعمال کرتے ہیں تواس کے سرچ کے پہلے خانہ میں’’تکلم ‘‘لکھیں اور دوسرے خانہ میں ’’بلاحجۃ‘‘اس کے بعد تراجم وتاریخ کے زمرہ کو نشان زد کرکے سرچ کریں، ایک طویل فہرست راویان حدیث کی آجائے گی جن کے بارے میں لکھاہوگا،تکلم بلاحجۃ،بغیر کسی دلیل کے ان میں یاان پرجرح اورکلام کیاگیاہےـ

4۔ آپ نے جس بات کو امام ابو حاتم کی تقلید کہا ہے ، میں عرض کروں گا کہ یہ تقلید ہے ہی نہیں ، بہر صورت اگر آپ کے نزدیک یہ تقلید ہے ، تو آپ مجھے اس معنی میں اندھا مقلد کہہ سکتے ہیں ، مجھے اعتراض نہیں ہوگا ، کیونکہ روایت ، جرح و تعدیل اور ہر وہ چیز جس کا تعلق ’ خبر و اخبار ‘ سے ہے ، اس میں ایک انسان کے لیے سوائے دوسرے پر اعتماد کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ۔
جی بالکل اس پر تو اعتماد کرتے آئے ہیں لیکن جو اصول جرح وتعديل ہے اسی سے ان کو پرکھا جاتا ہے اپنی عقل سے نہیں ـ
5۔ ابن ادریس کی روایت کو اس لیے ترجیح دی گئی ہے ، کیونکہ وہ کتاب پر اعتماد کرتا تھا ، جب حفظ اور کتاب آپس میں ٹکرائے تو ائمہ علل نے کتاب والی روایت کو ترجیح دی ہے ، اگر آپ نے اس روایت کے مالہ و ماعلیہ پر پڑھا ہے ، تو یقینا یہ بات آپ کے علم میں ہو گی ۔
ہاں جی لیکن پہلے آپ یہ تو بتائیں کہ کس محدث نے کہا ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی ہی روایت صحیح ہے اور سفیان ثوری رحمہ اللہ نے روایت کرنے میں غلطی کی ہے ـ

جبکہ کسی بھی محدث نے سفیان سے اس حدیث میں خطا ہونے کا الزام نہیں لگایا ـ ہو سکتا ہے آپ امام احمد کے قول کو ٹہیک سمجھ نہ پائے کیونکہ عبداللہ بن ادریس کے کتاب سے روایت کرنے والی بات امام احمد سے ہے تو امام احمد کیا کہتے ہیں دیکھ لیتے ہیں

حَدثنَا قَالَ قلت لابي حَدِيث عَاصِم بن كُلَيْب عَن عبد الرَّحْمَن بن الْأسود عَن عَلْقَمَة قَالَ قَالَ ابْن مَسْعُود الا اصلي بكم كَمَا رَأَيْت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ فصلى فَلم يرفع يَدَيْهِ الا مرّة
حَدثنَا قَالَ حَدثنِي ابي حَدثنَا ابو عبد الرَّحْمَن الضَّرِير قَالَ كَانَ وَكِيع رُبمَا قَالَ يَعْنِي ثمَّ لَا يعود

یہ دونوں احادیث روایت کرنے بعد امام احمد کے بیٹے کہتے ہیں
قال ابی وکیع يَقُول هَذَا من قبل نَفسه يَعْنِي ثمَّ لَا يعود ( مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ عبداللہ 1/70)
ترجمہ : میرے والد نے کہا وکیع ثم لا یعود کے الفاظ اپنے طرف سے کہتے تھے
اس کے بعد امام احمد نے ابن ادریس کا ثم لا یعود کا ذکر نہ کرنا کہا ہے ـ
یعنی امام احمد نے سفیان سے خطا ہونے والی بات بالکل بھی نہیں کی بلکہ وہ تو وکیع کو ثم لا یعود کے الفاظ کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں باقی متن پر کچھ نہیں کہتے ـ

رہا سوال وکیع کا ثم لا یعود ذکر کرنا جس پر امام احمد نے کہا وکیع نے اپنے طرف سے بیان کیا لیکن اس کو روایت کرنے میں وکیع اکیلے نہیں ہے ان کے ساتھ عبداللہ بن المبارک بھی ہے جس کو امام نسائی نے روایت کیا ہے ـ
أخبرنا سويد بن نصر قال أنبأنا عبد الله بن المبارك عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يعد (سنن نسائی حدیث 1026)

حافظ ابن حجر نے بھی کہا کہ

لم ينْفَرد بهَا وَكِيع بل أوردهَا النَّسَائِيّ من طَرِيق ابْن الْمُبَارك عَن الثَّوْريّ (الدرایہ 1/150)
ترجمہ : اس میں وکیع منفرد نہیں ہے بلکہ امام نسائی نے اس کو ابن المبارک عن الثوري کے طریق سے بھی لائے ہیں ـ
اسی طرح امام زیلعی نے بھی کہا
قَدْ تَابَعَ وَكِيعًا عَلَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، كَمَا رَوَاهُ النَّسَائِيّ (نصب الرایہ 1/395)
عبداللہ بن المبارک نے اس لفظ (ثم لا یعود) پر وکیع کی متابعت کی ہے جیسا کہ امام نسائ نے روایت کیا ـ
اگرچہ وکیع کی متابعت نہ بھی ہوتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ مؤمل پر تو تقریبا محدثین نے جروحات (سی الحفظ، کثیر الخطا وغیرہ) کر رکھی ہے جب ان کی زیادتی کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے دوسرے راویوں کا علی صدرہ ذکر نہ کرنا کوئ جرح نہیں یے (مقالات 1/436)
اسی طرح یہاں بھی کہا گیا
حافظ ابن القطانؒ کا مقصود یہ ہے کہ ''فأبلغ في المضمضۃ'' عبدالرحمن بن مہدی کی زیادت ہے اور وہ ثقہ ثبت حافظ عارف بالرجال والحدیث اور کتب ستہ کے راوی ہیں۔ (التقریب: ٤٤٩٧) لہٰذا ان کی زیادت، زیادۃ الثقہ کی بنا پر مقبول ہوگی، وکیع بن الجراح کا اس اضافے کو بیان نہ کرنا نقصان دہ نہیں ہے۔
ثم لا یعود سفیان سے روایت کرنے والے دو محدث ہیں وہ بھی وکیع اور عبداللہ بن المبارک اور سبھی جانتے ہیں حدیث میں ان حضرات کا کیا مقام ہے

اب آتی ہے بات کہ جو امام بخاری سے بھی مروی ہے وہاں بھی انہوں امام احمد سے ہی روایت کرتے ہیں کہ یحی بن آدم نے جب ابن ادریس کی کتاب میں دیکھا تو وہاں ثم لا یعود کو نہیں پایا (جز رفع الیدین ص 30)

ابن ادریس کی روایت میں ثم لا یعود کا ذکر یا الا مرۃ واحدۃ کا ذکر نہ ہونا سے ضروری نہیں کہ دوسری کسی حدیث میں یہ الفاظ موجود یا ان کا ذکر ہی نہ ہو ـ
جیسا کہ شیخ زبیر علی زائ نے کہا
عدم ذکر نفی ذکر کو مستلزم نہیں یعنی کسی آیت یا حدیث میں کسی بات کے نہ ہونے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بات ہو ہی نہیں جبکہ دیگر آیات یا احادیث سے وہ بات ثابت ہو ـ ہمارے شیخ عبدالمنان نورپوری فرماتے ہیں کسی شئے کا مذکور و منقول نہ ہونا اس شئے کے نہ ہونے کو مستلزم نہیں ـ (نور العینین ص 58)
ہوسکتا ہے آپ امام بخاری کے اس قول سے بھی یہ سمجھ رہے ہو کہ ابن ادریس کو سفیان پر ترجیح حاصل ہے
فَهَذَا أَصَحُّ لأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ

ترجمہ :یہ زیادہ صحیح ہے کہ کتاب اہل علم کے نزدیک زیادہ حفظ والی ہوتی ہے کیونکہ کبھی کوئی حدیث بیان کرتا ہے پہر کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اس طرح ہوتی ہے جیسا کہ کتاب میں ہو (جزء رفع اليدين ص 30)
یہاں بھی امام بخاری نے کوئی بات ایسی نہیں کہی جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ سفیان سے ثم لا یعود بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہو دوسری بات امام بخاری نے ابن ادریس کی روایت کو زیادہ صحیح کہا ہے یہ نہیں کہا کہ سفیان کی روایت صحیح نہیں اگر پہر بھی کوئی اپنی ضد پر اڑا رہے اور کہے کہ سفیان کی روایت صحیح نہیں ہے اور راجح مجروح میں اٹکا رہے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ تمام باتیں اس وقت ہے جب کوئی دونوں احادیث کو ایک ہی کہتا ہو جبکہ تطبیق والی روایت الگ ہے اور پہلی تکبیر کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنے کی روایت الگ ہے

اگر ثم لا یعود پر اعتراض مان بھی لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ فی اول مرۃ اور بعض سے مرتین واحدۃ کے الفاظ ثابت ہیں

اسی طرح ابن القیم رح نے بھی کہا کہ
وَهَذَا الْحَدِيث رُوِيَ بِأَرْبَعَةِ أَلْفَاظ . أَحَدهَا : قَوْله : ” فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّل مَرَّة ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ” . وَالثَّانِيَة : ” فَلَمْ يَرْفَع يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّة ” . وَالثَّالِثَة : ” فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّل مَرَّة ” لَمْ يَذْكُر سِوَاهَا . وَالرَّابِعَة : ” فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَرَّة وَاحِدَة ” وَالْإِدْرَاج مُمْكِن فِي قَوْله ” ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ” وَأَمَّا بَاقِيهَا فَإِمَّا أَنْ يَكُون قَدْ رُوِيَ بِالْمَعْنَى , وَإِمَّا أَنْ يَكُون صَحِيحٌ (تہذیب السنن 1/368)
ترجمہ :یہ حدیث چار الفاظ سے مروی ہے
اول: فرفع یدیہ فی اول مرۃ ثم لا یعود
ثانیہ: لم یرفع یدیہ الا مرۃ
ثالث: فرفع یدیہ فی اول مرۃ
اس کے علاوہ کچھ اور ذکر نہیں کیا
رابعۃ: فرفع یدیہ مرۃ واحدۃ
اور إدراج ممکن ثم لا یعود کے الفاظ میں اور جو باقی ہے وہ تو معانی روایت سے ہے یا وہ صحیح ہے ـ
یاد رہے کہ پہلی تکبیر کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنے کے روایات ثم لا یعود کے بغیر بھی مروی ہے جیسا کہ جامع الکبیر، سنن ابو داود اور سنن نسائی میں موجود ہے ـ
والسلام
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ

پہلی بات تو یہ ہے کہ یقال کا صیغہ، تمریض کا صیغہ ہے
اگرچہ مان لیں کہ امام ابو حاتم نے کہا کہ یہاں غلطی ہوئی کس نے کی انہیں بھی معلوم نہ ہوسکا ـ یقال سے وہ کہنا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ سفیان سے غلطی ہوئی لیکن کون کہے یہ بھی تو معلوم ہو کہ سفیان ثوری سے غلطی ہوئی کہنے والا کون ہے کیا وہ علل حدیث کا ماہر ہے بھی یا نہیں ـ

جی بالکل ان کے اس قول کو محدثین نے رد بھی کیا ہے جو ہم آگے ان شاء اللہ پیش کریں گے ـ


جی وہم ہوسکتا ہے لیکن اس کی صراحت بھی کی جاتی ہے کس سے اُس حدیث میں وہم ہوا ہے اب اِسی حدیث میں دیکھا جائے تو کسی نے کہا سفیان سے خطا ہوئی اور کسی نے کہا وکیع سے خطا ہوئی لیکن محدثین نے ان دونوں باتوں کا رد بھی کیا ہے ـ


ہاں دیکھ لییجیے یہ اصولِ جرح وتعديل ہے تو کیا حدیث کے اعتبار سے دیکھا جائے گا؟؟؟ کہ حدیث کونسی یے؟؟ اچھا احناف کے خلاف ہے کیا؟؟ تو چلو یہ اصول یہاں چلے گا اور نہیں ہے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصول اُس حدیث کے لیے ہے اِس حدیث کے ساتھ جوڑنا قیاس مع الفارق ہے ـ

حافظ ابن حجر نے بھی تقریب میں کہا کہ محمد بن اسماعیل پر ابن ابی حاتم کا قول غیر واضح ہے اور بھی کئی مثالیں ہیں اگر آپ یہ پروسیجر فالو کریں گے تو مل جائیں گے ـ جو @رحمانی صاحب نے بتایا تھاـ

اگرآپ شاملہ استعمال کرتے ہیں تواس کے سرچ کے پہلے خانہ میں’’تکلم ‘‘لکھیں اور دوسرے خانہ میں ’’بلاحجۃ‘‘اس کے بعد تراجم وتاریخ کے زمرہ کو نشان زد کرکے سرچ کریں، ایک طویل فہرست راویان حدیث کی آجائے گی جن کے بارے میں لکھاہوگا،تکلم بلاحجۃ،بغیر کسی دلیل کے ان میں یاان پرجرح اورکلام کیاگیاہےـ


جی بالکل اس پر تو اعتماد کرتے آئے ہیں لیکن جو اصول جرح وتعديل ہے اسی سے ان کو پرکھا جاتا ہے اپنی عقل سے نہیں ـ

ہاں جی لیکن پہلے آپ یہ تو بتائیں کہ کس محدث نے کہا ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی ہی روایت صحیح ہے اور سفیان ثوری رحمہ اللہ نے روایت کرنے میں غلطی کی ہے ـ

جبکہ کسی بھی محدث نے سفیان سے اس حدیث میں خطا ہونے کا الزام نہیں لگایا ـ ہو سکتا ہے آپ امام احمد کے قول کو ٹہیک سمجھ نہ پائے کیونکہ عبداللہ بن ادریس کے کتاب سے روایت کرنے والی بات امام احمد سے ہے تو امام احمد کیا کہتے ہیں دیکھ لیتے ہیں

حَدثنَا قَالَ قلت لابي حَدِيث عَاصِم بن كُلَيْب عَن عبد الرَّحْمَن بن الْأسود عَن عَلْقَمَة قَالَ قَالَ ابْن مَسْعُود الا اصلي بكم كَمَا رَأَيْت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ فصلى فَلم يرفع يَدَيْهِ الا مرّة
حَدثنَا قَالَ حَدثنِي ابي حَدثنَا ابو عبد الرَّحْمَن الضَّرِير قَالَ كَانَ وَكِيع رُبمَا قَالَ يَعْنِي ثمَّ لَا يعود

یہ دونوں احادیث روایت کرنے بعد امام احمد کے بیٹے کہتے ہیں
قال ابی وکیع يَقُول هَذَا من قبل نَفسه يَعْنِي ثمَّ لَا يعود ( مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ عبداللہ 1/70)
ترجمہ : میرے والد نے کہا وکیع ثم لا یعود کے الفاظ اپنے طرف سے کہتے تھے
اس کے بعد امام احمد نے ابن ادریس کا ثم لا یعود کا ذکر نہ کرنا کہا ہے ـ
یعنی امام احمد نے سفیان سے خطا ہونے والی بات بالکل بھی نہیں کی بلکہ وہ تو وکیع کو ثم لا یعود کے الفاظ کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں باقی متن پر کچھ نہیں کہتے ـ

رہا سوال وکیع کا ثم لا یعود ذکر کرنا جس پر امام احمد نے کہا وکیع نے اپنے طرف سے بیان کیا لیکن اس کو روایت کرنے میں وکیع اکیلے نہیں ہے ان کے ساتھ عبداللہ بن المبارک بھی ہے جس کو امام نسائی نے روایت کیا ہے ـ
أخبرنا سويد بن نصر قال أنبأنا عبد الله بن المبارك عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يعد (سنن نسائی حدیث 1026)

حافظ ابن حجر نے بھی کہا کہ

لم ينْفَرد بهَا وَكِيع بل أوردهَا النَّسَائِيّ من طَرِيق ابْن الْمُبَارك عَن الثَّوْريّ (الدرایہ 1/150)
ترجمہ : اس میں وکیع منفرد نہیں ہے بلکہ امام نسائی نے اس کو ابن المبارک عن الثوري کے طریق سے بھی لائے ہیں ـ
اسی طرح امام زیلعی نے بھی کہا
قَدْ تَابَعَ وَكِيعًا عَلَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، كَمَا رَوَاهُ النَّسَائِيّ (نصب الرایہ 1/395)
عبداللہ بن المبارک نے اس لفظ (ثم لا یعود) پر وکیع کی متابعت کی ہے جیسا کہ امام نسائ نے روایت کیا ـ
اگرچہ وکیع کی متابعت نہ بھی ہوتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ مؤمل پر تو تقریبا محدثین نے جروحات (سی الحفظ، کثیر الخطا وغیرہ) کر رکھی ہے جب ان کی زیادتی کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے دوسرے راویوں کا علی صدرہ ذکر نہ کرنا کوئ جرح نہیں یے (مقالات 1/436)
اسی طرح یہاں بھی کہا گیا


ثم لا یعود سفیان سے روایت کرنے والے دو محدث ہیں وہ بھی وکیع اور عبداللہ بن المبارک اور سبھی جانتے ہیں حدیث میں ان حضرات کا کیا مقام ہے

اب آتی ہے بات کہ جو امام بخاری سے بھی مروی ہے وہاں بھی انہوں امام احمد سے ہی روایت کرتے ہیں کہ یحی بن آدم نے جب ابن ادریس کی کتاب میں دیکھا تو وہاں ثم لا یعود کو نہیں پایا (جز رفع الیدین ص 30)

ابن ادریس کی روایت میں ثم لا یعود کا ذکر یا الا مرۃ واحدۃ کا ذکر نہ ہونا سے ضروری نہیں کہ دوسری کسی حدیث میں یہ الفاظ موجود یا ان کا ذکر ہی نہ ہو ـ
جیسا کہ شیخ زبیر علی زائ نے کہا
عدم ذکر نفی ذکر کو مستلزم نہیں یعنی کسی آیت یا حدیث میں کسی بات کے نہ ہونے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بات ہو ہی نہیں جبکہ دیگر آیات یا احادیث سے وہ بات ثابت ہو ـ ہمارے شیخ عبدالمنان نورپوری فرماتے ہیں کسی شئے کا مذکور و منقول نہ ہونا اس شئے کے نہ ہونے کو مستلزم نہیں ـ (نور العینین ص 58)
ہوسکتا ہے آپ امام بخاری کے اس قول سے بھی یہ سمجھ رہے ہو کہ ابن ادریس کو سفیان پر ترجیح حاصل ہے
فَهَذَا أَصَحُّ لأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ

ترجمہ :یہ زیادہ صحیح ہے کہ کتاب اہل علم کے نزدیک زیادہ حفظ والی ہوتی ہے کیونکہ کبھی کوئی حدیث بیان کرتا ہے پہر کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اس طرح ہوتی ہے جیسا کہ کتاب میں ہو (جزء رفع اليدين ص 30)
یہاں بھی امام بخاری نے کوئی بات ایسی نہیں کہی جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ سفیان سے ثم لا یعود بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہو دوسری بات امام بخاری نے ابن ادریس کی روایت کو زیادہ صحیح کہا ہے یہ نہیں کہا کہ سفیان کی روایت صحیح نہیں اگر پہر بھی کوئی اپنی ضد پر اڑا رہے اور کہے کہ سفیان کی روایت صحیح نہیں ہے اور راجح مجروح میں اٹکا رہے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ تمام باتیں اس وقت ہے جب کوئی دونوں احادیث کو ایک ہی کہتا ہو جبکہ تطبیق والی روایت الگ ہے اور پہلی تکبیر کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنے کی روایت الگ ہے

اگر ثم لا یعود پر اعتراض مان بھی لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ فی اول مرۃ اور بعض سے مرتین واحدۃ کے الفاظ ثابت ہیں

اسی طرح ابن القیم رح نے بھی کہا کہ
وَهَذَا الْحَدِيث رُوِيَ بِأَرْبَعَةِ أَلْفَاظ . أَحَدهَا : قَوْله : ” فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّل مَرَّة ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ” . وَالثَّانِيَة : ” فَلَمْ يَرْفَع يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّة ” . وَالثَّالِثَة : ” فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّل مَرَّة ” لَمْ يَذْكُر سِوَاهَا . وَالرَّابِعَة : ” فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَرَّة وَاحِدَة ” وَالْإِدْرَاج مُمْكِن فِي قَوْله ” ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ” وَأَمَّا بَاقِيهَا فَإِمَّا أَنْ يَكُون قَدْ رُوِيَ بِالْمَعْنَى , وَإِمَّا أَنْ يَكُون صَحِيحٌ (تہذیب السنن 1/368)
ترجمہ :یہ حدیث چار الفاظ سے مروی ہے
اول: فرفع یدیہ فی اول مرۃ ثم لا یعود
ثانیہ: لم یرفع یدیہ الا مرۃ
ثالث: فرفع یدیہ فی اول مرۃ
اس کے علاوہ کچھ اور ذکر نہیں کیا
رابعۃ: فرفع یدیہ مرۃ واحدۃ
اور إدراج ممکن ثم لا یعود کے الفاظ میں اور جو باقی ہے وہ تو معانی روایت سے ہے یا وہ صحیح ہے ـ
یاد رہے کہ پہلی تکبیر کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنے کے روایات ثم لا یعود کے بغیر بھی مروی ہے جیسا کہ جامع الکبیر، سنن ابو داود اور سنن نسائی میں موجود ہے ـ
والسلام
امام ابو داود نے متن حدیث کو خاص عاصم بن کلیب کے بالمعنی روایت کی وجہ سے ضعیف کہا ہے


وقال أبو داود في حديث عاصم بن كليب عن عبد الرحمان بن الأسود عن علقمة عن ابن مسعود قال ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة هذا حديث يختصر من حديث طويل وليس بصحيح على هذا المعنى وقال أبو بكر أحمد بن عمر البزار وهو حديث لا يثبت ولا يحتج به (التمهيد )

یہی بات امام بزار نے خاص طور پر عاصم کی رفع والی حدیث کے بارے میں کہی ہے

وعاصم في حديثه اضطراب، ولا سيما في حديث الرفع ذكره عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله أنه رفع يديه في أول تكبيرة (مسند البزار )




ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

"فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون"
کا یہ مفھوم

"لا تسألوا إلا من يقلد إمامكم وعند الإختلاف في مذهب لا تسألوا إلا عالما واحدا"

بقول علامہ بابرتي حنفي (ت 786هـ) اور علامہ ابن امیر حاج حنفي (ت879هـ) اجماع امت کے خلاف ہے

العوام لا يزالون يقلدون مجتهدا في حكم وغيره في آخر ولم ينكر فكان إجماعا على الجواز (الردود والنقود)

لا يلزم
أحدا أن يتمذهب بمذهب أحد الأئمة بحيث يأخذ بأقواله كلها ويدع أقوال غيره ــــــــــــ انعقد الإجماع على أن من أسلم فله أن يقلد من شاء من العلماء بغير حجر وأجمع الصحابة رضي الله عنهم أن من استفتى أبا بكر أو عمر قلدهما فله أن يستفتي أبا هريرة ومعاذ بن جبل وغيرهما ويعمل بقولهما من غير نكير فمن ادعى دفع هذين الإجماعين فعليه الدليل (التقرير والتحبير)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ​
 
Top