امام اعمش رحمہ اللہ اور تدلیس
امام اعمش ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر التدلیس بھی تھے اس لئے ان کی غیر مسموع معنعن روایات عام طور پر ضعیف ہوتی ہیں سوائے ان خاص روایات کہ جن میں یہ صراحت مل جائے کہ اس میں انہوں نے تدلیس نہیں کی ہے مثلا کسی خاص شیخ سے روایت یا کسی خاص شاگرد سے روایت۔
1- چنانچہ امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
إنما أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش وأبو إسحاق"
"اہل کوفہ کی حدیث کو اعمش اور ابو اسحاق نے مفسد کیا ہے" یعنی تدلیس کی وجہ سے۔
(احوال الرجال: 1/126، واسنادہ صحیح)
2- مغیرہ بن مقسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
أهلك أهل الكوفة أبو إسحاق وأعيمشكم هذا"
"اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور تمہارے ان اعمش نے ہلاک کر دیا ہے"
(احوال الرجال: 1/129، واسنادہ صحیح، ومیزان الاعتدال: 2/224)
3- امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش لأنه إذا وقف أحال على غير مليء يعنون على غير ثقة إذا سألته عمن هذا"
"اور انہوں (محدثین) نے کہا: اعمش کی تدلیس غیر مقبول ہے کیونکہ انہیں جب (معنعن روایت میں) پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔ جب آپ سے پوچھا جاتا کہ یہ روایت کس سے ہے؟ تو کہتے: موسیٰ بن طریف سے (کذاب)، عبایہ بن ربعی سے (متروک متہم) اور حسن بن ذکوان سے (ضعیف)"
(التمہید: 1/30)
4- حافظ علائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
مشهور بالتدليس مكثر منه"
"آپ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں اور آپ کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے"
(جامع التحصیل: 1/188)
5- امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
أحد الائمة الثقات، عداده في صغار التابعين، ما نقموا عليه إلا التدليس"
"آپ آئمہ ثقات میں سے تھے۔ آپ کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں ہے سوائے تدلیس کے"
(میزان الاعتدال: 2/224)
آپ مزید فرماتے ہیں:
"
قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس"
"میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھےاور آپ کو اس کا علم نہ ہوتا۔ لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو ان کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال موجود ہے۔"
(میزان الاعتدال: 2/224)
6- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب طبقات المدلسین (ص 33) میں امام اعمش کو دوسرے طبقے کا مدلس شمار کیا۔ البتہ بعد میں آپ نے خود اس بات سے رجوع کرتے ہوئے النکت علی کتاب ابن الصلاح میں انہیں تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"
الثالثة: من أكثروا من التدليس وعرفوا به، وهم..... وسليمان الاعمش....."
"تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو کثرت سے تدلیس کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے اور وہ ہیں۔۔۔۔ اور سلیمان الاعمش۔۔۔"
(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: 2/640)
یاد رہے کہ النکت علی ابن الصلاح کو ابن حجر نے طبقات المدلسین کے بعد تالیف کیا تھا۔ لہٰذا یہی ابن حجر کا آخری موقف ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر ابن حجر نے اعمش کی کئی روایات کو ان کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف بھی قرار دیا ہے۔
7- بلکہ امام اعمش تو کبھی کبھار
تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے (یعنی اس میں راوی اپنے شیخ سے اوپر کے کسی ضعیف وغیرہ راوی کو گراتا ہے)، چنانچہ علامہ نووی نے "الارشاد" (34) میں اور خطیب بغدادی نے "الکفایہ" (ص 364) میں امام عثمان بن سعید الدارمی سے نقل کیا ہے امام اعمش بعض اوقات تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ اس تدلیس کا وقوع امام اعمش سے بہت قلیل ہوا ہے اس لئے ان کی تمام روایات کو اس تدلیس کی وجہ سے رد نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اسی خاص روایت کو رد کیا جائے جس میں ان سے تدلیس تسویہ ثابت ہو۔ البتہ جو لوگ مدلس کے ایک بار تدلیس کرنے پر بھی اس کی تمام معنعن روایات کو ضعیف ٹھہراتے ہیں، ان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
نیز دیکھیں انوار البدر فی وضع الدین علی الصدر للشیخ کفایت اللہ السنابلی: 118-122
پس ثابت ہوا کہ امام اعمش کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے لہٰذا ان کی معنعن روایات عدم سماع وعدم متابعت کی صورت میں غیر مقبول ہوں گی۔ لیکن اس اصول کی چند استثنائی حالتیں بھی ہیں جن کا ذکر ہم اب کریں گے، ان شاء اللہ:
استثنائی حالت # 1:
امام اعمش رحمہ اللہ سے روایت کرنے والے اگر امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ ہوں تو ان کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں کیونکہ امام شعبہ اپنے شیوخ سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جو انہوں نے اپنے شیخ سے براہ راست سنی ہوں۔
چنانچہ امام شعبہ فرماتے ہیں:
"
كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني انه سمعه من فلان"
"جو حدیث بھی میں تمہیں کسی شخص سے بیان کروں تو اس روایت کو اس شخص نے مجھے براہ راست سنائی ہے کہ اس نے خود اسے فلان سے سنا ہے۔"
(الجرح والتعدیل: 1/173)
امام شعبہ مزید فرماتے ہیں:
"
كفيتكم تدليس ثلاثة: الاعمش وابي اسحاق و قتاده"
" میں آپ کے لئے تین اشخاص کی تدلیس کے لئے کافی ہوں: اعمش، ابو اسحاق، قتادہ"
(طبقات المدلسین لابن حجر: ص 151)
اسی طرح امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
كلما حدث به شعبة عن رجل فقد كفاك امره فلا تحتاج ان تقول لذلك الرجل سمع ممن حدث عنه"
"جو روایت بھی شعبہ کسی شخص سے بیان کریں تو تمہیں ان کا یہ عمل ہی کافی ہو گا لہٰذاتمہیں اس شخص کے متعلق یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ اس نے یہ روایت اپنے شیخ سے سنی ہے یا نہیں۔"
(الجرح والتعدیل: 2/35، واسنادہ صحیح)
اسی لئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ امام شعبہ کے متعلق فرماتے ہیں:
"
كان لا يأخذ عن أحد ممن وصف بالتدليس إلا ما صرح فيه ذلك المدلس بسماعه من شيخه"
"شعبہ تدلیس سے متصف راویوں سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جن میں انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کی ہو "
(النکت علی ابن الصلاح: 1/259)
استثنائی حالت # 2:
امام اعمش سے اگر امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ روایت کریں تو بھی ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے کیونکہ اپنے شیخ شعبہ کی طرح، امام قطان بھی اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی روایات لیتے ہیں جو انہوں نے اپنے شیخ سے خود سنی ہوں۔
چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
"
والقطان لا يحمل من حديث شيوخه المدلسين الا ما كان مسموعا لهم صرح بذلك الإسماعيلي"
"اور القطان اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی حدیث لیتے تھے جن کا انہوں نے سماع کیا ہو، اس بات کی صراحت اسماعیلی نے کی ہے۔"
(فتح الباری: 1/309 ط دار المعرفہ)
استثنائی حالت # 3:
امام اعمش کی جو روایات امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں تو وہ بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں۔
محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
كان عامة حديث الأعمش عند حفص بن غياث على الخبر والسماع"
"حفص بن غیاث کے پاس اعمش کی عام روایتیں خبر وسماع پر محمول ہیں۔"
(تاریخ بغداد: 8/194، واسنادہ صحیح)
اسی طرح حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"
قلت اعتمد البخاري على حفص هذا في حديث الأعمش لأنه كان يميز بين ما صرح به الأعمش بالسماع وبين ما دلسه نبه على ذلك أبو الفضل بن طاهر وهو كما"
"میں کہتا ہوں کہ امام بخاری نے اس حدیث میں اعمش کی حدیث میں سماع کے لئے ان کی حفص سے روایت پر اعتماد کیا ہے کیونکہ حفص اعمش کی مصرح بالسماع اور مدلس روایات میں تمیز کیا کرتے تھے، اس کی ابو الفضل بن طاہر نے صراحت کی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا انہوں نے کہا ہے۔"
(فتح الباری: 1/398)
استثنائی حالت # 4:
امام اعمش اگر ابو سفیان طلحہ بن نافع رحمہ اللہ سے روایت کریں تو ان کی معنعن روایات صحیح ہوتی ہیں کیونکہ:
1- ابراہیم نخعی کے بعد امام اعمش نے سب سے زیادہ روایات اپنے اس شیخ سے لی ہیں۔ اور اعمش کو ان کی روایات میں تخصص حاصل ہے حتی کہ ابو سفیان کو "صاحبِ اعمش" کہا جانے لگا اور اعمش کےمتعلق کہا جانے لگا: "رَاويتُه" کہ وہ ابو سفیان کا راوی ہے۔
2- امام الجرح والتعدیل ابن عدی نے فرمایا ہے کہ اعمش کی ابو سفیان سے روایات مستقیم ہیں۔ چنانچہ آپ ابو سفیان کے متعلق فرماتے ہیں: "
روى عن جابر أحاديثَ صالحة؛ رواها الأعمش عنه، ورواها عن الأعمشِ الثِّقاتُ، وهو لا بأسَ به، وقد روى الأعمشُ عنه أحاديثَ مستقيمة" کہ انہوں نے جابر سے صالح احادیث روایت کی ہیں انہیں اعمش نے ان سے روایت کیا ہے اور اعمش سے انہیں ثقہ راویوں نے نقل کیا ہے، ان (ابو سفیان) میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اعمش نے ان سے مستقیم روایات نقل کی ہیں۔
(الکامل لابن عدی: 5/181: قال الشيخ أبو إسحاق الحويني: ووقع فيه تصحيف واضطراب، تصويبه من مختصره، للمقريزي (ص: 440 - 441)، ومن النقل في تهذيب الكمال (13/440)، وهدي الساري (ص: 411)، وغيرها)
حدیث کی استقامت تدلیس قادح کے عدم وجود پر دلیل ہے۔
استثنائی حالت # 4، 5، 6:
امام اعمش اگر اپنے درج ذیل تین اساتذہ سے روایت کریں تو ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے الا یہ کہ کسی خاص روایت میں تدلیس ثابت ہو جائے۔
1- ابو صالح السمان
2- ابو وائل شقیق
3- ابراہیم بن یزید النخعی
چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
"
قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم: كإبراهيم، ]وأبي[ وائل، وأبي صالح السمان، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال"
" میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھے اور انہیں اس کا علم نہیں ہوتا لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو اس کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں اور جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال آجاتا ہے سوائے ان شیوخ میں جن سے آپ نے کثرت سے روایات لی ہیں مثلا ابراہیم (النخعی)، ابی وائل (شقیق بن سلمہ)، اور ابو صالح السمان، کیونکہ ان کی روایت اس صنف سے اتصال پر محمول ہوتی ہے۔"
(میزان الاعتدال: 2/224)
امام ذہبی اس فن کے امام اور صاحبِ استقراء التام ہیں، ان کی یہ تخصیص ان کے استقراء و تحقیق پر مبنی ہے لہٰذا ان کی یہ بات حجت ہے۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ وغیرہ نے امام ذہبی کے اس فیصلے کو نہ مانتے ہوئے چند دلائل پیش کر کے فرمایا ہے کہ ذہبی کی یہ بات صحیح نہیں ہے تو ان کے استاد شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے ان کے رد میں ایک مضمون لکھا بنام "
تسكين القلب المشوش باعطاء التحقيق في تدليس الثوري والأعمش" (دیکھیں مقالات راشدیہ: ج 1 ص 306) یہاں پر میں اس مضمون کا مختصر سے مختصر خلاصہ کرنے کی کوشش کروں گا۔اس مضمون میں آپ نے شیخ زبیر رحمہ اللہ کے ان دلائل کا مدلل رد کرتے ہوئے فرمایا جن کی بنیاد پر آپ نے اعمش کی ان شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ:
"
درج بالا جو دلائل آپ نے پیش کیے ہیں وہ سب عمومی ہیں اور ان سے چند مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ ایسے امثلہ موجود ہیں کہ مدلس راوی تیسرے مرتبہ کا ہے لیکن ائمہ نے کے متعلق یہ ےتصریح فرمائی ہے کہ یہ مدلس فلاں فلاں شیخ سے تدلیس نہیں کرتا۔۔۔۔ لہٰذا اعمش کے معرف بالتدلیس ہونے کے باوجود معین مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے پر آپ متعجب کیوں ہو رہے ہیں۔" (ص 332)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ حافظ نووی کا ابو صالح کی ایک روایت پر کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وكقوله من الأعمش عن أبي صالح والأعمش مدلس، والمدلس إذا قال "عن" لا يحتج به الا اذا ثبت السماع من جهة أخري" (شرح مسلم: 2/119)۔
تو شیخ محب اللہ راشدی رحمہ اللہ ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"
لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔" (ص 332-333)
آگے چل کر آپ مزید فرماتے ہیں:
"
کسی راوی پر ائمہ فن کے کلام – تعدیلا وتجریحا، توثیقا وتضعیفا – کے تین ماخذ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ تینوں یک جا پائے جاتے ہیں کبھی ان میں سے کوئی ایک۔
1- کس امام نے کسی راوی پر کلام کیا ہے وہ اس کے معاصر تھے اور ان کا حال (حدیث میں) مشاہدہ سے معلوم کر کے اس پر کلام کیا ہو۔
2- وہ ان کے معاصر تھے لیکن ان سے متقدم ائمہ فن کے اس راوی پر کیے ہوئے کلام کی بناء پر ان پر کلام کیا۔
3- اس راوی کی روایت کو دوسرے ثقات رواۃ کی روایات سے مقابلہ کر کے اور اس کی روایت پر روایتا ودرایتا اچھی طرح تدبر کرنے کے بعد ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو۔
اس تیسری قسم کی التنکیل میں امام ابن معین وغیرہ کی مثالیں دے کر بخوبی وضاحت کر دی گئی ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے معاصر تو یقینا نہیں تھے لیکن ان کے متعلق متقدمین کی تصریحات انہیں بوجہ اتم حاصل تھیں۔ اسی طرح کسی راوی کی روایات کی روایت ودرایت کے اصول پر پرکھ کر اس کے بارے میں کسی فیصلہ دینے کا بھی انہیں اچھا ملکہ حاصل تھا۔۔۔۔
میری گذارش یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش رحمہ اللہ کے متعلق جو کچھ فرمایا وہ متقدمین کی تصریحات اور خود ان کی تحقیق دونوں پر مبنی ہے۔" (ص 333-334)
آگے شیخ راشدی مزید فرماتے ہیں:
"
بہرحال حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اعمش کے بارے میں ان کبار شیوخ کو مستثنیٰ کرنا حقائق ودلائل اور ان کی روایات کو بدقت نظر پرکھنے پر مبنی ہے۔ اب اگر ان کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے تو یہ بے دلیل بات ہے آپ نے محض عمومی دلیل پیش کی ہے ان کبار شیوخ کے بارے میں متقدمین کی تصریحات سے خصوصی طور پر کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی۔ یعنی اعمش ان سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ محض مدلس ہونا تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو بھی تسلیم ہے لیکن انہوں نے علی وجہ البصیرت اس عموم سے ایک استثناء کی ہے جس کو آپ ٹھوس دلائل سے رد نہیں کر سکتے۔"
آخر میں بطور تنبیہ شیخ صاحب فرماتے ہیں:
"
تنبیہ: دنیا میں ایسا کوئی کلیہ نہیں جس سے کچھ نہ کچھ مستثنیات نہ ہوں یا ان میں سے کوئی شاذ ونادر فرد خارج نہ ہو لیکن پوری دنیا اکثریت پر ہی اعتماد کرتی ہے۔ اگر اکثر افراد اس کلیہ سے خارج نہیں ہوتے تو وہ کلیہ مسلمہ ہو جاتا ہے۔
امام اعمش کے متعلق اب تک جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا بھی یہ حال ہے کیونکہ دو تین مواضع ایسے ہیں جہاں ائمہ فن نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں اعمش نے ابو صالح یا ابو وائل سے تدلیس کی ہے اور قرائن بھی اس کے موید ہیں تو ان مواضع کو مستثنیات میں سے قرار دیا جائے گا اور وہاں عدم سماع وعدم انقطاع تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر جہاں ائمہ فن میں سے نہ کسی امام نے یہ تصریح فرمائی ہو کہ یہاں اعمش نے ابو صالح، ابو وائل یا ابراہیم وغیرہ سے تدلیس کی ہے اور نہ وہاں کچھ ایسے قرائن ہی موجود ہوں جن سے تدلیس کا شبہ پڑتا ہو تو وہاں یہ کلیہ صحیح ہو گا اور وہاں اعمش کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوں گی۔ واللہ اعلم" (ص 339)
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ہے بنام "
سلیمان الاعمش کی ابو صالح وغیرہ سے معنعن روایات کا حکم" (تحقیقی مقالات: ج 3 ص 300)۔ اس میں انہوں نے ایسی ہی اس کلیہ سے مستثنی چندروایات پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اعمش کی ابو صالح، ابو وائل اور ابراہیم سے تمام معنعن روایات ضعیف ہیں۔ حالانکہ شیخ راشدی نے صراحت کر دی ہے کہ چند مستثنیات کی بنیاد پر اس اصولِ کلیہ کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا شیخ زبیر نے اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ ان مستثنیات میں شامل ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے مشکل ہی کسی روایت میں اعمش نے واقعی میں اپنے ان شیوخ سے تدلیس کی ہے، بلکہ محض ان پر اعتراض ہیں۔
ذیل میں ہم ان مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں:
پہلی مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"1) امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا: "حديث الأعمش عن أبي صالح: الإمام ضامن، لا أراه سمعه من أبي صالح" اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث، میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔ (تقدمہ الجرح والتعدیل ص 82 وسندہ صحیح)۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ امام سفیان ثوری حافظ ذہبی کا مذکورہ قاعدہ نہیں مانتے تھے۔"
حالانکہ امام ثوری کا اعمش کی ابو صالح سے کسی خاص روایت پر کلام کرنے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ یہ روایت اعمش نے ابو صالح سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ انہوں نے لازما تدلیس کی ہے بلکہ تدلیس کے علاوہ اعمش کی غلطی یا وہم بھی اس انقطاع کی وجہ ہو سکتی ہے اور تو اور قرائن بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
چنانچہ بعض روایات میں اعمش نے خود اس روایت کو نقل کرنے میں تردد اور شک کا اظہار کیا ہے، چنانچہ امام احمد اپنی مسند میں نقل کرتے ہیں: "
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ سَمِعْتُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قال رسولُ صلي الله عليه وسلم: " الْإِمَامُ ضَامِنٌ" عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی انہوں نے کہا میں ابو صالح کے زریعے حدیث بیان کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود ان سے سنی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الامام ضامن۔۔۔۔
اولا: اس حدیث میں امام اعمش خود اسے ابو صالح سے روایت کرنے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان کے شک ووہم کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تدلیس ہے جو قصدا کی جاتی ہے؟
ثانیا: اگر امام ثوری کے محض "مجھے لگتا ہے" کو یقین پر محمول کیا جا سکتا ہے، تو امام اعمش کے اسی "مجھے لگتا ہے" کو کیوں یقین پر محمول کر کے یہ نہیں کہا جاتا کہ اعمش نے یہ روایت ابو صالح سے سنی ہے؟
ثالثا: اس حدیث میں دوسرے مقامات پر امام اعمش نے سماع کی تصریح بھی کردی ہے لہٰذا تدلیس ہو یا وہم سب شبہات اس سے دور ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ امام طحاوی اس حدیث کی روایت میں فرماتے ہیں: "
حدثنا أبو أمية قال: حدثنا سريج بن النعمان الجوهري قال: حدثنا هشيم , عن الأعمش قال: حدثنا أبو صالح , عن أبي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله" (شرح مشکل الآثار للطحاوی: 5/432، واسنادہ حسن)۔ اس میں امام اعمش نے بالیقین سماع کی تصریح کر دی ہے۔
اگر کوئی کہے کہ اس کی سند میں ہشیم مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں لہٰذا اس میں تدلیس کا "احتمال" ہے، تو عرض ہے کہ امام ہشیم اس میں منفرد نہیں ہیں۔
ابراہیم بن احمد الرؤاسی نے بھی اعمش سے اپنی روایت میں سماع کی تصریح نقل کی ہے، چنانچہ امام دارقطنی فرماتے ہیں: "
وقال إبراهيم بن حميد الرؤاسي: عن الأعمش، عن رجل، عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال الأعمش: وقد سمعته من أبي صالح" ابراہیم بن احمد الرؤاسی (ثقہ) عن اعمش عن رجل عن ابو صالح عن ابو ہریرہ کے طریق سے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں، اور اعمش نے کہا: کہ میں نے یہ حدیث ابو صالح سے سنی ہے۔ (علل الدارقطنی: 10/195)۔
اس کے علاوہ اس حدیث کو امام اعمش سے "
حفص بن غیاث" نے بھی روایت کیا ہے۔ چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں: "
حديث أبي هريرة رواه سفيان الثوري، وحفص بن غياث، وغير واحد، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم" ابو ہریرہ کی حدیث کو سفیان الثوری، حفص بن غیاث اور دوسروں نے اعمش عن ابو صالح عن ابو ہریرہ عن النبی ﷺ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ (سنن الترمذی: 1/402)۔
نیز حفص کی روایت کے لئے دیکھیں شرح مشکل الآثار (5/432، واسنادہ صحیح)۔
اور اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حفص کی اعمش سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔
لہٰذا اس حدیث میں اعمش پر تدلیس کا الزام رفع ہوا، والحمد للہ۔ اور اگر یہ روایت واقعی میں منقطع ہوتی تو بھی انقطاع کی وجہ تدلیس نہیں بلکہ اعمش کا وہم وشک ہو گا جیسا کہ انہوں نے خود اقرار کیا ہے۔
اس مثال کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے دوسری، تیسری، پانچویں، چھٹی، بارہویں، اور تیرہویں مثالوں کے تحت امام حاکم،امام بیہقی، ابن القطان الفاسی، طحاوی، ابن الجوزی، اور ابن المدینی کے حوالے پیش کیے ہیں لیکن ان سب نے اسی الامام ضامن والی حدیث پر ہی کلام کیا ہے جس کا جواب اوپر دے دیا گیا ہے۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک اور مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اعمش کی عن ابو صالح والی ایک روایت کے بارے میں ابو الفضل محمد بن ابی الحسین احمد بن محمد بن عمار الہروی الشہید (متوفی 317 ھ) نے فرمایا: "والأعمش كان صاحب تدليس فربما أخذ عن غير الثقات" اور اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیرثقہ سے روایت لیتے (یعنی تدلیس کرتے) تھے۔ (علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم بن الحجاج ج 1 ص 138 ح 35)"
حالانکہ اس حدیث میں بھی اصلا امام اعمش نے تدلیس کی ہی نہیں۔ بلکہ جس حدیث کے تحت مؤلف نے یہ بات کہی ہے وہ صحیح مسلم کی ہی حدیث ہے اور ابو الفضل ابن عمار نے اس سے پہلے خود کہا ہے کہ: "
وهو حديث رواه الخلق عن الأعمش عن أبي صالح فلم يذكر الخبر في إسناده غير أبي أسامة فإنه قال فيه عن الأعمش قال حدثنا أبو صالح" اس حدیث کو ایک جماعت نے اعمش سے نقل کیا ہے لیکن انہوں نے اس سند میں خبر (یعنی سماع) ذکر نہیں کیا ہے سوائے ابو اسامہ (ثقہ ثبت) کے کیونکہ انہوں نے اعمش سے اپنی روایت میں کہا ہے: عن اعمش قال حدثنا ابو صالح۔ (علل الاحادیث فی صحیح مسلم: 1/136)۔
چنانچہ مصنف نے خود کہا ہے کہ اس روایت میں اعمش نے ابو صالح سے سماع کی تصریح کر دی ہے تو پھر اس میں تدلیس کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔
مزید مثال پیش کرتے ہوئے،شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"دارقطنی نے الاعمش عن ابی صالح والی ایک روایت کے بارے میں کہا: "ولعل الأعمش دلسه عن حبيب وأظهر اسمه مرة، والله أعلم" اور شاید اعمش نے حبیب (بن ابی ثابت) سے تدلیس کی اور ایک دفعہ اس کا نام ظاہر کر دیا۔ واللہ اعلم (العلل الواردۃ ج 10 ص 95 ح 1888)"
اس روایت میں امام دارقطنی کو خود بھی پورا یقین نہیں ہے کہ اعمش نے واقعتا تدلیس کی ہے یا نہیں۔ اس لئے "شاید" ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہاں تدلیس کی ہو اور اس صورت میں یہ روایت ان مستثنیات میں شمار ہو گی جن کا ذکر شیخ محب اللہ راشدی نے کیا ہے۔ لیکن یہاں ایک اور "شاید" کی گنجائش بھی ہے اور وہ یہ کہ شاید اعمش نے یہاں تدلیس نہ کی ہو بلکہ ان سے روایت کرنے والے کی طرف سے غلطی ہو۔
لہٰذا یہاں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اعمش نے تدلیس کی ہے۔ اور اگر تدلیس کی ہے تو اس خاص روایت کو اعمش کی ان مستثنیات میں شمار کیا جائے گا جن میں انہوں نے ابو صالح سے تدلیس کی ہے اور یہ نہیں کہ ان کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات ضعیف ہو جاتی ہیں۔
نویں مثال دیتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"امام ابن خزیمہ نے اعمش عن ابی صالح والی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: اسے اعمش نے ابو صالح سے سنا ہے اور اس میں تدلیس نہیں کی اور ابو سعید (الخدری رضی اللہ عنہ) کی حدیث اس سند کے ساتھ صحیح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (دیکھئے کتاب التوحید ص 109 ح 160)"
یہاں پر کوئی کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ امام ابن خزیمہ اور شیخ زبیر خود اقرار کر رہے ہیں کہ اس حدیث میں اعمش نے تدلیس نہیں کی ہے۔ لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اس مثال سے وجہ استدلال یہ ہے کہ امام ابن خزیمہ نے اعمش کی روایت کے ابو صالح سے ہونے کے باوجود اس میں ان کی تدلیس پر تحقیق کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعمش کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات کو سماع پر محمول نہیں سمجھتے تھے۔
البتہ اس کا جواب شیخ محب اللہ راشدی پہلے ہی اوپر دے چکے ہیں ان کے الفاظ کو میں دوبارہ یہاں نقل کرتا ہوں جو انہوں نے امام نووی کے قول کے جواب میں کہے تھے:
"
لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔"
اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ ودیگر تمام لوگ جن کی مثالیں شیخ زبیر رحمہ اللہ نے اس مضمون میں بیان کی ہیں، انہوں نے ابو صالح سے اعمش کے سماع کی تحقیق کی ہے تو یہ انہوں نے محض اس لئے کیا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ یا دیگر کسی پر حجت نہیں۔
((
من عرف حجة علي من لم يعرف – یعنی جو جانتا ہے وہ نہ جاننے والے پر حجت ہے))
آپ مزید لکھتے ہیں:
"
آپ نے پہلے جو کچھ لکھا یا اس فقرہ میں امام نووی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ان میں اعمش کے ان تینوں ابراہیم، ابو وائل، ابو صالح کے متعلق کوئی خصوصی دلیل پیش نہیں کی گئی کہ یہ یا یہ دلیل ہے اس پر کہ اعمش واقعتا ان تینوں سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ ہر جگہ صرف یہ ہے کہ "الاعمش مدلس" یا "کان یدلس" لیکن ان کی تدلیس سے وہ (ذہبی رحمہ اللہ) غیر واقف نہیں۔ دیکھئے المیزان وغیرہ۔ یعنی حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے مدلس ہونے کے منکر نہیں بلکہ وہ چند شیوخ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ان سے تدلیس نہیں کرتا تھا لہٰذا وہ روایات جو ان سے مروی ہیں وہ اتصال پر مبنی ہیں اور یہ تخصیص متقدمین کی تصریحات کے علاوہ ان کی اپنی تحقیق پر مبنی ہے۔ حافظ ذہبی علم الروایہ والدرایہ دونوں میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور وہ نقد الرجال میں صاحب الاستقراء التام ہیں۔ جب وہ چند شیوخ خصوصا ابراہیم ابووائل وابو صالح کی تخصیص کرتے ہیں تو لا محالہ ان کی یہ تخصیص علم وتحقیق کی روشنی پر مبنی ہو گی۔ انہوں نے اعمش کی روایات کو اچھی طرح پرکھا ہو گا۔ ان شیوخ سے جو روایات مروی ہیں ان کو دوسرے ثقات کی روایات سے مقابلہ اور ان سے موازنہ کیا ہو گا اور دواوین حدیث میں جو روایات اعمش کی ان شیوخ سے مروی ہیں ان پر دقت نظر ڈالی ہو گی، پھر اس تحقیق عمیق کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا۔"
لہٰذا اس مثال ودیگر تمام مثالوں میں ابن خزیمہ وغیرہ نے اعمش کی ابو صالح سے روایت پر تحقیق صرف اس لئے کی کیونکہ اعمش معروف بالتدلیس ہیں لیکن انہوں نے کبھی امام ذہبی کے اس فیصلے کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی کہ مام اعمش سے واقعی ان شیوخ کی عام روایات میں ویسے ہی تدلیس ثابت ہے جیسے ان کی دیگر رواۃ سے ثابت ہے۔ امام ذہبی نے اپنی تحقیق کے بعد یہ تخصیص کی ہے جبکہ دیگر ائمہ نے بنا کسی تحقیق کے عام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے ہیں۔
اعمش عن ابو صالح پر مذکورہ مثالوں کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اعمش کی ابراہیم النخعی رحمہ اللہ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں:
"اعمش نے ابراہیم نخعی سے ایک روایت عن کے ساتھ بیان کی جس کے بارے میں امام عبد الرحمن بن مہدی نے فرمایا: 'هذا من ضيعف حديث الأعمش' یہ اعمش کی ضعیف حدیثوں میں سے ہے۔ (کتاب العلل للامام احمد: 2/413 ت 2845 وسندہ صحیح)"
اللہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پر رحم کرے، یہ مثال بہت عجیب ہے نہ تو اس میں کہیں دور دور تک یہ اشارہ ہے کہ اعمش نے اس میں تدلیس کی ہے اور نہ ابن مہدی کے قول میں کہیں کوئی اشارہ ہے کہ یہ حدیث اعمش کے عنعنہ یا تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے!
اس بات کا ثبوت کہاں ہے کہ ضعف کے بے شمار اسباب میں سے یہاں تدلیس ہی مراد ہے؟ یا پھر ایسا ہے کہ ضعیف حدیث کا صرف ایک ہی سبب ہو سکتا ہے اور وہ ہے تدلیس، دوسرا کوئی نہیں!؟؟
مزید یہ کہ اگر اس روایت میں وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو امام ابن مہدی یا تو اسے منقطع کہتے یا یہ کہتے کہ یہ روایت اعمش نے ابراہیم سے نہیں سنی جیسا کہ محدثین کا طریقہ ہے اور یہ کہ ضعف اس مجھول شخص سے آیا ہے جس کو سند سے گرایا گیا ہے۔ لیکن یہاں امام ابن مہدی نے ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب کیا ہے، گویا یہ حدیث ان کی نکارت، حافظہ، یا ان کے اپنے کسی دوسرے نقص کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اگر وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب نہ کیا جاتا بلکہ اس مجھول شخص کی طرف منسوب کیا جاتا جس سے اعمش نے یہ روایت لی ہے۔
لہٰذا بغیر کسی دلیل یہاں وجہِ ضعف تدلیس بتانا بالکل غلط ہے۔
اعمش کی ابراہیم سے تدلیس کے ثبوت کے لئے شیخ زبیر دوسری مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اعمش عن ابراہیم النخعی والی ایک روایت کے بارے میں سفیان (ثوری) نے فرمایا: اعمش نے (نماز میں) ہنسنے کے بارے میں ابراہیم والی حدیث نہیں سنی۔ (کتاب العلل للامام احمد 2/67 ت 1569، وسندہ صحیح، تقدمہ الجرح والتعدیل ص 72 وسندہ صحیح)"
عرض ہے کہ یقینا یہ روایت اعمش اور ابراہیم کے درمیان منقطع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس انقطاع کی وجہ لازما تدلیس ہی ہے؟؟ تو جواب ہے ہرگز نہیں بلکہ اس روایت میں انقطاع کی وجہ امام اعمش کی اپنی غلطی اور حافظے میں چوک ہے۔ اس روایت کو ابراہیم سے روایت کرنے میں امام اعمش کو غلطی لگی ہے اور اس بات کا اقرار خود انہوں نے کیا ہے اور حیرانگی کی بات ہے کہ اس بات کی وضاحت امام احمد نے امام سفیان کے اسی مذکورہ قول کے ساتھ ہی کر دی تھی جس کا ذکر شیخ زبیر نے اوپر کیا ہے لیکن انہوں نے شاید اسے نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں:
"
قال وكيع قال الأعمش أرى إبراهيم ذكره" وکیع کہتے ہیں کہ اعمش نے (اس حدیث کی روایت کے وقت) کہا مجھے لگتا ہے کہ اس حدیث کو ابراہیم نے ذکر کیا تھا۔ (کتاب العلل)
یعنی امام اعمش کو شک ہے کہ انہوں نے یہ حدیث ابراہیم سے لی ہے یا کسی اور سے۔ لہٰذامام اعمش کے شک کو تدلیس بتانا بہت بڑی غلطی ہے۔ وہم اور شک تو ہر کوئی کرتا ہے تو کیا ہر وہم کرنے والا مدلس ٹھہرے گا؟؟
اور تو اور امام احمد نے ایک دوسری جگہ اس بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ روایت امام اعمش کے شک کی وجہ سے منقطع ہے نہ کہ تدلیس کی وجہ سے، چنانچہ امام ابو داؤد السجستانی فرماتے ہیں:
"
سمعت أحمد، يقول في حديث الأعمش، عن إبراهيم " أن رجلا ضحك خلف النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يعيد الوضوء والصلاة , قال أحمد: يقول الأعمش: أرى إبراهيم، قال: يعلم أنه ليس من حديث إبراهيم المشهور، يعني بقوله: لما قال وأبهم، يعني: بقوله أرى" میں نے احمد کو اعمش کی ابراہیم سے حدیث کے متعلق کہتے سنا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پیچھے نماز کے دوران ہنس پڑا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے وضوء اور نماز دونوں کو دہرانے کا حکم دیا۔ امام احمد کہتے ہیں کہ اعمش نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے کہ میرا خیال ہے ابراہیم نے اسے روایت کیا ہے۔ نیز احمد نے کہا: اعمش کو اس بات کا علم تھا کہ یہ حدیث ابراہیم کی مشہور حدیث میں سے نہیں ہے یعنی اعمش کے وہم کرنے کی وجہ سے یعنی ان کے 'میرا خیال ہے' کہنے کی وجہ سے۔ (مسائل الامام احمد روایۃ ابی داود السجستانی: 1/414-415)۔
لہٰذا اس حدیث میں وجہِ انقطاع وہم ہے نہ کہ تدلیس۔
آگے شیخ زبیر اعمش کی ابو وائل سے تدلیس کے ثبوت کے لئے فرماتے ہیں:
"اعمش عن ابو وائل والی ایک روایت کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: نہ اسے ہشیم نے اعمش سے سنا ہے اور نہ اعمش نے اسے ابو وائل سے سنا ہے۔ (کتاب العلل: 2/252 ت 2155)"
امام اعمش نے اس حدیث میں بھی اصلا کوئی تدلیس نہیں کی ہے۔ امام احمد کے یہ کہنے کہ "اعمش نے اسے ابو وائل سے نہیں سنا" کی وجہ انہوں نے ایک دوسری روایت میں بیان کر دی ہے۔ چنانچہ مہنا فرماتے ہیں کہ میں نے احمد سے پوچھا کہ پھر یہ حدیث اعمش نے کس سے سنی ہے؟ تو امام احمد نے جواب دیا:
"
كان الأعمش يرويه عن الحسن بن عمرو الفقيمي عن أبي وائل فخرج الحسن بن عمرو وجعله عن أبي وائل ولم يسمع منه" اعمش نے اس حدیث کو الحسن بن عمرو الفقیمی عن ابو وائل کے طریق سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے الحسن بن عمرو کو نکال دیا اور ابو وائل سے براہ راست روایت کر دی، اور یہ انہوں نے ان سے نہیں سنی۔ (جامع التحصیل: 1/189)۔
الغرض امام احمد کے مطابق یہ حدیث اعمش نے ابو وائل سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ ایک دوسرے طریق میں اعمش اور ابو وائل کے درمیان الحسن بن عمرو کا واسطہ موجود ہے۔ حالانکہ اس واسطہ کے ساتھ یہ سند ضعیف ہے لہٰذا اس ضعیف سند کی بناء پر اس کو منقطع کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
چنانچہ الحسن بن عمرو الفقیمی کی اس روایت کو امام ابن عدی نے الکامل میں اس طرح روایت کیا ہے:
"
حدثنا ابن صاعد، حدثنا عبد الجبار بن العلاء، حدثنا عمرو بن عبد الغفار الفقيمي الكوفي لقيته بمكة، [ عن الأعمش ] (1) حدثنا الحسن بن عمرو عن شقيق بن سلمة، عن عبدا لله قال لقد رأيتني ما أكف شعرا، ولا ثوبا، ولا نتوضأ من موطىء." (الکامل لابن عدی: 6/253)۔
اس سند میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امام اعمش سے اس روایت کو واسطہ کے ساتھ روایت کرنے والا عمرو بن عبد الغافر الفقیمی ہے اور یہ ضعیف ہے اور امام ابن عدی نے بھی اس کی اعمش سے تمام روایات کو غیر محفوظ کہا ہے، چنانچہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی فرماتے ہیں: "
وهذه الأحاديث، عن الأعمش غير محفوظة" اور یہ تمام روایتیں اعمش سے غیر محفوظ ہیں۔
لہٰذا کسی غیر محفوظ روایت میں وارد واسطے کی بنا پر بغیر واسطے والی روایت کو منقطع نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے یہاں امام اعمش پر تدلیس کا الزام غلط ہے۔
آخری مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر فرماتے ہیں:
"اعمش عن ابی وائل والی ایک روایت کے بارے میں ابو زرعہ الرازی نے فرمایا: "الأعمش ربما دلس" اعمش بعض اوقات تدلیس کرتے تھے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم: 1/14 ح 9)"
حالانکہ جس روایت کے تحت امام ابو زرعہ نے یہ کہا ہے وہ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے اور اس روایت میں امام اعمش نے ابو وائل سے ایک سے زائد مقامات پر سماع کی تصریح کر دی ہے مثلا دیکھئے مسند احمد (ح 23241، 23414)۔ اس کے علاوہ امام ابو زرعہ خود فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ان سے روایت کرنے والوں میں امام شعبہ، اورامام یحیی بن سعید القطان بھی شامل ہیں اور ان دونوں کی روایات اپنے شیوخ سے سماع پر محمول ہوتی ہیں، الغرض اس روایت کا شعبہ اور القطان سے ہونے کے باوجود بھی اگر امام ابو زرعہ نے اس میں اعمش کی تدلیس کا ذکر کیا ہے تو کیا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ شعبہ اور قطان کی روایات اعمش سے سماع پر محمول نہیں ہوتیں!؟ حالانکہ اس بات کے خود شیخ زبیر بھی قائل نہیں تھے۔ لہٰذا یہ سولہویں اور آخری مثال بھی صحیح نہیں ہے۔
شیخ زبیر نے امام اعمش کی ان تین شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے 16 مثالیں پیش کی ہیں اور حیرانگی کی بات ہے کہ ان سولہ کی سولہ مثالوں میں امام اعمش سے تدلیس کا ثبوت نہیں ملتا! لہٰذا امام ذہبی کی بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے اور اس کے خلاف اب تک ایک بھی مثال ایسی نہیں ملی جس میں واقعتا امام اعمش نے ان شیوخ سے تدلیس کی ہو! اور اگر ایک دو مثالیں مل بھی جائیں تو ان سے اس اصول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ مثالیں محض اس کلیہ سے مستثنیٰ ہوں گی۔
--------------------------------
(1) - الکامل میں "عن الاعمش" کا حوالہ چھوٹ گیا ہے جو کہ غلطی ہے جبکہ سیاق و سباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اعمش کا واسطہ موجود ہے۔ اور امام احمد کی بات بھی اس پر تائید کرتی ہے کہ اس حدیث کو اعمش کے زریعے حسن بن عمرو سے روایت کیا گیا ہے۔