• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ کے حالات اور تدلیس

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
امام اعمش رحمہ اللہ کے شیوخ واساتذہ


امام اعمش نے صحابہ میں سے صرف سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا اور ان کی نماز کے طریقے پر ایک حکایت بھی نقل کی ہے مگر اس کے علاوہ ان سے روایت نہیں لی۔ اس اعتبار سے آپ کے سب سے افضل ترین شیخ صحابی رسول تھے۔
اس کے علاوہ آپ نے بے شمار کبار وصغار تابعین سے روایات لی ہیں جن میں: أبو وائل، زيد بن وهب، أبي عمرو الشيباني، إبراهيم النخعي، سعيد بن جبير، أبي صالح السمان، مجاهد، أبي ظبيان، خيثمة بن عبد الرحمن، زر بن حبيش، عبد الرحمن بن أبي ليلى، كميل بن زياد، المعرور بن سويد، الوليد بن عبادة بن الصامت، تميم بن سلمة، سالم بن أبي الجعد، عبد الله بن مرة الهمداني، عمارة بن عمير الليثي، قيس بن أبي حازم، محمد بن عبد الرحمن بن يزيد النخعي، هلال بن يساف، أبي حازم الأشجعي سلمان، أبي العالية الرياحي، إسماعيل بن رجاء، ثابت بن عبيد، أبي بشر، حبيب بن أبي ثابت، الحكم، ذر بن عبد الله، زياد بن الحصين، سعيد بن عبيدة، الشعبي، المنهال بن عمرو، أبي سبرة النخعي، أبي السفر الهمداني، عمرو بن مرة، اور يحيى بن وثاب وغیرہ شامل ہیں۔

اپنے ان شیوخ میں سے ابو صالح السمان کے متعلق امام اعمش نے خود فرمایا ہے کہ:
"سمعت من أبي صالح ألف حديث"
"میں نے ابو صالح سے ایک ہزار احادیث سنی"
(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 2910، 5588)​
گویا ابو صالح آپ کے سے قریبی شیوخ میں سے ہیں جن سے انہوں نے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔ بلکہ آپ کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بزریعہ ابو صالح کو محدثین نے اصح الاسانید بھی قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ ابراہیم النخعی بھی آپ کے قریبی شیوخ میں سے تھے جن کی احادیث کو آپ دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ جانتے تھے، چنانچہ آپ کے شاگرد امام وکیع فرماتے ہیں:
"الأعمش أحفظ لإسناد إبراهيم من منصور"
"اعمش ابراہیم (نخعی) کی اسناد کے منصور (بن معتمر) سے زیادہ بڑے حافظ ہیں۔"
(سنن الترمذی: تحت ح 70 واسنادہ صحیح)​
جبکہ یحیی بن وثاب سے آپ نے عبد اللہ بن مسعود کی قراءت کا علم حاصل کیا۔
اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے ابو العالیہ الریاحی سے بھی علم قراءت سیکھا ہے۔

مغلطائی حنفی نے اکمال میں حافظ اسماعیلی کی ایک کتاب کو ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے امام اعمش کے شیوخ کو جمع کیا ہے۔ اس کتاب کا نام ہے: "شيوخ الأعمش" (اکمال: 6/94)۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
امام اعمش رحمہ اللہ کے تلامذہ


امام اعمش کے تلامذہ میں بڑے بڑے علماء محدثین و فقہاء شامل ہیں۔ آپ کے علمی رتبے کی وجہ سے آپ کے ساتھیوں اور ہم عصر لوگوں نے بھی آپ سے روایتیں لی ہیں۔ ان میں الحكم بن عتيبة، أبو إسحاق السبيعي، طلحة بن مصرف، حبيب بن أبي ثابت، عاصم بن أبي النجود، أيوب السختياني، زيد بن أسلم، صفوان بن سليم، سهيل بن أبي صالح، أبان بن تغلب، خالد الحذاء، سليمان التيمي، اور إسماعيل بن أبي خالد شامل ہیں، یہ سب آپ کے اقران یا ہم عصر ساتھیوں میں سے تھے۔

ان کے علاوہ آپ سے درج ذیل لوگوں نے بھی شرف تلمذ حاصل کیا ہے:
أبو حنيفة نعمان بن ثابت، الأوزاعي، سعيد بن أبي عروبة، ابن إسحاق، شعبة، معمر، سفيان الثوري، شيبان، جرير بن حازم، زائدة، جرير بن عبد الحميد، أبو معاوية، حفص بن غياث، عبد الله بن إدريس، علي بن مسهر، وكيع، أبو أسامة، سفيان بن عيينة، أحمد بن بشير، إسحاق بن يوسف الأزرق، سعد بن الصلت، عبد الله بن نمير، عبد الرحمن بن مغراء، عثام بن علي، يحيى بن سعيد الأموي، يحيى بن سعيد القطان، يونس بن بكير، يعلى بن عبيد، جعفر بن عون، الخريبي، عبيد الله بن موسى، اور أبو نعيم الفضل بن دكين وغیرہ۔

ان میں سے امام سفیان الثوری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ امام اعمش کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔ چنانچہ ابو بکر بن ابی عتاب الاعین نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا:
"من أحب الناس إليك في حديث الأعمش؟"
"آپ کو اعمش کی حدیث میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے؟"
آپ نے فرمایا:
"سفيان، قلت شعبة؟ قال: سفيان"
"سفیان زیاد محبوب ہیں" میں نے پوچھا شعبہ نہیں؟ آپ نے پھر فرمایا: "سفیان"۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/63-64)​
اسی طرح امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لم يكن أحد أعلم بحديث الأعمش من الثوري"
"ثوری سے زیادہ اعمش کی حدیث کو کوئی نہیں جانتا"
(ایضا)​
امام اعمش کے ایک دوسرے شاگرد ابو معاویہ فرماتے ہیں:
"كان سفيان يأتيني ههنا فيذاكرني حديث الأعمش فما رأيت أحدا أعلم بحديث الأعمش منه"
"سفیان میرے پاس یہاں تشریف لائے اور آپ نے اعمش کی حدیث ذکر کرنا شروع کیں، تو میں نے ان سے زیادہ کسی کو اعمش کی حدیث کا عالم نہیں دیکھا"
(ایضا)​
امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
"أحفظ أصحاب الأعمش الثوري"
"الثوری اعمش کے سب سے احفظ اصحاب میں سے ہیں"
(ایضا)​
اور ابو معاویہ کے متعلق امام حاکم نے فرمایا:
"أبا معاوية أحفظ أصحاب الأعمش"
"ابو معاویہ اعمش کے سب سے احفظ اصحاب میں سے ہیں"
(مستدرک علی الصحیحین: 1/501)​
اسی طرح حفص بن غیاث کو اوثق اصحاب اعمش کہا گیا ہے چنانچہ امام علی بن المدینی فرماتے ہیں:
"سمعت يحيى ابن سعيد يقول : أوثق أصحاب الأعمش حفص بن غياث . فأنكرت ذلك ، ثم قدمت الكوفة بأخرة ، فأخرج إلى عمر بن حفص كتاب أبيه عن الأعمش ، فجعلت أترحم على يحيى ، فقال لى : تنظر فى كتاب أبى و تترحم على يحيى ؟ قلت : سمعته يقول : حفص أوثق أصحاب الأعمش ، و لم أعلم حتى رأيت كتابه"
"میں یحیی بن سعید (القطان) کو کہتے سنا کہ حفص بن غیاث اوثق اصحاب اعمش ہیں۔ تو میں نے ان کی اس بات کا انکار کیا۔ بعد میں جب میں کوفہ آیا تو حفص کے بیٹے عمر اپنے والد کی کتاب میرے پاس لے آئے جس میں انہوں نے اعمش کی روایات لکھ رکھی تھیں، میں نے اس کتاب کو دیکھا تو یحیی کی تعریف کرنے لگا۔ عمر بن حفص نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کتاب میرے والد کی دیکھ رہے ہیں اور تعریف آپ یحی کی کر رہے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ میں نے یحیی کو کہتے سنا تھا کہ حفص اوثق اصحاب اعمش ہیں اور اس بات کا علم مجھے نہیں تھا جب تک میں نے ان کی یہ کتاب نہیں پڑھی تھی۔"
(تاریخ بغداد: 8/198)​
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مراسیل امام اعمش رحمہ اللہ


ذیل میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن سے امام اعمش کی روایت مرسل یا منقطع شمار ہوتی ہے:
1- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ
اعمش نے انہیں صرف دیکھا ہے اور ان سے سماع ثابت نہیں ہے لہٰذا آپ کی انس سے روایت منقطع ہے۔ امام علی بن المدینی فرماتے ہیں: "الأعمش لم يسمع من أنس بن مالك إنما رآه رؤية بمكة يصلي خلف المقام فأما طرق الأعمش عن أنس فإنما يرويها عن يزيد الرقاشي عن أنس" "اعمش نے انس بن مالک سے کچھ نہیں سنا انہوں نے محض انہیں مکہ میں مقام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اعمش کے جو طرق انس سے مروی ہیں وہ انہوں نے یزید الرقاشی کے زریعے روایت کیے ہیں۔"
(المراسیل لابن ابی حاتم: 1/82)​
امام ترمذی کہتے ہیں: "لم يسمع من أحد الصحابة وقد روى عن أنس وابن أبي أوفى"
(جامع التحصیل: 1/188)​
2- ابو بکرہ الثقفی
حافظ علائی فرماتے ہیں: "قال أبو الحسين بن المنادي رأى أبا بكرة الثقفي وأخذ له بركابه وهذا غير صحيح فإن أبا بكرة مات قبل أن يولد الأعمش"
(جامع التحصیل: 1/188)​
3- شمر بن عطیہ
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: "الأعمش لم يسمع من شمر بن عطية" "اعمش نے شمر بن عطیہ سے نہیں سنا"
(المراسیل لابن ابی حاتم: 1/82)​
4- عبد الرحمن بن زیاد مولی بنی ہاشم
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أنه لم يسمع منه" کہ اعمش نے ان سے نہیں سنا۔
(المراسیل: 84)​
5- قیس بن ابی حازم
ابو نعیم فرماتے ہیں: "لم يرو الأعمش عن قيس بْن أَبي حازم شيئا" "اعمش نے قیس بن ابی حازم سے نہیں سنا"
(تاریخ ابو زرعہ الدمشقی: 466)​
6- مجاہد بن جبر المکی
امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں: "الأعمش قليل السماع من مجاهد، وعامة ما يروي عن مجاهد مدلس" "اعمش نے مجاہد سے بہت کم سماع کیا ہے۔ اور ان کی عام روایتیں مجاہد سے مدلس ہیں"
(العلل: 2199)​
امام علی بن المدینی سے پوچھا گیا کہ اعمش نے مجاہد سے کتنی حدیثیں سنی ہیں تو آپ نے فرمایا: "لا يثبت منها إلا ما قال سمعت ، هى نحو من عشرة ، و إنما أحاديث مجاهد عنده عن أبى يحيى القتات" "ان کی کوئی روایت مجاہد سے ثابت نہیں ہے سوائے جو جس میں انہیں نے سمعت کہا (یا سماع کی تصریح کی) اور ان کی تعداد 10 کے قریب ہے۔ آپ نے مجاہد سے جو عام روایات نقل کی ہیں وہ ابو یحیی القتات کے زریعے نقل کی ہیں"
(تہذیب التہذیب: 4/224)​
امام یحیی بن معین نے فرمایا: "إنما سمع من مجاهد أربعة أحاديث أو خمسة، وسمع من سَعِيد بن جبير خمسة فقط" "آپ نے مجاہد سے محض 4 یا 5 احادیث سنی ہیں، اور سعید بن جبیر سے صرف پانچ روایتیں سنی ہیں۔"
(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 2/234)​
7- سعید بن یحمد ابو السفر الہمدانی
عباس الدوری نقل کرتے ہیں کہ امام یحیی بن معین نے فرمایا: "لم يسمع منه إلا حديثًا واحدًا" "اعمش نے ان سے ایک حدیث کے علاوہ کچھ نہیں سنا۔"
(تاریخ ابن معین: 2/235)​
8- ابو صالح مولی ام ہانی
امام ابن ابی حاتم اپنے والد امام ابو حاتم الرازی سے نقل کرتے ہیں کہ: "لم يسمع الأعمش من أبي صالح مولى أم هانىء قيل له إن ابن أبي طيبة يحدث عن الأعمش يحدث عن أبي صالح مولى أم هانىء فقال هذا هو مدلس عن الكلبي" "اعمش نے ابو صالح مولی ام ہانیء سے نہیں سنا۔ ان سے کہا گیا ابن ابی طیبہ نے اعمش سے روایت کیا ہے اور انہوں نے مولی ام ہانیء سے روایت کیا ہے۔ تو ابو حاتم نے فرمایا: وہ کلبی سے مدلس ہے"
(المراسیل: 1/82)​
9- مصعب بن سعد بن ابی وقاص
امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں: "لم يسمع الأعمش من مصعب بن سعد شيئا" "اعمش نے مصعب بن سعد سے کچھ نہیں سنا۔"
(المراسیل: ص 83)​
10- مطرف بن عبد اللہ بن الشخیر
امام ابو حاتم فرماتے ہیں: "لم يلق الأعمش مطرفا" "اعمش نے مطرف کو نہیں پایا"
(المراسیل: ص 83)​
11- محمد بن سیرین
امام ابو زرعہ الرازی فرماتے ہیں: "لم يسمع الأعمش من محمد بن سيرين" "اعمش نے محمد بن سیرین سے نہیں سنا"
(المراسیل: 83)​
12- سالم بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب
امام ابو زرعہ فرماتے ہیں: "لم يسمع الأعمش من سالم بن عبد الله شيئا" "اعمش نے سالم بن عبد اللہ سے کچھ نہیں سنا"
(المراسیل: 83)​
13- عکرمہ مولی ابن عباس
امام ابو زرعہ فرماتے ہیں: "لم يسمع الأعمش من عكرمة شيئا"
(المراسیل: 83)​
14- عبد الرحمن یزید بن قیس النخعی
امام ابو حاتم فرماتے ہیں: "قد روى عنه ولم يسمع منه" "اعمش نے ان سے روایت کی ہے مگر ان سے سنا نہیں ہے"
(المراسیل: 84)​
15- الربیع بن خیثم
امام ابو حاتم فرماتے ہیں: "لم يسمع الأعمش من الربيع بن خثيم شيئا إنما هو مرسل"
(المراسیل: 84)​
16- ھمام بن الحارث النخعی
امام ابو حاتم سے اعمش کی ہمام سے روایت کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: "مرسل بينهما إبراهيم"
(المراسیل: 84)​
17- نافع مولی ابن عمر
امام ابن مدینی فرماتے ہیں: "الأعمش عن نافع يعني مولى بن عمر شيء لا يقبله القلب ليس هذا بشيء"
(جامع التحصیل: 1/189)​
امام ابو داود السجستانی فرماتے ہیں: "لم يسمع الأعمش من نافع"
(سؤالات الآجری: 1/111)​
18- ایوب السختیانی
مغلطائی امام ابو زرعہ سے نقل کرتے ہیں کہ: "لم يسند عن أيوب شيئا"
(اکمال: 6/92)​
19- علقمہ بن قیس النخعی
20- اسود بن یزید بن قیس النخعی
21- مسروق بن الاجدع
22- عبیدہ بن عمرو الکوفی
23- عمرو بن شرجیل الہمدانی
24- حارث بن عبد اللہ الاعور الہمدانی

حافظ علائی نقل کرتے ہیں کہ: "ذكر علي بن المديني أصحاب عبد الله بن مسعود الذين يفتى بقولهم ستة علقمة والأسود ومسروق وعبيدة وعمرو بن شرحبيل والحارث يعني الهمداني ثم قال ولم يلق الأعمش من هؤلاء أحدا" "علی بن المدینی نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے چھ اصحاب کا ذکر کیا جو ان کے قول پر فتوی دیتے تھے: علقمہ، اسود، مسروق، عبیدہ، عمرو بن شرحبیل، اور حارث الہمدانی پھر آپ نے کہا کہ اعمش نے ان چھ میں سے کسی کو نہیں پایا۔" (جامع التحصیل: 1/189)۔

تنبیہ:
اعمش کی ابو سفیان طلحہ بن نافع سے روایت کے متعلق امام بزار فرماتے ہیں کہ اعمش نے ان سے کچھ نہیں سنا ، چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: "لم يسمع من أبي سفيان طلحة شيئا، وقد روى عنه نحوا من مئة حديث، وإنما هي صحيفة عرضت، وإنما يثبت من حديثه ما لا يحفظه من غيره لهذا العلة"
(اکمال تہذیب الکمال: 6/91)​
حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ نہ صرف امام اعمش کا سماع ابو سفیان سے ثابت ہے بلکہ اعمش ان کے خاص شاگردوں میں بھی شامل ہیں حتی کہ ابو سفیان کو "صاحب اعمش" کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
امام ابن رجب امام بزار کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "كذا قال، وهو بعيدٌ، وحديث الأعمش عن أبي سفيانَ مخرَّج في الصحيح" "اسی طرح بزار نے کہا ہے اور یہ بات بعید ہے کیونکہ اعمش کی ابو سفیان سے حدیث صحیح میں مخرج ہے"
(شرح علل الترمذی: 2/856)​
حافظ ہیثمی امام بزار کے رد میں فرماتے ہیں: "عجبتُ من قوله: لم يسمعِ الأعمش من أبي سفيان" "میں بزار کے اس قول سے حیران ہوں کہ اعمش نے ابو سفیان سے نہیں سنا!"
(کشف الاستار: 2/86)​
حافظ ابو زرعہ ابن العراقی بھی بزار کے رد میں فرماتے ہیں: "وهذا غريبٌ جدًّا؛ فإنَّ روايته عنه في الكتب الستَّة، وهو معروف بالرِّواية عنه" "یہ بہت ہی عجیب وغریب بات ہے کیونکہ اعمش کی ان سے روایت کتب ستہ میں موجود ہے اور وہ ان سے روایت کرنے میں معروف ہیں"
(تحفہ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل لابی زرعہ: 1/136-137)​
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
امام اعمش رحمہ اللہ اور تدلیس


امام اعمش ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر التدلیس بھی تھے اس لئے ان کی غیر مسموع معنعن روایات عام طور پر ضعیف ہوتی ہیں سوائے ان خاص روایات کہ جن میں یہ صراحت مل جائے کہ اس میں انہوں نے تدلیس نہیں کی ہے مثلا کسی خاص شیخ سے روایت یا کسی خاص شاگرد سے روایت۔

1- چنانچہ امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إنما أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش وأبو إسحاق"
"اہل کوفہ کی حدیث کو اعمش اور ابو اسحاق نے مفسد کیا ہے" یعنی تدلیس کی وجہ سے۔
(احوال الرجال: 1/126، واسنادہ صحیح)​
2- مغیرہ بن مقسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أهلك أهل الكوفة أبو إسحاق وأعيمشكم هذا"
"اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور تمہارے ان اعمش نے ہلاک کر دیا ہے"
(احوال الرجال: 1/129، واسنادہ صحیح، ومیزان الاعتدال: 2/224)​
3- امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش لأنه إذا وقف أحال على غير مليء يعنون على غير ثقة إذا سألته عمن هذا"
"اور انہوں (محدثین) نے کہا: اعمش کی تدلیس غیر مقبول ہے کیونکہ انہیں جب (معنعن روایت میں) پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔ جب آپ سے پوچھا جاتا کہ یہ روایت کس سے ہے؟ تو کہتے: موسیٰ بن طریف سے (کذاب)، عبایہ بن ربعی سے (متروک متہم) اور حسن بن ذکوان سے (ضعیف)"
(التمہید: 1/30)​
4- حافظ علائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مشهور بالتدليس مكثر منه"
"آپ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں اور آپ کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے"
(جامع التحصیل: 1/188)​
5- امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أحد الائمة الثقات، عداده في صغار التابعين، ما نقموا عليه إلا التدليس"
"آپ آئمہ ثقات میں سے تھے۔ آپ کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں ہے سوائے تدلیس کے"
(میزان الاعتدال: 2/224)​
آپ مزید فرماتے ہیں:
"قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس"
"میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھےاور آپ کو اس کا علم نہ ہوتا۔ لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو ان کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال موجود ہے۔"
(میزان الاعتدال: 2/224)​
6- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب طبقات المدلسین (ص 33) میں امام اعمش کو دوسرے طبقے کا مدلس شمار کیا۔ البتہ بعد میں آپ نے خود اس بات سے رجوع کرتے ہوئے النکت علی کتاب ابن الصلاح میں انہیں تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"الثالثة: من أكثروا من التدليس وعرفوا به، وهم..... وسليمان الاعمش....."
"تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو کثرت سے تدلیس کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے اور وہ ہیں۔۔۔۔ اور سلیمان الاعمش۔۔۔"
(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: 2/640)​
یاد رہے کہ النکت علی ابن الصلاح کو ابن حجر نے طبقات المدلسین کے بعد تالیف کیا تھا۔ لہٰذا یہی ابن حجر کا آخری موقف ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر ابن حجر نے اعمش کی کئی روایات کو ان کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف بھی قرار دیا ہے۔
7- بلکہ امام اعمش تو کبھی کبھار تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے (یعنی اس میں راوی اپنے شیخ سے اوپر کے کسی ضعیف وغیرہ راوی کو گراتا ہے)، چنانچہ علامہ نووی نے "الارشاد" (34) میں اور خطیب بغدادی نے "الکفایہ" (ص 364) میں امام عثمان بن سعید الدارمی سے نقل کیا ہے امام اعمش بعض اوقات تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ اس تدلیس کا وقوع امام اعمش سے بہت قلیل ہوا ہے اس لئے ان کی تمام روایات کو اس تدلیس کی وجہ سے رد نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اسی خاص روایت کو رد کیا جائے جس میں ان سے تدلیس تسویہ ثابت ہو۔ البتہ جو لوگ مدلس کے ایک بار تدلیس کرنے پر بھی اس کی تمام معنعن روایات کو ضعیف ٹھہراتے ہیں، ان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
نیز دیکھیں انوار البدر فی وضع الدین علی الصدر للشیخ کفایت اللہ السنابلی: 118-122​

پس ثابت ہوا کہ امام اعمش کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے لہٰذا ان کی معنعن روایات عدم سماع وعدم متابعت کی صورت میں غیر مقبول ہوں گی۔ لیکن اس اصول کی چند استثنائی حالتیں بھی ہیں جن کا ذکر ہم اب کریں گے، ان شاء اللہ:

استثنائی حالت # 1:
امام اعمش رحمہ اللہ سے روایت کرنے والے اگر امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ ہوں تو ان کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں کیونکہ امام شعبہ اپنے شیوخ سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جو انہوں نے اپنے شیخ سے براہ راست سنی ہوں۔

چنانچہ امام شعبہ فرماتے ہیں:
"كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني انه سمعه من فلان"
"جو حدیث بھی میں تمہیں کسی شخص سے بیان کروں تو اس روایت کو اس شخص نے مجھے براہ راست سنائی ہے کہ اس نے خود اسے فلان سے سنا ہے۔"
(الجرح والتعدیل: 1/173)​
امام شعبہ مزید فرماتے ہیں:
"كفيتكم تدليس ثلاثة: الاعمش وابي اسحاق و قتاده"
" میں آپ کے لئے تین اشخاص کی تدلیس کے لئے کافی ہوں: اعمش، ابو اسحاق، قتادہ"
(طبقات المدلسین لابن حجر: ص 151)​
اسی طرح امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كلما حدث به شعبة عن رجل فقد كفاك امره فلا تحتاج ان تقول لذلك الرجل سمع ممن حدث عنه"
"جو روایت بھی شعبہ کسی شخص سے بیان کریں تو تمہیں ان کا یہ عمل ہی کافی ہو گا لہٰذاتمہیں اس شخص کے متعلق یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ اس نے یہ روایت اپنے شیخ سے سنی ہے یا نہیں۔"
(الجرح والتعدیل: 2/35، واسنادہ صحیح)​
اسی لئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ امام شعبہ کے متعلق فرماتے ہیں:
" كان لا يأخذ عن أحد ممن وصف بالتدليس إلا ما صرح فيه ذلك المدلس بسماعه من شيخه"
"شعبہ تدلیس سے متصف راویوں سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جن میں انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کی ہو "
(النکت علی ابن الصلاح: 1/259)​

استثنائی حالت # 2:
امام اعمش سے اگر امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ روایت کریں تو بھی ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے کیونکہ اپنے شیخ شعبہ کی طرح، امام قطان بھی اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی روایات لیتے ہیں جو انہوں نے اپنے شیخ سے خود سنی ہوں۔

چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
"والقطان لا يحمل من حديث شيوخه المدلسين الا ما كان مسموعا لهم صرح بذلك الإسماعيلي"
"اور القطان اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی حدیث لیتے تھے جن کا انہوں نے سماع کیا ہو، اس بات کی صراحت اسماعیلی نے کی ہے۔"
(فتح الباری: 1/309 ط دار المعرفہ)​

استثنائی حالت # 3:
امام اعمش کی جو روایات امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں تو وہ بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں۔
محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كان عامة حديث الأعمش عند حفص بن غياث على الخبر والسماع"
"حفص بن غیاث کے پاس اعمش کی عام روایتیں خبر وسماع پر محمول ہیں۔"
(تاریخ بغداد: 8/194، واسنادہ صحیح)​
اسی طرح حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"قلت اعتمد البخاري على حفص هذا في حديث الأعمش لأنه كان يميز بين ما صرح به الأعمش بالسماع وبين ما دلسه نبه على ذلك أبو الفضل بن طاهر وهو كما"
"میں کہتا ہوں کہ امام بخاری نے اس حدیث میں اعمش کی حدیث میں سماع کے لئے ان کی حفص سے روایت پر اعتماد کیا ہے کیونکہ حفص اعمش کی مصرح بالسماع اور مدلس روایات میں تمیز کیا کرتے تھے، اس کی ابو الفضل بن طاہر نے صراحت کی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا انہوں نے کہا ہے۔"
(فتح الباری: 1/398)​

استثنائی حالت # 4:
امام اعمش اگر ابو سفیان طلحہ بن نافع رحمہ اللہ سے روایت کریں تو ان کی معنعن روایات صحیح ہوتی ہیں کیونکہ:
1- ابراہیم نخعی کے بعد امام اعمش نے سب سے زیادہ روایات اپنے اس شیخ سے لی ہیں۔ اور اعمش کو ان کی روایات میں تخصص حاصل ہے حتی کہ ابو سفیان کو "صاحبِ اعمش" کہا جانے لگا اور اعمش کےمتعلق کہا جانے لگا: "رَاويتُه" کہ وہ ابو سفیان کا راوی ہے۔
2- امام الجرح والتعدیل ابن عدی نے فرمایا ہے کہ اعمش کی ابو سفیان سے روایات مستقیم ہیں۔ چنانچہ آپ ابو سفیان کے متعلق فرماتے ہیں: "روى عن جابر أحاديثَ صالحة؛ رواها الأعمش عنه، ورواها عن الأعمشِ الثِّقاتُ، وهو لا بأسَ به، وقد روى الأعمشُ عنه أحاديثَ مستقيمة" کہ انہوں نے جابر سے صالح احادیث روایت کی ہیں انہیں اعمش نے ان سے روایت کیا ہے اور اعمش سے انہیں ثقہ راویوں نے نقل کیا ہے، ان (ابو سفیان) میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اعمش نے ان سے مستقیم روایات نقل کی ہیں۔
(الکامل لابن عدی: 5/181: قال الشيخ أبو إسحاق الحويني: ووقع فيه تصحيف واضطراب، تصويبه من مختصره، للمقريزي (ص: 440 - 441)، ومن النقل في تهذيب الكمال (13/440)، وهدي الساري (ص: 411)، وغيرها)​
حدیث کی استقامت تدلیس قادح کے عدم وجود پر دلیل ہے۔

استثنائی حالت # 4، 5، 6:
امام اعمش اگر اپنے درج ذیل تین اساتذہ سے روایت کریں تو ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے الا یہ کہ کسی خاص روایت میں تدلیس ثابت ہو جائے۔
1- ابو صالح السمان
2- ابو وائل شقیق
3- ابراہیم بن یزید النخعی
چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
"قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم: كإبراهيم، ]وأبي[ وائل، وأبي صالح السمان، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال"
" میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھے اور انہیں اس کا علم نہیں ہوتا لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو اس کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں اور جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال آجاتا ہے سوائے ان شیوخ میں جن سے آپ نے کثرت سے روایات لی ہیں مثلا ابراہیم (النخعی)، ابی وائل (شقیق بن سلمہ)، اور ابو صالح السمان، کیونکہ ان کی روایت اس صنف سے اتصال پر محمول ہوتی ہے۔"
(میزان الاعتدال: 2/224)​

امام ذہبی اس فن کے امام اور صاحبِ استقراء التام ہیں، ان کی یہ تخصیص ان کے استقراء و تحقیق پر مبنی ہے لہٰذا ان کی یہ بات حجت ہے۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ وغیرہ نے امام ذہبی کے اس فیصلے کو نہ مانتے ہوئے چند دلائل پیش کر کے فرمایا ہے کہ ذہبی کی یہ بات صحیح نہیں ہے تو ان کے استاد شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے ان کے رد میں ایک مضمون لکھا بنام "تسكين القلب المشوش باعطاء التحقيق في تدليس الثوري والأعمش" (دیکھیں مقالات راشدیہ: ج 1 ص 306) یہاں پر میں اس مضمون کا مختصر سے مختصر خلاصہ کرنے کی کوشش کروں گا۔اس مضمون میں آپ نے شیخ زبیر رحمہ اللہ کے ان دلائل کا مدلل رد کرتے ہوئے فرمایا جن کی بنیاد پر آپ نے اعمش کی ان شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ:
"درج بالا جو دلائل آپ نے پیش کیے ہیں وہ سب عمومی ہیں اور ان سے چند مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ ایسے امثلہ موجود ہیں کہ مدلس راوی تیسرے مرتبہ کا ہے لیکن ائمہ نے کے متعلق یہ ےتصریح فرمائی ہے کہ یہ مدلس فلاں فلاں شیخ سے تدلیس نہیں کرتا۔۔۔۔ لہٰذا اعمش کے معرف بالتدلیس ہونے کے باوجود معین مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے پر آپ متعجب کیوں ہو رہے ہیں۔" (ص 332)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ حافظ نووی کا ابو صالح کی ایک روایت پر کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وكقوله من الأعمش عن أبي صالح والأعمش مدلس، والمدلس إذا قال "عن" لا يحتج به الا اذا ثبت السماع من جهة أخري" (شرح مسلم: 2/119)۔
تو شیخ محب اللہ راشدی رحمہ اللہ ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔" (ص 332-333)
آگے چل کر آپ مزید فرماتے ہیں:
"کسی راوی پر ائمہ فن کے کلام – تعدیلا وتجریحا، توثیقا وتضعیفا – کے تین ماخذ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ تینوں یک جا پائے جاتے ہیں کبھی ان میں سے کوئی ایک۔
1- کس امام نے کسی راوی پر کلام کیا ہے وہ اس کے معاصر تھے اور ان کا حال (حدیث میں) مشاہدہ سے معلوم کر کے اس پر کلام کیا ہو۔
2- وہ ان کے معاصر تھے لیکن ان سے متقدم ائمہ فن کے اس راوی پر کیے ہوئے کلام کی بناء پر ان پر کلام کیا۔
3- اس راوی کی روایت کو دوسرے ثقات رواۃ کی روایات سے مقابلہ کر کے اور اس کی روایت پر روایتا ودرایتا اچھی طرح تدبر کرنے کے بعد ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو۔
اس تیسری قسم کی التنکیل میں امام ابن معین وغیرہ کی مثالیں دے کر بخوبی وضاحت کر دی گئی ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے معاصر تو یقینا نہیں تھے لیکن ان کے متعلق متقدمین کی تصریحات انہیں بوجہ اتم حاصل تھیں۔ اسی طرح کسی راوی کی روایات کی روایت ودرایت کے اصول پر پرکھ کر اس کے بارے میں کسی فیصلہ دینے کا بھی انہیں اچھا ملکہ حاصل تھا۔۔۔۔
میری گذارش یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش رحمہ اللہ کے متعلق جو کچھ فرمایا وہ متقدمین کی تصریحات اور خود ان کی تحقیق دونوں پر مبنی ہے۔
" (ص 333-334)
آگے شیخ راشدی مزید فرماتے ہیں:
"بہرحال حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اعمش کے بارے میں ان کبار شیوخ کو مستثنیٰ کرنا حقائق ودلائل اور ان کی روایات کو بدقت نظر پرکھنے پر مبنی ہے۔ اب اگر ان کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے تو یہ بے دلیل بات ہے آپ نے محض عمومی دلیل پیش کی ہے ان کبار شیوخ کے بارے میں متقدمین کی تصریحات سے خصوصی طور پر کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی۔ یعنی اعمش ان سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ محض مدلس ہونا تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو بھی تسلیم ہے لیکن انہوں نے علی وجہ البصیرت اس عموم سے ایک استثناء کی ہے جس کو آپ ٹھوس دلائل سے رد نہیں کر سکتے۔"
آخر میں بطور تنبیہ شیخ صاحب فرماتے ہیں:
"تنبیہ: دنیا میں ایسا کوئی کلیہ نہیں جس سے کچھ نہ کچھ مستثنیات نہ ہوں یا ان میں سے کوئی شاذ ونادر فرد خارج نہ ہو لیکن پوری دنیا اکثریت پر ہی اعتماد کرتی ہے۔ اگر اکثر افراد اس کلیہ سے خارج نہیں ہوتے تو وہ کلیہ مسلمہ ہو جاتا ہے۔
امام اعمش کے متعلق اب تک جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا بھی یہ حال ہے کیونکہ دو تین مواضع ایسے ہیں جہاں ائمہ فن نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں اعمش نے ابو صالح یا ابو وائل سے تدلیس کی ہے اور قرائن بھی اس کے موید ہیں تو ان مواضع کو مستثنیات میں سے قرار دیا جائے گا اور وہاں عدم سماع وعدم انقطاع تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر جہاں ائمہ فن میں سے نہ کسی امام نے یہ تصریح فرمائی ہو کہ یہاں اعمش نے ابو صالح، ابو وائل یا ابراہیم وغیرہ سے تدلیس کی ہے اور نہ وہاں کچھ ایسے قرائن ہی موجود ہوں جن سے تدلیس کا شبہ پڑتا ہو تو وہاں یہ کلیہ صحیح ہو گا اور وہاں اعمش کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوں گی۔ واللہ اعلم
" (ص 339)

شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ہے بنام "سلیمان الاعمش کی ابو صالح وغیرہ سے معنعن روایات کا حکم" (تحقیقی مقالات: ج 3 ص 300)۔ اس میں انہوں نے ایسی ہی اس کلیہ سے مستثنی چندروایات پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اعمش کی ابو صالح، ابو وائل اور ابراہیم سے تمام معنعن روایات ضعیف ہیں۔ حالانکہ شیخ راشدی نے صراحت کر دی ہے کہ چند مستثنیات کی بنیاد پر اس اصولِ کلیہ کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا شیخ زبیر نے اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ ان مستثنیات میں شامل ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے مشکل ہی کسی روایت میں اعمش نے واقعی میں اپنے ان شیوخ سے تدلیس کی ہے، بلکہ محض ان پر اعتراض ہیں۔
ذیل میں ہم ان مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں:
پہلی مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"1) امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا: "حديث الأعمش عن أبي صالح: الإمام ضامن، لا أراه سمعه من أبي صالح" اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث، میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔ (تقدمہ الجرح والتعدیل ص 82 وسندہ صحیح)۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ امام سفیان ثوری حافظ ذہبی کا مذکورہ قاعدہ نہیں مانتے تھے۔"
حالانکہ امام ثوری کا اعمش کی ابو صالح سے کسی خاص روایت پر کلام کرنے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ یہ روایت اعمش نے ابو صالح سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ انہوں نے لازما تدلیس کی ہے بلکہ تدلیس کے علاوہ اعمش کی غلطی یا وہم بھی اس انقطاع کی وجہ ہو سکتی ہے اور تو اور قرائن بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
چنانچہ بعض روایات میں اعمش نے خود اس روایت کو نقل کرنے میں تردد اور شک کا اظہار کیا ہے، چنانچہ امام احمد اپنی مسند میں نقل کرتے ہیں: "حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ سَمِعْتُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قال رسولُ صلي الله عليه وسلم: " الْإِمَامُ ضَامِنٌ" عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی انہوں نے کہا میں ابو صالح کے زریعے حدیث بیان کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود ان سے سنی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الامام ضامن۔۔۔۔
اولا: اس حدیث میں امام اعمش خود اسے ابو صالح سے روایت کرنے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان کے شک ووہم کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تدلیس ہے جو قصدا کی جاتی ہے؟
ثانیا: اگر امام ثوری کے محض "مجھے لگتا ہے" کو یقین پر محمول کیا جا سکتا ہے، تو امام اعمش کے اسی "مجھے لگتا ہے" کو کیوں یقین پر محمول کر کے یہ نہیں کہا جاتا کہ اعمش نے یہ روایت ابو صالح سے سنی ہے؟
ثالثا: اس حدیث میں دوسرے مقامات پر امام اعمش نے سماع کی تصریح بھی کردی ہے لہٰذا تدلیس ہو یا وہم سب شبہات اس سے دور ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ امام طحاوی اس حدیث کی روایت میں فرماتے ہیں: "حدثنا أبو أمية قال: حدثنا سريج بن النعمان الجوهري قال: حدثنا هشيم , عن الأعمش قال: حدثنا أبو صالح , عن أبي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله" (شرح مشکل الآثار للطحاوی: 5/432، واسنادہ حسن)۔ اس میں امام اعمش نے بالیقین سماع کی تصریح کر دی ہے۔
اگر کوئی کہے کہ اس کی سند میں ہشیم مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں لہٰذا اس میں تدلیس کا "احتمال" ہے، تو عرض ہے کہ امام ہشیم اس میں منفرد نہیں ہیں۔
ابراہیم بن احمد الرؤاسی نے بھی اعمش سے اپنی روایت میں سماع کی تصریح نقل کی ہے، چنانچہ امام دارقطنی فرماتے ہیں: "وقال إبراهيم بن حميد الرؤاسي: عن الأعمش، عن رجل، عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال الأعمش: وقد سمعته من أبي صالح" ابراہیم بن احمد الرؤاسی (ثقہ) عن اعمش عن رجل عن ابو صالح عن ابو ہریرہ کے طریق سے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں، اور اعمش نے کہا: کہ میں نے یہ حدیث ابو صالح سے سنی ہے۔ (علل الدارقطنی: 10/195)۔
اس کے علاوہ اس حدیث کو امام اعمش سے "حفص بن غیاث" نے بھی روایت کیا ہے۔ چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں: "حديث أبي هريرة رواه سفيان الثوري، وحفص بن غياث، وغير واحد، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم" ابو ہریرہ کی حدیث کو سفیان الثوری، حفص بن غیاث اور دوسروں نے اعمش عن ابو صالح عن ابو ہریرہ عن النبی ﷺ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ (سنن الترمذی: 1/402)۔
نیز حفص کی روایت کے لئے دیکھیں شرح مشکل الآثار (5/432، واسنادہ صحیح)۔
اور اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حفص کی اعمش سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔
لہٰذا اس حدیث میں اعمش پر تدلیس کا الزام رفع ہوا، والحمد للہ۔ اور اگر یہ روایت واقعی میں منقطع ہوتی تو بھی انقطاع کی وجہ تدلیس نہیں بلکہ اعمش کا وہم وشک ہو گا جیسا کہ انہوں نے خود اقرار کیا ہے۔

اس مثال کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے دوسری، تیسری، پانچویں، چھٹی، بارہویں، اور تیرہویں مثالوں کے تحت امام حاکم،امام بیہقی، ابن القطان الفاسی، طحاوی، ابن الجوزی، اور ابن المدینی کے حوالے پیش کیے ہیں لیکن ان سب نے اسی الامام ضامن والی حدیث پر ہی کلام کیا ہے جس کا جواب اوپر دے دیا گیا ہے۔

شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک اور مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اعمش کی عن ابو صالح والی ایک روایت کے بارے میں ابو الفضل محمد بن ابی الحسین احمد بن محمد بن عمار الہروی الشہید (متوفی 317 ھ) نے فرمایا: "والأعمش كان صاحب تدليس فربما أخذ عن غير الثقات" اور اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیرثقہ سے روایت لیتے (یعنی تدلیس کرتے) تھے۔ (علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم بن الحجاج ج 1 ص 138 ح 35)"
حالانکہ اس حدیث میں بھی اصلا امام اعمش نے تدلیس کی ہی نہیں۔ بلکہ جس حدیث کے تحت مؤلف نے یہ بات کہی ہے وہ صحیح مسلم کی ہی حدیث ہے اور ابو الفضل ابن عمار نے اس سے پہلے خود کہا ہے کہ: "وهو حديث رواه الخلق عن الأعمش عن أبي صالح فلم يذكر الخبر في إسناده غير أبي أسامة فإنه قال فيه عن الأعمش قال حدثنا أبو صالح" اس حدیث کو ایک جماعت نے اعمش سے نقل کیا ہے لیکن انہوں نے اس سند میں خبر (یعنی سماع) ذکر نہیں کیا ہے سوائے ابو اسامہ (ثقہ ثبت) کے کیونکہ انہوں نے اعمش سے اپنی روایت میں کہا ہے: عن اعمش قال حدثنا ابو صالح۔ (علل الاحادیث فی صحیح مسلم: 1/136)۔
چنانچہ مصنف نے خود کہا ہے کہ اس روایت میں اعمش نے ابو صالح سے سماع کی تصریح کر دی ہے تو پھر اس میں تدلیس کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

مزید مثال پیش کرتے ہوئے،شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"دارقطنی نے الاعمش عن ابی صالح والی ایک روایت کے بارے میں کہا: "ولعل الأعمش دلسه عن حبيب وأظهر اسمه مرة، والله أعلم" اور شاید اعمش نے حبیب (بن ابی ثابت) سے تدلیس کی اور ایک دفعہ اس کا نام ظاہر کر دیا۔ واللہ اعلم (العلل الواردۃ ج 10 ص 95 ح 1888)"
اس روایت میں امام دارقطنی کو خود بھی پورا یقین نہیں ہے کہ اعمش نے واقعتا تدلیس کی ہے یا نہیں۔ اس لئے "شاید" ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہاں تدلیس کی ہو اور اس صورت میں یہ روایت ان مستثنیات میں شمار ہو گی جن کا ذکر شیخ محب اللہ راشدی نے کیا ہے۔ لیکن یہاں ایک اور "شاید" کی گنجائش بھی ہے اور وہ یہ کہ شاید اعمش نے یہاں تدلیس نہ کی ہو بلکہ ان سے روایت کرنے والے کی طرف سے غلطی ہو۔
لہٰذا یہاں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اعمش نے تدلیس کی ہے۔ اور اگر تدلیس کی ہے تو اس خاص روایت کو اعمش کی ان مستثنیات میں شمار کیا جائے گا جن میں انہوں نے ابو صالح سے تدلیس کی ہے اور یہ نہیں کہ ان کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات ضعیف ہو جاتی ہیں۔

نویں مثال دیتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"امام ابن خزیمہ نے اعمش عن ابی صالح والی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: اسے اعمش نے ابو صالح سے سنا ہے اور اس میں تدلیس نہیں کی اور ابو سعید (الخدری رضی اللہ عنہ) کی حدیث اس سند کے ساتھ صحیح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (دیکھئے کتاب التوحید ص 109 ح 160)"
یہاں پر کوئی کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ امام ابن خزیمہ اور شیخ زبیر خود اقرار کر رہے ہیں کہ اس حدیث میں اعمش نے تدلیس نہیں کی ہے۔ لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اس مثال سے وجہ استدلال یہ ہے کہ امام ابن خزیمہ نے اعمش کی روایت کے ابو صالح سے ہونے کے باوجود اس میں ان کی تدلیس پر تحقیق کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعمش کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات کو سماع پر محمول نہیں سمجھتے تھے۔

البتہ اس کا جواب شیخ محب اللہ راشدی پہلے ہی اوپر دے چکے ہیں ان کے الفاظ کو میں دوبارہ یہاں نقل کرتا ہوں جو انہوں نے امام نووی کے قول کے جواب میں کہے تھے:
" لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔"

اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ ودیگر تمام لوگ جن کی مثالیں شیخ زبیر رحمہ اللہ نے اس مضمون میں بیان کی ہیں، انہوں نے ابو صالح سے اعمش کے سماع کی تحقیق کی ہے تو یہ انہوں نے محض اس لئے کیا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ یا دیگر کسی پر حجت نہیں۔
((من عرف حجة علي من لم يعرف – یعنی جو جانتا ہے وہ نہ جاننے والے پر حجت ہے))
آپ مزید لکھتے ہیں:
"آپ نے پہلے جو کچھ لکھا یا اس فقرہ میں امام نووی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ان میں اعمش کے ان تینوں ابراہیم، ابو وائل، ابو صالح کے متعلق کوئی خصوصی دلیل پیش نہیں کی گئی کہ یہ یا یہ دلیل ہے اس پر کہ اعمش واقعتا ان تینوں سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ ہر جگہ صرف یہ ہے کہ "الاعمش مدلس" یا "کان یدلس" لیکن ان کی تدلیس سے وہ (ذہبی رحمہ اللہ) غیر واقف نہیں۔ دیکھئے المیزان وغیرہ۔ یعنی حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے مدلس ہونے کے منکر نہیں بلکہ وہ چند شیوخ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ان سے تدلیس نہیں کرتا تھا لہٰذا وہ روایات جو ان سے مروی ہیں وہ اتصال پر مبنی ہیں اور یہ تخصیص متقدمین کی تصریحات کے علاوہ ان کی اپنی تحقیق پر مبنی ہے۔ حافظ ذہبی علم الروایہ والدرایہ دونوں میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور وہ نقد الرجال میں صاحب الاستقراء التام ہیں۔ جب وہ چند شیوخ خصوصا ابراہیم ابووائل وابو صالح کی تخصیص کرتے ہیں تو لا محالہ ان کی یہ تخصیص علم وتحقیق کی روشنی پر مبنی ہو گی۔ انہوں نے اعمش کی روایات کو اچھی طرح پرکھا ہو گا۔ ان شیوخ سے جو روایات مروی ہیں ان کو دوسرے ثقات کی روایات سے مقابلہ اور ان سے موازنہ کیا ہو گا اور دواوین حدیث میں جو روایات اعمش کی ان شیوخ سے مروی ہیں ان پر دقت نظر ڈالی ہو گی، پھر اس تحقیق عمیق کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا۔"

لہٰذا اس مثال ودیگر تمام مثالوں میں ابن خزیمہ وغیرہ نے اعمش کی ابو صالح سے روایت پر تحقیق صرف اس لئے کی کیونکہ اعمش معروف بالتدلیس ہیں لیکن انہوں نے کبھی امام ذہبی کے اس فیصلے کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی کہ مام اعمش سے واقعی ان شیوخ کی عام روایات میں ویسے ہی تدلیس ثابت ہے جیسے ان کی دیگر رواۃ سے ثابت ہے۔ امام ذہبی نے اپنی تحقیق کے بعد یہ تخصیص کی ہے جبکہ دیگر ائمہ نے بنا کسی تحقیق کے عام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے ہیں۔

اعمش عن ابو صالح پر مذکورہ مثالوں کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اعمش کی ابراہیم النخعی رحمہ اللہ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں:
"اعمش نے ابراہیم نخعی سے ایک روایت عن کے ساتھ بیان کی جس کے بارے میں امام عبد الرحمن بن مہدی نے فرمایا: 'هذا من ضيعف حديث الأعمش' یہ اعمش کی ضعیف حدیثوں میں سے ہے۔ (کتاب العلل للامام احمد: 2/413 ت 2845 وسندہ صحیح)"
اللہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پر رحم کرے، یہ مثال بہت عجیب ہے نہ تو اس میں کہیں دور دور تک یہ اشارہ ہے کہ اعمش نے اس میں تدلیس کی ہے اور نہ ابن مہدی کے قول میں کہیں کوئی اشارہ ہے کہ یہ حدیث اعمش کے عنعنہ یا تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے!
اس بات کا ثبوت کہاں ہے کہ ضعف کے بے شمار اسباب میں سے یہاں تدلیس ہی مراد ہے؟ یا پھر ایسا ہے کہ ضعیف حدیث کا صرف ایک ہی سبب ہو سکتا ہے اور وہ ہے تدلیس، دوسرا کوئی نہیں!؟؟
مزید یہ کہ اگر اس روایت میں وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو امام ابن مہدی یا تو اسے منقطع کہتے یا یہ کہتے کہ یہ روایت اعمش نے ابراہیم سے نہیں سنی جیسا کہ محدثین کا طریقہ ہے اور یہ کہ ضعف اس مجھول شخص سے آیا ہے جس کو سند سے گرایا گیا ہے۔ لیکن یہاں امام ابن مہدی نے ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب کیا ہے، گویا یہ حدیث ان کی نکارت، حافظہ، یا ان کے اپنے کسی دوسرے نقص کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اگر وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب نہ کیا جاتا بلکہ اس مجھول شخص کی طرف منسوب کیا جاتا جس سے اعمش نے یہ روایت لی ہے۔
لہٰذا بغیر کسی دلیل یہاں وجہِ ضعف تدلیس بتانا بالکل غلط ہے۔

اعمش کی ابراہیم سے تدلیس کے ثبوت کے لئے شیخ زبیر دوسری مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اعمش عن ابراہیم النخعی والی ایک روایت کے بارے میں سفیان (ثوری) نے فرمایا: اعمش نے (نماز میں) ہنسنے کے بارے میں ابراہیم والی حدیث نہیں سنی۔ (کتاب العلل للامام احمد 2/67 ت 1569، وسندہ صحیح، تقدمہ الجرح والتعدیل ص 72 وسندہ صحیح)"
عرض ہے کہ یقینا یہ روایت اعمش اور ابراہیم کے درمیان منقطع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس انقطاع کی وجہ لازما تدلیس ہی ہے؟؟ تو جواب ہے ہرگز نہیں بلکہ اس روایت میں انقطاع کی وجہ امام اعمش کی اپنی غلطی اور حافظے میں چوک ہے۔ اس روایت کو ابراہیم سے روایت کرنے میں امام اعمش کو غلطی لگی ہے اور اس بات کا اقرار خود انہوں نے کیا ہے اور حیرانگی کی بات ہے کہ اس بات کی وضاحت امام احمد نے امام سفیان کے اسی مذکورہ قول کے ساتھ ہی کر دی تھی جس کا ذکر شیخ زبیر نے اوپر کیا ہے لیکن انہوں نے شاید اسے نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں:
"قال وكيع قال الأعمش أرى إبراهيم ذكره" وکیع کہتے ہیں کہ اعمش نے (اس حدیث کی روایت کے وقت) کہا مجھے لگتا ہے کہ اس حدیث کو ابراہیم نے ذکر کیا تھا۔ (کتاب العلل)
یعنی امام اعمش کو شک ہے کہ انہوں نے یہ حدیث ابراہیم سے لی ہے یا کسی اور سے۔ لہٰذامام اعمش کے شک کو تدلیس بتانا بہت بڑی غلطی ہے۔ وہم اور شک تو ہر کوئی کرتا ہے تو کیا ہر وہم کرنے والا مدلس ٹھہرے گا؟؟
اور تو اور امام احمد نے ایک دوسری جگہ اس بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ روایت امام اعمش کے شک کی وجہ سے منقطع ہے نہ کہ تدلیس کی وجہ سے، چنانچہ امام ابو داؤد السجستانی فرماتے ہیں:
"سمعت أحمد، يقول في حديث الأعمش، عن إبراهيم " أن رجلا ضحك خلف النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يعيد الوضوء والصلاة , قال أحمد: يقول الأعمش: أرى إبراهيم، قال: يعلم أنه ليس من حديث إبراهيم المشهور، يعني بقوله: لما قال وأبهم، يعني: بقوله أرى" میں نے احمد کو اعمش کی ابراہیم سے حدیث کے متعلق کہتے سنا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پیچھے نماز کے دوران ہنس پڑا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے وضوء اور نماز دونوں کو دہرانے کا حکم دیا۔ امام احمد کہتے ہیں کہ اعمش نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے کہ میرا خیال ہے ابراہیم نے اسے روایت کیا ہے۔ نیز احمد نے کہا: اعمش کو اس بات کا علم تھا کہ یہ حدیث ابراہیم کی مشہور حدیث میں سے نہیں ہے یعنی اعمش کے وہم کرنے کی وجہ سے یعنی ان کے 'میرا خیال ہے' کہنے کی وجہ سے۔ (مسائل الامام احمد روایۃ ابی داود السجستانی: 1/414-415)۔

لہٰذا اس حدیث میں وجہِ انقطاع وہم ہے نہ کہ تدلیس۔

آگے شیخ زبیر اعمش کی ابو وائل سے تدلیس کے ثبوت کے لئے فرماتے ہیں:
"اعمش عن ابو وائل والی ایک روایت کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: نہ اسے ہشیم نے اعمش سے سنا ہے اور نہ اعمش نے اسے ابو وائل سے سنا ہے۔ (کتاب العلل: 2/252 ت 2155)"
امام اعمش نے اس حدیث میں بھی اصلا کوئی تدلیس نہیں کی ہے۔ امام احمد کے یہ کہنے کہ "اعمش نے اسے ابو وائل سے نہیں سنا" کی وجہ انہوں نے ایک دوسری روایت میں بیان کر دی ہے۔ چنانچہ مہنا فرماتے ہیں کہ میں نے احمد سے پوچھا کہ پھر یہ حدیث اعمش نے کس سے سنی ہے؟ تو امام احمد نے جواب دیا:
"كان الأعمش يرويه عن الحسن بن عمرو الفقيمي عن أبي وائل فخرج الحسن بن عمرو وجعله عن أبي وائل ولم يسمع منه" اعمش نے اس حدیث کو الحسن بن عمرو الفقیمی عن ابو وائل کے طریق سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے الحسن بن عمرو کو نکال دیا اور ابو وائل سے براہ راست روایت کر دی، اور یہ انہوں نے ان سے نہیں سنی۔ (جامع التحصیل: 1/189)۔

الغرض امام احمد کے مطابق یہ حدیث اعمش نے ابو وائل سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ ایک دوسرے طریق میں اعمش اور ابو وائل کے درمیان الحسن بن عمرو کا واسطہ موجود ہے۔ حالانکہ اس واسطہ کے ساتھ یہ سند ضعیف ہے لہٰذا اس ضعیف سند کی بناء پر اس کو منقطع کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
چنانچہ الحسن بن عمرو الفقیمی کی اس روایت کو امام ابن عدی نے الکامل میں اس طرح روایت کیا ہے:
"حدثنا ابن صاعد، حدثنا عبد الجبار بن العلاء، حدثنا عمرو بن عبد الغفار الفقيمي الكوفي لقيته بمكة، [ عن الأعمش ] (1) حدثنا الحسن بن عمرو عن شقيق بن سلمة، عن عبدا لله قال لقد رأيتني ما أكف شعرا، ولا ثوبا، ولا نتوضأ من موطىء." (الکامل لابن عدی: 6/253)۔
اس سند میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امام اعمش سے اس روایت کو واسطہ کے ساتھ روایت کرنے والا عمرو بن عبد الغافر الفقیمی ہے اور یہ ضعیف ہے اور امام ابن عدی نے بھی اس کی اعمش سے تمام روایات کو غیر محفوظ کہا ہے، چنانچہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی فرماتے ہیں: "وهذه الأحاديث، عن الأعمش غير محفوظة" اور یہ تمام روایتیں اعمش سے غیر محفوظ ہیں۔
لہٰذا کسی غیر محفوظ روایت میں وارد واسطے کی بنا پر بغیر واسطے والی روایت کو منقطع نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے یہاں امام اعمش پر تدلیس کا الزام غلط ہے۔

آخری مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر فرماتے ہیں:
"اعمش عن ابی وائل والی ایک روایت کے بارے میں ابو زرعہ الرازی نے فرمایا: "الأعمش ربما دلس" اعمش بعض اوقات تدلیس کرتے تھے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم: 1/14 ح 9)"
حالانکہ جس روایت کے تحت امام ابو زرعہ نے یہ کہا ہے وہ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے اور اس روایت میں امام اعمش نے ابو وائل سے ایک سے زائد مقامات پر سماع کی تصریح کر دی ہے مثلا دیکھئے مسند احمد (ح 23241، 23414)۔ اس کے علاوہ امام ابو زرعہ خود فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ان سے روایت کرنے والوں میں امام شعبہ، اورامام یحیی بن سعید القطان بھی شامل ہیں اور ان دونوں کی روایات اپنے شیوخ سے سماع پر محمول ہوتی ہیں، الغرض اس روایت کا شعبہ اور القطان سے ہونے کے باوجود بھی اگر امام ابو زرعہ نے اس میں اعمش کی تدلیس کا ذکر کیا ہے تو کیا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ شعبہ اور قطان کی روایات اعمش سے سماع پر محمول نہیں ہوتیں!؟ حالانکہ اس بات کے خود شیخ زبیر بھی قائل نہیں تھے۔ لہٰذا یہ سولہویں اور آخری مثال بھی صحیح نہیں ہے۔

شیخ زبیر نے امام اعمش کی ان تین شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے 16 مثالیں پیش کی ہیں اور حیرانگی کی بات ہے کہ ان سولہ کی سولہ مثالوں میں امام اعمش سے تدلیس کا ثبوت نہیں ملتا! لہٰذا امام ذہبی کی بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے اور اس کے خلاف اب تک ایک بھی مثال ایسی نہیں ملی جس میں واقعتا امام اعمش نے ان شیوخ سے تدلیس کی ہو! اور اگر ایک دو مثالیں مل بھی جائیں تو ان سے اس اصول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ مثالیں محض اس کلیہ سے مستثنیٰ ہوں گی۔

--------------------------------
(1) - الکامل میں "عن الاعمش" کا حوالہ چھوٹ گیا ہے جو کہ غلطی ہے جبکہ سیاق و سباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اعمش کا واسطہ موجود ہے۔ اور امام احمد کی بات بھی اس پر تائید کرتی ہے کہ اس حدیث کو اعمش کے زریعے حسن بن عمرو سے روایت کیا گیا ہے۔
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
امام اعمش رحمہ اللہ کے بعض اقوال وعقائد


1- عثام بن علی روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام اعمش کو کہتے سنا:
" إذا رأيت الشيخ، لم يقرأ القرآن، ولم يكتب الحديث، فاصفع له، فإنه من شيوخ القمر» . قال أبو صالح: قلت لأبي جعفر: ما شيوخ القمر؟ قال: شيوخ دهريون، يجتمعون في ليالي القمر، يتذاكرون أيام الناس، ولا يحسن أحدهم أن يتوضأ للصلاة"
"جب تم کسی عالم کو دیکھو کہ وہ قرآن کریم نہیں پڑھتا اور حدیث نہیں لکھتا تو اس سے دور رہو وہ شیخ القمر ہے۔" ابو صالح کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر (راوی) سے پوچھا: شیخ القمر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "شیخ القمر اُن دہریہ لوگوں کو کہتے ہیں جو چاندنی رات میں جمع ہو کر تاریخی واقعات میں بڑی دون کی لیتے ہیں اور مسائل دینیہ میں ان کی جہالت کا یہ حال ہوتا ہے کہ اچھی طرح وضوء کرنا بھی نہیں جانتے۔"
(شرف اصحاب الحدیث للخطیب: 1/67، والمحدث الفاصل: ص 306)​
2- امام اعمش نے فرمایا:
" إنما مثل أصحاب هذا الرأي مثل رجل خرج بليل، فرأى سوادا، فظن أنها تمرة فإن أخطأه يكون عقربا أو يكون جرو كلب"
"اصحاب الرائے کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے جو رات کے اندھیرے میں باہر نکلتا ہے تو ایک کالی چیز پر اس کی نظر پڑتی ہے اور سوچتا ہے کہ یہ کھجور ہے اگرچہ وہ غلط نکلے اور وہ چیز بچھو یا کتے کا پلہ ہو۔"
(الابانہ الکبری لابن بطہ: 1/423)​
3- ابو ہریرہ المکتب حباب بیان کرتے ہیں کہ:
"كنا عند الأعمش فذكروا عمر بن عبد العزيز وعدله، فقال الأعمش: " فكيف لو أدركتم معاوية؟ قالوا: يا أبا محمد، يعني في حلمه؟ قال: لا والله، ألا بل في عدله ""
"ہم اعمش کے پاس بیٹھے تھے کہ بعض لوگوں نے عمر بن عبد العزیز اور ان کے عدل کا ذکر چھیڑا تو اعمش نے کہا: تمہاری حالت کیسی ہوتی اگر تم معاویہ کو پا لیتے؟ تو لوگوں نے پوچھا اے ابو محمد، آپ کا مطلب ان کے حلم سے ہے؟ کہا نہیں اللہ کی قسم بلکہ میرا مطلب ان کے عدل سے ہے۔"
(السنہ لابی بکر بن خلال: 1/437، والمنہاج لابن تیمیہ: 6/233، واسنادہ صحیح الی ابو ہریرہ)​
اس سے معلوم ہوا کہ امام اعمش تمام صحابہ کی عزت کرتے تھے اور کسی پر ملامت نہیں کرتے تھے حتی کہ معاویہ پر بھی نہیں رضی اللہ عنہ اور انہیں عادل جانتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تشیع کس قدر ہلکا تھا، اگر واقعتا ان کا شیعہ ہونا ثابت ہے تو۔
4- امام لالکائی اپنی سند سے محمد بن احمد بن عمرو بن عیسی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے اپنے والد کو کہتے سنا:
"ما رأيت مجلسا يجتمع فيه من المشايخ أنبل من مشايخ اجتمعوا في مسجد جامع الكوفة في وقت الامتحان فقرئ عليهم الكتاب الذي فيه المحنة فقال أبو نعيم: أدركت ثمانمائة شيخ ونيفا وسبعين شيخا -منهم الأعمش فمن دونه- فما رأيت خلقا يقول بهذه المقالة -يعني بخلق القرآن- ولا تكلم أحد بهذه المقالة إلا رمي بالزندقة، فقام أحمد بن يونس فقبل رأس أبي نعيم وقال: جزاك الله عن الإسلام خيرا"
"میں نے کوئی ایسی مجلس نہیں دیکھی جس میں ایسے باوقار مشائخ جمع ہوتے ہوں جیسے کوفہ کی جامع مسجد میں آزمائش کے وقت ہوئے تھے۔ ان پر ایک کتاب قراءت کی گئی جس میں آزمائش کا ذکر تھا تو ابو نعیم نے فرمایا: میں نے آٹھ سو ستر اور کچھ شیوخ سے ملاقات کی ہے – جن میں ایک اعمش بھی شامل ہیں – پس میں نے کسی مخلوق کو بھی قرآن کے مخلوق ہونے کا یہ مقالہ کہتے نہیں سنا، اور جو کوئی بھی اس مقالے کو کہتا تھا وہ اس کو زندیق کہتے تھے۔" یہ سن کر احمد بن یونس کھڑے ہوئے اور ابو نعیم کا سر چوما اور کہا: اللہ تمہیں اسلام کا بہترین اجر دے۔
(شرح اصول الاعتقاد: 2/304)​
5- امام جریر بن عبد الحمید روایت کرتے ہیں کہ:
"«الإيمان قول وعمل»، وكان الأعمش ومنصور ومغيرة وليث وعطاء بن السائب وإسماعيل بن أبي خالد وعمارة بن القعقاع والعلاء بن المسيب وابن شبرمة وسفيان الثوري وأبو يحيى صاحب الحسن وحمزة الزيات يقولون: «نحن مؤمنون إن شاء الله، ويعيبون على من لا يستثني»"
"ایمان قول وعمل کا نام ہے۔ امام اعمش، منصور، لیث، عطاء بن السائب، اسماعیل بن ابی خالد، عمارہ بن القعقاع، علاء بن مسیب، ابن شبرمہ، سفیان الثوری، ابو یحیی صاحب الحسن، اور حمزہ الزیات کہا کرتے تھے تھے کہ 'اگر اللہ نے چاہا تو ہم مؤمن ہیں' اور وہ ان لوگوں پرعیب جوئی کیا کرتے تھے جو (ایمان میں) استثناء کے قائل نہ تھے۔"
(السنہ لعبد اللہ: 94، الابانہ: 2/1194، الشریعہ: 1/313/300)​
6- سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ امام اعمش نے فرمایا:
"كنا نعد أهل السوق شرارنا وإنا لنعدهم اليوم خيارنا"
"بازاروں میں رہنے والے لوگوں کو ہم سب سے شریر جانتے تھے، لیکن آجکل (لوگوں کہ کیا ہو گیا ہے کہ) انہیں سب سے اچھے لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔"
(حلیۃ الاولیاء: 5/50، واسنادہ صحیح)​
7- حمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے اعمش کو کہتے سنا:
"لا تنثروا اللؤلؤ تحت أظلاف الخنازير"
"موتیوں کو سُوروں کے پاؤں تلے مت روندو" یعنی ان لوگوں میں علم کو رسوا نہ کرو جو اس کے اہل ہی نہیں۔
(حلیۃ الاولیاء: 5/52، واسنادہ صحیح)​
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
امام اعمش رحمہ اللہ کی وفات


امام ذہبی فرماتے ہیں: "قالوا: مات الأعمش في ربيع الأول، سنة ثمان وأربعين ومائة، بالكوفة" محدثین نے کہا ہے کہ اعمش نے ربیع الاول سن 148 ھ کو کوفہ میں وفات پائی۔
(سیر اعلام النبلاء: 6/245)​
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جزاکم اللہ خیرا۔
بہت علمی ،مدلل اورمفید مضمون ہے۔
اللہ رب العالمین آپ کی اس محنت کوقبول فرمائے ۔اورآپ کے لئے ذخیرہ آخرت بنائے آمین۔
امید ہے کہ دیگر رجال سےمتعلق بھی اس طرح کے مضامین لکھنے کی کوشش کریں گے۔
بارک اللہ فیکم۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
جزاکم اللہ خیرا۔
بہت علمی ،مدلل اورمفید مضمون ہے۔
اللہ رب العالمین آپ کی اس محنت کوقبول فرمائے ۔اورآپ کے لئے ذخیرہ آخرت بنائے آمین۔
امید ہے کہ دیگر رجال سےمتعلق بھی اس طرح کے مضامین لکھنے کی کوشش کریں گے۔
بارک اللہ فیکم۔
آمین - ان شاء اللہ
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم
امام اعمش کی اگر ابو صالح سے روایت سماع پر محمول ہیں۔ جیساکہ اس بات پر زور دیا گیا ھے اسی مضمون میں۔
تو مالک الدار والی روایت میں سے آپ لوگوں کا یہ اعتراض تو ھٹ جاتا ھے پھر ؟
@کفایت اللہ
@رضا میاں
 
Top