• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امانت داری-1

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امانت داری-1

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قال الصلوۃ امانۃ والوضوء امانۃ والکیل امانۃ۔
نماز امانت ہے، وضو امانت ہے، اور ناپ تول بھی امانت ہے۔
اور بہت سی چیزیں گن کر فرمایا:
واشد ذلک الودائع۔
اور ان سب سے زیادہ سخت معاملہ امانت کی چیزوں کا ہے۔
راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو براء بن عازبؓ صحابی کو سنایا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی اور فرمایا:
اما سمعت اللہ یقول: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۔ (احمد، بیہقی، ترغیب)
کیا تم نے قرآن مجید کی اس آیت کو نہیں سنا کہ اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو ادا کر دو۔
رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بیان فرمائی ہے:
اذا ضیعت الامانۃ فانتظر الساعۃ۔ (بخاری)
جب امانت ضائع کر دی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرنا چاہیے کہ وہ قریب ہی آگئی ہے۔
کسی نے کہا کہ امانت کس طرح ضائع ہو گی؟ آپ نے فرمایا:
اذا وسد الامر الی غیر اھلہا۔ (بخاری)
جبکہ حکومت اور دیگر انتظامات، ہر قسم کے ادارے نااہل لوگوں کے حوالہ کر دی جائے جو کہ رعایا کے حق امانت کو نہ ادا کرے۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ سب سے اچھا میرا زمانہ ہے پھر وہ زمانہ ہے جو اس کے بعد آئے گا۔ پھر ایسا زمانہ آئے گا:
یشھدون ولا یستشھدون ویخونون ولا یوتمنون و ینذرون ولا یوفون یظھر فیھم السمن۔ (بخاری، مسلم)
لوگ بغیر گواہ بنائے گواہی دیں گے اور امانتوں میں خیانت کریں گے اور امانتداری نہیں کریں گے اور نذریں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے۔
اور ان میں موٹا پن خوب ظاہر ہوگا۔ آخرت سے غافل ہوں گے، اس بے فکری کی وجہ سے خوب فربہ ہوں گے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ بھی ایک قسم کی خیانت ہے کہ کسی قوم میں شامل ہو کر پوشیدہ طور پر اس کی تخریب میں کوشاں رہنا، جس طرح منافقین کیا کرتے تھے کہ ظاہر میں مسلمانوں میں شامل تھے اور جب مسلمانوں سے ملتے جلتے تو کہتے ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب اسلام کے دشمنوں سے ملتے تو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے تھے، اسی لیے اللہ تعالی نے انھیں منافق فرمایا اور ان کی چالاکیوں اور مکاریوں سے نبی ﷺ کو خبردار کرتا رہتا تاکہ آپ ان کے دام تزدیر میں نہ پھنسیں۔ اسی لیے ان کی چال کارگر نہ ہوتی تھی اور ہمیشہ ان کا مکرو دجل ظاہر ہو جاتا تھا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَیَ خَآئِنَۃٍ مِّنْہُمْ ۔ (مائدہ)
اور آپ ہمیشہ ان کی خیانت پر مطلع ہوتے رہیں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کسی کی قابل اعتماد چیز کو پورانہ کرنا بھی خیانت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی صفائی کرانے کے بعد فرمایا:
ذَلِکَ لِیَعْلَمَ اِنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ۔ (یوسف:۵۲)
یہ اسی لیے کیا تاکہ عزیز کو معلوم ہو جائے کہ میں نے چوری چھپے اس کی خیانت نہیں کی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت نوع علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی نے اپنے اپنے بزرگ شوہروں سے جو غداری کی تو ان کی یہ غداری تھی کہ ان پر ایمان نہیں لائیں اور ہمیشہ کافروں کا ساتھ دیتی رہیں۔ آخر اس کے بدلہ میں عذاب خداوندی میں گرفتار ہوئیں۔
ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَیْئاً وَ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْن۔ (التحریم:۱۰)
اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کی کہ یہ دونوں عورتیں ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں تو ان دونوں نے اپنے اپنے خاوندوں کی خیانت کی۔ تو یہ دونوں پیغمبر ہو کر بھی اپنی بیویوں کو خدا کے عذاب سے کچھ بھی نہ بچا سکے۔ بلکہ وہ خدا کے رسول کی خیانت کی وجہ سے عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جو کسی چیز میں خیانت کرے گا قیامت کے روز خیانت کردہ چیزوں کو اپنی کمر پر لادے ہوئے خدا کے سامنے پیش ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ o (آل عمران:۱۶۱)
جو شخص خیانت کرے گا وہ خیانت کردہ چیز قیامت کے دن لے کر آئے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ذرہ برابر حق تلفی نہ کی جائے گی۔
اس آیت کریمہ کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ وعظ فرمانے کے لیے کھڑے ہو گئے تو آپﷺ نے اس وعظ میں خیانت وغلول کا ذکر خصوصیت سے فرمایا اور اس کا گناہ اور اس کی بہت بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ:
’’میں تم کو قیامت کے دن اس حال میں ہرگز نہ پائوں کہ تم میں کوئی اپنی گردن پر اونٹ لادے ہوئے آرہا ہو، اور وہ بلبلاتا ہو گا یعنی غنیمت وغیرہ کے مال میں سے اونٹ کی خیانت کی ہو گی اور چرالیا ہو گا تو اس اونٹ کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے میرے سامنے سفارش کے لیے آئے گا اور کہے گا یارسول اللہ! میری امداد فرمائیے۔ تو اس وقت میں اس کو صاف جواب دے دوں گا کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں اور نہ تیری امداد کر سکتا ہوں، دنیا میں میں نے یہ بات پہنچا دی تھی کہ جو چوری اور خیانت کرے گا وہ اسی چیز کو لے کر حاضر ہو گا قیامت کے دن میں اس کی حمایت نہیں کروں گا اور ہرگز نہ پائوں میں تم میں سے کسی کو اس حال میں کہ وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر گھوڑا لیے آرہا ہو اور گھوڑا ہنہنا کر آواز کرتا ہو، تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ چوری کا گھوڑا ہے۔ وہ میرے پاس آکر کہے گا کہ یارسول اللہ! میری امداد کیجئے تو میں اس سے کہوں گا کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں دنیا میں تجھ کو یہ حکم پہنچا چکا تھا۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا:
’’میں تم کو ہرگز نہ پائوں کہ قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لادے ہوئے آرہا ہو اس بکری کے لیے آواز ہو گی۔ وہ میرے پاس آئے گا اور کہے گا کہ یارسول اللہ! آپ میری امداد فرمائیں۔ میں کہوں گا تیرے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں یہ حکم تم کو پہنچا چکا تھا۔‘‘
پھر فرمایا:
میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پائوں کہ وہ قیامت کے دن کسی غلام وغیرہ کو لادے ہوئے ہو گا اور وہ چیختا ہو ا ہو گا۔ میرے پاس آکر کہے گا یارسول اللہ! میری امداد کیجئے۔ میں کہوں گا، تیرے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں تجھے یہ حکم دنیا میں پہنچا چکا تھا۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا:
کہ میں ہرگز نہ پائوں تم کو اس حالت میں کہ قیامت کے دن اپنی گردن پر کپڑا لادے ہوئے آئے گا۔ یعنی دنیا میں اس نے غنیمت کے مال میں سے کپڑے کی خیانت کر لی تھی، یا کسی کا کپڑا چرا لیا تھا یا بغیر حق کے غیروںکے کپڑے پہنے تھے۔ وہ کپڑے ہلتے اور حرکت کرتے ہوں گے۔ وہ کہے گا یارسول اللہﷺ! میری امداد کیجئے۔ میں کہوں گا۔ تیرے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا ہوں۔ میں یہ حکم دنیا میں پہنچا چکا تھا۔‘‘
پھر فرمایا:
’’میں تم کو قیامت کے دن اس حالت میں نہ پائوں کہ وہ اپنی گردن پر بے زبان چیزیں مثلاً سونا چاندی وغیرہ لادے ہوئے آئے گا۔ وہ کہے گا یارسول اللہ! میری امداد کیجئے۔ تو میں کہوں گا کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے دنیا میں یہ حکم تجھ کو پہنچا دیا تھا۔‘‘ (بخاری، مسلم)۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ جب جہاد میں غنیمت کا مال حاصل ہو تا تھا تو آپﷺ حضرت بلال کو اشارہ فرماتے کہ لشکر میں اعلان کر دو، جس کے پاس غنیمت کے مال میں سے کچھ بھی ہو وہ لا کر جمع کر دے۔ چنانچہ سب لا کر جمع کر دیتے۔ آپ پانچواں حصہ نکال کر باقی سب میں تقسیم فرما دیتے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق پیش آیا کہ آپ کے تقسیم کرنے کے بعد ایک صاحب بال کی لگام لیے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ غنیمت میں سے لے لیا تھا۔ آپ نے فرمایا:
اماسمعت بلالا نادی ثلاثا۔
کیا تم نے بلالؓ کی تین دفعہ منادی سنی تھی!
اس نے کہا یارسول اللہﷺ! سنی تھی۔ آپ نے فرمایا اس وقت لانے سے کسی نے منع کیا تھا! اس نے کوئی معذرت بیان کی جو قابل قبول نہیں تھی۔ آپﷺ نے فرمایا:
کن انت تجیء بہ یوم القیامۃ فلم اقبلہ عنک۔ (ابوداؤد)
تو اسی طرح رہ۔ یعنی تم اس کو اپنے پاس رکھو قیامت کے دن اس کو لائو گے۔ آج میں اسے قبول نہیں کرتا۔
کیونکہ سب مال غنیمت تقسیم ہو چکا۔ اب یہ کس کس کو دیا جائے گا۔
اسی طرح آپ کے ایک خادم نے ایک مرتبہ غنیمت سے ایک چادر چرا لی تھی۔ جہاد میں تیر لگنے سے شہید ہو گیا۔ لوگوں نے اس کی شہادت پر مبارک باد دی کہ جنت مبارک ہو۔ یعنی شہید ہو گیا۔ جنت میں جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کلا والذی نفسی بیدہ ان الشملۃ التی اخذھا یوم خیبرمن المغانم لم تصبھا المقاسم لتشتعل علیہ نارا۔ (بخاری)
ہرگز نہیں! خدا کی قسم! جس چادر کو خیبر کی جنگ میں اس نے چرایا ہے اور وہ تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ وہ چادر اس غلام پر دوزخ کی آگ بھڑکا رہی ہے۔
یعنی ایک چادر کی خیانت کی وجہ سے وہ دوزخ میں گیا۔ جب لوگوں نے اس کو سنا، ایک صاحب اٹھے، چمڑے کے ایک یا دو تسمے آنحضرت کے سامنے لا کر پیش کر دئیے۔ آپ نے فرمایا یہ ایک یا دو آگ کے تسمے ہیں۔‘‘ (بخاری)


بحوالہ: اسلامی خطبات۔ از مولانا عبدالسلام بستوی رحمہ اللہ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غنیمت کے ایک اونٹ کے چند بال لے کر فرمایا۔ اس میں میرا بھی وہی حق باقی ہے جو تمھارا ہے۔ خیانت سے بچو۔ خیانت کرنے والوں کی رسوائی قیامت کے دن ہو گی۔ سوئی دھاگے تک کو پہنچا دو۔ اور اس سے حقیر چیز بھی۔ خدا کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو۔ وطن میں بھی اور سفر میں بھی۔ جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ جہاد کی وجہ سے اللہ تعالی مشکلات اور رنج وغم سے نجات دیتا ہے۔ خدا کی حدیں نزدیک اور دور والوں میں جاری کرو۔ خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تم کو نہ روکے۔ (مسند احمد)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دین سارے کا سارا امانت ہے
اللہ مالک کا فرمان ہے :
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿٧٢﴾

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وه بڑا ہی ﻇالم جاہل ہے (72)
 
Top