محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر
اعتراض : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر 6سال تھی جب ان سے خلوت کی گئی تو عمر 9سال تھی ۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح صفحہ: 75) (اسلام کے مجرم صفحہ: 31)
ازالہ : ڈاکٹر شبیر اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
''قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے قرآن نکاح کو انتہائی سنجیدہ معاہدہ کہتا ہے بچے سنجیدہ معاہدہ کیسے کرسکتے ہیں اگر آپ کی بیٹی یا بہن 6یا 9سال کی ہے تو آپ اس موضوعہ روایت کا زہر محسوس کرسکتے ہیں''۔ (اسلام کے مجرم صفحہ :31)
ازالہ:۔
زیر بحث روایت صحیح بخاری میں موجود ہے جو کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ عائشہ کا اپنا قول ہے کہ:
أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین وبنی بھا وھی بنت تسع سنین (صحیح بخاری کتاب النکاح باب تزویج الأب ابنة من الامام رقم الحدیث5134)
'' عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور نو برس کی عمر میں رخصتی کی گئی ''
(1) روایت کا ترجمہ کرتے وقت ڈاکٹر شبیرنے بنٰی کا ترجمہ خلوت کیا ہے جو کہ غلط ہے بنٰی کا معنی رخصتی ہے نہ کہ خلوت (النھایہ فی غریب الحدیث جلد 1صفحہ156)
(2) اس روایت کوڈاکٹرشبیرنے موضوع کہا ہے جبکہ ڈاکٹر موصوف جو جرح وتعدیل کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور صحیح روایت کو اپنے مبلغ علم کی بنیا د پر ضعیف بھی نہیں بلکہ موضوع (من گھڑت ) قرار دے رہے ہیں ؟
(3) کیاسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بوقت رخصتی نابالغہ تھیں اور اگر نا بالغہ تھیں تو قرآن نے کہاں نابالغہ سے نکاح ممنوع قرار دیا ہے :
(4) ڈاکٹر شبیرتحریر فرماتے ہیں :''قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے''۔ ھٰذا بھتان عظیم ۔ قرآن حکیم میں ا یسا حکم کہیں موجودنہیں۔ حالانکہ قرآن مجید تو اس کے بالکل برعکس اصول بیان کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
''اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے ما یوس ہوچکی ہیں اگرتمھیں کچھ شبہ ہو تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی کہ جنھیں ابھی حیض شروع نہ ہوا ہو ۔''(سورة الطلاق ۔آیت :4)
مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العالمین عدت کے قوانین بیان کررہا ہے کہ ،
(1) وہ عورتیں جنھیں حیض آنا بند ہوگیا ہو ۔ان کی عدت تین ماہ ہے ۔
(2) وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے (یعنی جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں)۔
قارئین کرام !.
عورت پر عدت کے احکام خاوند کے انتقال کے بعد اور یا جب طلاق مل جائے اور یا وہ خلع حاصل کرے اس وقت لاگو ہوتے ہیں ۔
اب وہ لڑکی جس کو ابھی حیض نہیں آیا (یعنی بالغ نہیں ہوئی ) نکاح کے بعد اس کی عدت کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور عدت منکوحہ کے لئے ہے لہٰذا کم سن کا نکاح اور عدت کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر بھی وارد ہوتا ہے ۔
مزید برآں :
ہر ملک وعلاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ وروپ ،جسمانی وجنسی بناوٹ اورعادت واطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاوت و فرق ہوتا ہے ۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہوجاتی ہے ۔ مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے ۔وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جوکہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لئے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا 9سال کی عمر میں بالغ ہوجانا بعید از عقل نہیں ۔ کیونکہ اسلاف نے ایسے بہت سے واقعات نقل فرمائے ہیںجو منکرین حدیث سے اوجھل ہیں صرف امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا قصہ ہی کیوں زیر بحث ہے حالانکہ کئی حوالے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں پہلے بھی اس قسم کے بہت سارے معاملات ہوچکے ہیںاور اب بھی اخباروں میں اس قسم کی خبریں موجود ہیں ۔ عرب کے معاشرے میں نو (9) سال کی عمر میں بچہ جنم دینا اور اس عمر میں نکاح کرنارواج تھاپر ان لوگوں کے لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔مثلاً ،
(1) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلاالنبلاء جلد7رقم1627) یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔
(2) عبداللہ بن عمر و اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے ۔( تذکرة الحفاظ جلد1ص93)
(3) ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی ۔ (الضعفاء للعقیلی جلد4رقم 1583، تاریخ بغداد 222/1)
(4) عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایاکہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی ۔ (کامل لابن عدی جلد5ر قم 1015)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بن عامر سے کرائی (تاریخ ابن عساکر جلد70) ۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا ۔(سنن دارقطنی جلد3کتاب النکاح رقم 3836) ان دلائل کے علاوہ اور بھی بے شماردلائل موجود ہیں جو کہ طالب حق کے لئے کافی اور شافی ہونگے ۔ ان شاء اللہ ۔
ماضی قریب میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہواکہ 8سال کی بچی حاملہ ہوئی اور 9سال کی عمر میں بچہ جنا ۔ (روزنامہ DAWN 29 مارچ1966) دور حاضر کے نامور اسلامک اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ایک انٹر ویو میں فرماتے ہیں : ''حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک وشبہات تھے۔بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً 9سال تھی اور اسے حیض آرہے تھے۔ تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آگیا ''۔(ARYپر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ ایک نشست( علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں 16اپریل 1986ء کوایک خبر مع تصویرکے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی۔ (روزنامہ آغاز میں یکم اکتوبر 1997کوایک خبر چھپی کہ (ملتان کے قریب ایک گاؤں میں)ایک آٹھ سالہ لڑکی حاملہ ہوگئی ہے اور ڈاکٹروں نے اس خدشہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ زچکی کے دوران ہلاک ہوجائے.پھر 9دسمبر 1997کو اسی اخبار میں دوسری خبر چھپی کہ ''ملتان (آغاز نیوز) ایک آٹھ سالہ پاکستانی لڑکی نے ایک بچہ کو جنم دیا ہے. ڈاکٹروں نے گزشتہ روز بتایا ہے کہ بچہ صحت مند ہے ۔) قرآن میں اللہ رب العالمین نے نوح علیہ السلام کی طویل العمری کا ذکر فرمایا ہے کہ :
فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَة ِلَّا خَمْسِیْنَ عَاماً (سورة العنکبوت ۔آیت 14)
''نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال ٹھہرے ''
یہ بات بھی ناقابل اعتبار اور عقل کے خلاف نظر آتی ہے تو اس کا آپ کیا جواب دیں گے ؟ پس جو جواب آپ دیں گے وہی جواب اس حدیث کا بھی سمجھ لیں ۔
فماکان جوابکم فھوجوابنا فللہ الحمد
بشکریہ ۔۔۔دفاع حدیث ڈاٹ کام