• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اماں عا ئشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی نکاح کے وقت عمر پر ڈاکٹر شبیر کا اعتراض اور اُس کا جواب

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر


اعتراض : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر 6سال تھی جب ان سے خلوت کی گئی تو عمر 9سال تھی ۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح صفحہ: 75) (اسلام کے مجرم صفحہ: 31)

ازالہ : ڈاکٹر شبیر اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

''قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے قرآن نکاح کو انتہائی سنجیدہ معاہدہ کہتا ہے بچے سنجیدہ معاہدہ کیسے کرسکتے ہیں اگر آپ کی بیٹی یا بہن 6یا 9سال کی ہے تو آپ اس موضوعہ روایت کا زہر محسوس کرسکتے ہیں''۔ (اسلام کے مجرم صفحہ :31)

ازالہ:۔

زیر بحث روایت صحیح بخاری میں موجود ہے جو کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ عائشہ کا اپنا قول ہے کہ:

أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین وبنی بھا وھی بنت تسع سنین (صحیح بخاری کتاب النکاح باب تزویج الأب ابنة من الامام رقم الحدیث5134)

'' عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور نو برس کی عمر میں رخصتی کی گئی ''

(1) روایت کا ترجمہ کرتے وقت ڈاکٹر شبیرنے بنٰی کا ترجمہ خلوت کیا ہے جو کہ غلط ہے بنٰی کا معنی رخصتی ہے نہ کہ خلوت (النھایہ فی غریب الحدیث جلد 1صفحہ156)

(2) اس روایت کوڈاکٹرشبیرنے موضوع کہا ہے جبکہ ڈاکٹر موصوف جو جرح وتعدیل کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور صحیح روایت کو اپنے مبلغ علم کی بنیا د پر ضعیف بھی نہیں بلکہ موضوع (من گھڑت ) قرار دے رہے ہیں ؟

(3) کیاسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بوقت رخصتی نابالغہ تھیں اور اگر نا بالغہ تھیں تو قرآن نے کہاں نابالغہ سے نکاح ممنوع قرار دیا ہے :

(4) ڈاکٹر شبیرتحریر فرماتے ہیں :''قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے''۔ ھٰذا بھتان عظیم ۔ قرآن حکیم میں ا یسا حکم کہیں موجودنہیں۔ حالانکہ قرآن مجید تو اس کے بالکل برعکس اصول بیان کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

''اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے ما یوس ہوچکی ہیں اگرتمھیں کچھ شبہ ہو تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی کہ جنھیں ابھی حیض شروع نہ ہوا ہو ۔''(سورة الطلاق ۔آیت :4)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العالمین عدت کے قوانین بیان کررہا ہے کہ ،

(1) وہ عورتیں جنھیں حیض آنا بند ہوگیا ہو ۔ان کی عدت تین ماہ ہے ۔

(2) وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے (یعنی جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں)۔

قارئین کرام !.

عورت پر عدت کے احکام خاوند کے انتقال کے بعد اور یا جب طلاق مل جائے اور یا وہ خلع حاصل کرے اس وقت لاگو ہوتے ہیں ۔

اب وہ لڑکی جس کو ابھی حیض نہیں آیا (یعنی بالغ نہیں ہوئی ) نکاح کے بعد اس کی عدت کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور عدت منکوحہ کے لئے ہے لہٰذا کم سن کا نکاح اور عدت کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر بھی وارد ہوتا ہے ۔

مزید برآں :

ہر ملک وعلاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ وروپ ،جسمانی وجنسی بناوٹ اورعادت واطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاوت و فرق ہوتا ہے ۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہوجاتی ہے ۔ مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے ۔وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جوکہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لئے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا 9سال کی عمر میں بالغ ہوجانا بعید از عقل نہیں ۔ کیونکہ اسلاف نے ایسے بہت سے واقعات نقل فرمائے ہیںجو منکرین حدیث سے اوجھل ہیں صرف امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا قصہ ہی کیوں زیر بحث ہے حالانکہ کئی حوالے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں پہلے بھی اس قسم کے بہت سارے معاملات ہوچکے ہیںاور اب بھی اخباروں میں اس قسم کی خبریں موجود ہیں ۔ عرب کے معاشرے میں نو (9) سال کی عمر میں بچہ جنم دینا اور اس عمر میں نکاح کرنارواج تھاپر ان لوگوں کے لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔مثلاً ،

(1) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلاالنبلاء جلد7رقم1627) یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔

(2) عبداللہ بن عمر و اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے ۔( تذکرة الحفاظ جلد1ص93)

(3) ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی ۔ (الضعفاء للعقیلی جلد4رقم 1583، تاریخ بغداد 222/1)

(4) عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایاکہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی ۔ (کامل لابن عدی جلد5ر قم 1015)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بن عامر سے کرائی (تاریخ ابن عساکر جلد70) ۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا ۔(سنن دارقطنی جلد3کتاب النکاح رقم 3836) ان دلائل کے علاوہ اور بھی بے شماردلائل موجود ہیں جو کہ طالب حق کے لئے کافی اور شافی ہونگے ۔ ان شاء اللہ ۔

ماضی قریب میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہواکہ 8سال کی بچی حاملہ ہوئی اور 9سال کی عمر میں بچہ جنا ۔ (روزنامہ DAWN 29 مارچ1966) دور حاضر کے نامور اسلامک اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ایک انٹر ویو میں فرماتے ہیں : ''حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک وشبہات تھے۔بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً 9سال تھی اور اسے حیض آرہے تھے۔ تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آگیا ''۔(ARYپر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ ایک نشست( علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں 16اپریل 1986ء کوایک خبر مع تصویرکے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی۔ (روزنامہ آغاز میں یکم اکتوبر 1997کوایک خبر چھپی کہ (ملتان کے قریب ایک گاؤں میں)ایک آٹھ سالہ لڑکی حاملہ ہوگئی ہے اور ڈاکٹروں نے اس خدشہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ زچکی کے دوران ہلاک ہوجائے.پھر 9دسمبر 1997کو اسی اخبار میں دوسری خبر چھپی کہ ''ملتان (آغاز نیوز) ایک آٹھ سالہ پاکستانی لڑکی نے ایک بچہ کو جنم دیا ہے. ڈاکٹروں نے گزشتہ روز بتایا ہے کہ بچہ صحت مند ہے ۔) قرآن میں اللہ رب العالمین نے نوح علیہ السلام کی طویل العمری کا ذکر فرمایا ہے کہ :

فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَة ِلَّا خَمْسِیْنَ عَاماً (سورة العنکبوت ۔آیت 14)

''نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال ٹھہرے ''

یہ بات بھی ناقابل اعتبار اور عقل کے خلاف نظر آتی ہے تو اس کا آپ کیا جواب دیں گے ؟ پس جو جواب آپ دیں گے وہی جواب اس حدیث کا بھی سمجھ لیں ۔

فماکان جوابکم فھوجوابنا فللہ الحمد
بشکریہ ۔۔۔دفاع حدیث ڈاٹ کام
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
جزاک اللہ خیرا
یہ دو ویڈیوز بھی کچھ ثبوت کے لیے

[video=youtube;HAp20je2viU]http://www.youtube.com/watch?v=HAp20je2viU&feature=player_embedded[/video]

[video=youtube;2A7YECwPaMc]http://www.youtube.com/watch?v=2A7YECwPaMc&feature=player_embedded[/video]
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
ڈاکٹر شبیر کا استدلال درست ہے، بجائے اسکے آپ روایت کو خلاف قرآن قرار دیں ، آپ الطلاق کی آیت سے غلط استدلال اخذ کررہے ہیں

ڈاکٹر شبیر کا استدلال درست ہے، بجائے اسکے آپ روایت کو خلاف قرآن قرار دیں ، آپ الطلاق کی آیت سے غلط استدلال اخذ کررہے ہیں۔
کیونکہ اس آیت میں ان خواتین کا ذکر ہے جنہیں کسی بیماری یا ضیف العمری کی وجہ سے حیض نہیں ہورہا۔
رہ گیا آپ کا یہ سوال کہ نکاح کے لیے قرآن سے بلوغت کی شرط دکھائیں تو وہ ہم آپ کو دکھا دیتے ہیں
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبً (سورۃ النساء آیت نمبر چھ)

اور یتمیوں کو پرکھتے رہو یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے

اب آپ کا یہ اشکال کہ مختلف آب و ہوا والے علاقوں میں لڑکیوں کی سن بلوغت تک پہنچنے کی عمر مختلف ہوتی ہے ، محض غلط نگہی پر مبنی اور کٹ حجتی ہے۔ اور عملی زندگی میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اور نہ ہی اسکی مثال ملتی ہے۔کیا جیکب آباد اور نواب شاہ میں "نو سال" کی بچی کی رخصتی کردی جاتی ہے؟ عرب کی آب و ہوا اب بھی ویسی ہے ، بلکہ اس کی حدت میں تو اور اضافہ ہوا ہے، کیا آج بھی عرب ابھی "نو سال"کی بیٹیوں کی رخصتی کرتے ہیں؟؟؟ مزید برآں اس معاملے کا صرف یہی ایک پہلو نہیں ، اس کا ایک دوسرا خطرناک پہلو جناب محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات اقدس پر لگنے والا داغ بھی ہے۔ کیونکہ اگر حضرت عائشہ کی عمر "نو سال" تھی تو نکاح کے وقت نبی آخرالزمان کی عمر تریپن برس کی تھی۔ فرض کیجیے اگر آج کے اس دور میں اتنی عمر کا کوئی شخض "نو سال " کی بچی سے نکاح کرکے اس سے خلوت کرتا ہے، کیا وہ "اچھے کردار" کا حامل قرار پا سکتا ہے؟؟؟ بات تو واضح ہے، لیکن یہ ہماری بدقسمتی اور کند ذہنی ہے کہ ہم بجائے قرآن کا استدلال درست تسلیم کرنے کے ہم محض اپنے مروجہ عقائد کو درست ثابت کرنے کے لیے جتے ہوئے ہیں، اور کچھ نہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
عمران بھائی!
آپ کے نزدیک لڑکی کی بلوغت کا معیار کیاہے؟ کیا اس کے لئے کوئی عمر مقرر ہے؟ دنیوی قوانین کو الگ رکھتے ہوئے کیا آپ قرآن و حدیث سے یہ بتلا سکتے ہیں کہ لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتی ہے؟

میڈیکل سائنس کے مطابق جب لڑکی کے ایام شروع ہوجائیں تو وہ "بالغ" ہوجاتی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایام کب اور کیوں شروع ہوتے ہیں؟ اگر نہیں معلوم تو کسی بھی ڈاکٹر سے پوچھ لیں۔ ایام شروع ہونے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ لڑکی ماں بننے کے لئے تیار ہے۔ اور آج بھی کس عمر میں لڑکیوں کے ایام شروع ہوجاتے ہیں، یہ بات بھی آپ کسی ڈاکٹر یا خواتین سے معلوم کرسکتے ہیں۔
ایام کی صورت میں قدرت یہ "اعلان" کردیتی ہے کہ اس لڑکی میں ماں بننے کے لئے جن فزیولوجیکل عوامل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ پوری ہوگئی ہے۔ شادی کے لئے تین فیکٹرز کی ضرورت ہے نمبر ایک لڑکی کی بلوغت جو ایام کے جاری ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ نمبر دو لڑکی کی شادی کے لئے رضامندی نمبر تین اس کے والدین (ولی) کی رضامندی۔ اگر یہ تینوں عناصر مثبت طور پو موجود ہوں تو کسی بھی عمر میں شادی کی جاسکتی ہے۔
ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم 'جدیدیت' سے اتنے مرعوب بلکہ غلام ہیں کہ ہمیں نہ دنیا کی تاریخ نظر آتی ہے، نہ اسلام کی تاریخ۔ تاریخ عالم میں صرف چند صدی قبل کس عمر میں لڑکیوں کی شادیاں عام طور سے ہوجایا کرتی تھیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آج بھی قبائلی اور خاندانی روایات کے پابند معاشروں (مسلم، غیر مسلم دونوں) میں لڑکیوں کی شادیاں جلد از جلد ہوجاتی ہیں۔ اسلام ایک دین فطرت ہے۔ وہ لڑکے اور لڑکی میں بلوغت کے آثار کے بعد انہیں جلد از جلد حصار نکاح میں محفوظ کردینا چاہتا ہے تاکہ معاشرے میں جنسی انارکی نہ پھیلے۔
آپ طلاق کی آیت عدت کا من مانا مفہوم نہ نکالیں۔ اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جن خواتین کی کسی بیماری کی وجہ سے ایام شروع نہ ہوئے ہوں۔ نہ ہی کسی حدیث میں ایسی کوئی وضاحت موجود ہے
سُوۡرَةُ الطّلاَق
وَٱلَّـٰٓـِٔى يَٮِٕسۡنَ مِنَ ٱلۡمَحِيضِ مِن نِّسَآٮِٕكُمۡ إِنِ ٱرۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَـٰثَةُ أَشۡهُرٍ۬ وَٱلَّـٰٓـِٔى لَمۡ يَحِضۡنَ‌ۚ وَأُوْلَـٰتُ ٱلۡأَحۡمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ‌ۚ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجۡعَل لَّهُ ۥ مِنۡ أَمۡرِهِۦ يُسۡرً۬ا (٤)

سورة الطّلاَق
اور تمہاری عورتوں میں سے جن کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض نہیں آیا اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے اور جو الله سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے (۴)

Surah At-Talaq
And those of your women as have passed the age of monthly courses, for them the 'Iddah (prescribed periods), if you have doubt (about their period), is three months, and for those who have no courses [(i.e. they are still immature) their 'Iddah (prescribed period) is three months likewise, except in case of death][] . And for those who are pregnant (whether they are divorced or their husbands are dead), their 'Iddah (prescribed period) is until they laydown their burden, and whosoever fears Allâh and keeps his duty to Him, He will make his matter easy for him. (4)

قرآن کے بیشتر تراجم اٹھا کر دیکھ لیں، سب میں یہی لکھا ہے کہ اگر کم سنی کے سبب ابھی ماہواری شروع نہیں ہوئی تو بھی ان کی عدت تین ماہ ہے۔ واضح رہے کہ اگر نکاح کے بعد رخصتی، خلوت، مباشرت کے بغیر طلاق دی جائے تو ایسی مطلقہ کی کوئی عدت نہیں ہوتی۔ عدت تبھی لازم ہے جب شوہر نے مباشرت کی ہو۔

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا نَكَحۡتُمُ ٱلۡمُؤۡمِنَـٰتِ ثُمَّ طَلَّقۡتُمُوهُنَّ مِن قَبۡلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمۡ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ عِدَّةٍ۬ تَعۡتَدُّونَہَاۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحً۬ا جَمِيلاً۬ (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب ٤٩)

اے ایمان والو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں طلاق دے دو اس سے پہلے کہ تم انہیں چھوو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے کہ تم ان کی گنتی پوری کرنے لگو سو انہیں کچھ فائدہ دو اور انہیں اچھی طرح سے رخصت کر دو (سورة الاٴحزَاب ۴۹ )
اور قرآن نے ماہواری شروع نہ ہونے والی (نابالغ) لڑکی کی عدت کا ذکر کرکے یہ بھی بتلادیا ہے کہ ایسی لڑکی سے نہ صرف نکاح بلکہ مباشرت بھی جائز ہے۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
برادر یوسف ثانی صاحب،


اگر آپ سورۃ نساء کی آیت نمبر چھ کا مطالعہ بغور کرتے تو آپ کو بلوغت کی عمر کا اندازہ ہو جاتا، ایک بار پھر سے غور فرمائیے
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا
یتیموں کو پرکھتے رہو، یہاں تک کہ وہ شادی کرنے کی عمر کو پہنچیں یعنی جب تم ان میں سوچنے سمجنے کی صلاحیت پاؤ
اس آیت سے واضح ہے کہ قرآن کریم نکاح (شادی) کے لیے رشد (یعنی سوچنے سمجھنے اور اپنا نفع نقصان جاننے کی صلاحیت ) کو ضروری قرار دیتا ہے۔ کیا ایک "نو سال" کی بچی میں رشد موجود ہوتی ہے؟ اگر "نو سال" کی بچی اتنی ذہین ہوسکتی ہے اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگے تو آج کے علماء اپنی بیٹیوں کی شادی اسی عمر میں کرکے اس سنت کو زندہ کیوں نہیں کرتے؟؟؟

رہ گیا سورۃ طلاق کا معاملہ تو یہ ٹھیک ہے اس میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ "خون یعنی ماہواری " نہ آنے کی کیا وجہ ہے، لیکن یہ بھی تو نہیں لکھا ہوا کہ یہ نابالغ بچیاں ہیں، جنہیں "ماہواری" نہیں آتی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہم تصریف آیات کا سہارا لیتے ہیں کہ قرآن کریم میں نکاح اور طلاق کے لیے دیگر مقامات پر کیا کہا گیا ہے، اس ضمن میں ، ہم نے سورۃ نساء کی آیت نمبر چھ پیش کی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے نکاح کے لیے "رشد" کی عمر تک پہنچنا ضروری ہے، اور جب نکاح "رشد" تک کی عمر تک پہنچ کر ہوگا تو طلاق تو "نکاح"کے بعد ہی ہوتی ہے، لہذا اس آیت میں ماہوراری نہ آنے والی خواتین ظاہر ہے وہ ہیں ، جنہیں بیماری یا ضیف العمری کی وجہ سے ماہواری نہیں آتی۔

ثم تتفکروا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبً (سورۃ النساء آیت نمبر چھ)

۔ اور یتمیوں کو پرکھتے رہو
- یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں
- پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو
اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے

عمران بھائی! آپ ذرا خود انصاف سے دیکھیں کہ ان آیات میں کون سی بات، کس حوالہ سے کہی جارہی ہے۔
۔نکاح کے لئے صرف بلوغت کی بات ہو رہی ہے
اور یتیم کا مال، یتیم کے حوالہ کر نے کے لئے بلوغت کے ساتھ ساتھ عقل کی پختگی کا ذکر ہورہا ہے۔
گو ان آیات کا بنیادی موضوع نکاح نہیں بلکہ یتیم اور اس کے مال کی حفاظت ہے۔ لیکن اس کے باوجود نکاح کے ساتھ بلوغت کا ذکر ہے، عقل کی پختگی کا نہیں۔ بلوغت اور عقل کی پختگی کی "شرط" یتیم کا مال اس کے حوالہ کرنے کے لئے ہے۔
پھر قرآن و حدیث کی عملی تفسیر دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و ادوار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں۔ ان ادوار میں آپ کو کیا نظرآتا ہے؟

آپ کی منطق عجیب ہے کہ :
۔۔۔۔ رہ گیا سورۃ طلاق کا معاملہ تو یہ ٹھیک ہے اس میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ "خون یعنی ماہواری " نہ آنے کی کیا وجہ ہے، لیکن یہ بھی تو نہیں لکھا ہوا کہ یہ نابالغ بچیاں ہیں، جنہیں "ماہواری" نہیں آتی۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ آپ کو اپنی معلومات کو "درست" کرنے کی ضرورت ہے۔ جن بچیوں کی ماہواری شروع نہ ہوئی ہو، وہ "نابالغ" ہی ہوتی ہیں۔ استثنیٰ ایک الگ شئے ہے کہ کسی میڈیکل پرابلم کی وجہ سے کسی کے ماہواری شروع نہ ہو اور وہ سیانی یا بڑی بھی ہوگئی ہو۔ قوانین عموم پر بنتے ہیں استثنائی صورتحال پر نہیں
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
برادر یوسف صاحب،
اگر آپ اپنے مروجہ عقائد کو ایک طرف رکھ کر وسیع القلبی سے اس آیت کا مطالعہ کرتے تو جان لیے کہ "وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا "کا پورا ٹکڑا ہی دراصل یتیموں کو مال واپس کرنے کے ہے، کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالی یتیموں کو انکا مال واپس کرنے کی عمر کا تعین کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس عبارت میں "فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا " کا ٹکڑا اپنے سے ماقبل وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ کی تفسیر یا وضاحت ہے۔یعنی یتیموں کو پرکھتے رہو، یہاں تک کہ نکاح کی عمر کو پہنچیں ، یعنی وہ عمر جب ان میں رشد واضح ہو جائے۔ا‎س ضمن میں صرف یہی ایک بات "نکاح کے لیے بلوغت کی شرط کے لیے کافی نہیں ، بلکہ چند اور پہلو بھی اہم ہیں جو آپ مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں
پہلی بات یہ کہ قرآن کریم نے نکاح و طلاق کے لیے لفظ "نساء یا امراۃ استعمال کیا ہے ، کہیں بھی "بنت یا بنات" یعنی لڑکیاں استعمال نہیں کیا۔ نساء یا امراۃ اور بنت یا بنات کی عمروں میں جو فرق ہے ، وہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔
دوسری بات یہ کہ "حضرت عائشہ " آپ کی وضاحت کے ماتحت رہ کر بھی نکاح (شادی) کے وقت بالغ نہیں تھیں، یعنی انکی عمر صرف چھ سال کی تھی۔ کیا اتنی عمر کی لڑکیوں کی شادی ہو سکتی ہے؟
تیسری بات ، آج کل عام مشاہد ے میں لڑکیوں میں ماہواری کا آغاز اگر بہت جلد بھی ہو جائے تو گیارہ یا بارہ سال سے پہلے نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ گیارہ یا بارہ سال کی بچی کو عربی میں بنت کہا جاتا ہے ، امراۃ نہیں۔ اور گیارہ یا بارہ سال کی بچی کو آپکے نظریہ کے مطابق بالغ مان بھی لیا جائے تو "نو سال " اور گیارہ سال میں پورے دو سال بڑا فرق پھر بھی رہتا ہے۔
اور آخری اور سب سے اہم بات کہ دس یا گیارہ سال کی جتنی بھی لڑکیوں کی شادی کی آپ نے مثالیں دی ہیں وہ اوّل تو "نو سال " کی نفسیاتی حد سے دو تین سال بڑی ہیں، دوسری بات یہ ان تمام لڑکیوں میں سے کسی کی بھی شادی "تریپن سالہ " کسی شخص سے نہیں ہوئی ، بلکہ اپنے ہی ہم عصر "بعل"یعنی خاوند سے ہوئی ہے۔ کیا آپ کے اس غلط استدلال پر رکے رہنے کی وجہ سے "نبی آخرالزمان" محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات بابرکت کی شان میں گستاخی نہیں ہوتی ، جن پر یہ الزام آتا ہے کہ اپنے دوست کی چھ سالہ بیٹی سے شادی رچا لی؟؟؟؟ دریں حالیکہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات بابرکت اور حضرت عائشہ کو اس معاملے سے الگ کرکے "کسی تریپن سالہ شخص " کی "کسی چھ سالہ بچی" سے شادی بذات خود ایک انسانیت کش اور گھٹیا مثال لگتی ہے۔بات یہ ہے کہ ہم "روایات کے اس قدر خوگر ہو چکےہیں کہ ان روایات کو درست تسلیم کرنے کے لیے اپنی نبی کی شان میں گستاخی تو برداشت کر لیتے ہیں، لیکن ان رایوں کو غلط نہیں کہہ سکتے، جنہوں نے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی۔ "ثم تتفکروا"
 
Top