بسم اللہ الرحمن الرحیم
تقریظ
(مفتی) ابوحمید عبدالحنان سامرودی حفظہ اللہ
الحمد ﷲ و کفٰی والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کریں، خوفِ الٰہی رکھیں اور اس (کے عذابوں) سے ڈرتے رہیں وہی نجات پانے والے ہیں'' (النور:52-51)
یعنی نجات پانے والے خوش نصیبوں کا نمایاں وصف ''جذبہ ٔ اطاعت ہے کہ جب وہ حکم الٰہی یا فرمانِ نبی e سنتے ہیں تو بلاتاخیر و غیر مشروط سمعنا سے متّصل اطعنا بھی کہتے ہیں، ایسا نہیں کہتے کہ ہم سن لیا اور اب اپنی عقل پر پیش کری گے۔ اس نے درست کہا تو مان لیں گے، ورنہ نہیں۔ ایسے لوگ دین اسلام کو عقل کے تابع اور اپنی خواہشات کے مطابق ''ماڈرن'' بنانا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:
اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ وَ اَضَلَّہُ اﷲُ عَلٰی عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَ قَلْبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشَاوَۃً فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَّعْدِ اﷲِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ (الجاثیۃ:۲۳)
''کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود علم کے اللہ نے اس کو گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے؟ کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے''؟
ایسے علمائِ سوء، علم و فہم اور سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود نہ صرف گمراہی اختیار کرتے ہیں،بلکہ اوروں کو بھی اپنا ناتمام علم اور ناقص عقلی دلائل سے گمراہ کرتے ہیں۔ ایسوں میں ایک نیا نام ''ابوخالد ابراہیم المدنی'' کا بھی شامل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ (اللہ کرے کہ وہ اللہ سے ڈر کر تائب ہو جائیں اور قرآن و حدیث کی طرف پلٹ آئیں) جو سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ و محدثین ]کے طریقے سے نہ صرف الگ،
جداگانہ سوچ اور من مانی تفسیر قرآن کرتے پھر رہے ہیں، بلکہ سلف صالحین y کے طرز پر عقیدہ و عمل اختیار کرنے والوں کو ''سلف پرست'' کہہ کر مشرک قرار دے رہے ہیں۔
ہمارے ایک مخلص ساتھی نے ان کی کتاب ''امرأۃ القرآن'' (خاتونِ قرآن) نامی کتاب دی جس کا موضوع ''عورت کا قرآنی مقام اور اس کے متعلق شبہات کا ازالہ'' ہے۔ مؤلف نے سورۃ التحریم کی آیات:11، 12 سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
''رب العزت والجلال نے آسیہ امرأۃ فرعون اور مریم بنت عمران کی مثال دی ہے ... اور جس چیز کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس میں صفت کامل و اکمل ہوتی ہے ... یعنی عورت کا ایمان قرآن کی نظر میں کامل و اکمل ہے''۔ (امرأۃ القرآن، ص:15, 16)۔
اس طرح بہت سی آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ کے احکامِ خاص کو تبدیل کر کے عام کرنے کی کوشش کی۔ اور مخصوص خواتین کی فضیلت کو تمام خواتین کے لئے عام قرار دے کر انہیں نہ صرف مردوں کے برابر بلکہ مردوں سے بھی بلند تر بنا دیا۔
ان کی پوری کتاب ایسے ہی مفروضے اور تضاد بیانی سے بھری پڑی ہے۔ قرآن و سنت کے دلائل تو کجا، اپنے کسی معقول مؤقف پر اپنے بنائے ہوئے اصول کو بھی دوہ نباہ نہ سکے۔ جیسا کہ باوجود تفسیر بالرائے کو گمراہی ماننے کے خود اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''میری اُمت ستر سے زائد فرقوںمیں منقسم ہو جائے گی ان میں سب سے بڑا فتنہ وہ ہو گا جو دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے گا اور اللہ کے حلال کردہ اُمور کو حرام اور حرام کردہ اُمور کو حلال ٹھہرائے گا''۔ (جامع بیان العلم و فضلہ)۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
''اہل الرائے سنت کے دشمن ہیں ان کا احادیث سے کوئی تعلق نہیں'' (ایضاً)۔
امام ابوبکر بن ابی داؤد aنے فرمایا: ''اہل الرائے ہی اہل بدعت ہیں'' (ایضاً)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
''تم عنقریب ایسی قوم کو پاؤ گے جو تمہیں قرآن کی دعوت دے گی درحقیقت ان کا قرآن سے کوئی تعلق نہ ہو گا'' (جامع بیان العلم و فضلہ)۔
بعض احباب کا خیال تھا کہ اس کتاب کو پڑھ کر ہر ذی شعور علمی و ادبی اعتبار سے خود ہی اسے مسترد کر دے گا اس لئے جوب دے کر ایسے گمراہ کن نظریات کو اہمیت نہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ
بقول شخصے: جوابِ جاہلاں باشد خموشی۔
اور بعض دردمند اربابِ علم و دانش مختصراً و مفصلاً جوابات دے رہے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اس فتنے کی تردید کر رہے ہیں۔ ان میں فاضل نوجوان مولانا عبدالوکیل ناصر ابن مولانا عبدالجلیل f نے بھی تفصیل کے ساتھ کتاب کا جواب اور موصوف کا بھرپور تعاقب کیا ہے۔
کتاب ''امرأۃ القرآن'' (خاتونِ قرآن) کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ دن کا درد رکھنے والا سابق امیر تبلیغی جماعت، اور مصلحِ قوم اب اسلام کا نہیں بلکہ ماڈرن خواتین کا دلدادہ و دردمند ہے اور نہ معلوم کس کے نظریات کا حامل و حمایتی ہے؟ اور کیوں؟؟؟۔ سچ فرمایا: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے:
''ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے اعمالِ خیر میں جلدی کرو جو شب ِ تاریک کے مختلف ٹکڑوں کی طرح (پے در پے) ظاہر ہوں گے، (پھر ایسا ہو گا) کہ صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر اور شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر۔ (کیونکہ) وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی سامان کے عوض بیچ دے گا'' (صحیح مسلم: کتاب الایمان)۔
اس حدیث میں اطلاع دی گئی ہے کہ ایک شخص صبح تو مومن ہو گا اور شام تک دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے اپنے دین و ایمان کا سودا کر کے کافر ہو جائے گا۔ ایسے بہروپیوں کو دیکھ کر کوئی یہ ہرگز نہ سوچے کہ اتنے بڑے عالم، حافظ و قاری مدنی مکی صاحب نے جب یہ کہہ دیا، لکھ دیا اور (بہت سی صحیح احادیث کے خلاف) عمل کر کے روپ بدل کر دکھایا ہے تو اس مطلب ضرور ان کے پاس کوئی دلیل ہو گی؟
نہیں، ایسا نہیں ہے! کیونکہ اب ان پر اللہ کی طرف سے کوئی نئی وحی تو آنے سے رہی۔ کسی اور (غامدی وغیرہ) کی طرف سے نیا پیغام موصول ہوا ہو تو یہ کوئی بعید نہیں۔ ایسے صبح و شام تبدیل ہونے والے اشخاص کو مذکورہ حدیث کی روشنی میں پہچاننا آسان ہو جاتا ہے۔
ویسے بھی موصوف تبدیلی کے بڑے ماہر ہیں، بقول ان کے کئی شاگردوں اور چاہنے والوں کے، کہ اب ابوخالد، عالم کم اور جینٹل مین زیادہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنا لباس، شکل و صورت، رہن سہن، تنظیم و جماعت، تحریر و خطابت اور عقائد و نظریات سب کچھ یکسر تبدیل کر ڈالا اور اب پرانی کوئی شے سوائے نام کے دکھائی نہیں دیتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنا نام بھی تبدیل کر لیتے اور ''شیخ ابوخالد ابراہیم المدنی'' کی جگہ ''مسٹر ابو خواتین ابرہہ صاحب ِ من مانی'' رکھ لیتے تاکہ لوگوں کو انہیں اور ان کی تحریر و تقریر کو سمجھنے میں کوئی دِقت پیش نہ آتی، سادہ لوح عوام گمراہ نہ ہوتے۔ کیونکہ اس ماڈرن اسکالر کے نت نئے کارناموں کے ساتھ پرانا نام کچھ جچتا نہیں ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ان جوابات اور ازالہ ٔ شبہات کے ذریعے نہ صرف تمام مریضانِ ''خاتونِ قرآن'' صحت یاب ہوں بلکہ خود صاحب ِ ''خاتونِ قرآن'' کو بھی اللہ شفائے کامل و عاجل اور دائم و مستقر عطا فرمائے۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ و صلی اﷲ علی نبینا محمد و الہ و صحبہ اجمعین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین
عبد الحنان سامرودی
شیخ الحدیث جامعہ دارالحدیث رحمانیہ کراچی