• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امريکی کنبے کی پاکستان ميں بازيابی

شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس ويگاس ميں ہلاکتوں کے واقعے کے بعد يہ بيان جاری کيا
لیکن آپ کی ریکارڈ درستگی کے لیےنا امریکی حکومت اور نا ہی امریکی صدر نے اس واقعے کو دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا!
خود امريکی صدر نے اس عمل کو شيطانی عمل قرار ديا
امریکی صدر نے اس عمل کو شیطانی عمل قرار دیا ، لیکن اس کو دہشتگردی کا واقعہ قرار نہیں دیا!
تصویر کا ایک روخ دکھانا کوئی آپ سے سیکھے -
آپ پر واضح ہو جاۓ گا کہ ان تنظيموں کی تمام تر اشتہاری مہم اور جدوجہد کا مرکز امريکہ اور مغرب سے نفرت کو فروغ دے کر مذہب کی آڑ ميں جذبات کو بھڑکانہ ہے
بھائی آپ کیوں جھوٹ پر مبنی باتیں کر رہے ہیں ، مانا کے آپ امریکی ہیں [ سابقہ پاکستانی] -
لیکن آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں، کے داعش کا موجد کون ہے ، داعش کو امریکا اسلحہ فراہم کرتا آیا ہے : اسرائیل کے تعاون وتوسط سے ترکی کے رستے شام میں خفیہ طور پر پہچایا جاتا ہے ، امریکا کا اہم اتحادی ونیٹو رکن ترکی داعش کو سستے داموں تیل فروخت کرتا ہے ، کیوں؟ اور کیوں ترکی نے یہ اقدام اٹھایا؟ وہ اس لیے ک ترکی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے امریکی شرائط پوری کرنے کیلئے مبینہ طور پر اسے اقدامات کرتا آرہا پے ، خلیجی ممالک کی ترکی کے ساتھ خراب تعلقات کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے -
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
آپ شايد يہ بھول رہے ہيں کہ يہ تو القائدہ،داعش، طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيميں ہيں جنھوں نے ہميشہ يہ دعوی کيا ہے کہ وہ اسلامی تعليمات پر عمل پيرا ہيں
اسلامی تعلیمات پر وہ عمل پیرا ہے جو امریکہ کو اپنا بزرگ اور خدا مانتا ہے، اور امریکہ کے متعلق کوئی غلط گمان نہیں رکھتا چاہے امریکہ کچھ بھی کرے ۔ نعوذ باللہ!!
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
داعش کو امریکا اسلحہ فراہم کرتا آیا ہے :


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ آئ ايس آئ ايس کے جنگجو يہ حقيقت جانتے ہوۓ بخوشی امريکی امداد اور تعاون قبول کر ليں گے کہ ہم نے اپنی فضائ بمباری کی جاری اور فعال مہم سے نا صرف يہ کہ ان کے محفوظ ٹھکانوں کو تہس نہس کر ديا ہے بلکہ اس تنظيم کے قائدين اور امداد کاروں کے خلاف باقاعدہ ايک عالمی شعور بيدار کرنے اور ان کے خلاف ايک اجتماعی اتحاد کی تشکيل کے ليے کليدی کردار بھی ادا کيا ہے؟

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ امريکی حکومت نے اس ظالم گروہ سے درپيش خطرات اور اس ضمن ميں اجتماعی عالمی ردعمل کے ليے سب سے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کيا ہے۔ اگر امريکی حکومت کی منشا يہ ہوتی کہ اس گروہ کو مزيد مضبوط کيا جاۓ يا اس کے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جاۓ تو اس صورت ميں تو ہماری جانب سے اس گروہ کی اہميت کو کم کرنے کی کوششيں کی جا رہی ہوتيں۔

اور ہم جانتے ہيں کہ حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

حتمی تجزيے ميں يہ امريکی افواج نہيں ہيں جو زمين پر دہشت گردوں کے خلاف برسرپيکار ہیں۔ شروع دن سے امريکہ اس موقف پر قائم ہے کہ آئ ايس کے خلاف کامياب حکمت عملی فقط امريکہ کی مرہون منت ممکن نہيں ہے۔ اس کا دارومدار خطے کے عوام اور حکومتوں اور ان کے ليے جانے والے فيصلوں پر ہے۔

اب جبکہ ساٹھ سے زائد ممالک نے مختلف حوالوں سے اس مشترکہ جدوجہد ميں شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے تو ايک ايسے عالمی اتحاد کے تشکيل کی راہ ہموار ہو گئ ہے جہاں ہم بيرونی جنگجوؤں، ان کو ملنے والی فوجی اور معاشی امداد کے ذرائع کے خلاف زيادہ فعال طريقوں سے کاروائ کر سکتے ہيں۔ علاوہ ازيں انسانی بنيادوں پر فراہم کی جانے والی امداد، آئ ايس کے خلاف مختلف عالمی قدغنوں اور پابنديوں کے عمل، سوشل ميڈيا اور مختلف ممالک کے ليے مختص کيے جانے والے مخصوص کردار کے ذريعے ہم اس امر کو يقینی بنا سکتے ہيں کہ آئ ايس کے خلاف ايک مشترکہ عالمی کاوش کو زيادہ موثر طريقے سے آگے بڑھايا جا سکے۔

آنے والے دنوں ميں ہمارے فضائ حملوں کے بعد آئ ايس ہم خود اپنے تحفظ اور سيکورٹی کے حوالے سے تحفظات اور خدشات کا شکار ہو گی جس کے سبب اس تنظيم کی جانب سے عراقی کی مختلف آباديوں کو درپيش خطرات ميں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔ جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا اس حوالے سے کوئ بھی شک وشہبہ نہيں ہے کہ اس معاملے کی طوالت کے ضمن ميں کسی کو بھی خوش فہمی نہيں ہے تاہم کسی بھی فريق کے ليے يہ صورت حال کسی بھی طور قابل قبول نہيں ہے کہ ان خونی قاتلوں اور مجرموں کے گروہ سے درپيش خطرات کے سامنے ہتھيار ڈال ديے جائيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
لیکن آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں، کے داعش کا موجد کون ہے ،

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ البغدادی اور آئ ايس آئ ايس کی چھتری کے نيچے کام کرنے والے جرائم پيشہ افراد کا ٹولہ جن مختلف محرکات کی وجہ سے اکٹھے ہوۓ ہيں، ان ميں کوئ بھی امريکی يا مغربی مفادات کی طرف نہيں جاتا۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بھی واضح رہے کہ البغدادی کے جذباتيت سے مزين بيانات اور نۓ "فوجيوں" کی بھرتی کی غرض سے تيار کردہ پروپيگنڈہ ويڈيوز ميں اہم ترين عنصر امريکہ اور خطے ميں ہمارے شراکت داروں کے خلاف زہر افشانی ہی ہوتا ہے۔

يقينی طور پر آپ امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کر سکتے کہ ہم ايک ايسے فرد کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کريں گے جو نا صرف يہ کہ ايک مسلح گروہ تيار کر رہا ہے بلکہ جو عوامی سطح پر ہمارے شہريوں اور مفادات پر حملوں کا ارادہ بھی ظاہر کر چکا ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح رہے کہ امريکی وزارت خارجہ نے اکتوبر 4 2011 کو البغدادی کو ايک عالمی دہشت گرد قرار ديتے ہوۓ اس کی گرفتاری اور موت کے ضمن ميں معلومات کی فراہمی کی صورت ميں 10 ملين ڈالرز کی انعامی رقم کا بھی اعلان کيا تھا جس کی اہميت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ بين الا اقوامی دہشت گرد تنظيم القائدہ کے ليڈر ايمن الزھواری پر مقرر کردہ 25 ملين ڈالرز کی انعامی رقم کے بعد يہ سب سے بڑا انعام ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
عراقی کی مختلف آباديوں کو درپيش خطرات ميں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔
آپ کس کو بیوقوف بنا رہے پیں میاں! آپ کیا سمجھتے ہیں عوام پاگل ہے جو آپ فضولیات چھوڑتے ہیں اس سے اللہ کی پناہ -

آنے والے دنوں ميں ہمارے فضائ حملوں کے
اچھا اب تم سے ہمارے ہوگیا ، کل تک تو تم تم کی رٹ لگائے رکھتے تھے آج ہمارے ہو گیا!
ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا کے آپ سابقہ پاکستانی ہیں،
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بھی واضح رہے
ریکارڈ کی درستگی کے لیے یہ بھی واضح رہے کے ،
نا امریکی "صدر" اور "نافوج" نے لاس ویگاس میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے کو دہشتگردی کا واقعہ قرار نہیں دیا ، اصل موضوع سے ہٹانے میں آپ بڑے ماہر ہیں!
يقينی طور پر آپ امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کر سکتے
نہیں تو پر کیا توقع کرے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
محمد المالکی - ڈیجیٹل آوٹ ریچ ٹیم - یو اے
محدث ڈیپارٹمنٹ -
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
پروپيگنڈہ ويڈيوز ميں اہم ترين عنصر امريکہ اور خطے ميں ہمارے شراکت داروں کے خلاف زہر افشانی ہی ہوتا ہے۔
@فواد اگر آپ سچے مسلمان ہیں تو اللہ کو حاضر ناظر جان کر بتائیے گا ،
کے آپ نے کبھی اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے افراد (ملزمان) کو کیوں سزا نہیں مل پاتی؟ کیوں کے یہ آپ کے آزاد خیال معاشرے کے خلاف ہے اس لئے؟ یا پر امریکی قانون میں کوئی کمزوری ہے
جسے دور کرنے کی صلاحیت آپ لوگو میں نہیں!


يقينی طور پر آپ امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کر سکتے
لیکن یہ توقعہ تو ضرور کرسکتے ہیں!
امریکا میں اعلیٰ اور مقتدر شخصیات کے جنسی جرائم کی تفتیش کرنے والے ادارے میں ایک اعلیٰ فوجی جنرل کو کمسن بچوں سے جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیاہے۔امریکی ذرائع کے مطابق ڈائین کارپورریشن کے سابق نائب صدر میجر جنرل جیمز گریزیوپلین کو 1983 سے1989 کے دوران متعدد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیاگیاہے۔جنرل گریزیوپلین کی گرفتاری کوامریکا میں جنسی زیادتی میں ملوث اعلیٰ اور مقتدر شخصیات کے خلاف جاری تازہ ترین مہم کے دوران میں سب سے زیادہ بااثر شخص کی گرفتاری تصور کیاجارہاہے۔
امریکی فوج کی جانب سے جنرل گریزیوپلن پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہیں کہ انھیں ان کے جنسی جرائم کے اتنے طویل عرصے کے بعد کس طرح گرفتار کیااور وہ کس انداز اور کس حیثیت میں ان جنسی جرائم میں ملوث ہوئے تھے۔ نیویارک کے اخبار ڈیلی نیوز نے امریکی جنرل گریزیوپلن کی گرفتاری کی خبر دیتے ہوئے لکھاہے کہ گریزیوپلن کاتعلق ریاست ورجینیا سے ہے انھوںنے امریکی فوجی اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ نیویارک سے گریجویشن کیا اور 1972 میں آرمر افسر کی حیثیت سے فوج میں شامل ہوئے اور2005 میں فوج سے ریٹائر ہوگئے ،ریٹائرمنٹ کے وقت وہ پنٹا گون کے’’ جوائنٹ وار فائٹنگ کیپے بلیٹیز اسیسمنٹ ‘‘ یعنی مشترکہ جنگ کی صلاحیتوں کا تجزیہ کرنے اور اندازہ لگانے والے شعبے میں فورس ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
گریز یوپلن کے لنک پیچ سے ظاہرہوتاہے کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے فوجی ٹھیکیدار اداروں ڈائین کارپوریشن انٹرنیشنل اور مشن ریڈی نس ایل ایل سی میں بھی خدمات انجام دیں ۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ جب گریزیوپلن نے ڈائین کارپوریشن میں ملازمت اختیار کی تو اس وقت ان کے اس فیصلے پر بہت انگلیاں اٹھی تھیں کیونکہ اس دورمیں ڈائین کارپوریشن مختلف طرح کے اسکینڈلز کی لپیٹ میں تھا جس میں بچوں کے جنسی استحصال، جنسی زیادتی کے لئے بچوں کو دوسروں کے حوالے کرنا اورامریکا کے سابق صدر بل کلنٹن کے دورمیں جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر بوسنیا سے بچوں کی اسمگلنگ کے الزامات شامل تھے۔
ڈائن کارپوریشن میں بچوں سے زیادتی اور ان کی اسمگلنگ کے حوالے سے سرگرمیوں کاانکشاف کارپوریشن کے ایک سابق ملازم بین جانسٹن نے بوسنیا کے تنازع کے دوران کارپوریشن کے ملازمین کی جانب سے کارپوریشن میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات باہر پہنچانے کے الزام میں برطرف کیے جانے کے بعد کارپوریشن کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے کے دوران کیاتھا۔
2002 میں جانسٹن نے اپنی رپورٹ بعنوان ‘‘ڈائین کارپوریشن کی بدعملیاں‘‘ میں لکھاتھا کہ ڈائین کارپوریشن اور سربیا مافیاکی جانب سے لائی جانے والی کوئی لڑکی جنسی زیادتی سے محفوظ نہیں رہی تھی۔اس دور میں ڈائین کارپوریشن کی قیادت مکمل طورپر مافیا کے زیر اثر تھی اور کارپوریشن کے ملازم کہتے تھے کہ اس اختتام ہفتہ ہم سربیا سے مزید تین لڑکیاں لے کر آئیں گے۔
سالون کی ایک رپورٹ میں جانسٹن کے چشم دید واقعات کی مزید تفصیلات دی گئی ہیں، ان میں بتایاگیا ہے کہ جانسٹن نے بتایا کہ یہ سن 2000 کے اوائل کی بات ہے کہ ایک دن میں بوسنیا میں تزلہ کے قریب واقع امریکی فوجی اڈے پر تعینات اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر میکنک کی باتیں سن کر پریشان ہوگیا ۔وہ کہہ رہاتھا کہ میں جو لڑکی لایاہوں اس کی عمر 12 سال سے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہے، یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ اس نے 12 سالہ بچی کو جنسی غلام بنالیاہے یہ سننے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ اس کے خلاف مجھے کچھ کرنا چاہئے ،کیونکہ اب اس کاروبار میں کمسن بچوں کو گھسیٹا جارہاتھا ۔جانسٹن کا کہنا ہے کہ میری چلائی ہوئی مہم کے نتیجے میں بوسنیا میں تعینات ڈائین کارپوریشن کے کم از کم 13ملازمین کو لڑکیوں اور خواتین کی خریدوفروخت عصمت دری اوراس سے متعلق دوسرے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کے الزام میں بوسنیا سے واپس امریکا بھیجاگیالیکن وافر ثبوت موجود ہونے کے باوجود ڈائین کارپوریشن کی جانب سے امریکا واپس بھیجے گئے کسی بھی ملازم کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں کوئی مقدمہ نہیں چلایاگیا۔
ڈائین کارپوریشن کے ملازمین کی جانب سے سرکاری سرپرستی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے الزامات کی گونج ایوان بالا تک پہنچ چکی تھی جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ 2006 میں محکمہ کے دفاعی بجٹ کی سماعت کے دوران جارجیا سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن کانگریس سنتھیا مک کین نے اس کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ سے اس بارے میں سولات کیے تھے ۔
وزیردفاع سے ان کاپہلا سوال یہ تھا کہ جناب اعلیٰ کیا خواتین اور کمسن لڑکیوں کی اسمگلنگ اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث کمپنیوں کو انعامات سے نوازنا امریکی حکومت کی پالیسی ہے ۔ان سخت سوالات کے بعد ڈائین کارپوریشن کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آیا لیکن حکومت متعدد ای میلز بھیجے جانے کے باوجود جو وکی لیکس اور چیرل ملز کے درمیان ای میلز کے تبادلے کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات اور پھر وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو بھیجی گئی ای میلز کے سامنے آنے کے باوجود اپنے ملازمین کی جانب سے جنسی زیادتیوںکی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی نہیں کرسکی جس کی وجہ سے ڈائین کارپوریشن بھی امریکی حکومت کے ساتھ پہلے کی طرح کاروبار میں مصروف ہے اور خوب منافع کمارہی ہے۔
ان میں سے ایک ای میل میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کاحوالہ دیاگیاتھا جس میں انکشاف کیاگیاتھا کہ ڈائین کارپوریشن نے کس طرح ’’ لیپ ڈانس‘‘ کیلئے ایک 15 سالہ لڑکے کی خدمات حاصل کیں اور لڑکے کو اپنے کپڑے مکمل طورپر اتارنے پر مجبور کرنے کے لیے ڈائین کارپوریشن کے ملازمین نے کس طرح اس پر ڈالر نچھاور کیے۔وکی لیکس نے جو انکشافات کیے ہیں اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کس طرح صحافیوں کو یہ خبریں شائع کرنے سے روکنے کے لیے ایک بچے کی خدمات حاصل کی گئیں اور یہ تاثر دیاگیا کہ اس طرح کی خبروں کی اشاعت سے بہت سے جانوں کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
اگرچہ ہلیری کلنٹن اور ملز کے درمیان ای میلز کے تبادلے کے دوران کسی طرح کی جنسی زیادتی کاذکر نہیں ہے لیکن افغانستان میں روایتی ہم جنس پرستی کی اطلاعات میں عصمت دری، کمسن لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور کمسن لڑکوں اور لڑکیوں کی باقاعدہ نیلامی کی خبروں پر بھی امریکی حکومت نے کوئی توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔اس حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پارٹیوں اور تقریبات کے بعد لڑکوں اور کمسن لڑکیوں کو ہوٹل لے جایاجاتاتھا اور وہاں ان کوجنسی زیادتیوںکا نشانابنایاجاتاتھا۔بی بی سی نے بھی افغانستان سے اس طرح کے واقعات کی رپورٹیں دی تھیں اور ان رپورٹوں میں کہاگیاتھا کہ اس قبیہہ فعل میں امریکا اور افغانستان کے انتہائی بااثر افراد اور افسران ملوث رہے ہیں۔
ان تمام قابل نفرت اور مذمت سرگرمیوں کے باوجود ڈائین کارپوریشن کو بدستور امریکی ٹھیکے دئے جاتے رہے اور دسمبر 2016 میں امریکی بحریہ نے ڈائین کارپوریشن کوانسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ، بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی ،ہنگامی ضرورت کیلئے فوج کیلئے چھوٹی موٹی تعمیرات اور امریکی فوجی مشقوں میں مدد کی فراہمی جیسے خدمات کی انجام دہی کیلئے94 ملین ڈالر مالیت کا ایک ٹھیکہ دینے کے ڈاکومنٹس پر دستخط کئے تھے۔ اس صورت حال پر ہمیں امریکی خاتون رکن کانگریس سنتھیا مک کن نے کی جانب سے امریکی وزیر دفاع رمسفیلڈسے کیا گیا وہ سوال یاد آتاہے کہ کیا جنسی جرائم میں ملوث کمپنیوں کو نوازا امریکی حکومت کی پالیسی کاحصہ ہے ۔ اگر ایسانہیں ہے تو بھی ان کمپنیوں کو مسلسل ایسے ٹھیکے کیوں دیے جارہے ہیں-
بشکریہ- wikileaks.org.

يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے
بیشک یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کے آپ جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں! بہت افسوس ہوا آپ کے "پاکستان نژاد امریکی" ہونے پر -
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74


لیکن آپ کی ریکارڈ درستگی کے لیےنا امریکی حکومت اور نا ہی امریکی صدر نے اس واقعے کو دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا!

امریکی صدر نے اس عمل کو شیطانی عمل قرار دیا ، لیکن اس کو دہشتگردی کا واقعہ قرار نہیں دیا!
تصویر کا ایک روخ دکھانا کوئی آپ سے سیکھے -

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يقينی طور پر امريکی ميڈيا ميں يہ بحث جاری ہے کہ آيا اس واقعے کو دہشت گردی قرار ديا جانا چاہيے يا نہيں۔ اس ضمن ميں ايک مثال

http://www.theatlantic.com/politics/archive/2015/06/was-the-charleston-attack-terrorism/396329/

تاہم يہ قانونی حکام پر منحصر ہے کہ وہ اس بات کا تعين کريں کہ مجرم کے محرکات قانونی تشريحات پر پورا اترتے ہيں کہ نہيں۔

امريکہ ميں کوئ مخصوص ميڈيا اپنی مخصوص سوچ، ادارتی فيصلے يا آزادانہ تجزيے کی بنياد پر کسی بھی واقعے کو کيا رنگ ديتا ہے، اس بات سے قطع نظر قانونی چارہ جوئ، قانون کی تشريح اور امريکی حکومت کے نزديک اس جرم يا مجرم کو کيا سمجھا جاتا ہے اس پر کوئ اثر نہيں پڑتا ہے۔

اگر صرف قانونی اصلاحات کو مدنظر رکھيں تو امريکی نظام قانون ميں "دہشت گردی" کی تشريح اس طرح کی گئ ہے​

"اندرونی دہشت گردی" سے مراد ايسی کاروائياں ہيں جن ميں يہ عوامل کارفرما ہوں گے۔

رياستی اور وفاقی قانون شکنی سے متعلق ايسے اقدامات جو انسانی جان کے ليے خطرے کا باعث ہوں۔

ايسی کاروائیاں جو (اول) انسانی آبادی پر خوف اور زبردستی مسلط کرنے کے ارادے سے (دوئم) خوف اور زبردستی کے ذريعے حکومت کی پاليسی پر اثرانداز ہونے کے ليے يا (سوئم) قتل، اغوا، وسيع تبائ کے ذريعے حکومت کے طرزعمل پر اثرانداز ہونے کے ليے کی جائيں اور

بنيادی طور پرامريکہ کے زير اثر علاقائ حدود کے اندر کی گئ ہوں۔

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ کسی بھی فرد، گروہ يا تنظيم کی مذہبی وابستگی يا سياسی اہداف اور مقاصد کا اس پيمانے کے تناظر ميں کوئ تعلق نہيں ہے۔

دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوۓ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنا اور پرتشدد کاروائياں کرنا وہ اعمال ہيں جو اس پيمانے کو پورا کرنے کا سبب بنتے ہیں

جہاں تک کچھ راۓ دہندگان کی جانب سے اس امر پر ناراضگی کے اظہار کا تعلق ہے کہ مبينہ طور پر عوامی سطح پر مسلمانوں اور مذہب اسلام کو منفی انداز ميں پيش کيا جاتا ہے تو اس ضمن میں مذمت اور غصے کا رخ ان کی جانب کيا جانا چاہيے جو مذہب کا لبادہ پہن کر گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتے ہيں۔

مذہب کو دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے استعمال کيا گيا ہے۔ ليکن ميں اس راۓ سے متفق نہیں ہوں امريکہ يا مغرب نے اسلام کو دہشت گردی سے تعبير کيا ہے۔ آپ شايد يہ بھول رہے ہيں کہ القائدہ، آئ ايس آئ ايس اور ديگر دہشت گرد تنظيموں نے ہميشہ يہ غلط دعوی کيا ہے کہ وہ اسلامی تعليمات پر عمل پيرا ہيں۔

امريکی حکومت کو اس بات کی چندہ کوئ ضرورت نہيں ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ عالمی کوششوں کو مسلم اور غير مسلموں کے مابين کسی چپقلش کا رنگ دے۔ يقينی طور پر اس کا حقيقت سے کوئ تعلق بھی نہيں ہے۔ يہ مہذب دنيا اور ان مجرموں کے مابين ايک جاری کوشش ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بے گناہ انسانوں کے قتل میں کوئ قباحت محسوس نہيں کرتے۔

جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو ہمارا مقصد صرف ان مجرموں کو پوری انسانيت کے خلاف ان مجرمانہ کاروائيوں سے روکنا ہے۔ مذہب کا اس معاملے سے کوئ تعلق نہيں ہے​


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top