• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکی نائٹ کلب پر ’اسلامی شدت پسند‘ کا حملہ: 50ہلاک

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس تاثر ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ امريکی حکومت صرف "اسلامی دہشت گرد گروہوں" کے خلاف کاروائ پر توجہ مرکوز کيے ہوۓ ہے۔
کسی غیر مسلم دہشت گرد تنظیم کے خلاف امریکی کراوائی کہاں کس ملک میں کی گئی؟ مزید یہ کہ ان کی طرف سے ”ری ایکشن“ کے طور پر امریکا میں کو کاروائی عمل میں لائی گئی؟
اس کی کچھ تفصیل عنایت فرمانا پسند کریں گے؟
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
کسی غیر مسلم دہشت گرد تنظیم کے خلاف امریکی کراوائی کہاں کس ملک میں کی گئی؟ مزید یہ کہ ان کی طرف سے ”ری ایکشن“ کے طور پر امریکا میں کو کاروائی عمل میں لائی گئی؟
اس کی کچھ تفصیل عنایت فرمانا پسند کریں گے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت کو "عالمی تھانيدار" کا رول ادا کرنے کی خواہش ہے اور نہ ہی اس کی کبھی کوشش کی گئ ہے۔ ايسی بہت سی مثاليں موجود ہيں جہاں يا تو ديگر ممالک نے معاملات کے حل کے ليے راہنمائ کی ہے يا امريکہ نے دوست اور اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر اہم عالمی مسائل کے حل کے ليے اپنا کردار ادا کيا ہے۔ اس حوالے سے ميں بالکنز کی مثال دوں گا جہاں کشيدگی کے خاتمے کے ليے ابتدا ميں يورپی ممالک نے رول ادا کيا تھا۔ مگر صورت حال ميں مزيد ابتری کے بعد امريکہ کو مداخلت کی دعوت دی گئ۔ اسی طرح رووانڈا ميں جب صورت حال خراب ہونا شروع ہوئ تو امريکہ پر بروقت مداخلت نہ کرنے پر کڑی تنقيد کی گئ۔

يہاں تک کہ کچھ تجزيہ نگار اب بھی امريکہ پر يہ الزام لگاتے ہيں کہ 1989 ميں سويت افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے افغانستان ميں اپنا موثر رول ادا نہيں کيا تھا۔

اس ميں کچھ شک نہيں کہ امريکہ معاشی اور فوجی وسائل کے حوالے سے اس وقت دنيا ميں سرفہرست ہے اور اسی وجہ سے عالمی برادری ميں يہ تاثر پايا جاتا ہے کہ امريکہ کو مختلف عالمی مسائل اور تنازعات کے حل کے ليے نہ صرف اپنے وسائل مہيا کرنے چاہيے بلکہ اپنا موثر رول بھی ادا کرنا چاہيے۔ ليکن اس کے باوجود يہ تاثر کہ امريکہ دانستہ عالمی برادری کی مرضی کے برخلاف محض اپنے عالمی اثرورسوخ ميں توسيع کے ليے دوردراز ممالک پر حملہ کر ديتا ہے۔

کيا ستمبر 11 2001 کو امريکی سرزمين پر حملے سے پہلے اس خطے ميں امريکی اور نيٹو افواج کا کوئ وجود تھا؟

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکہ کو مطلوب القائدہ کے اہم ترين ليڈر ايک امريکی شہری ايڈم پرلمين رہے ہيں جو "عزام دا امريکن" کے نام سے بھی جانے جاتے ہيں۔ يہ ايک طے شدہ حقيقت ہے کہ وہ افغانستان ميں القائدہ تنظيم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ امريکی حکومت ان کی امريکی شہريت سے قطع نظر ان کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

اس ضمن ميں پاکستان ميں گرفتار ہونے والے 5 امريکی شہريوں کا بھی حوالہ ديا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بھی امريکی حکومت پاکستان کے تفتيشی اداروں اور عہديداروں کو ہر ممکن تعاون اور سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔ امريکی حکومت کی پاليسی بالکل واضح ہے۔ ہر وہ شخص جس کے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات ہيں، انھيں انصاف کے کٹہرے ميں لايا جانا چاہيے۔ جب کسی کے اوپر جرم ثابت ہو جاۓ تو پھر اس کی شہريت، مذہبی وابستگی اور سياسی نظريات کا اس کے جرائم اور اس کی سزا سے کوئ تعلق نہيں رہ جاتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
يہاں تک کہ کچھ تجزيہ نگار اب بھی امريکہ پر يہ الزام لگاتے ہيں کہ 1989 ميں سويت افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے افغانستان ميں اپنا موثر رول ادا نہيں کيا تھا۔
مگر جب افغانستان کے تقریباً نوے (90) سے پچانوے (95) فی صد علاقہ پر مثالی امن قائم ہوچکا، لوگوں کی جان مال عزت محفوظ ہوگئے، تب امریکہ کو ہوش آیا کہ مجھے افغانستان میں کاروائی کرنی چاہئے۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
مگر جب افغانستان کے تقریباً نوے (90) سے پچانوے (95) فی صد علاقہ پر مثالی امن قائم ہوچکا، لوگوں کی جان مال عزت محفوظ ہوگئے، تب امریکہ کو ہوش آیا کہ مجھے افغانستان میں کاروائی کرنی چاہئے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


آپکے کہنے کے مطابق 90 کی دہاہی کے آخر ميں افغانستان ميں مکمل امن تھا۔ يہ خبر يقينی طور پر ان افغان باشندوں کے ليے حيران کن ہو گي جو طالبان کے مظالم کے ساۓ میں اپنے شب وروز گزارتے تھے۔ 90 کی پوری دہاہی ميں افغانستان مسلسل خانہ جنگی کا شکار تھا۔ اس ميں تو کسی کو شک نہيں کہ طالبان کے دور حکومت ميں صرف محاورے کی حد تک نہيں بلکہ حقيقت ميں کوئ پرندہ بھی پر نہيں مار سکتا تھا۔ کيا اس کو امن قرار ديا جا سکتا ہے؟

اور اب يہی طالبان ويسا ہی "امن" پاکستان کے قبائلی علاقوں ميں نافذ کرنا چاہتے ہيں۔

اگر کوئ آپ کے مکان ميں کراۓ دار کی حيثيت سے رہائش پذير ہو لیکن آپ کے گھر کے احاطے کو مختلف شہروں ميں تخريب کاری کی غرض سے اسلحہ و بارود کی تياری اور دہشت گردی کی تربيت کا اڈہ بنا دے ليکن آپ کو يہ يقين دلاۓ کہ آپ کا گھر، پڑوس اور شہر اس کی تخريبی کاروائيوں سے محفوظ رہيں گے تو آپ کو ايسے کراۓ دار کے خلاف کيا کرنا چاہيے؟ کيا آپ کے ليے يہ يقين دہانی اور حقيقت اطمينان بخش ہونی چاہيے کہ جو بھی تخريب کاری ہو گي وہ دور دراز شہروں ميں ہو گی، کم از کم آپ کا گھر اور پڑوس تو "امن" کی چھاؤں ميں رہے گا۔

يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ آپ نے افغانستان ميں امن کے جس دور کا ذکر کيا ہے اسی دور ميں طالبان کے زير نگرانی اسامہ بن لادن کے تربيتی کيمپ اپنے جوبن پر تھے۔ کيا آپ کے خيال ميں ان انتہا پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے تھی کيونکہ افغانستان اور پاکستان ان کے حدف نہيں تھے اور ان کے خلاف کاروائ سے ان علاقوں کا امن تباہ ہو جانے کا خطرہ ہے؟

جيسا کہ ميں نے اسی فورم پر پہلے کہا تھا کہ سانپ کو کتنا بھی دودھ پلائيں، ڈسنا اس کی فطرت ہے۔ آپ جب بھی اس کی مرضی کے خلاف جائيں گے وہ آپ کے سارے احسان بھلا کر آپ ہی پر حملہ آور ہو گا۔

پاکستان ميں پچھلے چند سالوں ميں خود کش حملوں کی لہر ميں بغير کسی تفريق کے بے گناہ شہريوں کا قتل اس کا واضح ثبوت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
اس ميں تو کسی کو شک نہيں کہ طالبان کے دور حکومت ميں صرف محاورے کی حد تک نہيں بلکہ حقيقت ميں کوئ پرندہ بھی پر نہيں مار سکتا تھا۔ کيا اس کو امن قرار ديا جا سکتا ہے؟
اس جملے سے آپ کی حالات سے ناواقفیت پتہ چلتی ہے... اور آپ کا میڈیا پر انحصار کیسا ہے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ آپ کی کفار سے ہمدردی بھی پتہ چل جاتی ہے
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
اس جملے سے آپ کی حالات سے ناواقفیت پتہ چلتی ہے...

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو حقائق کو مقبول عام تاثر سے الگ کر ديں۔

يہ حقيقت اس بات سے ثابت ہے کہ طالبان کی حکومت کی جانب سے متعدد بار درخواستوں کے باوجود، امريکہ کی جانب سے افغانستان ميں ان کی حکومت کو اقوام متحدہ سميت دنيا کے کسی بھی فورم پر سرکاری طور پر قبول نہيں کيا گيا تھا۔

يہ اعتراض کہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے طالبان کے مظالم پر امريکہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظيموں نے کبھی آواز بلند نہيں کی اور 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد اچانک طالبان کو مجرم قرار دے ديا گيا، حقائق کے منافی ہے۔

30 جنوری 1998 کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے افغانستان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے خلاف ايک خصوصی رپورٹ شائع کی گئ جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://reliefweb.int/report/afghanistan/afghanistan-country-report-human-rights-practices-1997

11 جون 1997 کو ايمينسٹی انٹرنيشنل کی جانب سے افغانستان ميں خواتين پر ڈھاۓ جانے والے مظالم کے حوالے سے رپورٹ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.amnesty.org/en/library/info/ASA11/005/1997

اگست 1998 ميں فزيشن فار ہيومن رائٹس نامی تنظيم کی جانب سے "طالبان کی عورتوں کے خلاف جنگ" کے عنوان سے ايک مفصل رپورٹ شائع کی گئ جو کسی بھی ايسے شخص کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو يہ سمجھتا ہے کہ طالبان کے دور حکومت ميں افغانستان امن کہ گہوارہ تھا۔

http://physiciansforhumanrights.org/library/documents/reports/talibans-war-on-women.pdf

نومبر1995 ميں اقوام متحدہ کے ادارے يونيسيف نے طالبان کے زير اثر تمام علاقوں ميں تعليم کی مد ميں دی جانے والی امداد پر مکمل بين لگا ديا کيونکہ طالبان نے لڑکيوں کی تعليم پر پابندی لگا دی تھی جو کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قوانين کے منافی ہے۔

1995 ميں بيجينگ ميں منعقد کی جانے والی خواتين کے حقوق کی کانفرنس ميں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اقدامات کی توثيق کر دی گئ۔

1996 ميں برطانيہ کی سیو دا چلڈرن نامی تنظيم نے افغانستان کو دی جانے والی امداد پر مکمل پابندی لگا دی کيونکہ طالبان کی جانب سے افغانستان کی خواتين تک اس امداد کی منتقلی ناممکن بنا دی گئ۔

7 اکتوبر 1996 کو اقوام متحدہ کے سيکرٹی جرنل پطرس غالی نے افغانستان ميں طالبان کے مظالم کے بارے ميں جو کہا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.hri.org/cgi-bin/brief?/news/world/undh/96-10-07.undh.html

1999 ميں امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ ميڈلين آلبرائٹ نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ " افغانستان ميں عورتوں اور لڑکيوں پر ہونے والے مظالم سنگين جرم ہيں اور ان مظالم کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے"۔

کسی بھی موضوع کے حوالے سے متضاد راۓ رکھنا درست ہے لیکن يہ راۓ محض جذبات اور عمومی تاثر پر مبنی نہيں ہونی چاہيے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اگر کوئ آپ کے مکان ميں کراۓ دار کی حيثيت سے رہائش پذير ہو لیکن آپ کے گھر کے احاطے کو مختلف شہروں ميں تخريب کاری کی غرض سے اسلحہ و بارود کی تياری اور دہشت گردی کی تربيت کا اڈہ بنا دے ليکن آپ کو يہ يقين دلاۓ کہ آپ کا گھر، پڑوس اور شہر اس کی تخريبی کاروائيوں سے محفوظ رہيں گے تو آپ کو ايسے کراۓ دار کے خلاف کيا کرنا چاہيے؟ کيا آپ کے ليے يہ يقين دہانی اور حقيقت اطمينان بخش ہونی چاہيے کہ جو بھی تخريب کاری ہو گي وہ دور دراز شہروں ميں ہو گی، کم از کم آپ کا گھر اور پڑوس تو "امن" کی چھاؤں ميں رہے گا۔
طالبان افغانستان کے ہی رہائشی تھے۔ روس کے افغانستان سے انخلاء کے بعد وہ اپنی درس تدریس میں مشغول ہوگئے اور اقتدار سے کوئی سروکار نہ رکھا۔ مگر جب اقتدار کی جنگ نے وہاں کے باسیوں کی جان مال اور عزت بھی محفوظ نہ رہنے دی توطالبان میدان میں آئے اور امن قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہوئے۔انہوں نے سب سے پہلے اپنے ہی رہائشی علاقہ (قندھار) میں امن قائم کیا۔ اس کے بعد وہاں سے پھیلتا گیا اور عوام الناس کی ہمدردیاں حاصل ہوتی گئیں۔ جس علاقہ کو فتح کرتے تھے وہاں اگر کسی کا مال موجود ہوتا تو اس کی حفاظت کرتے اور اصل مالکان کو واپس کرتے۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں ایک بھی خود کشی کا واقعہ نہیں ملتا۔ اس وجہ کیا تھی کہ صاحبِ اقتدار بھی ویسی ہی روکھی سوکھی کھا رہاتھا جیسی دوسرے۔ حاکم گلچھرے نہیں اڑاتے تھے۔
افغانستان کی جتنی بھی تنظیمیں اقتدار کی جنگ میں دست و گریباں تھیں جب طالبان نے غلبہ حاصل کرنا شروع کیا تو یہ سب طالبان کے خلاف متحد ہوگئیں۔
ابتدا میں امریکہ ان تنظیموں کی بھی حمایت نہیں کر رہا تھا کہ ان کی پیشانیوں پر بھی اسلام کا ٹکہ موجود تھا۔ ۔۔۔۔علیٰ ہذا القیاس
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
مگر جب اقتدار کی جنگ نے وہاں کے باسیوں کی جان مال اور عزت بھی محفوظ نہ رہنے دی توطالبان میدان میں آئے اور امن قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہوئے۔
یہ بات مشہور و معروف ہے کہ طالبان کے دور ِحکومت میں پانچ سال کے اندر صرف اور صرف 29 قتل ہوئے... آپ بتائیں کہ امریکہ میں روز اس سے دس گنا زیادہ قتل ہوتے ہیں کہ نہیں ؟؟
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
طالبان افغانستان کے ہی رہائشی تھے۔ روس کے افغانستان سے انخلاء کے بعد وہ اپنی درس تدریس میں مشغول ہوگئے اور اقتدار سے کوئی سروکار نہ رکھا۔ مگر جب اقتدار کی جنگ نے وہاں کے باسیوں کی جان مال اور عزت بھی محفوظ نہ رہنے دی توطالبان میدان میں آئے اور امن قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہوئے۔انہوں نے سب سے پہلے اپنے ہی رہائشی علاقہ (قندھار) میں امن قائم کیا۔ اس کے بعد وہاں سے پھیلتا گیا اور عوام الناس کی ہمدردیاں حاصل ہوتی گئیں۔ جس علاقہ کو فتح کرتے تھے وہاں اگر کسی کا مال موجود ہوتا تو اس کی حفاظت کرتے اور اصل مالکان کو واپس کرتے۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں ایک بھی خود کشی کا واقعہ نہیں ملتا۔ اس وجہ کیا تھی کہ صاحبِ اقتدار بھی ویسی ہی روکھی سوکھی کھا رہاتھا جیسی دوسرے۔ حاکم گلچھرے نہیں اڑاتے تھے۔
افغانستان کی جتنی بھی تنظیمیں اقتدار کی جنگ میں دست و گریباں تھیں جب طالبان نے غلبہ حاصل کرنا شروع کیا تو یہ سب طالبان کے خلاف متحد ہوگئیں۔
ابتدا میں امریکہ ان تنظیموں کی بھی حمایت نہیں کر رہا تھا کہ ان کی پیشانیوں پر بھی اسلام کا ٹکہ موجود تھا۔ ۔۔۔۔علیٰ ہذا القیاس

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

طالبان – کچھ تاريخی حقائق
چونکہ آپ نے افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد طالبان کی تحريک کے آغاز، اور اس دوران امريکی رول کے بارے ميں تجزيہ کيا ہے تو يہ ضروری ہے کہ قياس اور عمومی تاثر کی بجاۓ تاريخی حقائق کی روشنی ميں بحث کی جاۓ۔

ميں جو حقائق پيش کر رہا ہوں يہ کسی ادارے يا فرد کے تجزيے يا رپورٹ کی بنياد پر نہيں ہيں بلکہ امريکی حکومت کے سرکاری دستاويزات کی بنياد پر ہيں ۔

يہ درست ہے کہ امريکہ اور افغان عوام نے روسی انخلاء کا خير مقدم کيا تھا۔ ليکن اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں ايک واضح سياسی خلا پيدا ہو گيا تھا۔ اس خلا کے نتيجے ميں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو اقوام متحدہ نے اپنے ايک خصوصی نمايندے محمود مستری کے ذريعے مختلف سياسی دھڑوں کے مابين سياسی مفاہمت کی کئ کوششيں کيں ليکن وہ ناکام ثابت ہوئيں۔ اس ضمن ميں عالمی برادری نے کابل ميں ربانی اور احمد شاہ مسعود سميت کئ گروپوں کے مابين امن معاہدے کی ناکام کاوششيں کيں۔ ان ناکام کوششوں کے بعد افغانستان ميں خانہ جنگی شدت اختيار کر گئ جس ميں ربانی اور مسعود کسی حد تک حکومتی رول نبھا رہے تھے ليکن افغان جہاد کے وار لارڈ جيسے کہ ازبک کمانڈر عبدل راشد دوستم، پاکستان کے تربيت يافتہ گلبدين حکمت يار اور اسماعيل خان اپنے اثر ورسوخ اور طاقت ميں کمی کرنے پر آمادہ نہيں ہوۓ جس کے نتيجے ميں مسلۓ کا پرامن حل ممکن نہيں رہا۔

اس صورت حال ميں بيرونی طاقتوں نے افغانستان ميں عدم تحفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ اپنے سياسی اور دفاعی ايجنڈے کو فروغ دينا شروع کيا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے افغانستان کو بھارت کے خلاف دفاعی اصطلاح ميں "اسٹريٹيجک ڈيپتھ" کے طور پر استعمال کرنے کا فيصلہ کيا۔

ابتدا ميں پاکستان نے پختون کمانڈر گلبدين حکمت يار کو سپورٹ کيا جو افغان جہاد ميں اپنے کردار کی وجہ سے افغنستان کے سياسی منظر نامے پر اپنا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ جب حکمت يار پاکستان کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ميں ناکام رہے تو حکومت پاکستان نے مذہبی طالب علموں کی ايک نئ تحريک کو سپورٹ کرنے کا فيصلہ کيا جو کہ طالبان کے نام سے جانے جاتے تھے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ واقعات کا يہ تسلسل ان سرکاری دستاويزات سے ثابت ہے جو ميں يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔​

نومبر 1994 کی يہ دستاويز اس واقعے کے ايک ماہ بعد کی ہے جب افغان پاکستان بارڈر پر طالبان نے سپن بولڈيک کی پوسٹ پر قبضہ کيا۔ اس کاروائ ميں طالبان کی براہراست مدد پاکستان کی فرنٹير کور نے کی تھی۔


http://www.gwu.edu/~nsarchiv/NSAEBB/NSAEBB97/tal5.pdf

(اس دستاويز ميں يہ واضح ہے کہ طالبان کی براہراست سپورٹ پاکستان سے کی گئ جس ميں سب سے نماياں کردار جرنل بابر کا تھا۔)

اس دستاويز سے يہ بھی واضح ہے کہ اس کاميابی کے بعد طالبان کے اثرورسوخ ميں اضافہ ہو گيا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے اسلحے کی سپلائ ميں بھی بتدريج اضافہ ہوتا گيا۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ کا فيصلہ صرف اس ليے نہيں تھا کہ افغانستان کی سڑکوں کو محفوظ بنا کرٹرانس افغان گيس پائپ لائن کو ممکن بنايا جا سکے بلکہ پاکستانی قيادت کے نزديک طالبان افغانستان کے اندر اپنے اثر ورسوخ اور طاقت کے ذريعے پاکستانی کو حکمت عملی کے حوالے سے وہ فوجی برتری دلا سکتے ہيں جو وہ بھارت کے مقابلے ميں استعمال کر سکتے ہیں۔

http://www.gwu.edu/~nsarchiv/NSAEBB/NSAEBB97/tal4.pdf

(يہ دستاويز اس مراسلے کی ہے جو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے افغان ڈيسک کو بيجھی گئ تھی جس ميں حکومت پاکستان اور آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی قندھار کے قبضے کے ضمن ميں براہ راست مداخلت پر تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔ اس مراسلے کے آخر ميں ہاتھ سے لکھا ہوا يہ جملہ بھی موجود ہے کہ "اج صبح جرنل بابر طالبان آپريشن کی کمانڈ کر رہے تھے")

تاريخی دستاويزات سے يہ واضح ہے کہ پاکستانی افسران کو اس بات کا احساس ہو گيا کہ طالبان پر نہ صرف يہ کنٹرول رکھنا ممکن نہيں ہے بلکہ وہ قابل اعتبار بھی نہيں ہيں۔ کچھ موقعوں پر طالبان امن کے قيام کی ضرورت کا اظہار کرتے، اقوام متحدہ سے تعاون کی يقين دہانی کرواتے اور افغانستان کے مسائل کے حل کے ليے طاقت کی بجاۓ پرامن طريقوں کی حمايت بھی کرتے ليکن پھر اپنا يہ نقطہ نظر بھی بيان کر ديتے کہ "جو بھی ہمارے راستے ميں آۓ گا اسے ختم کر ديا جاۓ گا"۔

سرکاری دستاويزات سے يہ بھی واضح ہے کہ امريکہ نے افغانستان کے پرامن سياسی حل کے ليے ہر ممکن کوشش کی صرف اس ليے نہيں کہ امريکہ ٹی – اے – پی سے منسلک کاروباری فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا بلکہ ديگر اہم ايشوز جيسے کہ انسانی حقوق، منشيات کا خاتمہ اور دہشت گردی بھی اس کے ايجنڈے کا حصہ تھے۔

http://www.gwu.edu/~nsarchiv/NSAEBB/NSAEBB97/tal16.pdf

(اس دستاويز ميں امريکی سفير کی سويت خارجہ سفير سے ملاقات کا ذکر موجود ہے جس ميں امريکہ کی جانب سے افغنستان کے مسلۓ کے حل کيے ليے ہر ممکن کوشش کا يقين دلايا گيا تھا۔​

اس دستاويز سے يہ بھی پتا چلتا ہے کہ کابل ميں طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان ميں امريکی قونصل خانے کو ہدايت کی گئ تھی کہ طالبان کے بارے ميں نہ صرف يہ کہ ضروری معلومات حاصل کی جائيں بلکہ اس تنظيم سے رابطہ کرنے کا انتظام بھی کيا جاۓ۔ اس دستاويز سے يہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امريکہ اس وقت بھی اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا)

کئ مواقع پر امريکہ نے طالبان سے منشيات، خواتين کے حقوق اور اسامہ بن لادن کو اپنی دہشت گردی کی کاروائيوں کے لیے محفوظ مقام فراہم کرنے کے ضمن ميں اپنے خدشات سے آگاہ کيا۔

يہ تھيوری کہ سی – آئ – اے طالبان کی امداد ميں براہ راست ملوث تھی، ان دستاويزات سے غلط ثابت ہو جاتی ہے کيونکہ يہ واضح ہے کہ امريکہ کو ہر سطح پر طالبان سے بات چيت ميں شديد مشکلات درپيش تھيں۔​

يہ حقيقت جلد ہی واضح ہو گئ کہ طالبان کی حکومت افغانستان اور عالمی سلامتی کے ليے ايک اچھا شگون نہيں تھا۔ منشيات کو غير اسلامی قرار دينے کے باوجود اس ضمن ميں ان کی عملی پاليسی اور القائدہ سميت بے شمار دہشت گردوں کو اپنے اڈے بنانے کی اجازت اس حقيقت کو واضح کر رہے تھے۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے فروری 1996 ميں پاکستان کے وزير خارجہ آصف علی سے اپنی ملاقات ميں طالبان کے حوالے سے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوۓ پاکستان کی جانب سے افغانستان ميں طالبان کی سپورٹ کو مقبوضہ کشمير ميں عسکری گروپوں کو دی جانے والی سپورٹ سے تشبيہہ دی۔ ۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے کہا تھا کہ اگرچہ يہ سپورٹ پاکستان نے اپنے وسيع تر قومی مفاد ميں دی ہے ليکن اس اسپورٹ کے پاکستان اور خطے کے لیے ايسے نتائج بھی نکل سکتے ہيں جس کی نہ تو پاکستان توقع کر رہا ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے جن غير متوقع نتائج کا ذکر کيا تھا وہ 11 ستمبر 2001 کو سب پر واضح ہو گۓ۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ميں جو حقائق پيش کر رہا ہوں يہ کسی ادارے يا فرد کے تجزيے يا رپورٹ کی بنياد پر نہيں ہيں بلکہ امريکی حکومت کے سرکاری دستاويزات کی بنياد پر ہيں ۔
میں نے جو حقائق لکھے ہیں وہ اخبارات میں اشاعت کے تسلسل کے حوالہ سے لکھے ہیں جنہیں میں خودپڑھا کرتا تھا۔
 
Top