- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
’حملہ آور اور دولتِ اسلامیہ کے براہ راست روابط کا ثبوت نہیں‘
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب پر حملہ کرنے والے شخص اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان براہِ راست روابط کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ اتوار کی صبح کو ہونے والے حملے کی تحقیقات، جس میں 49 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ایک دہشت گرد کارروائی کے طور پر کی جا رہی ہیں۔
٭ متین کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی: سابق اہلیہ
انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بندوق بردار انٹرنیٹ پر انتہا پسندوں کی طرف سے پھیلائی گئی معلومات سے متاثر ہوا ہو۔ ’تاہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ کسی بڑے پلاٹ کا حصہ تھا۔‘
اس سے قبل پولیس کے سربراہ جان مینا کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت ایک پولیس اہلکار نے جو ڈیوٹی کے بعد کلب کے لیے کام کر رہے تھے، عمر متین کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
اس کے فوری بعد ہی کئی پولیس اہلکار کلب پہنچ گئے جب عمر متین فائرنگ کر رہا تھا۔
جان مینا نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے عمر متین پر فائرنگ کی جس کے باعث عمر باتھ روم میں داخل ہوا اور وہاں چھپے افراد کو یرغمال بنا لیا۔
’اس وقت درجنوں افراد کو کلب سے نکال لیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ متین اس وقت پولیس کے ساتھ فون پر بات کر رہا تھا اور اس نے اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کا حامی قرار دیا۔
ہلاک ہونے والے افراد
ابھی تک صرف ہلاک ہونے والے 26 افراد کے نام ظاہر کیے گئے ہیں جن میں 22 مرد اور چار خواتین شامل ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں
عمر متین افغان نژاد امریکی تھے جو نیو یارک میں پیدا ہوئے اور فلوریڈا میں رہائش پذیر تھے۔ متین کو باضابطہ دہشت گردی کی واچ لسٹ میں نہیں رکھا گيا تھا۔
تاہم ایف بی آئی نے 2013 اور 2014 میں دو بار اپنے ساتھ کام کرنے والے فرد کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے پر پوچھ گچھ کی تھی لیکن اس کی تحقیقات بعد میں ختم کر دی گئیں۔
عمر متین نے حملہ کرنے سے چند روز قبل جائز طریقے سے بندوق خریدی تھی۔ ان کے والد صدیق متین کا کہنا ہے کہ ان کو نہیں معلوم تھا کہ ان کے بیٹے کے دل میں اتنی نفرت تھی اور سمجھ نہیں آئی کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی۔
واقعے کے بعد دولت اسلامیہ سے منسلک نیوز ایجنسی عماق پر تنظیم نے بیان میں کہا کہ ’یہ حملہ دولت اسلامیہ کے ایک جنگجو نے کیا ہے۔‘
جس سکیورٹی کمپنی کے لیے متین کام کیا کرتے تھے اس کا کہنا ہے کہ ان کا دو بار سکیورٹی چیک کرایا گیا۔ جی فور ایس نامی کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کے سکیورٹی چیک ایک بار 2007 میں ہوا اور پھر 2013 میں اور ان سکیورٹی چیک میں ایسی معلومات سامنے نہیں آئیں اور نوکری کی ضرورت کے مطابق متین پستول رکھتے تھے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب پر حملہ کرنے والے شخص اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان براہِ راست روابط کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ اتوار کی صبح کو ہونے والے حملے کی تحقیقات، جس میں 49 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ایک دہشت گرد کارروائی کے طور پر کی جا رہی ہیں۔
٭ متین کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی: سابق اہلیہ
انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بندوق بردار انٹرنیٹ پر انتہا پسندوں کی طرف سے پھیلائی گئی معلومات سے متاثر ہوا ہو۔ ’تاہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ کسی بڑے پلاٹ کا حصہ تھا۔‘
اس سے قبل پولیس کے سربراہ جان مینا کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت ایک پولیس اہلکار نے جو ڈیوٹی کے بعد کلب کے لیے کام کر رہے تھے، عمر متین کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
اس کے فوری بعد ہی کئی پولیس اہلکار کلب پہنچ گئے جب عمر متین فائرنگ کر رہا تھا۔
جان مینا نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے عمر متین پر فائرنگ کی جس کے باعث عمر باتھ روم میں داخل ہوا اور وہاں چھپے افراد کو یرغمال بنا لیا۔
’اس وقت درجنوں افراد کو کلب سے نکال لیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ متین اس وقت پولیس کے ساتھ فون پر بات کر رہا تھا اور اس نے اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کا حامی قرار دیا۔
ہلاک ہونے والے افراد
ابھی تک صرف ہلاک ہونے والے 26 افراد کے نام ظاہر کیے گئے ہیں جن میں 22 مرد اور چار خواتین شامل ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں
- 34 سالہ ایڈورڈ سوٹومائر ایک کمپنی کے لیے ہم جنس پرستوں کے لیے کشتی کی سیر کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
- 23 سالہ سٹینلے المودوور فارمیسی میں ٹیکنیشن کا کام کرتے تھے۔
- 37 سالہ کمبرلی مورس جو حال ہی میں اورلینڈو شفٹ ہوئی تھیں اور پلس نائٹ کلب میں باؤنسر کی نوکری کرتی تھیں۔
- 22 سالہ لوئی ویلما یونیورسل سٹوڈیو میں ہیری پوٹر کے سیکشن میں کام کرتے تھے۔
- 30 سالہ ایڈی جسٹس جنھوں نے باتھ روم سے اپنی والدہ کو ٹیکسٹ میسج بھیجے۔
عمر متین افغان نژاد امریکی تھے جو نیو یارک میں پیدا ہوئے اور فلوریڈا میں رہائش پذیر تھے۔ متین کو باضابطہ دہشت گردی کی واچ لسٹ میں نہیں رکھا گيا تھا۔
تاہم ایف بی آئی نے 2013 اور 2014 میں دو بار اپنے ساتھ کام کرنے والے فرد کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے پر پوچھ گچھ کی تھی لیکن اس کی تحقیقات بعد میں ختم کر دی گئیں۔
عمر متین نے حملہ کرنے سے چند روز قبل جائز طریقے سے بندوق خریدی تھی۔ ان کے والد صدیق متین کا کہنا ہے کہ ان کو نہیں معلوم تھا کہ ان کے بیٹے کے دل میں اتنی نفرت تھی اور سمجھ نہیں آئی کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی۔
واقعے کے بعد دولت اسلامیہ سے منسلک نیوز ایجنسی عماق پر تنظیم نے بیان میں کہا کہ ’یہ حملہ دولت اسلامیہ کے ایک جنگجو نے کیا ہے۔‘
جس سکیورٹی کمپنی کے لیے متین کام کیا کرتے تھے اس کا کہنا ہے کہ ان کا دو بار سکیورٹی چیک کرایا گیا۔ جی فور ایس نامی کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کے سکیورٹی چیک ایک بار 2007 میں ہوا اور پھر 2013 میں اور ان سکیورٹی چیک میں ایسی معلومات سامنے نہیں آئیں اور نوکری کی ضرورت کے مطابق متین پستول رکھتے تھے۔