saeedimranx2
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2017
- پیغامات
- 177
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 71
گزشتہ چند سالوں میں ایک نئی روایت سامنے آئی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کا یومِ وفات یکم محرم کو منایا جانے لگا ہے۔ اس سلسلے میں ایسی روایات کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ تاریخ کی کتب سے لی گئی ہیں۔ ان تاریخ کی کتب میں سند کا التزام کم ہی کیا جاتا تھا اس لیے یہ موقف کے آپؓ کا یوم شہادت یکم محرم ہے اس کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں ہے۔ مزید برآں، تاریخ کی معتبر کتب میں زیادہ تر روایات ایسی ہیں جن میں آپؓ کا یومِ شہادت یکم محرم نہیں ہے بلکہ 23 ھجری کے ماہ ذو الحجہ کے اختتام سے تین یا چار دن قبل ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے مگر اس میں بھی یکم محرم کی تاریخ کے حوالے سے روایات کم جبکہ ذوالحجہ کے بارے میں روایات زیادہ ہیں ۔مندرجہ ذیل حوالہ جات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں:
ابن سعد(م230ھ) طبقات (مترجم جلد 3 صفحہ 123 ، نفیس اکیڈیمی کراچی)میں "حضرت عمر ؓ کی مدت ِ خلافت " کے تحت لکھتے ہیں:
"ابوبکر بن اسماعیل بن محمد بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی کہ عمر بن خطابؓ کو 26 ذی الحجہ 23 ھجری یوم چار شنبہ کو خنجر مارا گیا اور یکم محرم 24ھجری کی صبحی کو یک شنبے کے دن دفن کئے گئے،3 محرم یوم دو شنبہ کو عثمان بن عفانؓ سے بیعت کی گئی ۔ میں نے یہ روایت عثمان بن محمد اخنسی سے بیان کی تو انہوں نے کہا سوائے اس کے میں نہیں سمجھتا کہ تم سے غفلت ہوئی ۔ عمر ؓ کی وفات 26 ذی الحجہ کو ہوئی اور عثمانؓ سے 29 ذی الحجہ یوم دو شنبہ کو بیعت کی گئی"۔
ابن قتیبہ دینوری(م 276 ھ) اپنی کتاب المعارف (مترجم ص 225، قرطاس پرنٹرز کراچی) پر لکھتے ہیں:
"(حج کے بعد) مدینہ تشریف لائے تو مغیرہ بن شعبہ کے غلام فیروز ابو لولو نے بروز پیر، 26 ذو الحجہ 23 ھجری کو آپ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ واقدی کی روایت ہے کہ عمر چہار شنبہ 23 ذوالحجہ کو زخمی ہوئے ۔ تین دن تک زندہ رہے اور 26 ذوالحجہ کو آپ نے وفات پائی۔۔۔۔۔۔۔ابن اسحاق کے بیان کے مطابق آپ کی خلافت کی مدت دس سال چھ ماہ اور پانچ راتیں تھی"۔
مؤرخ اسلام محمد بن جریر طبری(م310ھ) اپنی شہرہ آفاق تاریخ امم والملوک المعروف تاریخ طبری (مترجم جلد سوم حصہ اوّل ص 217) میں لکھتے ہیں:
"آپ نے چہار شنبہ کی شب کو 27 ذوالحجہ 23 ھجری کو وفات پائی اور چہار شنبہ کی صبح کو آپ کا جنازہ اٹھایا گیا"۔
مزید آگے طبری نے بھی طبقات ابن سعد کے روایت کا حوالہ بھی دیا ہے اور مزید لکھا ہے:
"ابو معشر کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ بروز چہار شنبہ 26 ذوالحجہ 23 ھجری کو شہید ہوئے۔ ان کی مدت خلافت دس سال چھ مہنے اور چارد ن رہی"۔
ابن جوزی (م597ھ)نے "المنتظم فی تاریخ امم والملوک "(جلد 4 ص 329،دارالکتب والعلمیہ، بیروت، لبنان) میں حضرت عمر ؓ کی شہادت کو 23 ھجری کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر جزری (م630ھ)صحابہ کے حالات کے متعلق اپنی کتاب اُسد الغابہ (مترجم(حصہ پنجم) جلد 2 صفحہ 662 )میں حضرت عمر ؓ کے حالات میں لکھتے ہیں:
"عمر بن خطاب جب منیٰ سے لوٹے تو بطحا میں ٹھہرے اور وہاں کنکریوں کا ایک تودہ بنا کر اپنی چادر کا ایک گوشہ بچھا دیا اور اس پر سر رکھ کر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ میں بوڑھا ہوا اور میری قوت ضعیف اور میری عقل سست ہوگئی پس اے اللہ تو مجھ کو اپنے پاس اٹھا لے اس کے بعد ذی الحجہ کا مہینہ بھی نہیں گزرا کہ آپ زخمی کئے گئے اور آپ کی وفات ہو گئی"۔
آگے مزید حالات میں طبقات ابن سعد کی اسی روایت کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے
علامہ ذہبی (م748ھ)تذہیب تہذیب الکمال (جلد 7 ص 76 رقم 4928 مطبوعہ الفاروق الحدیثیہ للطباعہ والنشر، قاہرہ ،مصر) میں لکھتے ہیں:
"آپ کثیر المناقب ہیں، آپ کی خلافت دس سال چھ ماہ رہی، اورآپ کی شہادت ذوالحجہ کے اختتام کو چار دن یا تین دن قبل ہوئی، جب ھجرت کے 23 سال ہوئے تھے، آپ کی نماز جنازہ صہیب بن سنان نے پڑھائی اور آپ حجرہ نبوی میں دفن ہوئے"۔
تہذیب التہذیب میں بھی ابن حجر یہی لکھتے ہیں(جلد 7ص441،دارالکتاب الاسلامی ، قاہرہ ، مصر)
علامہ ذہبی نے مشہور افراد کے سن وفات کے بارے میں اپنی کتاب "العبر فی خبر من غبر" (جلد 1ص 20 مطبوعہ دارالکتب والعلمیہ بیروت، لبنان) میں حضرت عمرؓ کی شہادت کو 23 ھجری میں ذکر کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ذی الحجہ ختم ہونے سے تین یا چار دن پہلے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔
ابن کثیر(م774ھ) اپنی مشہور ِ زمانہ "البدایہ والنہایہ" المعروف تاریخ ابن کثیر(مترجم جلد 7 ص 186) پر یہ تمام اقوال اور آپ کی تاریخ شہادت پر اختلافی روایت نقل کی ہیں۔اسی صفحہ پر آپ رقمطراز ہیں:
"ابن جریر کا قول ہے کہ ہشام بن محمد کے حوالہ سے میرے پاس بیان کیا گیا ہے کہ 23ھ کے ذولحجہ کی تین راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر ؓ شہید ہوئے اور ان کی خلافت دس سال چھ ماہ اور چارد ن رہی، اور سیف نے خلید بن فروۃ اور مجالد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ 3 محرم کو حضرت عثمان خلیفہ بنے اور آپ نے باہر آکر لوگوں کو عصر کی نماز پڑھائی اور علی بن محمد مدائنی عن شریک عن اعمش یا جابر الجعفی عن عوف بن مالک الاشجعی عامر بن محمد سے اس کی قوم کے اشیاخ سے روایت کی ہے اور عثمان بن عبدالرحمان نے زہری سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ بدھ کے روز زخمی ہوئے جب کہ ذوالحجہ کی سات راتیں باقی تھیں، مگر پہلا قول زیادہ مشہور ہے"۔
یاد رہے کہ ایک روایت میں راوی مجالد (مجالدبن سعید) اور دوسری میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ہے۔
علامہ ابن خلدون (م808ھ)تاریخ ابن خلدون (مترجم جلد 2 ص 307) میں لکھتے ہیں:
"زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ شب چہار شنبہ ذی الحجہ 23 ھجری کو اپنی خلافت کے دس برس چھ مہینے بعد جاں بحق تسلیم ہوئے"۔
حافظ ابن حجر (م852 ھ)اسماء الرجال کے حوالے سے اپنی شہرہ آفاق کتاب تقریب الہتذیب (مترجم جلد 1 صفحہ 658 رقم 4888) میں حضرت عمر ؓکے ترجمہ کے تحت لکھتے ہیں:
"قدرت نے آپؓ کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں ودیعت کر رکھی تھیں، ذو الحجہ 23 ھجری میں شہید ہوئے اور 10 برس چھ ماہ تک خلیفہ رہے"۔
جلال الدین سیوطی (م911ھ) اپنی کتاب تاریخ الخلفاء(ص 254،مطبوعہ وزارت اوقاف قطر) پر لکھتے ہیں کہ ذی الحجہ میں چار دن باقی تھے جب آپ کی شہادت ہوئی اور آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی۔
یاد رہے کہ اس بات پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دورخلافت کے بارے میں تمام مؤرخین متفق ہیں کہ آپ کی خلافت کی مدت دس سال چھ ماہ اور چار دن ہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کا یوم وفات 22 جمادی الثانی 13 ھجری ہے۔ اس حساب سے حضرت عمر ؓ کا یوم وفات 27 ذوالحجہ 23 ھجری بنتا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے یومِ وفات کے بارے میں اقوال مندرجہ ذیل ہیں
٭ابن سعد (طبقات الکبریٰ مترجم جلد 3 ص 38/39)شب سہ شنبہ کی ابتدائی گھڑیوں میں 22 جمادی الآخر(جمادی الثانی) 13ھ کو ابو بکرؓ کی وفات ہوئی۔
٭طبری (تاریخ طبری جلد 4 ص198) لکھتے ہیں کہ اسی سال(13 ھجری) ابو بکر نے 22 یا 23 جمادی الآخر کو وفات پائی۔۔۔۔۔مگر ایک بیان یہ ہے کہ ابو بکر نے 22 جمادی الآخر برو زدو شنبہ 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔۔۔۔مزید برآں طبری لکھتے ہیں کہ لیکن ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر ؓ کی علالت کا باعث یہ ہوا ہے 7 جمادی الآخر دو شنبہ کے دن آپ نے غسل کیا ۔اس روز خوب سردی تھی اس وجہ سے آپ کو بخار ہو گیا اور پندرہ روز تک رہا۔۔۔۔۔۔ابو بکرؓ نے سہ شنبہ کی شام کو بتاریخ 22 جمادی الآخر 13 ھجری کو انتقال فرمایا۔
٭علامہ ذہبی (العبر جلد 1 ص13) میں لکھتے ہیں کہ ابو بکر صدیقؓ کی وفات ذی القعدہ شرو ع ہونے سے آٹھ دن پہلے فوت ہوئے۔
٭ابن اثیر (اسد الغابہ مترجم جلد 2 ص320) لکھتے ہیں کہ ابو بکرؓ نے جمعہ کے دن جمادی الآخرہ 13ھ کو وفات پائی۔۔۔۔۔۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ سہ شنبہ 22 جمادی الآخرہ کو ہوئی۔
حضرت عمر ؓ کا کل دورِ حکومت 10 سال 6 ماہ اور 4 دن پر مشتمل ہے۔ اگر حضرت ابو بکرؓ کی وفات اورحضرت عمرؓ کی بیعت کے دن سے حساب لگایا جائے تو آپ کا یوم وفات 26 ذوالحجہ ہے۔ اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ یہ تاریخ آپ پر حملہ اور آپ کے زخمی ہونے کی ہے تو پھر بھی آپ کا یومِ شہادت یکم محرم نہیں ہے کیونکہ جمہور مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ آپؓ کی شہادت ، آپؓ کے زخمی ہونے کے تین دن بعد ہوئی۔ اس صورت میں آپ کا یوم شہادت 29 ذوالحجہ بنتا ہے۔
تدفین: بعض حضرت اس بات سے استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کو چونکہ یکم محرم کے دن سپردِ خاک کیا گیا اس لیے ان کی شہادت کا دن بھی یکم محرم ہی ہے۔اس حوالے سے یہ عرض کیا جائے کہ۔ نبیﷺ ، صحابہ اور سلف صالحین کا یہ عمل تھا کہ وفات کے بعد جلد از جلد تدفین کی جائے اس لیے یہ امر محال ہے کہ حضرت عمر ؓ کی تدفین ان کی وفات سے تین دن بعد کی جاتی۔ اگر یوم ِ تدفین کو یوم شہادت مانا جانا چاہئیے تو اس اصول کو یوم شہادت امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ پر بھی لاگو کرنا چاہئیے جن کی تدفین شہادت سے دو یا تین بعد عمل میں لائی گئی۔جبکہ حقیقت یہی ہے کہ آپ کی شہادت 27 یا 28 ذی الحجہ کوہوئی، اور انہی دو دنوں پر آپ کا یوم شہادت ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔
ابن سعد(م230ھ) طبقات (مترجم جلد 3 صفحہ 123 ، نفیس اکیڈیمی کراچی)میں "حضرت عمر ؓ کی مدت ِ خلافت " کے تحت لکھتے ہیں:
"ابوبکر بن اسماعیل بن محمد بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی کہ عمر بن خطابؓ کو 26 ذی الحجہ 23 ھجری یوم چار شنبہ کو خنجر مارا گیا اور یکم محرم 24ھجری کی صبحی کو یک شنبے کے دن دفن کئے گئے،3 محرم یوم دو شنبہ کو عثمان بن عفانؓ سے بیعت کی گئی ۔ میں نے یہ روایت عثمان بن محمد اخنسی سے بیان کی تو انہوں نے کہا سوائے اس کے میں نہیں سمجھتا کہ تم سے غفلت ہوئی ۔ عمر ؓ کی وفات 26 ذی الحجہ کو ہوئی اور عثمانؓ سے 29 ذی الحجہ یوم دو شنبہ کو بیعت کی گئی"۔
ابن قتیبہ دینوری(م 276 ھ) اپنی کتاب المعارف (مترجم ص 225، قرطاس پرنٹرز کراچی) پر لکھتے ہیں:
"(حج کے بعد) مدینہ تشریف لائے تو مغیرہ بن شعبہ کے غلام فیروز ابو لولو نے بروز پیر، 26 ذو الحجہ 23 ھجری کو آپ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ واقدی کی روایت ہے کہ عمر چہار شنبہ 23 ذوالحجہ کو زخمی ہوئے ۔ تین دن تک زندہ رہے اور 26 ذوالحجہ کو آپ نے وفات پائی۔۔۔۔۔۔۔ابن اسحاق کے بیان کے مطابق آپ کی خلافت کی مدت دس سال چھ ماہ اور پانچ راتیں تھی"۔
مؤرخ اسلام محمد بن جریر طبری(م310ھ) اپنی شہرہ آفاق تاریخ امم والملوک المعروف تاریخ طبری (مترجم جلد سوم حصہ اوّل ص 217) میں لکھتے ہیں:
"آپ نے چہار شنبہ کی شب کو 27 ذوالحجہ 23 ھجری کو وفات پائی اور چہار شنبہ کی صبح کو آپ کا جنازہ اٹھایا گیا"۔
مزید آگے طبری نے بھی طبقات ابن سعد کے روایت کا حوالہ بھی دیا ہے اور مزید لکھا ہے:
"ابو معشر کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ بروز چہار شنبہ 26 ذوالحجہ 23 ھجری کو شہید ہوئے۔ ان کی مدت خلافت دس سال چھ مہنے اور چارد ن رہی"۔
ابن جوزی (م597ھ)نے "المنتظم فی تاریخ امم والملوک "(جلد 4 ص 329،دارالکتب والعلمیہ، بیروت، لبنان) میں حضرت عمر ؓ کی شہادت کو 23 ھجری کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر جزری (م630ھ)صحابہ کے حالات کے متعلق اپنی کتاب اُسد الغابہ (مترجم(حصہ پنجم) جلد 2 صفحہ 662 )میں حضرت عمر ؓ کے حالات میں لکھتے ہیں:
"عمر بن خطاب جب منیٰ سے لوٹے تو بطحا میں ٹھہرے اور وہاں کنکریوں کا ایک تودہ بنا کر اپنی چادر کا ایک گوشہ بچھا دیا اور اس پر سر رکھ کر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ میں بوڑھا ہوا اور میری قوت ضعیف اور میری عقل سست ہوگئی پس اے اللہ تو مجھ کو اپنے پاس اٹھا لے اس کے بعد ذی الحجہ کا مہینہ بھی نہیں گزرا کہ آپ زخمی کئے گئے اور آپ کی وفات ہو گئی"۔
آگے مزید حالات میں طبقات ابن سعد کی اسی روایت کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے
علامہ ذہبی (م748ھ)تذہیب تہذیب الکمال (جلد 7 ص 76 رقم 4928 مطبوعہ الفاروق الحدیثیہ للطباعہ والنشر، قاہرہ ،مصر) میں لکھتے ہیں:
"آپ کثیر المناقب ہیں، آپ کی خلافت دس سال چھ ماہ رہی، اورآپ کی شہادت ذوالحجہ کے اختتام کو چار دن یا تین دن قبل ہوئی، جب ھجرت کے 23 سال ہوئے تھے، آپ کی نماز جنازہ صہیب بن سنان نے پڑھائی اور آپ حجرہ نبوی میں دفن ہوئے"۔
تہذیب التہذیب میں بھی ابن حجر یہی لکھتے ہیں(جلد 7ص441،دارالکتاب الاسلامی ، قاہرہ ، مصر)
علامہ ذہبی نے مشہور افراد کے سن وفات کے بارے میں اپنی کتاب "العبر فی خبر من غبر" (جلد 1ص 20 مطبوعہ دارالکتب والعلمیہ بیروت، لبنان) میں حضرت عمرؓ کی شہادت کو 23 ھجری میں ذکر کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ذی الحجہ ختم ہونے سے تین یا چار دن پہلے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔
ابن کثیر(م774ھ) اپنی مشہور ِ زمانہ "البدایہ والنہایہ" المعروف تاریخ ابن کثیر(مترجم جلد 7 ص 186) پر یہ تمام اقوال اور آپ کی تاریخ شہادت پر اختلافی روایت نقل کی ہیں۔اسی صفحہ پر آپ رقمطراز ہیں:
"ابن جریر کا قول ہے کہ ہشام بن محمد کے حوالہ سے میرے پاس بیان کیا گیا ہے کہ 23ھ کے ذولحجہ کی تین راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر ؓ شہید ہوئے اور ان کی خلافت دس سال چھ ماہ اور چارد ن رہی، اور سیف نے خلید بن فروۃ اور مجالد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ 3 محرم کو حضرت عثمان خلیفہ بنے اور آپ نے باہر آکر لوگوں کو عصر کی نماز پڑھائی اور علی بن محمد مدائنی عن شریک عن اعمش یا جابر الجعفی عن عوف بن مالک الاشجعی عامر بن محمد سے اس کی قوم کے اشیاخ سے روایت کی ہے اور عثمان بن عبدالرحمان نے زہری سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ بدھ کے روز زخمی ہوئے جب کہ ذوالحجہ کی سات راتیں باقی تھیں، مگر پہلا قول زیادہ مشہور ہے"۔
یاد رہے کہ ایک روایت میں راوی مجالد (مجالدبن سعید) اور دوسری میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ہے۔
علامہ ابن خلدون (م808ھ)تاریخ ابن خلدون (مترجم جلد 2 ص 307) میں لکھتے ہیں:
"زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ شب چہار شنبہ ذی الحجہ 23 ھجری کو اپنی خلافت کے دس برس چھ مہینے بعد جاں بحق تسلیم ہوئے"۔
حافظ ابن حجر (م852 ھ)اسماء الرجال کے حوالے سے اپنی شہرہ آفاق کتاب تقریب الہتذیب (مترجم جلد 1 صفحہ 658 رقم 4888) میں حضرت عمر ؓکے ترجمہ کے تحت لکھتے ہیں:
"قدرت نے آپؓ کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں ودیعت کر رکھی تھیں، ذو الحجہ 23 ھجری میں شہید ہوئے اور 10 برس چھ ماہ تک خلیفہ رہے"۔
جلال الدین سیوطی (م911ھ) اپنی کتاب تاریخ الخلفاء(ص 254،مطبوعہ وزارت اوقاف قطر) پر لکھتے ہیں کہ ذی الحجہ میں چار دن باقی تھے جب آپ کی شہادت ہوئی اور آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی۔
یاد رہے کہ اس بات پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دورخلافت کے بارے میں تمام مؤرخین متفق ہیں کہ آپ کی خلافت کی مدت دس سال چھ ماہ اور چار دن ہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کا یوم وفات 22 جمادی الثانی 13 ھجری ہے۔ اس حساب سے حضرت عمر ؓ کا یوم وفات 27 ذوالحجہ 23 ھجری بنتا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے یومِ وفات کے بارے میں اقوال مندرجہ ذیل ہیں
٭ابن سعد (طبقات الکبریٰ مترجم جلد 3 ص 38/39)شب سہ شنبہ کی ابتدائی گھڑیوں میں 22 جمادی الآخر(جمادی الثانی) 13ھ کو ابو بکرؓ کی وفات ہوئی۔
٭طبری (تاریخ طبری جلد 4 ص198) لکھتے ہیں کہ اسی سال(13 ھجری) ابو بکر نے 22 یا 23 جمادی الآخر کو وفات پائی۔۔۔۔۔مگر ایک بیان یہ ہے کہ ابو بکر نے 22 جمادی الآخر برو زدو شنبہ 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔۔۔۔مزید برآں طبری لکھتے ہیں کہ لیکن ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر ؓ کی علالت کا باعث یہ ہوا ہے 7 جمادی الآخر دو شنبہ کے دن آپ نے غسل کیا ۔اس روز خوب سردی تھی اس وجہ سے آپ کو بخار ہو گیا اور پندرہ روز تک رہا۔۔۔۔۔۔ابو بکرؓ نے سہ شنبہ کی شام کو بتاریخ 22 جمادی الآخر 13 ھجری کو انتقال فرمایا۔
٭علامہ ذہبی (العبر جلد 1 ص13) میں لکھتے ہیں کہ ابو بکر صدیقؓ کی وفات ذی القعدہ شرو ع ہونے سے آٹھ دن پہلے فوت ہوئے۔
٭ابن اثیر (اسد الغابہ مترجم جلد 2 ص320) لکھتے ہیں کہ ابو بکرؓ نے جمعہ کے دن جمادی الآخرہ 13ھ کو وفات پائی۔۔۔۔۔۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ سہ شنبہ 22 جمادی الآخرہ کو ہوئی۔
حضرت عمر ؓ کا کل دورِ حکومت 10 سال 6 ماہ اور 4 دن پر مشتمل ہے۔ اگر حضرت ابو بکرؓ کی وفات اورحضرت عمرؓ کی بیعت کے دن سے حساب لگایا جائے تو آپ کا یوم وفات 26 ذوالحجہ ہے۔ اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ یہ تاریخ آپ پر حملہ اور آپ کے زخمی ہونے کی ہے تو پھر بھی آپ کا یومِ شہادت یکم محرم نہیں ہے کیونکہ جمہور مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ آپؓ کی شہادت ، آپؓ کے زخمی ہونے کے تین دن بعد ہوئی۔ اس صورت میں آپ کا یوم شہادت 29 ذوالحجہ بنتا ہے۔
تدفین: بعض حضرت اس بات سے استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کو چونکہ یکم محرم کے دن سپردِ خاک کیا گیا اس لیے ان کی شہادت کا دن بھی یکم محرم ہی ہے۔اس حوالے سے یہ عرض کیا جائے کہ۔ نبیﷺ ، صحابہ اور سلف صالحین کا یہ عمل تھا کہ وفات کے بعد جلد از جلد تدفین کی جائے اس لیے یہ امر محال ہے کہ حضرت عمر ؓ کی تدفین ان کی وفات سے تین دن بعد کی جاتی۔ اگر یوم ِ تدفین کو یوم شہادت مانا جانا چاہئیے تو اس اصول کو یوم شہادت امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ پر بھی لاگو کرنا چاہئیے جن کی تدفین شہادت سے دو یا تین بعد عمل میں لائی گئی۔جبکہ حقیقت یہی ہے کہ آپ کی شہادت 27 یا 28 ذی الحجہ کوہوئی، اور انہی دو دنوں پر آپ کا یوم شہادت ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔
خلاصہ
حضرت عمرؓ کا یوم شہادت کو یکم محرم کے دن رائج کرکے اس کو منانا صرف ایک قلیل تعداد کی مساعی ہے جو کہ ایک خاص سوچ و مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مقصد محرم الحرام میں ہونے والے سانحہ عظیم ،شہادتِ امام حُسین ؓ سے عوام الناس کی توجہ ہٹانا ہے۔اہل سنت کے سلف صالحین سےکبھی بھی کسی صحابی کے یومِ شہادت کو خاص طور پر منانا ثابت نہیں ہے۔ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا یوم ِ شہادت اس جوش و جذبہ سے منانے کی ساعی اس مکتبہ فکر نے کبھی بھی نہیں کی ہے۔